آج کے انسان نے خاص طور پر انجینئیرنگ اور ٹکنولوجی سلوشنز کے لئے محدود فنکشنز والی ایسی مشینیں اور پروگرامز تو تیار کر لیئے ہیں جو مخصوص دائرہ کار میں اِنّوویٹ کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی خیال آتا ہے کہ کیا کوئی مشین ایسی ہو سکتی ہے جو اختر شیرانی کی طرح، کیٹس کی طرح، میر و غالب کی طرح، فیض اور ناصر کاظمی کی مانند، سینہ اور روح ریزہ ریزہ کر دینے والے اشعار کہہ سکے؟
اپنی تمام تخلیقی عظمت کے باوجود، کیا انسان ایسی کوئی مشین تخلیق کر سکتا ہے؟
کیا کوئی مشین ایسی ہو سکتی ہے جو بیتھوون اور باخ کی سمفنیز، مدن موہن کے گیتوں کی طرزیں اور اینیو موریکون کے میوزیکل سکورز تخلیق کر سکتی ہو؟
اگر ایسا ہو تو کیا ہمیں پھر بیتھوون، باخ، مدن موہن اور اینیو موریکون کی ضرورت نہیں رہے گی؟
تمام مخلوق میں تخلیقی صلاحیت صرف انسان کا اختصاص ہے۔ لیکن کیا ہم جان سکتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟ آئیے، انسانی تاریخ میں پہلی بار، تخلیقی صلاحیت کو سائنسی طریقے سے جاننے اور ڈیفائن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیا انسانی ’’ذہانت‘‘ اور تخلیقی صلاحیت ایک جیسی ہیں یا مختلف۔
کسی فلسفی نے کہا تھا کہ اگر الفاظ کو اندھا دھند ان کے تمام ممکنہ کامبینیشنز میں ترتیب دیا جائے تو بہت کچھ الّم غلّم ہو گا لیکن ساتھ ہی دنیا کا تمام عظیم الشان ادب، نظمیہ اور نثریہ، جو تخلیق ہو چکا ہے اور جو نہیں ہوا، سب کا سب لکھا جا سکتا ہے۔
یعنی آنے والا اچھا ادب بھی امکانی طور پر موجود ہے فقط آشکار نہیں ہوا۔ اگر یہ کام کوئی کمپیوٹر کر سکتا ہو تو بغیر کسی ’’تخلیقی‘‘ صلاحیت کے تمام کلاسیکی ادب وجود میں لا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے کمپیوٹر کو لامحدود بجلی، تمام سمندروں کے برابر اور ان سے بھی زیادہ، پرنٹر کارٹرج کی روشنائی اور تمام درختوں سے بھی زیادہ درختوں کے برابر، کاغذ کی سپلائی کی ضرورت ہو گی۔ یعنی بغیر تخلیقی صلاحیت کے بھی اچھا ادب ممکن ہے اگر لامحدود کوشش کرنے کی طاقت ہو۔
لیکن پھر ’’تخلیقی صلاحیت‘‘ کیا ہے؟
تو چلیں مندرجہ بالا کی روشنی میں، ’’تخلیقی صلاحیت‘‘ کو ڈیفائن کرتے ہیں۔ یہ وہ وہبی صلاحیت ہے کہ جس کے ذریعے آپ، جمالی امکان کے لامحدود پیٹرنز میں سے، لامحدود کوشش کے بغیر، اپنے مقصد کے لئے درکار، مناسب ترین پیٹرن کو پہچان لیتے ہیں اور اس تک پہنچ کر اسے آشکارا کر دیتے ہیں۔
میں اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ ایک سپر کمپیوٹر ایسا تیار کروایا جائے جس میں مروجہ اردو شاعری کی مخصوص اصطلاحات اور استعارے اور تراکیب بمع جوائننگ ورڈز کے فیڈ کر دئیے جائیں۔ اور یہ کچھ اتنا مشکل کام نہیں۔ آج کی اردو شاعری میں ملا جلا کر زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار الفاظ ہوں گے۔
میرے خیال میں ایسا سپر کمپیوٹر اتنے الفاظ کے ممکنہ کامبینیشنز، شاید مکمل طور پر نہ بھی بنا سکے لیکن یہ ضرور کرے گا کہ بہت سے شعرا پر جو کلام الہام کی صورت میں اتر چکا ہے وہ بھی اور وہ بھی جو ابھی بہت سے شعرا پر اترا نہیں، اس سب میں سے بھی بہت سا سامنے لے آئے گا۔
یعنی میرا خیال ہے کہ ایک ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے کہ اگر اسے ایک مخصوص ڈیٹا فیڈ کیا جائے تووہ امکانی پیٹرنز جنریٹ کر سکتی ہے جن میں ایسے پیٹرنز بھی ہوں گے جو جمالیاتی طور پر بالکل نادر ہوں۔ چلیں ایک مثال دیتا ہوں جس سے صورتحال کافی واضع ہو جائے گی:
فرض کیا کہ ایک زبان میں بولے اور لکھے جانے والے الفاظ کی کل تعداد صرف آٹھ ہے اور وہ یہ ہیں ’’میں۔ کے۔ یہ۔ خانوں۔ لکھو۔ معجزوں۔ بھی۔ حادثہ‘‘۔ ایک کمپیوٹر کو اگر پروگرام کیا گیا ہے ان آٹھ الفاظ کے تمام ممکنہ پیٹرنز کو جنریٹ کرنے کے لئے، تو جو ممکنہ پیٹرنز سامنے آئیں گے وہ کچھ یوں ہو سکتے ہیں:
۱: کے یہ خانوں معجزوں حادثہ میں لکھو بھی
۲: کے خانوں یہ میں حادثہ لکھو بھی معجزوں
۳: کے میں یہ خانوں لکھو معجزوں بھی حادثہ
۴: میں کے یہ خانوں لکھو معجزوں بھی حادثہ
۵: وغیرہ
۶: وغیرہ
۷: یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانوں میں
۸: وغیرہ
۹: وغیرہ
غالباً چونسٹھ کل تعداد ہو گی ان سارے پیٹرنز کی۔ یہ سب کچھ مشین کرے گی اور بلا کسی تخلیقی صلاحیت کے کرے گی۔ اور فرض کیا کہ اس آٹھ لفظی زبان میں ایک شاعر ہے جس کا نام ہے جون ایلیا۔ اگر جون ایلیا کے وہ مشہور قطعہ کہنے سے پہلے بھی اسی کمپیوٹر میں یہ ۸ الفاظ ڈال کر یہ چونسٹھ ممکنہ کومبینیشنز حاصل کیئے جاتے تب بھی یہ مشین جون صاحب کے قطعے کا وہ ظالم مصرعہ جون صاحب کے خون تھوکنے سے پہلے ہی ’’تخلیق‘‘ کر چکی ہوتی (دیکھئیے نمبر ۷)۔
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
’’یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانوں میں‘‘
جو رد ہوئے تھے جہاں میں صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
تو عرض یہ ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیت، جون ایلیا سے فقط آٹھ الفاظ پر مشتمل براہ راست وہ مصرعہ کہلواتی ہے جو کہ انہیں مطلوب ہے۔ جبکہ ذہانت کا میکانکی عمل کسی ۸ لفظی جمالیاتی پیٹرن کو جنریٹ کرنے کے لئے باقی ۶۳ الّم غلّم پیٹرنز بھی جنریٹ کرتا ہے۔ یہ فارمولا کمپیوٹر کے ذریعے زبان کے سارے الفاظ تک پر اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ صرف اس الّم غلّم کو ہینڈل کرنے کا ہے جو الفاظ کی زیادہ تعداد سے حاصل شدہ مطلوب تخلیقات کے ساتھ جنریٹ ہو گا۔
اردو میں تو آج تک اس موضوع پر اس طرح کھل کر بات بھی نہیں ہوئی لیکن میری معلومات کے مطابق، انگلش اور دوسری زبانوں میں بھی ایسا تجربہ آج تک پروپوز نہیں کیا گیا کہ جس سے ہم تخلیقی صلاحیت اور میکانیکیت میں فرق واضع کر سکیں جیسا کہ میں نے جون ایلیا کے ایک مصرعے کے الفاظ کمپیوٹر میں فیڈ کر کے اس سے کامبینیشنز کا جنک جنریٹ کر کے، اس میں سے، جون کی کری ایٹیویٹی کو شناخت کرنے کا آئیڈیا پروپوز کیا ہے۔ یہ صرف مثال کے طور تجویز کیا ہے کیونکہ میں اصل میں تو یہ ثابت کر رہا ہوں کہ زبان سمیت انسان کے سارے جمالیاتی اور کمیونیکیشن کے سمبلز، اپنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں اگر تمام ممکنہ پیٹرنز میں جوڑے جائیں تو جو جنک جنریٹ ہو گا وہ ناقابلِ تخمینہ ہو گا لیکن اسی کے اندر وہ سب کچھ بھی ہو گا جو اب تک انسان تخلیق کر چکا ہے یا تخلیق کرے گا۔
تخلیقی صلاحیت، جمالیاتی طور پر مقصود و مطلوب پیٹرنز براہ راست کری۔ ایٹ کرتی ہے۔۔ ذہانت پیٹرنز کا ’’جنک‘‘ جنریٹ کرتی ہے، خواہ انسانی ذہانت ہو یا مصنوعی۔ تخلیقی صلاحیت، ذہانت کے جنریٹ کئیے ہوئے جھاڑ جھنکاڑ کو چھانٹ کر، گلِ مقصود کو گرفت میں لے لیتی ہے۔
٭٭٭