مصنوعی ذہانت سے لکھا گیا کالم ۔۔۔ یاسر پیرزادہ

آج میں نے سوچا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کی مدد سے تقریر لکھی جا سکتی ہے تو کالم کیوں نہیں لکھا جا سکتا؟

یہی بات ذہن میں رکھ کر چیٹ جی پی ٹی کو حکم دیا کہ ایک عدد ہلکا پھلکا کالم تو لکھ کر دکھاؤ۔ لیکن وہ جو آتشؔ نے کہا ہے نا کہ ’بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‘ تو چیٹ جی پی ٹی کا بھی شور کچھ زیادہ ہی ہے۔

اس سے کام لینے میں کافی سر کھپانا پڑتا ہے، کم از کم کالم والے معاملے میں تو یہی ہوا۔ میری ہدایت پر جس قسم کا ڈرافٹ چیٹ جی پی ٹی سے برآمد ہوا، اس کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:

’سلام، پیارے قارئین! آج ہم عام آدمی کی دنیا کا سفر کریں گے، شاندار دنیا کا، ٹھیک ہے، بس اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ سنبھل کر بیٹھ جائیں کیونکہ ہم روزمرہ کی پراسرار بھول بھلیوں کو اس انداز میں آشکار کریں گے کہ شاید آپ کو اپنی حقیقت پر بھی شک ہونے لگے۔ میں یہاں بیٹھا ہوں، اپنے باورچی خانے میں، یہاں میرا ناشتہ رکھا ہے جس کے ارد گرد چیونٹیاں رقص کرتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ ایسے میں آپ مجھ سے ان عام شہریوں کی ناقابل یقین کہانیاں سنیں گے جو ہمارے درمیان چلتے پھرتے ہیں مگر وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے ناواقف ہیں۔

’آئیے ہم اپنے ایڈونچر کا آغاز باب کی دلچسپ کہانی کے ساتھ کریں، وہ شخص جس نے گاڑی پارک کرنے کے فن میں مہارت حاصل کی۔ جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا ہے۔ باب، جو دن کے وقت ایک خوش مزاج اکاؤنٹنٹ ہے مگر رات کو پارکنگ کے ماہر میں بدل جاتا ہے۔ وہ اپنی گاڑی اس عمدہ انداز میں کھڑی کرتا ہے کہ اگر کوئی پیشہ ور ڈرائیور دیکھ لے تو حیران رہ جائے، یہ ایک ماورائی تجربے سے کم نہیں۔ آگے بڑھو، سپر ہیروز، مسٹر باب ہمارے شہر میں ہیں۔۔۔‘

لاحول ولا قوة۔ واضح رہے کہ لاحول میں نے پڑھی ہے، چیٹ جی پی ٹی نے نہیں! تاہم اس ناکام تجربے کے باوجود میں نے ہار نہیں مانی اور چیٹ جی پی ٹی کو سمجھایا کہ اخباری کالم کیا ہوتا ہے۔

پاکستان کا منظر نامہ کیسا ہے، یہاں کس قسم کے موضوعات پر لکھا جاتا ہے وغیرہ۔ اس پر چیٹ جی پی ٹی نے کہا کہ اچھا، اب سمجھ میں آیا، میں غلط فہمی کی معافی چاہتا ہوں اور دوبارہ کوشش کرتا ہوں تاکہ آپ کو مطمئن کر سکوں۔ میں نے کہا کرو کوشش۔ اس دوسری کوشش کا نتیجہ ملاحظہ فرمائیے:

’پیارے قارئین، حفاظتی بند باندھ لیں کیونکہ ہم طوفانی قسم کے سیاسی منظر نامے کی سیر پر نکلنے لگے ہیں۔ اس دائرے میں جہاں طاقتور اور کمزور کا ٹاکرا ہوتا ہے اور معمولی سیاسی چالوں کو اکثر چائے کی پیالی میں طوفان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی مزاحیہ ڈرامے سے کم نہیں۔ آئیے ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں سیاسی فیصلے بورڈ رومز میں نہیں بلکہ چائے کے پیالی پر کیے جاتے ہیں۔ ہماری کہانی کا آغاز مرکزی کردار، چائے والا خان سے ہوتا ہے، جو کہ چائے کی پتیوں کے نمونوں کے ذریعے سیاسی نتائج کی پیش گوئی کرنے کی غیر معمولی مہارت کے ساتھ ساتھ ایک سمجھدار گلی فروش بھی ہے۔

’اب آپ کو تجزیہ کاروں اور دانشوروں کی ضرورت نہیں کیونکہ خان کی چائے کی پتیوں میں سیاسی جماعتوں کا مستقبل بتانے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ اس کا کڑک چائے کا سٹال سیاسی گفتگو کا مرکز ہے، جہاں سیاست دان اسمبلی کی رکنیت کے لیے نہیں بلکہ خان کے قریب نشست حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں۔‘

مزید لاحول ولا قوة۔ اگر آپ میں سے کسی کا خیال ہے کہ یہ تحریر قبول صورت ہے تو میں واضح کر دوں کہ اصل ڈرافٹ کا کوئی سر پیر نہیں تھا، خاکسار نے تیر تُکے سے کام چلا کر اسے پڑھنے کے قابل بنایا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے ’سستی‘ کی شکایات پر تحقیقات

ایلون مسک کا ’طنز سے محبت کرنے والا چیٹ بوٹ‘

چیٹ جی پی ٹی ’دیکھنے، سننے اور بولنے کے قابل بن گیا

بے شک مصنوعی ذہانت کی وجہ سے مستقبل میں بہت ساری نوکریاں ختم ہونے کا امکان ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ چیٹ جی پی ٹی جیسی چیزوں کی وجہ سے انسان بالکل ہی عضو معطل بن کر رہ جائے گا۔

ہم سن رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے شاعری کی جا سکے گی اور گانوں کی دھنیں بھی بنائی جا سکیں گی۔ اسی طرح کاپی رائٹنگ کے لیے بھی مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لایا جا رہا ہے اور بھی بہت سے کام ہیں جن پر پہلے انسانوں کی اجارہ داری تھی مگر اب ان پر چیٹ جی پی ٹی کا قبضہ ہو چکا ہے لیکن کیا مصنوعی ذہانت کی مدد سے کی جانے والی مصوری اور شاعری ہمیں قابل قبول ہو گی اور کیا ایسی شاعری اور مصوری پر اسی طرح تنقیدی مضامین لکھے جائیں گے جیسے موزارٹ اور ریمبراں پر لکھے جاتے تھے؟ میرے پاس مستقبل میں جھانکنے کا کوئی ذریعہ تو نہیں مگر پھر بھی مجھے یوں لگتا ہے کہ مصنوعی فنون لطیفہ کو زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔

آرٹ انسانی جذبات کے اظہار کا نام ہے، کوئی مشین اگر ان جذبات کا اظہار کرے گی تو وہ اظہار کھوکھلا اور جعلی ہو گا، مگر یہ سب اندازے اور قیاس آرائیاں ہیں، اگر چیٹ جی پی ٹی میر اور غالب کے انداز میں شعر کہنا شروع کر دے تو اس بات سے کیا فرق پڑے گا کہ ان شعروں کا خالق کوئی انسان ہے یا مشین، ہم نے تو فقط اچھی شاعری پر جھومنا ہے، سو جھوم لیں گے۔

بالکل اسی طرح جیسے آج کل کی فلموں میں حیرت انگیز مناظر کرومے کی مدد سے نہایت آسانی کے ساتھ فلمائے جاتے ہیں، کہیں دکھایا جاتا ہے کہ کوئی بندہ چٹان سے پھسل کر سمندر میں گر گیا ہے اور کہیں کوئی ٹرین کے نیچے کچلا گیا ہے، ہمیں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ یہ سب کیمرہ ٹِرک ہے مگر اس کے باوجود ہم بے حد دلچسپی کے ساتھ یہ فلمیں دیکھتے ہیں اور پروا نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ مشینوں کی جعل سازی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

اسی مثال کو چیٹ جی پی ٹی پر منطبق کریں، اگر مشینی شاعری مسحور کُن ہو گی تو کیا ہم محض اس لیے نہیں سنیں گے کہ یہ چیٹ جی پی ٹی نے کی ہے کسی انسان نے نہیں؟

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کیا گُل کھلاتی ہے، فی الحال تو میں اس بات پر مسرور ہوں کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے کم از کم کالم نگاروں کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ جس قسم کا بے معنی کالم چیٹ جی پی ٹی نے لکھ کر دکھایا ہے، اس قسم کا بے ربط کالم تو وہ کالم نگار بھی نہیں لکھتے جنہیں پڑھنا کسی عذاب سے کم نہیں۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کالم نگاروں کے نام آپ کو بتاؤں تو یہ نہیں ہو سکتا، اس کے لیے آپ کو مجھ سے علیحدگی میں وقت لینا پڑے گا کیونکہ ان کالم نگاروں کے نام آپ کو چیٹ جی پی ٹی بھی نہیں بتا سکتی!

https: //www.independenturdu.com/node/158121

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے