غزلیں ۔۔۔ رؤف خیرؔ

میں خاک نشینوں سے کہوں کیا کہ فلک ہوں

اندھوں کو بھلا کیسے بتاؤں کہ دھنک ہوں

 

بہروں سے کہوں کیسے کہ نغمہ ہوں دھمک ہوں

بے شامّہ ناکوں کے لیے عطر، مہک ہوں

 

میں حامیِ ایقان ہوں، میں ماحیِ شک ہوں

جو منزل ِ مقصود کو جائے وہ سڑک ہوں

 

کرتا ہو ں چکا چوند بہ ہر حال سخن سے

میں رعد ہوں، بجلی ہوں، چمک اور دمک ہوں

 

حق گوئی و بے باکی تو گھٹی میں پڑی ہے

میں حرفِ پس و پیش نہیں ہوں، نہ جھجک ہوں

 

اللہ نے محتاج کسی کا نہیں رکھا

میں اپنی جگہ فوج ہوں آپ اپنی کمک ہوں

 

کل خیرؔ کوئی یاد بھی رکھّے کہ نہ رکھّے

خوش گوہوں میں اول ہی سے اور آج تلک ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جانے بنا نکاتِ زباں و بیاں چلے

ایسے ہیں وہ جہاز جو بے بادباں چلے

 

دیکھو فریب کھاتے نہیں یار بار بار

اُس بے وفا سے ہاتھ ملا نے کہاں چلے

 

پیچھے چلے زمان و مکاں کے نہ ہم کبھی

پیچھے قلندروں کے زمان و مکاں چلے

 

ہم سے الجھ کے ہو گئے بے نام و بے نشاں

ہم جب سیاہ ذہنوں میں آتش بہ جاں چلے

 

تو رکھ رہا ہے حرف ہمارے ہی مال پر

ہم تو یہ چاہتے تھے کہ تیری دکاں چلے

 

لے دے کے پھر خرابہ آباد رہ گیا

سب خیر چھوڑ چھاڑ کے شاہ جہاں چلے

 

محفل میں آپ جیسے جہاں سامعین ہوں

پھر کیوں نہ خیرؔ شعر ہمارا وہاں چلے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے