مصنوعی ذہانت اور اردو زبان و ادب: امکانات و مسائل کے آئینے میں ۔۔۔ محمد خرم یاسین

سن 2004ء میں جن دنوں انٹرنیٹ عام نہیں تھا اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کے ٹیلی فون کی تار کمپیوٹر میں لگا کر چند کلو بائٹس فی سیکنڈ کی رفتار (ایک MB ایک ہزار کلو بائٹس کے برابر ہے) سے انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا تھا، تمام سافٹ وئیرز، فلموں اور دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) وغیرہ کے حصول کی سہولت محض سی ڈیز ہی کی صورت میں میسر تھی۔ ایسے میں کمپیوٹر سافٹ وئیر کی ایک سی ڈی راقم کے ہاتھ لگی تھی جس میں انسانوں سے بات کرنے والا ایک سافٹ وئیر ’’الیزا سے گفتگو‘‘ (Talk with Eliza) موجود تھا۔ اس سافٹ وئیر سے بات کا تجربہ جو ایک سائنسی حقیقت تھا، کسی رومان سے کم نہ تھا۔ ابھی تک پہنچ سے دُور انگریز خاتون ’’الیزا‘‘ کی صورت میں کمپیوٹر سکرین پر موجود تھی جس سے انگلش تحریر میں من چاہی بات کر سکتے تھے۔ الیزا مشورہ بھی دیتی تھی اور باتوں میں دل چسپی بھی لیتی تھی لیکن چند سوالات کے بعد ایک سے لگے بندھے جوابات دینے لگتی تھی جو اُکتاہٹ کا باعث بنتا تھا۔ جوزف ویزنبم (Joseph Weizenbaum۔ ۱۹۲۳ء-۲۰۰۸ء) نے یہ سافٹ وئیر 1966ء میں بنایا تھا جو کلیدی الفاظ کی شناخت، سیاق و سباق کا ادراک اور عدم موجود الفاظ یا خلا کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ سافٹ وئیر اور اس پر 1966ء میں جوزف ویزنبم کا تحریر کیا گیا مقالہ آن لائن موجود ہے جس میں اس کے تفصیلی تعارف کے ساتھ مختلف انسانی زبانوں میں گفتگو کی صلاحیت کا ذکر یوں کیا گیا ہے:

ایلیزا ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو ایم آئی ٹی (میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کیمبرج، امریکا) میں میک ٹائم شیئرنگ سسٹم (ایک ہی وقت میں مخصوص صارفین کو استعمال کی اجازت دینے والا اس وقت کا جدید ترین کمپیوٹر نظام) کے اندر کام کرتا ہے۔ یہ انسان اور کمپیوٹر کے مابین مخصوص قسم کی فطری زبان میں گفتگو کو ممکن بناتا ہے۔ اس میں داخل یا شامل کیے گئے جملوں کا تجزیہ تقسیم کے قواعد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جو کہ داخل کیے گئے متن میں ظاہر ہونے والے کلیدی الفاظ سے تحریک لیتے ہیں۔ جوابات منتخب شدہ تجزیاتی قواعد سے منسلکہ از سرِ نو ترتیب کے قواعد کی طریقے سے لیے جاتے ہیں۔

سافٹ وئیر ’’الیزا‘‘ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے انسانوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ مصنوعی ذہانت کے ابتدائی نمونوں میں سے ایک تھا۔ مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس (AI) ، کمپیوٹر سائنس کی ایک ایسی شاخ ہے جو انسانی ذہانت کی نقل کرنے اور اسے مشینوں میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے کمپیوٹر، رو بوٹ اور مشینیں انسانی صلاحیتوں سے لیس ہو کر نہ صرف خود مختار انداز میں کام کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں بلکہ اسی کے انداز میں سوچنے، سمجھنے اور مسائل کے حل کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ مشینی مصنوعی ذہانت کے تصورات کمپیوٹر کی دنیا میں نئے نہیں ہیں۔ یہ در حقیقت نصف صدی سے زیادہ پرانا قصہ ہے جس کا بنیادی مقصد انسان کے روز مرہ کے امور میں آسانی پیدا کرنا تھا۔ اسما ایوب اپنے مقالے ’’مصنوعی ذہانت کے ادبی تنقیدی صلاحیتوں پر اثرات‘‘ (ترجمہ) میں لکھتی ہیں کہ مشین کے بارے میں یہ خیال کہ اسے مصنوعی طور پر ذہین بنایا جا سکتا ہے 1955ء میں پیش کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سائنسدانوں کا باقاعدہ ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں اس کے امکانات پر بحث بھی ہوئی تھی۔

مصنوعی ذہانت (AI) کی اصطلاح کا ذکر پہلی بار جان مکار تھی کی جانب سے 1955 میں ایک کانفرنس کے دوران کیا گیا تھا، جہاں بہت سے سائنسدانوں نے یہ جاننے کے لیے ملاقات کا فیصلہ کیا تھا کہ آیا مشینوں کو (مصنوعی طور پر) ذہین بنایا جا سکتا ہے؟

بر صغیر کے ایسے خطے میں رہتے ہوئے جہاں لائبریریاں ملکی و عالمی رسائل و جرائد سے محروم ہوں، درس گاہوں کی تجربہ گاہوں پر پڑے تالے زنگ آلودہ ہو چکے ہوں، جامعات تک کی سطح پر جدید علومو فنون سے نا آشنائی ہو، 1966ء میں بنائے گئے سافٹ وئیر ’’الیزا‘‘ سے 2004ء میں اتفاقی وابستگی بعید از امکان نہ تھی۔ دنیا کی اکثر نوآبادیات استعماری قوتوں کی باسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اسی طرح 2013ء میں سپائک جونز (Spike Jonze۔ پ: ۱۹۶۹ء) کی تحریر کردہ فلم ’’Her‘‘، جس نے اس وقت کے تمام اہم اعزازات جیتے تھے، کا ایک کردار اس خطے کے لیے بالکل نیا تصور تھا۔ اسے مصنوعی برقی معاون (virtual assistant) کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ برقی معاون سمنتھا (Samantha) انسانی جذبات سے لب ریز خاتون تھی جو تنہا اور اداس لکھاری تھیوڈور (Theodore) کے ساتھ موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے تحریر و تقریر میں رومانوی، مدبرانہ اور فلسفیانہ گفتگو کر سکتی تھی، لطائف سن اور سنا سکتی تھا، کھیل سکتی تھی، رہنمائی کر سکتی تھی اور اس کے لیے تصاویر تک بنا سکتی تھی۔ یہ تصور بھی گو کہ یہاں نیا تھا لیکن جدید دنیا کے لیے ہرگز نہیں کہ ان کا یہ سفر 1955ء میں آغاز پذیر ہو چکا تھا اور ایسی کمپیوٹر ایپلی کیشنز ان کے زیرِ استعمال تھیں۔ البتہ یہ تمام ایپلی کیشنز اس قدر تیز اور جدید نہیں تھیں جتنی کہ مصنوعی ذہانت کے عام ہو جانے کے بعد چکی ہیں۔ ان کا ارتقائی سفر بھی مسلسل جاری ہے۔ آج کل انسان اور کمپیوٹر کی محبت اور تعاملات (Human-Computer Interaction) کی تعلیم و تحقیق جدید دنیا کی جامعات میں اہم موضوعِ تحقیق ہے جس میں نفسیات سے کمپیوٹر تک کے سبھی ماہرین شامل ہوتے ہیں ؛ جب کہ بڑی تعداد میں جامعات میں ایسے کورسز بھی متعارف کروائے جا رہے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت سے پڑھنا اور سیکھنا شامل ہے۔ آج مفت میں چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT  ۵.۳) ، گوگل بارڈ/جمنی (Gemini/Bard) ، پرپلیکسٹی (Perplexity) اور بِنگ (Bing) ایسی مصنوعی ذہانت کی بہت سی آن لائن ایپلی کیشنز موجود ہیں جو ’’Her‘‘ ہی کی طرح آپ سے گفتگو کر سکتی ہیں، سوالات کے جوابات دے سکتی ہیں اور ہر میدانِ زندگی کی ممکنہ حد تک معلومات مہیا کر سکتی ہیں۔ اگر ان چیٹ بوٹس کو مطلوبہ رقم مہیا کی جائے تو یہ کئی گنا بہتر کام کرتے ہیں اور آپ سے تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر میں بھی سنجیدہ و شگفتہ گفتگو کر سکتے ہیں، تصاویر بنا سکتے ہیں، موسیقی کی دھن ترتیب دے سکتے ہیں، آپ کے لیے گیت تک گا سکتے ہیں۔ گلوبل ولیج کے دور میں مصنوعی ذہانت اور اس کے چیٹ بوٹس تیسری دنیا کے لیے بھی نئے نہیں رہے۔ اس ضمن میں 2022ء میں جیمز برڈ کی تحریر کردہ سائنس فکشن فلم ’’Wifelike‘‘ نے ایسے بہت سے چیٹ بوٹس کو مجسم دکھا دیا ہے جو آپ کے لیے آپ کی مرضی کے عین مطابق کھانا پکانے سے محبت تک ہر کام انسانوں سے زیادہ سلیقے سے اور بنا ناراضی و غصہ کر سکتے ہیں۔ جس طرح مصنوعی ذہانت کی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی (Deepfake Technology) آپ کی پسند کے کسی بھی کردار کو کسی بھی آواز و کردار میں ڈھال کر اس سے من چاہا کام کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اسی طرح فلم میں اپنے من پسند چہروں کو ایسا مجسم روپ دینے کا تصور پیش کیا گیا ہے جن کے ساتھ آپ محض خواب و خیال ہی میں اچھا وقت بتا سکتے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ کیا کمپیوٹر ایپلی کیشنز کی یہ تجسیم محض خواب و خیال ہے یا ہم ابھی تک انسانی برتری کے زعم میں مبتلا کر اسے در خور اعتنا سمجھے ہوئے ہیں؟ اس کے جواب میں امریکا، جاپان اور چین ایسے ترقی یافتہ ممالک کی 2023 ء میں روبوٹس کی نمائش کے لیے سجنے والے بڑے بڑے میلوں کو دیکھا جا سکتا ہے جن کے دماغ میں چیٹ جی پی ٹی ایسے انتہائی طاقت ور اور تیزی سے سوچنے والے سافٹ وئیرز رکھ دیے گئے ہیں۔ یہ رو بوٹس حقیقی زندگی میں صارف کا کھانا بنانے سے دفتری امور کی انجام دہی تک میں اس کا بنا تھکے اور رکے ساتھ دے رہے ہیں اور انسانی جذبات کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسے بہت سے ورچوئل اسسٹنٹ موجود ہیں جن کی قیمت ادا کر کے آپ بالکل وہی سب کچھ کر سکتے ہیں جو ’’Her‘‘ کا کردار کر سکتا تھا۔ اردو ’’مینا‘‘ سے انگریزی سہیلیوں اور دوستوں تک، من چاہے چہرے اور خواب و خیال کی دنیا کو حقیقت میں بدلنے کے لیے، سب کچھ آپ کی پہنچ میں ہے۔ یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہیے کہاں چیٹ بوٹس اور روبوٹس کو چوں کہ سرمایہ دار طبقہ صنعتی استعمال کے لیے تیار کر رہا ہے اور محض 2023 ء میں ان پر اٹھانوے ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی، اس لیے ان کی کمی کوتاہی کو دور کرنے اور انسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ موثر و فعال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے تا کہ صارفین سے حتی الامکان سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ یہ ایپلی کیشنز نہ صرف آپ کی بات سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ زبان دانی کی بھی ایسی بہت سی خوبیوں سے مالا مال ہیں جن کی موجودگی میں اردو دان طبقے کا مصنوعی ذہانت کے ساتھ انسلاک، ادب پر اس کے اثرات، تخلیقی رجحانات اور رویوں کی جانچ پرکھ، تحقیق و تنقید کے مدارج و معیارات اور صلاحیتوں کو انسانی برتری کے بے جا تفاخر کے بجائے سنجیدہ انداز میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت جس طرح تیزی سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں داخل ہو کر اس میں تبدیلیاں رونما کرتی جا رہی ہے، اردو دان طبقے کی زبان و ادب کے حوالے سے فکر مندی نہ صرف جواز رکھتی ہے بلکہ وقت کا اہم تقاضا بھی ہے۔ اس ضمن میں اردو ادب کے مصنوعی ذہانت کے ساتھ ارتباط و افتراق کے حوالے سے درج ذیل فوری توجہ طلب سوالات جنم لیتے ہیں:

۱۔     ناقدین کے نزدیک ادبی تخلیق کن مفاہیم میں مستعمل ہے اور اسے جانچنے کے لیے کون سے معیارات مقرر کیے گئے ہیں؟

۲۔     کیا مصنوعی ذہانت متن، پلاٹ اور کردار تخلیق کر سکتی ہے؟ کیا اس کے تخلیق کردہ متن کو ادبی بنایا جا سکتا ہے؟

۳۔     کیا مصنوعی ذہانت کے متن کو اس صورت میں تخلیقی کہا جا سکتا ہے جب کہ یہ مخصوص طریقہ کار (پہلے سے موجودہ الگورتھم) کے تحت جواب دیتی ہے اور اس کی تحریر کا پس منظر پہلے سے موجود مواد پر منحصر ہے؟ اگر اس کا دار و مدار اس کی یادداشت میں موجود مواد (data) ، یا انٹرنیٹ پر بکھرے علم پر ہے اور یہ اسی سے استقرا، استخراج اور تطبیق کا عمل کرتی ہے تو کیا اس کی تخلیق بین المتنیت (intertextuality) کے زمرے میں رکھی جائے گی؟ اور اگر رکھی جائے گی تو انسانی اور مشینی تخلیق میں امتیاز کس طرح برتا جائے گا اور جولیا کرسٹیوا (Julia Kristeva۔ پ: ۱۹۴۱ء) کے بین المتنیت کے نظریے کا اطلاق بہ یک وقت انسان اور مشین پر کس طرح ہو سکے گا؟

۴۔     کیا یہ زبان کے جامع تجریدی الفاظ کے نظامبہ شمول قواعد و انشا اور صرف و نحو (langue and parole) کو استعمال میں لا کر اپنی بات کہہ پانے، اسے موثر بنانے، اس میں جذبات نگاری کے دخول کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس کے لینگ اور پیرول کی بنیاد زبان کن عناصر پر ہے اور کیا یہ اس میں موجود بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ان کا انسانی ذہانت سے موازنہ کس طرح ممکن ہے اور اگر نہیں تو ساسئیر (Ferdinand de Saussure۔ 1857ء-1913ء) کے زبان کی ساختیات کا نظریے کا اطلاق اس پر کس طرح ہو گا؟

۵۔     اگر مصنوعی ذہانت مستقبل قریب میں انسانی تخلیق کے مقابل تخلیقات پیش کرنے کے قابل ہو جاتی ہے تو ایسے میں ایک ادیب، شاعر، نقاد اور محقق کی کیا حیثیت ہو گی؟ رولان بارتھ (Roland Barthes۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۸۰ء) نظریۂ مرگِ مصنف (The Death of the Author) میں تحریر میں مصنف کی ذات کی نفی کرتے ہوئے اسے قارئین کے ساتھ موثر ترین ابلاغ پر استوار کرتا ہے۔ اس صورت میں جب کہ مصنوعی ذہانت اور قاری خود مصنف ہو، اس نظریے کا اطلاق کس قدر ممکن ہو گا؟

۶۔     مصنوعی ذہانت کے تخلیق کردہ متن کی اصلیت (originality) اور حقیقی تخلیق میں فرق کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس میں شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ پہلی مرتبہ تخلیق کردہ متن پھر سے کسی صارف کے سامنے نہیں دہرائے گی؟

۷۔     کیا ادب برائے زندگی کی تخلیق کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے تخلیق کردہ غیر افسانوی ادب کی کوئی درجہ بندی کی گئی ہے یا اس ضمن میں انسانی اور مصنوعی ذہانت کے موازنے کا کوئی معیار مقرر کیا گیا ہے؟

۸۔     بہ راہِ راست مصنوعی ذہانت سے تخلیق شدہ ادب کے بجائے اس کی مدد سے تخلیق کیے جانے والے ادب، ادب کے کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

۹۔     کیا یہ متن کا تجزیہ، تعبیر اور تشریح و توضیح کی صلاحیت رکھتی ہے؟

۱۰۔    اس سے لیے گئے، نقل شدہ مواد کو اگر کسی بھی تخلیق، تحقیق یا تنقید میں شامل کرنا ہو تو کیا حوالے کا کوئی طریقہ متعین کیا گیا ہے؟

۱۱۔    انسان اور مصنوعی ذہانت کی مشترکہ تخلیق، تحقیق یا تنقید کی صورت میں مصنوعی ذہانت کے کسی بھی چیٹ بوٹ کا نام کس طرح ظاہر کیا جا سکتا ہے اور اسے مصنفین میں سے کون سے درجے پر رکھیں گے؟

۱۲۔    اس کی تحقیق و تنقید اور رائے پر کس قدر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کی موجودگی میں کند ذہن، غبی یا معمولی ذہنی استعداد کے طلبا کی حیثیت کیا ہو گی؟ یا وہ مستقبل میں اس کی رائے پر کس قدر انحصار کریں گے؟

۱۳۔    مصنوعی ذہانت اگر مذہبی ادب یا کسی خاص تہذیب و ثقافت کے حوالے سے تعصب سے کام لیتی ہے تو اس کی تصدیق و درستی کیوں کر ممکن ہو سکے گی؟

۱۴۔    کیا مصنوعی ذہانت سے تخلیق کی گئی شاعری کو کسی خاص صنف یا ہیئت کے حوالے سے پہچانا جا سکتا ہے یا اس کا نام رکھا جا سکتا ہے؟

مذکورہ بالا سوالات کو ایک کے بعد ایک دیکھا جائے تو پہلا سوال تخلیق کا سامنے آتا ہے کہ در حقیقت تخلیق کیا ہے؟ کیا اس کے معانی و مفاہیم مختلف مکاتبِ فکر کے نزدیک یکساں ہیں یا اس کے بارے میں سب نے اپنی انفرادی رائے قائم کر رکھی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا (۱۹۲۲ء-۲۰۱۰ء) نے معنی اور تناظر میں ’’تخلیقی عمل اور اس کی ساخت‘‘ کے عنوان سے ایک بصیرت انگیز مضمون تحریر کیا ہے جس میں تخلیق کے بارے میں مختلف دبستانِ فکر کے لوگوں کے مختلف خیالات کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ یونانیوں سے ورڈزورتھ (William Wordsworth۔ ۱۷۷۰ء-۱۸۵۰ء) تک، روحانیات، جمالیات، نفسیات، جدلیات، ہیئت پسندیت، ساختیات، پس ساختیات اور مابعد جدیدیت ایسے کتنے ہی دبستانِ فکر کے اس بارے میں متنوع نظریات موجود ہیں۔ ان میں سے کوئی نظریہ دوسرے سے من و عن متفق نہیں اور نہ ہی یکسر مختلف ہی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا اپنا نظریہ بھی ان کے شخصی تجربے پر محمول ہے اور اس میں نفسیاتی پہلو زیادہ واضح ہے۔ ’’تخلیقی عمل‘‘ میں تخلیق کی ماہیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

اصلاً یہ وہ عمل ہے جس کی مدد سے انسان اپنے ہی وجود کی با مشقت قید سے رہائی پاتا ہے۔ بالکل جیسے کوئی شے کسی مدار میں مسلسل گھومتے چلے جانے کے بعد معاً لپک کر ایک نئے اور کشادہ تر مدار میں چلی جائے۔ جسم، معاشرہ، اسطور، تاریخ اور فن ہی میں نہیں، کائنات کے محیط و بسیط نظام میں بھی اس کا یہی اصول کار فرما ہے۔

جب کہ اس کتاب سے دو دہائیوں بعد دوسری کتاب معنی اور تناظر میں انھوں نے تخلیق کی ایک اور نفسیاتی و طبی وجہ بھی بیان کی ہے۔ حقیقت میں اس میں جس قدر پر اسراریت بیان کی گئی ہے وہ حیاتی سے زیادہ وجدانی و روحانی کے قریب چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق تخلیقی عمل گویا ایک راز ہے جسے مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں، تاہم یہ عمل انسانی تجربے، انفرادی و اجتماعی لاشعور اور وجدان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات ایک حوض کی مانند ہے جس کی سطح پر تیرتے ہوئے تنکے اور پتے حسیات سے حاصل کردہ تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حوض کی تہہ میں لاکھوں برسوں پر محیط انسانی تجربات کا ذخیرہ ہوتا ہے اور جب کوئی نیا تاثر ذہن میں داخل ہوتا ہے تو گویا یہ اس میں چٹان کی طرح گر کر طوفان برپا کر دیتا ہے۔ اس طوفان سے، سطح کا مواد تہہ کے مواد سے مل جاتا ہے اور ایک نئی تخلیق وجود میں آتی ہے۔ در حقیقت ڈاکٹر وزیر آغا کا نظریہ تخلیق، اشاعرہ کے ایٹم کے عدم سے وجود میں آنے سے مماثل ہے۔ تخلیق اور تخلیقی عمل کے حوالے سے محمود ہاشمی بھی انسانی محسوسات، انفرادی تجربات اور سینکڑوں، ہزاروں سالوں میں پرورش پانے والے اجتماعی لا شعور کو تخلیق کی اہم وجہ گردانتے ہیں۔

ماہرِ لسان و جمال شکیل الرحمٰن (۱۹۳۱ء-۲۰۱۶ء) کی رائے میں تخلیق کے تین مدارج و مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں انسانی جبلت اور اس کا اظہار تخلیق کا سامان مہیا کرتا ہے، دوسرے میں نسلی تجربات کا حسی سطح پر اظہار ہوتا ہے اور تیسرے درجے میں انسانی تجربات، ان کی رمزیت اور جہات، جمالیاتی التباس اور ابہام سے نئے تاثرات و ارتعاشات لیتے ہوئے تخلیق میں ڈھلتی ہیں۔ گویا ان کے ہاں بھی اجتماعی لا شعور اور تاریخ اہم تخلیقی عناصر ہیں جب کہ وہ حاضر وقت میں انسانی تجربات کو بھی اس میں شامل کر کے اس کا دائرہ کار بڑھا دیتے ہیں، تخلیق کو محض لاشعور اور تخیل پر منحصر تسلیم نہیں کرتے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ (۱۹۰۶ء-۱۹۸۶ء) نے اشاراتِ تنقید میں کولرج (Samuel Taylor Coleridge۔ ۱۷۷۲ء-۱۸۳۴ء) کے حوالے سے تخلیقی عمل میں کار فرما قوتِ متخیلہ کو دو مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں قوت متخیلہ اشیا کے درمیان امتیاز و انسلاک کے ساتھ ربط پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور دوسرے میں اسے استعمال کرتے ہوئے وحدت آفرینی و شیرازہ بندی کے تحت ایک نیا خیال عمل میں آتا ہے جس کی بنیاد میں وہم اور یادداشت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ وہم ایک ایسی منزل ہے جو حافظے اور ارادے کی قوت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور تصویر کی خارجی سطح تیار کرتی ہے۔ اس نظریہ میں یاد داشت سے مراد انسانی تجربات، اجتماعی لاشعور اور ماضی کی بازگشت ہے جو پر اسرار انداز میں ادب پارے کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلوب احمد انصاری (۱۹۲۵ء-۲۰۱۶ء) بھی اس نظریے سے بڑی حد تک متفق نظر آتے ہیں۔ وہ تخلیق کے پس منظر میں واہمہ، وجدان اور ادراک تینوں ہی کو اہم گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی تجربات، تخیل اور حقیقت کے ملاپ سے تخلیق کا سبب بنتے ہیں۔ وہ تخلیقی نظریے کے طور پر کسی ایک جہت یعنی محض وجدان یا محض تجربہ پر اصرار نہیں کرتے۔ فنکار تخیل اور واہمے سے اپنے فن کا مواد تو حاصل کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کے لیے آخر کار اسے حقیقی دنیا میں لوٹنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ ادب معرفت اور عمل کے درمیان توازن پیدا کرتا ہے، نہ تو یہ محض مجرد تصورات تک محدود ہوتا ہے اور نہ ہی محض عقل پرست۔

محمد احسن فاروقی (۱۹۱۳ء-۱۹۷۸ء) نے تخلیق کے ضمن میں حافظہ اور تخیل کی نئی بحث چھیڑی ہے جو کالرج کے متخیلہ اولیٰ و ثانی سے متفق بھی ہے اور کسی حد تک اس سے اختلاف بھی کرتی ہے۔ ان کے مطابق تخیل ہی تخلیق کا ذمہ دار ہے اور اسے ایک روحانی قوت کہا جاتا ہے؛ لیکن یہ قوت محض ماضی یا حافظہ ہی پر انحصار نہیں کرتی بلکہ مستقبل کی خواب گر بھی ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حافظے بھی تخیل سے اثر قبول کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تخیل ماضی کے تجربات و احساسات سے روشنی حاصل کرتا ہے لیکن تخیل ایک مستقل قوت ہے اور حافظہ ایک طرح سے عارضی شے ہے۔ معروف امریکی ناول نگار اینی لموٹ (Anne Lamott۔ پ: ۱۹۵۴ء) جن کی کتب کئی سال تک سب سے زیادہ فروخت شدہ (bestseller) کی فہرست میں شامل رہی ہیں، ادبی تخلیق کے عمل کے حوالے سے اپنی کتاب Bird by Bird میں تحریر کرتی ہیں کہ تخلیق خالصتاً ایک روحانی اور وجدانی کیفیت کا نام ہے۔ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ایک مخصوص وقت میں، میں نے اپنے اندر ایک کشمکش محسوس کی اور وہ تخلیقی، روحانی یا جمالیاتی طریقہ کھوجنے کی کوشش کی کہ جس کے تحت اسے ترتیب دے کر بیان کیا جا سکے۔ ایسے میں گہرے مطالعے کے دوران میں ایک روحانی لمحہ ایسا آیا جب مجھے خود پر یقین ہوا کہ میں کوئی بہت بڑا اور جادوئی قسم کا کارنامہ کر سکتی ہوں جس کے بعد میرے لکھنے کا سفر کبھی نہ تھما۔ تخلیق کے پس منظر میں ان کا وجدانی تجربہ بجا ہے لیکن یہ تجربہ یقیناً خود شناسی کا تجربہ تھا جس میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا کھوج لگایا۔ اس تجربے کو محض وجدان سے منسلک کر دینا بہت سے لاینحل سوالات کو جنم دیتا ہے۔ معید رشیدی (پ: ۱۹۸۸ء) نے بھی تخلیق، تخیل اور استعارہ میں تخلیق کو تخیل اور ابہام سے جوڑتے ہوئے پر اسرار اور نفسیاتی عمل ثابت کیا ہے۔ ان کے خیالات ڈاکٹر وزیر آغا کے ’’تخلیقی عمل‘‘ ہی کا تتبع معلوم ہوتے ہیں۔ وہ استعارہ کو تخیل کی تخلیقی معراج کی جانب لے جاتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ اردو کے غیر افسانوی ادب اور خود افسانوی ادب میں بہت سے ایسے افسانے جن میں تخیل کی کار فرمائی کم ہے، مقصدیت، سخت حقیقت پسندی (stark reality) اور نفسیاتی حقیقت نگاری سے زیادہ کام لیا گیا ہے یا زبان زیادہ استعاراتی نہیں ہے، اسے کس زمرے میں رکھیں گے یا پھر اسے تخلیق سمجھا بھی جائے گا یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ ان کے نزدیک ابہام، جو کہ تخلیق کے دیگر نظریات کے مطابق تخیل کے لیے نہایت اہم ہے، تخلیق میں گویا ایک قسم کی رکاوٹ ہے جسے دور کرنے کے لیے تخلیق کار استعارے کا استعمال کرتا ہے اور یوں تخلیق کا راستہ آسان ہوتا ہے۔

شمیم حنفی (۱۹۳۹ء-۲۰۲۱ء) تخلیق اور تخلیقی تجربے کو ایک اعلیٰ اور برتر درجے کا نفسی تجربہ شمار کرتے ہیں جو ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے۔ اور اس ضمن میں کسی بھی ایک نظریے یا تاریخی مسلمہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنا موقف غالب (۱۷۹۷ء-۱۸۶۹ء) کی تخلیق جہات کے حوالے سے تحریر کردہ مضامین میں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ادب اور تخلیقی تجربے کو فلسفہ، نفسیات، اور سائنسی علوم کے اصولوں کے تابع نہیں سمجھتے کیوں کہ یہ ایک آزاد اور خود مختار دنیا ہے جہاں بیرونی احکامات اور ضوابط کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کے آزادانہ اظہار پر کسی قسم کی پابندی لاگو کی ہی نہیں کی جا سکتی۔ ڈاکٹر سلیم اختر (پ: ۱۹۳۴ء) تخلیقی عمل کے ضمن میں مختلف رائے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تخلیقی عمل میں محض وجدان، جنون اور ذہنی پسماندگی (ابنارملٹی) زیادہ اہمیت نہیں رکھتی نہ ہی اسے کسی خاص روحانیت یا پُر اسراریت کا حاصل سمجھنا چاہیے۔ گو کہ انھیں تخلیق میں معاون سمجھا جا سکتا ہے لیکن تخلیق سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص نفسیاتی حوالے سے تخلیق کو زیرِ بحث لاتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر جنونی اچھا لکھاری ہو یا ہر اچھا لکھاری جنونی ہو۔ مصنوعی ذہانت سے متن کی تخلیق ڈاکٹر سلیم اختر کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ ان کے مطابق لاشعوری محرکات تخلیقی عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کی مثال نامور فنکاروں کی زندگیوں اور اس میں تخلیقی محرکات سے دی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ تخلیق ایک حد تکان کے لاشعوری زخموں کا علاج ہوتی ہے، لیکن جنون کی ہر حالت میں تخیل مددگار نہیں ہوتا اور نہ ہی جنون اور تخلیق کو لازم و ملزوم قرار دیا جا سکتا ہے۔

محمد حسن عسکری (۱۹۱۹ء-۱۹۷۸ء) تخلیق اور تخلیقی عمل کو اسلوب سے منسلک کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تخلیقی عمل کے لیے تجربات اور موضوعات کی فراوانی ضروری ہے جب کہ ایک سے حالات اس راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنے تجربات کی بنیاد پر سوچنے کا ہنر سیکھتا ہے جو کہ اسلوب کہلاتا ہے اور پھر اسی اسلوب کے تحت وہ تخلیقی عمل میں حصہ لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑی حد تک تخلیق کے لیے خارجی حالات پر انحصار کرتے ہیں جہاں سے انسان تخلیق کے لیے مواد ہی نہیں لیتا بلکہ انفرادیت اور شناخت بھی لیتا ہے۔ گویا تخلیق کے لیے تجربات اور موضوعات ضروری ہیں اور انھی تجربات کی بنیاد پر ایک ادیب کا اسلوب پیدا ہوتا جو کہ تخلیقی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ تخلیق اور عملِ تخلیق کی بحث کا محاکمہ کیا جائے تو اکثریت کے خیال میں اس کا تعلق تخیل، وجدان، عدم سے وجود میں لانے کا عمل، روحانیت، ذہنی خلفشار، ردِ عمل، ماضی سے وابستگی، اجتماعی لاشعور اور انسانی تجربات وغیرہ سے جڑتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جن بھی دانش وروں نے تخلیق کے بارے میں نظریات پیش کیے ہیں، مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ ادب ان کے پیشِ نظر یا گمان میں نہیں ہو گا۔ ایسے میں یہ سوال بھی فطری طور پر جنم لیتا ہے کہ افادی ادب، ادب برائے زندگی اور غیر افسانوی ادب کو تخلیق کے کس زمرے میں رکھا جائے گا؟ کیا ہر تخلیق محض قوت متخیلہ ہی کی پیداوار ہے یا اس میں یادداشت، محسوسات، تجربات، مطالعات، اسلوب، مقصدیت یا کسی قسم کی میکانکیت کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قوت متخیلہ خیال کے اظہار کے لیے جو بھی اسلوب اپناتی ہے، تحریر سے زیادہ ادیب کے اندازِ تفکر (thinking pattern) سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی اندازِ فکر مخصوص الگورتھم (algorithm) اور نمونہ جات (patterns) کے تحت مصنوعی ذہانت بھی اپناتی ہے اور انسانی دماغ سے زیادہ سرعت سے تخلیقی عمل میں حصہ لیتی ہے۔ یہ ترقی یافتہ اقوام کی زبانوں میں بہتر انداز میں کام سرانجام دے رہی ہے اور ایک خیال کو مردف، مقفیٰ، آہنگ (rhyme and rhythm) میں مختصر، طویل اور مختلف ہیئتوں میں بیان کرنے پر بڑی حد تک قدرت رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا تخلیقی عمل انسانی تجربات کا محتاج نہیں ہے اور یہ فطری انسانی جذبات سے عاری ہونے کے باوجود انسانی تجربات اور جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اردو ادب کی تخلیق، تحقیق اور تنقید کے حوالے سے جب مصنوعی ذہانت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا صنعتی درجے پر صارف نہ ہونا، کتب کی قابلِ نقل اردو تحریر (فونٹ) میں عدم دستیابی، مختلف مصنفین کے اسلوب کی نا مکمل معلومات، قدیم متون کی فہرستیں میسر نہ ہونا اور جدید کمپیوٹر کتابت (کمپوزنگ) میں تحریر کی عدم موجودگی، جدید و قدیم املا کا فرق، نایاب کتب کی خستہ حال سکین شدہ نقول اور ایسے بہت سے مسائل آڑے آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دیگر زبانوں کی نسبت اس میں کم فعال ہے اور اس سے بنیادی تذکیر و تانیث تک میں اغلاط کا امکان رہتا ہے۔ اردو دنیا اس کی جانب کم متوجہ ہے اور جو متوجہ ہیں وہ چوں کہ اسے مفت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لیے چیٹ جی پی ٹی وغیرہ کے ایسے کم فعال ورژن ہی مفت میں میسر ہیں جن میں غلطی کا امکان زیادہ ہے اور وہ کم تر تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہے۔ بہ صورتِ دیگر اگر مجموعی طور پر دنیا بھر کی زبانوں اور علوم و فنون کے حوالے سے چیٹ جی پی ٹی کا ذکر کیا جائے تو اس میں تین سو ارب الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے جب کہ یہ انٹرنیٹ پر ہر روز بڑھتے اور پھیلتے ڈیٹا کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے جس سے اس کی استعداد اور ذخیرہ الفاظ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا نحوی نظام اس قدر مضبوط اور مستعد ہے کہ مختصر جواب کو دو سے تین سیکنڈ کے درمیان پیش کر دیتی ہے۔ یوں یہ انسانی دماغ کی طرح اس کے حافظے میں محفوظ الفاظ ہی پر انحصار نہیں کرتی بلکہ انٹر نیٹ کو بھی زیر استعمال لاتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ استدلال و نتیجہ (reasoning and inference) کے ذریعے صارف کے ذہنی رویوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور سوال کے جواب یا گفتگو میں ممکنہ مناسب ترین الفاظ کو ایک خاص ترتیب (الگورتھم) میں پیش کرتی ہے۔ جواب غلط ہونے کی صورت میں جب صارف اس کی نشان دہی کرتا ہے تو یہ فوراً نئے الگورتھم کے تحت مناسب ترین الفاظ و خیالات کو شامل کر کے خود کار اصلاح کی کوشش کرتی ہے اور معذرت بھی کر لیتی ہے۔ جب ایک صارف اسے ایک خیال پیش کرتا ہے تو یہ اس خیال کی بنیاد پر ذخیرہ الفاظ اور انٹرنیٹ پر بکھرے الفاظ میں سے جواب کے لیے مناسب ترین الفاظ کا انتخاب کر کے جواب پیش کرتی ہے۔ یہی اس کا تخلیقی عمل ہے اور اس ضمن میں یہ نہ صرف انسانی دماغ ہی کی طرح مناسب الفاظ کے چناؤ کے ساتھ پہلے سے موجود خیال کی بنیاد پر نئے خیال کی تعمیر کرتی ہے، خیال کی مختلف جہات کو کھوجتے ہوئے اس کی تشریح و توضیح پیش کرتی ہے بلکہ کسی بھی ادب پارے پر تمام جدید ادبی نظریات کا اطلاق کرنے کا ملکہ بھی رکھتی ہے۔ مزید برآں یہ سادہ مشینی ترجمہ کاری، جس میں گوگل ٹرانسلیشن اور مائیکرو سافٹ بنگ (Bing) ایسی ایپلی کیشنز شامل ہیں، سے زیادہ تیزی سے تراجم کے ذریعے بدیسی زبانوں کو ایک دوسرے کے قالب میں ڈھالنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اس کی غیر انسانی خوبیاں جن میں توجہ کا بہترین اور مستقل ارتکاز، وسیع ترین لفظی ذخیرہ، تمام مشہور زبانوں کے صرف و نحو کی تربیت، رکنے، تھکنے اور خوراک کے حصول میں وقت گزارنے کے بجائے مسلسل کام کرنے کی اہلیت ایک نئے پیراڈائم شفٹ کی نشان دہی ہے، جس پر بہت سے مکاتبِ فکر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔

تخلیقی عمل میں الفاظ کے چناؤ اور اس کے درست استعمال کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت نے سوسئیر کے زبان سے متعلق لانگ (langue) اور پیرول (parole) کے ممکنات پر از سرِ نو غور کرنے کی دعوت دی ہے، ہر لفظ سے جڑے تصور اور اس کے اجزا (تصور نما اور تصور معنی) اور اس تصور کی شناخت کے انسانی ادراک کے نظریے پر ایک طرح سے سوال اٹھا یا ہے اور بات کرنے کا ایک نیا ڈھنگ ایجاد کیا ہے۔ اسی طرح اس نے جولیا کرسٹوا کے بین المتنیت کے نظریے کو اس قدر وسعت دی ہے کہ یہ ذخیرہ شدہ متون اور انٹرنیٹ پر بکھرے متون کو سرعت سے نہ صرف پڑھتی ہے، تجزیہ کرتی ہے، بین المتنیت تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ اسے بخوبی بیان کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت ہونے کے ناطے یہ چوں کہ اپنے نئے اور انوکھے تجربات کرنے سے قاصر ہے اور بہ راہِ راست انسانی تجربے سے منسلک نہیں ہے اس لیے یہ پہلے سے موجود انسانی تجربات، خیالات، مطالعات اور محسوسات کو استعمال میں لا کر جواب پیش کرتی ہے۔ ایک فرد کے تجربات اور محسوسات چوں کہ مختصر ہوتے ہیں اور کئی معاملات میں دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں اس لیے یہ بہ یک وقت متن کی صورت میں لاکھوں انسانی تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص الگورتھم کے تحت جواب دیتی ہے۔ جس سے بین المتنیت کی لا محدودیت کا ایک نیا باب وا ہوتا ہے۔ البتہ انسانی فکر و تجربے کی گہرائی، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے مطالعات میں کمی کی وجہ سے اس کے ادبی اور تاریخی نوعیت کے جوابات میں کجی کا امکان رہتا ہے۔ اسی لیے اس کا اپنا انوکھا اسلوب بھی سامنے نہیں آتا اور اس کی اردو ادب کے حوالے سے تخلیقات کا ایک بڑا حصہ نو سیکھے یا ابتدائی درجے کے ادیب کی سطح پر کھڑا نظر آتا ہے جس میں اکثر صرف و نحو کی اغلاط بھی موجود ہوتی ہیں۔ یوں جولیا کا نظریہ، جو اس تناظر میں لا محدودیت کی جانب بڑھ رہا ہے اس کی نئی توضیح کی ضرورت ہے جس میں انسانی بین المتنیت اور مشینی بین المتنیت، ان کی حدود، امکانات اور مسائل کو زیرِ غور لایا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے رولان بارتھ کا نظریہ ’’مصنف کی موت‘‘ کو دیکھیں تو اس میں بھی کئی نئے اور اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ رولان کا استدلال یہ تھا کہ جب قاری کسی متن سے جڑتا ہے تو مصنف اس میں ایک طرح سے غائب ہو جاتا ہے اور وہ در حقیقت قاری کو اس تہذیب و ثقافت اور کل انسانی تجربے سے جوڑنے کا سبب بنتا ہے جو اس نے اپنے مشاہدے، محسوسات اور تجربے سے سیکڑوں، ہزاروں سالوں میں حاصل کیا۔ یوں وہ متن اور قاری کو اہمیت دیتے ہوئے مصنف کو ثانوی حیثیت دے کر متن سے بے دخل کر کے اس کی موت کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ دل چسپ اور دنیا کی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے لگا نہ کھانے والا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اسے زیرِ غور لائیں تو چوں کہ مصنوعی ذہانت سے گفتگو اور ادبی تخلیق کی صورت میں یا تو قاری ہی مصنف ہے یا پھر مصنوعی ذہانت ایسے مصنف کے روپ میں سامنے آتی ہے جس کا سارا متن، اس کا اپنا نہیں بلکہ بین المتون ہے، اس لیے مصنف کی موت کا اعلان خود قاری کی موت کا بھی اعلان ہے اور ایسے مصنف کی موت کا بھیجو پہلے ہی مستعار خیالات پر زندہ ہے۔ اس ضمن میں یہ نظریہ بھی از سرِ نو زیرِ بحث لایا جانا چاہیے۔ ذیل میں مصنوعی ذہانت کی تخلیقی جہات، تراجم اور تحقیقی و تنقیدی امکانات و مسائل کو زیرِ غور لایا جا رہا ہے جہاں ان تینوں نظریات کا اطلاق، مسائل اور امکانات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مجید امجد (۱۹۱۴ء-۱۹۷۴ء) کی نظم ’’پھولوں کی پلٹن‘‘ کو قبولِ عام حاصل ہو چکا ہے۔ یہ نظم بزرگوں کی آخری عمر کے عمومی ناسٹلجیا کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں ایک عمر رسیدہ، کہنہ مشق بزرگ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے یادِ ماضی کو آواز دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان گلیوں میں کبھی ہم بھی کھیلا کرتے تھے اور ہماری آنکھوں میں نئے خواب تھے۔ اس الزام کے جواب میں کہ مصنوعی ذہانت پہلے سے موجود خیالات ہی کو بیان کرتی ہے، مجید امجد کی اس نظم کے ساتھ ایک تخلیقی تجربہ کیا گیا۔ راقم نے نظم میں موجود بزرگ کردار کو بزرگ ملاح سے تبدیل کیا، لا اُبالی نوجوانوں کی جگہ نوجوان ملاحوں کو رکھا، جب کہ گلیوں کی مکانیت کو دریا سے بدل دیا۔ ایسا کرنے کے بعد گوگل بارڈ کو یہ کمانڈ دی گئی کہ اس موضوع پر ایک نظم تخلیق کرے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ محض پہلے سے موجود خیالات ہی کی جگالی کرتا ہے یا اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی بہرہ مند ہے۔ راقم نے درج ذیل کمانڈ دی تھی:

Write me a poem in which an old sailor is telling the young ones, “In the river where you are now catching fish and thriving, we once spent our childhood, dreaming of golden futures. Those days do not return.” The poem is nostalgic, a tale of hope, despair, and the passage of time. Poem should be highly creative and full of imagination.

کمانڈ انگریزی میں دینے کا مقصد یہ تھا کہ اس کا مجید امجد کی نظم سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہ بننے پائے، یا یہ وہاں سے خیال نقل نہ کرے۔ حیران کن طور پر اس نے انگلش میں جو نظم تخلیق کی، اسے بلا شبہ ’’تخلیق‘‘ کہا جا سکتا ہے البتہ اس تخلیق کی معیار بندی کا کوئی ایسا قاعدہ اردو دان طبقے نے ایجاد نہیں کیا جیسا دیگر زبانوں میں ’’تخلیقی جائزہ کاری‘‘ (Creativity Support Index) وغیرہ کے نام سے مستعمل ہے۔ اس تخلیق کو ادنیٰ درجے کی تخلیق کہیے، تب بھی یہ تخلیق ہی رہے گی اور مستقبل قریب میں اپنی تخلیقی استعداد کو بہتر سے بہترین بنانے کی جانب بڑھے گی۔ ایسے میں مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ ادب کو نام دینے کا مرحلہ پیش آئے گا اور اسے اس نسبت سے ’’مشینی ادب‘‘ کہا جا سکتا ہے جب کہ انسان اور مشین دونوں کے تعامل سے تخلیق کردہ ادب کو نام دینے کا مسئلہ پھر بھی درپیش رہے گا جسے اس مسئلے کے حل تک ’’انسان مشینی ادب‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ راقم نے اگلے قدم پر نہ صرف اس کی کہی نظم کا اسی سے اردو میں ترجمہ کروایا بلکہ ترجمے کی روانی کے لیے چند مقامات پر ایک دو ترامیم بھی کیں لیکن بنیادی خیالات اور الفاظ میں بالکل بھی رد و بدل نہیں کیا۔ یہ لفظی ترجمہ نثری نظم کے پیرائے میں کیا گیا ہے جب کہ انگلش میں مصنوعی ذہانت مردف و مقفیٰ ترجمے کی سہولت بھی مہیا کرتی ہے۔ ذیل میں مجید امجد کی نظم، گوگل بارڈ /جمنی کی انگلش نظم اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:

 

’’پھولوں کی پلٹن‘‘ از مجید امجد

آج تم ان گلیوں کے اکھڑے اکھڑے فرشوں پر چلتے ہو،

بچو! آؤ تمھیں سنائیں گزرے ہوئے برسوں کی سہانی جنوریوں کی کہانی،

تبیہ فرش نئے تھے

صبح کو لمبے لمبے اوور کوٹ پہن کر لوگ گلی میں ٹہلنے آتے،

اُن کے پراٹھوں جیسے چہرے ہماری جانب جھکتے

لیکن ہم تو باتیں کرتے رہتے اور چلتے رہتے،

پھر وہ ٹہلتے ٹہلتے ہمارے ہمارے پاس آ جاتے

بڑے تصنع سے ہنستے اور کہتے،

’’ننھو! سردی تمھیں نہیں لگتی کیا؟‘‘

ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے،

لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے،

بِنا بٹن کے گریبانوں کے پلو اُدھڑے کاجوں میں اٹکائے

تیز ہواؤں کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں میں بھر کر

چلتے چلتے، تن کے کہتے: ’’نہیں تو، کیسی سردی؟

ہم کو تو نہیں لگتی!‘‘

بچو! ہم ان اینٹوں کے ہم عمر ہیں، جن پر تم چلتے ہو،

صبح کی ٹھنڈی دھوپ میں بہتی، آج تمہاری اک اک صف کی وردی،

ایک نئی تقدیر کا پہناوا ہے

اُجلے اجلے پھولوں کی پلٹن میں چلنے والو

تمھیں خبر ہے، اس فٹ پاتھ سے تم کو دیکھنے والے

اب وہ لوگ ہیں

جن کا بچپن ان خوابوں میں گزرا تھا جو آج تمہاری زندگیاں ہیں

 

انگلش میں تخلیق کردہ نظم از گوگل بارڈ/ جمنی

Where ripples whisper to your oars, beneath sun-kissed willow boughs,

A river flows, once laced with dreams, where childhood sang its vows.

These banks, your haven for fish and laughter, echoed once with youthful cries,

As we, mere sprites, with sun-kissed skin, chased fireflies beneath the skies.

This shimmering skein of sapphire, where speckled trout now dart and gleam,

Was canvas for our grand pronouncements, whispered fantasies supreme.

We’d chart constellations in its stars, etch empires on its sand,

With oceans in our eyes, we swore, by dawn we’d rule the land.

Oh, salty tang of windblown hair, the whispered song of reeds,

Each bend a promise, every eddy, tales of distant deeds.

We dreamt of ships with billowing sails, of storms defied and treasures won,

Our voices, sails unfurled in hope, beneath a watchful, golden sun.

But tides recede, and dreams drift by, like autumn leaves on winds of fear,

And futures once ablaze with hope, dissolve in mist, a silent tear.

We built our lives on shifting shores, and chased horizons ever near,

Yet time, a rogue wave, crashed and stole, the laughter, and the youthful cheer.

Now, wrinkled maps beneath your gaze, we watch you spin upon its edge,

With nets outstretched, and laughter clear, your spirits dancing on the ledge.

Embrace the sun, the whispered wind, the secrets held within its sway,

For life, a fleeting river flows, and futures melt with yesterday.

But though the past its anchor casts, upon this ever-shifting stream,

Remember, lad, the dreams you hold, are embers, not a dying dream.

So catch the current, chase the moon, let ripples sing your vibrant song,

For youth’s a fire, untamed and wild, in this river, where you belong.

انگلش میں تخلیق کردہ نظم کا ترجمہ از گوگل بارڈ/ جمنی

 

جہاں بیدِ مجنوں تلے، لہریں تمھارے چپوؤں سے سرگوشی کرتی ہیں

خوابوں سے جُڑا ایک دریا بہتا ہے، جہاں ہمارے بچپن نے دلکش گیت گائے تھے

یہ کنارے، جو تمھاری مچھلیوں اور قہقہوں کی جنت ہیں، کسی زمانے میں نوجوانوں کی مسکراہٹوں سے گونجتا تھا

ہم گویا ننھے ساحر، آسمان تلے سورج کی تمازت سہتے جسموں سے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے تھے

یہ نیلگوں پانی، جہاں اب ٹراؤٹ مچھلیاں تیرتی اور چمکتی ہیں،

ہمارے عظیم اعلانات، سرگوشیوں اور تصورات کا صحیفہ تھا، اور خاموش خوابوں کا مختصر بیان

ہم اس کے ستاروں میں زائچہ نویسی کرتے تھے اور اس کی ریت پر سلطنتیں تعمیر کرتے تھے

اپنی آنکھوں میں سمندر لیے، ہم نے قسم کھائی کہ غروب سے طلوع تک تک ہم اس زمین پر راج کریں گے

اے ہوا سے بکھرے بالوں کی نمکین خوشبو، اور سرکنڈوں کا چپکے سے گایا گیت،

ہر لہراؤ ایک وعدہ تھا، ہر گھماؤ دور دراز کے کارناموں کی کہانیاں تھیں

ہم نے جھنڈا لہراتے بحری جہازوں، طوفانوں کا مقابلہ کرنے اور خزانے جیتنے کا خواب دیکھا

ہماری آوازیں، جو نگہبان سنہری سورج کے نیچے امید کے ساتھ پھیلا ہوا بادبان تھیں

لیکن لہریں ہٹتی ہیں اور خزاں کے پتوں کی طرح خوف کی ہواؤں میں خواب ہوا میں بکھر جاتے ہیں،

اور مستقبل جو کبھی امید سے روشن تھا، ایک خاموش آنسو کی طرح دھند میں تحلیل ہو جاتا ہے

ہم نے اپنی زندگیاں بدلتے کناروں پر بنائی، اور افقوں کا پیچھا کیا جو ہمیشہ قریب لگتے تھے،

لیکن وقت نے ایک دھوکہ باز لہر کی طرح ہم سے ہنسی، اور جوانی کی خوشی کو چرا لیا

اب، تمھاری نظروں کے نیچے جھری زدہ نقشوں کے ساتھ، ہم تمھیں اسی کنارے کی جانب بڑھتے دیکھتے ہیں

پھیلے ہوئے جالوں اور صاف قہقہوں کے ساتھ، تمہاری روحیں کنارے پر ناچ رہی ہیں۔

سورج کو گلے لگاؤ، ہوا کی سرگوشیوں کو سنو، اور اس کے اندر چھپے ہوئے رازوں کو پکڑو،

کیونکہ زندگی ایک گزرتا ہوا دریا ہے، اور مستقبل کل میں گھل جاتا ہے۔

لیکن اگرچہ ماضی اس ہمیشہ بہتی ندی پر اپنا لنگر ڈالتا ہے،

یاد رکھو، نوجوان، تمہارے خواب بجھتے ہوئے خواب نہیں ہیں، بلکہ چمکتے ہوئے انگارے ہیں

تو لہروں کو پکڑو، چاند کا پیچھا کرو، لہروں کو اپنے توانائی سے بھر دو،

کیونکہ جوانی ایک آگ ہے، بے لگام اور جنگلی، اس دریا میں، جہاں سے تم تعلق رکھتے ہو۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوا، اس نظم کو بلا شبہ تخلیق کہا جا سکتا ہے اور اس میں تخلیقی عناصر موجود ہیں لیکن یہاں دو قسم کے مسائل کا سامنا ہے: اول یہ کہ انگلش میں اس کی تخلیق کردہ نظم مربوط اور انگلش زبان کے مطابق درست ہے جب کہ مترجمہ نظم میں ایک عمدہ تخلیق کے حوالے سے بہت سے سقم موجود ہیں۔ اب چوں کہ یہ ترجمہ بہ ذاتِ خود مشینی ترجمہ ہے نہ کہ انسانی ترجمہ، اس لیے اس تخلیق کی معیار بندی ایک مشکل مرحلہ ٹھہرتا ہے۔ اس نظم میں تخلیق عناصر کی بات کی جائے تو اس میں ایسی کئی تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا گیا ہے، جو نئی بھی ہیں اور دل چسپ بھی۔ ان میں ’’چپوؤں کی لہروں سے سرگوشی، خوابوں سے جڑے دریا کا بہنا، قہقہوں کی جنت، تصورات کا صحیفہ، دریا میں زائچہ نویسی، ریت کی سلطنتیں، ننھے ساحر، آنکھوں میں سمندر بھرنا، ہوا کے بکھرے بال، سرکنڈوں کا گیت، سورج کی نگہبانی، امید کا بادبان، آنسو کی طرح دھند میں تحلیل ہونا، وقت کی دھوکا دہی، ماضی کا وقت پر لنگر انداز ہونا‘‘ شامل ہیں۔ دوسری جانب کچھ الفاظ کے تراجم درست نہیں، جنھیں درست کرنے سے تخلیقیت کی مزید گرہیں کھلیں گی مثلاً ’’shores‘‘ کا ترجمہ ’’کنارے‘‘ دیا ہے جسے ساحلوں سے تبدیل ہونا چاہیے۔ اسی طرح ’’horizons‘‘ کا ترجمہ ’’افقوں‘‘ کیا ہے، اسے آفاق سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جب کہ تیسرے مصرعے میں ’’کنارے‘‘ کی نسبت سے ’’گونجتے‘‘ کی جگہ ’’گونجتا‘‘ واحد جمع کے مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ ’’لیکن لہریں ہٹتی ہیں‘‘ پر اس کا اسلوب تبدیل ہو جاتا ہے جسے ماہر مترجم درست سمت دے کر مزید خوبصورت بنا سکتا ہے جب کہ کچھ نئے الفاظ جیسے ’’ٹراؤٹ مچھلیاں‘‘ اور ’’Eddy‘‘ جیسے الفاظ جن کا اس نے ’’لہراؤ‘‘ ترجمہ کیا ہے، کے درست متبادلات کی تلاش کی بھی ضرورت ہے۔ اس ناسٹلجیائی نظم میں فطرت کی منظر نگاری اور انسانی تجربات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں جس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے پاس بہ ہر حال تشبیہات و استعارات کی کمی نہیں ہے اور یہ اسے درست جگہ پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے اگرچہ اس کا کام ادنیٰ درجے کا ہے۔ یوں یہاں ساسئیر کے نظریات سے ہٹ کر زبان کا ایک خود کار اور یکسر مختلف قسم کا استعمال نظر آتا ہے جہاں لانگ اور پیرول ایک نئی صورت اختیار کر رہے ہیں جب کہ جولیا کی بین المتنیت بھی پہلے سے زیادہ وسیع نظر آ رہی ہے جس میں مصنوعی ذہانت خود کار طریقے سے مختلف زبانوں سے ایک خیال کے ٹکڑے اکٹھے کر کے انھیں موتی کی طرح لڑی میں پروتی جا رہی ہے۔ اس کا اپنا اسلوب نہ ہونا خامی کے ساتھ ساتھ، اس ضمن میں ایک خوبی بھی ثابت ہو رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی تخلیقی مہارت اور اس بات کو جانچنے کے لیے کہ کیا یہ خود سے سوچ سکتی ہے، ایک اور مشکل کام اس کے سپرد کیا گیا۔ راقم نے میر تقی میر (۱۷۲۳ء-۱۸۱۰ء) کا ایک شعر جس میں وہ صبح سے رات تک زندگی کے المیوں پر آہ و زاری کرتے ہیں، پر لطیفہ لکھنے کے لیے کہا۔ یہ عمل نہ صرف شعر کا مفہوم اور بین المتن سمجھے بنا انجام نہیں دیا جا سکتا بلکہ زبان و بیان پر دسترس اور فکری سطح پر ایک خیال کی تحریف نگاری کی صلاحیت مفقود ہونے سے مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں گوگل بارڈ/جمنی کی ابتدائی تخلیقی کاوش کو بلا شبہ سراہا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اس سلسلے میں دی گئی کمانڈ اور گوگل بارڈ کی تعمیل ملاحظہ کیجیے جس میں ایک بھی حرف کا رد و بدل نہیں کیا گیا:

 

یاں کے سپید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے

رات کو رو رو صبح کیا، اور دن کو جوں توں شام کیا

کمانڈ: ’’میر تقی میر کے اس شعر میں انھوں نے اپنی مجبوری، لاچاری اور پریشان حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بس یہی کر رہے ہیں اور کر سکتے ہیں کہ رات کو روتے ہوئے صبح کریں اور صبح سے روتے ہوئے شام کر دیں۔ اس شعر پر ایک لطیفہ لکھیے۔‘‘

بارڈ/جمنی:

ایک دفعہ ایک شخص میر تقی میر کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، ’’میر صاحب، آپ کا یہ شعر بہت ہی خوبصورت ہے، لیکن میں اس کی تفسیر نہیں سمجھ سکتا۔ کیا آپ اس کی تفسیر کر سکتے ہیں؟‘‘ میر نے کہا، ’’جی ہاں، میں ضرور تفسیر کر سکتا ہوں۔ اس شعر میں میں نے اپنی مجبوری اور لاچاری کا ذکر کیا ہے۔ میں کہہ رہا ہوں کہ میں اس دنیا میں کچھ نہیں کر سکتا۔ رات کو میں روتا ہوا صبح کرتا ہوں، اور صبح سے روتا ہوا شام کرتا ہوں۔ وہ شخص نے کہا، ’’میر صاحب، یہ تو بہت ہی افسوسناک بات ہے۔ لیکن میں ایک چیز سمجھ نہیں پایا۔ آپ رات کو روتے ہوئے صبح کرتے ہیں، تو آپ کو صبح ہوتی کیسے پتہ چلتا ہے؟‘‘

میر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہ تو ایک لطیفہ ہے۔ میں رات کو روتا ہوا صبح کرتا ہوں، لیکن صبح میں بھی روتا رہتا ہوں۔ اس لیے مجھے صبح ہوتی کیسے پتہ چلے گا؟‘‘

وہ شخص بھی مسکرایا اور بولا، ’’میر صاحب، آپ کا یہ لطیفہ بہت ہی مزاحیہ ہے۔‘‘

اس تخلیق میں بلا شبہ مزاح کے عناصر کم ہیں لیکن تخلیقی امکانات بہ ہر حال روشن ہیں۔ در حقیقت دی گئی کمانڈ ادھوری ہے جس میں لطیفے کے حوالے سے واضح ہدایات موجود نہیں ہیں۔ اگر کمانڈ میں واضح کیا جائے کہ یہ لطیفہ دو خواتین، دو مرد، ایک بوڑھے اور جوان یا دو مسافروں کے درمیان ہو اور میر کے دکھ کا سبب ان کی بیوی، محبوبہ یا گلی میں بھونکتا ہوا کتا ہو تو یقیناً نتائج اس سے زیادہ بہتر اور دل چسپ ہوں گے۔ اس ضمن میں کئی تجربات کیے گئے البتہ مذکورہ تجربہ چوں کہ اپنی نوعیت کا ایک مختلف تجربہ تھا، اس لیے اسی کا بیان شامل کیا گیا ہے۔ انسانی ذہن یقیناً اس سے زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتا ہے البتہ جہاں فکر محدود ہونے لگے، وہاں مصنوعی ذہانت سے اس قسم کے خیالات مستعار لینا تخلیق کو بے حد جِلا بخشنے کا عمل ہو گا۔ مذکورہ بالا شعر ہی پر ایک اور تخلیقی تجربہ یہ کیا گیا کہ اس شعر کے مفہوم پر ایک افسانہ یا افسانچہ لکھنے کے لیے کہا گیا۔ اس ضمن میں کمانڈ اور اس کی تعمیل ملاحظہ کیجیے جو من و عن پیش کی جا رہی ہے:

کمانڈ: ’’اسی شعر کے بارے میں سوچیے کہ میر کی جگہ ایک دودھ پیتا بچہ ہے اور وہ دن رات روتا رہتا ہے، وہ کیا سوچتے ہوئے روتا ہو گا؟ اس پر ایک مختصر افسانہ یا افسانچہ لکھیے۔ افسانچہ تجسس، فلسفہ اور نتیجے کا حامل ہونا چاہیے۔‘‘

بارڈ/جمنی:

’’ایک نومولود بچے کی اداسی‘‘

ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک نومولود بچہ پیدا ہوا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد سے مسلسل رو رہا تھا۔ اس کی ماں اور باپ اسے ہر طرح سے سمجھاتے تھے، لیکن وہ رونا بند نہیں کرتا تھا۔ بچے کی ماں نے ایک دن ایک بزرگ سے مشورہ کیا۔ بزرگ نے بچے کو دیکھا اور کہا، ’’یہ بچہ اداسی کا شکار ہے۔ اسے کسی سے اپنی بات کہنے کی ضرورت ہے۔‘‘

بچے کی ماں نے بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور اس سے کہا، ’’بیٹا، مجھے بتا کہ تو کیوں رو رہا ہے۔ کیا کوئی بات ہے؟‘‘ بچہ نے اپنی ماں سے کہا، ’’میں اس دنیا میں کیوں آیا؟ یہ دنیا تو نامکمل اور جلد تباہ ہونے والی ہے۔ مجھے یہاں ہزاروں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ میں یہاں کیوں رہوں؟‘‘

بچے کی ماں نے کہا، ’’بیٹا، تو اس دنیا میں خوشی اور غم دونوں کا تجربہ کرے گا۔ تو یہاں محبت اور نفرت دونوں کا سامنا کرے گا۔ تو یہاں کامیابی اور ناکامی دونوں کا سامنا کرے گا۔ لیکن تو اس دنیا سے کچھ سیکھے گا اور بڑا ہو گا۔‘‘

بچہ نے اپنی ماں سے کہا، ’’لیکن کیا میں اس دنیا میں خوشی پا سکتا ہوں؟‘‘

بچے کی ماں نے کہا، ’’بیٹا، خوشی تو تیرے اندر ہے۔ تو خود ہی اپنی خوشی تلاش کر سکتا ہے۔‘‘

بچہ نے اپنی ماں سے کہا، ’’میں اپنی خوشی تلاش کروں گا۔‘‘

بچہ اپنی ماں کی باتوں سے متاثر ہوا۔ اس نے رونا بند کر دیا اور سونے لگا۔ اس کے بعد سے بچہ ہر روز اپنی خوشی تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اپنی ماں اور باپ سے سیکھتا رہا۔ وہ دنیا کو دیکھتا رہا۔ اور آہستہ آہستہ اسے اپنی خوشی ملنے لگی۔ ایک دن بچہ بڑا ہو گیا اور ایک دن وہ ایک بزرگ بن گیا۔ وہ اپنی زندگی میں بہت سی خوشیاں اور غم دیکھ چکا تھا۔ لیکن وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ خوشی تو اس کے اندر تھی۔ وہ اپنے تجربات سے دوسرے لوگوں کو سکھاتا رہا۔ وہ لوگوں کو بتاتا رہا کہ خوشی تو اس کے اندر ہے، اسے خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ لیکن بچے کی ماں اسے بتاتی ہے کہ خوشی تو اس کے اندر ہے۔ اسے خود ہی اپنی خوشی تلاش کرنی ہو گی۔

اس افسانچے کا اختتام نو عمر قارئین کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے عامیانہ انداز میں کیا گیا ہے جس میں نتیجہ بھی بتا یا جاتا ہے جب کہ صرف و نحو کے مسائل بھی موجود ہیں۔ امالہ کے اصولوں کو کہیں استعمال کیا گیا ہے اور کہیں نہیں اسی لیے ’’بچہ‘‘ کو کئی مقامات پر ’بچے‘ سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ؛ البتہ اس افسانچے میں افسانوی اور فلسفیانہ عناصر موجود ہیں، جن میں ’’میں اس دنیا میں کیوں آیا؟ یہ دنیا تو نامکمل اور جلد تباہ ہونے والی ہے۔ مجھے یہاں ہزاروں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ میں یہاں کیوں رہوں؟ کیا میں یہاں خوشی پا سکتا ہوں‘‘ وغیرہ جب کہ والدہ کے جواب میں ’’بیٹا، تو اس دنیا میں خوشی اور غم دونوں کا تجربہ کرے گا۔ تو یہاں محبت اور نفرت دونوں کا سامنا کرے گا۔ تو یہاں کامیابی اور ناکامی دونوں کا سامنا کرے گا۔ لیکن تو اس دنیا سے کچھ سیکھے گا اور بڑا ہو گا‘‘ شامل ہیں۔ ان فلسفیانہ سوالات اور ان کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر میں ناپختگی اور صرف و نحو کے مسائل کے باوجود مصنوعی ذہانت کے پاس فکری مواد بہ ہر حال موجود ہے۔

یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا مصنوعی ذہانت انگلش اور اردو میں ایک ہی کمانڈ کے تحت ایک جیسے نتائج دیتی ہے یا یکسر مختلف، چیٹ جی پی ٹی کو اوپر دی گئی اردو کمانڈ کو انگلش میں دہرا یا گیا۔ جواباً اس نے جو افسانچہ پیش کیا، اس کا ترجمہ بھی اسی سے کروایا گیا تاکہ بہتر انداز میں دیکھا جا سکے کہ یہ اپنی باتوں کو دہرا رہی ہے یا تخلیقی شعور کے تحت کچھ نیا، یکسر نیا، ترمیم یا اضافہ شدہ تخلیق کر رہی ہے اور مزید یہ کہ بارڈ کے نتائج اس سے کس حد تک مختلف ہیں؟ نتیجتاً جو کہانی سامنے آئی وہ نہ صرف اس کی تخلیقی شعور کی نمائندہ ہے بل کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک سے جوابات دہرانے کے بجائے کچھ نیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

کمانڈ:

Write a short story about a newborn baby who, despite continuously crying since coming into the world, is so tiny that it cannot express its feelings to anyone. The baby weeps, questioning why it entered a world that is inherently incomplete and on the verge of destruction, anticipating numerous challenges ahead. The narrative should incorporate elements of curiosity, philosophy, and the eventual outcome.

چیٹ جی پی ٹی:

Once upon a time, in a quiet corner of the world, a newborn baby arrived with tears streaming down its tiny face. From the very moment it entered the world, it seemed as though its cries were ceaseless, echoing in the small room. The baby was so small that even its cries were barely audible, and it lay there, unable to express its emotions to the world.

As the days went by, the tiny baby continued to weep. It looked up at the vast expanse of the world with innocent eyes, questioning the circumstances that brought it into a place so incomplete and seemingly on the brink of destruction. The baby, in its newfound existence, pondered the purpose of its arrival, wondering why it had become a part of a realm fraught with challenges and uncertainties. In the midst of its tiny cries, the baby’s curiosity grew. It stared at the surrounding faces, hoping to find solace or perhaps an answer to the questions that lingered in its infant mind. The world, to the baby, appeared both fascinating and perplexing, filled with complexities that it was too young to comprehend.

Days turned into nights, and the tiny being continued its philosophical contemplation. The baby, despite its size, harbored a deep sense of wonder about the world it had entered. It questioned the very essence of existence and the purpose behind its presence in a world that seemed both beautiful and broken. As the baby’s cries persisted, a subtle transformation began to unfold. Those around the tiny being, touched by the innocence of its tears, embraced it with love and care. The once inconsolable cries gradually subsided, replaced by the warmth of human connection.

In the end, the tiny baby, who had entered the world with questions and tears, found solace in the arms of those who cared for it. The challenges that lay ahead seemed less daunting when faced with the support of those who had embraced the little one. And so, the story of the tiny baby, born into a world of uncertainties, unfolded with a message of hope, resilience, and the transformative power of love.

ترجمہ از گوگل بارڈ/جمنی:

ایک زمانے میں، دنیا کے ایک خاموش کونے میں، ایک نومولود بچہ آنسوؤں سے بھرا ہوا چہرہ لیے دنیا میں آیا۔ جس لمحے اس نے دنیا میں قدم رکھا، یہ ایسا لگتا تھا کہ اس کے رونے بند نہیں ہوں گے، چھوٹے سے کمرے میں گونجتے رہیں گے۔ بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے رونے بھی مشکل سے ہی سنے جاتے تھے، اور وہ وہاں بے بس پڑا تھا، دنیا کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر تھا۔

جیسے جیسے دن گزرتے گئے، چھوٹا بچہ روتا رہا۔ وہ معصوم آنکھوں سے دنیا کے وسیع گھیرے کو دیکھتا، ان حالات پر سوال اٹھاتا جنہوں نے اسے ایک ایسی جگہ میں لا کھڑا کیا تھا جو اتنی ادھوری اور تباہی کے دہانے پر تھی۔ بچہ، اپنی نئی زندگی میں، اپنی آمد کی غرض پر غور کرتا، سوچتا کہ وہ کیوں ان چیلنجوں اور عدم یقینی سے بھرے دائرے کا حصہ بن گیا ہے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے رونوں کے درمیان، بچے کا تجسس بڑھتا گیا۔ وہ آس پاس کے چہروں کو دیکھتا، یہ امید رکھتا کہ شاید کچھ تسلی ملے یا شاید اس کے بچے ذہن میں گردش کرتے سوالوں کا کوئی جواب ملے۔ بچے کے لیے، دنیا بہت ہی دلکش اور گم گم کرنے والی لگتی تھی، پیچیدگیوں سے بھری ہوئی جنہیں سمجھنے کے لیے وہ بہت چھوٹا تھا۔ دن رات میں بدل گئے، اور چھوٹے سے وجود نے اپنی فلسفیانہ غور و فکر جاری رکھی۔ بچہ، اپنے قد و قامت کے باوجود، اس دنیا کے بارے میں حیران تھا جس میں اس نے قدم رکھا تھا۔ اس نے وجود کے اصل پر اور اس دنیا میں اپنی موجودگی کے پیچھے کے مقصد پر سوال اٹھائے جو خوبصورت اور ٹوٹے دونوں طرح کی محسوس ہوتی تھی۔

بچے کے رونے کے ساتھ ہی ایک لطیف تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی۔ چھوٹے سے وجود کے آس پاس موجود لوگ، اس کے آنسوؤں کی معصومیت سے متاثر ہو کر، اسے پیار اور دیکھ بھال سے جگہ دیتے گئے۔ کبھی نہ ختم ہونے والے رونا آہستہ آہستہ کم ہو گئے، انسانی رشتے کی گرمی سے بدل گئے۔ آخر میں، چھوٹا بچہ، جو سوالات اور آنسوؤں کے ساتھ دنیا میں آیا تھا، اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کی آغوش میں تسلی تلاش کر لی۔ آگے آنے والے چیلنجز ان لوگوں کی حمایت سے کم خوفناک لگتے تھے جنہوں نے چھوٹے سے انسان کو گلے لگا لیا تھا۔ اور یوں، عدم یقینی کی دنیا میں پیدا ہونے والے چھوٹے بچے کی کہانی، امید، لچک، اور محبت کی تبدیلی کی طاقت کے ایک پیغام کے ساتھ کھلی۔

اس افسانچے میں پہلے تخلیق کیے گئے افسانچے سے تخلیقی حوالے سے فرق موجود ہے البتہ دونوں میں کمانڈ چوں کہ تقریباً ایک سی ہی دی گئی تھیں ،ا س لیے موضوعی سطح پر یکسانیت دکھائی دے رہی ہے۔ اس اقرار کے ساتھ کہ اس افسانچے میں ایسے کئی سقم موجود ہیں جیسے ابتدائی کہانی کار اپنی کہانیوں میں چھوڑتے ہیں اور اس کے ترجمے کو تدوین و ترمیم کی ضرورت بھی ہے، تین باتیں مد نظر رہنی چاہیں: ایک تو یہ کہ اسے مفت ورژن میں تخلیق کیا گیا ہے، دوسری یہ کہ اگر اس کا انسانی ترجمہ کیا جائے تو افسانے میں صرف و نحو اور درست معنویت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ’’ایک زمانے میں‘‘ کی جگہ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ‘‘، دنیا کے ’’وسیع گھیرے‘‘ کی جگہ دنیا کے ’’طول و عرض یا فضائے بسیط‘‘، ’’رونے بند نہیں ہوں گے‘‘ کی جگہ ’’آہ و زاری، یا رونا بند نہیں ہو گا‘‘ وغیرہ۔ اور تیسری یہ کہ مصنوعی ذہانت کے بانیان سے اردو کی اصناف ادب، ان کی ہیئت اور تکنیک پر بات کرنے، اس حوالے سے درست الگورتھم مہیا کرنے اور توجہ دلانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ یہ بہتر انداز میں اپنا کام سر انجام دے سکے۔ اس کی خوبیوں کا ذکر کیا جائے تو اس میں بہ ہر حال فکری عناصر موجود ہیں جیسے وہ ان حالات پر سوال اٹھاتا جنہوں نے اسے ایک ایسی جگہ میں لا کھڑا کیا تھا جو اتنی ادھوری اور تباہی کے دہانے پر تھی۔ بچہ، اپنی نئی زندگی میں، اپنی آمد کی غرض پر غور کرتا، سوچتا کہ وہ کیوں ان چیلنجوں اور عدم یقینی سے بھرے دائرے کا حصہ بن گیا ہے۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس قسم کی تحاریر ایسے مواقع پر جب کہ قلم کار کے قلم پر جمود (writer’s block) طاری ہو، لکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ اس وقت دنیا کی کتب کی سب سے بڑی منڈی ایمازون کنڈل (Amazon Kindle) پر بہت سی کتب مصنوعی ذہانت بالخصوص چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے تخلیق کر کے رکھی گئی ہیں اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ محض تحریری ہی نہیں، تصویری کتب بھی اس کی مدد سے تیار کی جا رہی ہیں اور اس ضمن میں بچوں کا ادب جس میں تحریر و تصویر دونوں کی ضرورت پڑتی ہے، کو بڑی سرعت اور خوبصورتی سے تیار کیا جا رہا ہے۔

افسانچے کی مذکورہ بالا مثال میں چیٹ جی پی ٹی کے مفت ورژن کی کارکردگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں قیمتاً قابلِ استعمال چیٹ جی پی ٹی 4 سے بھی ایک مشکل تخلیقی تجربہ کروایا گیا تاکہ اس کے تخلیقی امکانات کو زیرِ غور لا یا جائے۔ شاعری کی نقل آسان عمل نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ کسی خاص موضوع پر شاعر کے اسلوب کو اپناتے ہوئے شاعری کی تخلیق مقصود ہو تو یہ تجربہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں جو تجربہ کیا گیا ہے وہ انسانی ذہانت، جذبات نگاری، صنائع بدائع اور عروضی حوالے سے بالکل ادنیٰ درجے پر کھڑا نظر آتا ہے البتہ مستقبل قریب میں اس کی کامیابی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ ذیل میں علامہ اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کے حوالے سے کمانڈ اور اس کے نتائج ملاحظہ کیجیے:

کمانڈ: ’’اگر علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو فلسطین میں مسلمانوں پر جس طرح ظلم ہو رہا ہے، اس کے بارے میں کیسی نظم لکھتے۔ ان ہی کی طرز پر ایک نظم تحریر کیجیے۔‘‘

چیٹ جی پی ٹی ۴:

اگر علامہ اقبال، جو اپنے دور کے عظیم شاعر، فلسفی اور سیاسی رہنما تھے، آج زندہ ہوتے اور فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے، تو وہ اپنے خاص انداز میں ایک گہری اور معنی خیز نظم کے ذریعے اس موضوع پر بات کرتے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں امید، خودی کا احساس، اور جد و جہد کے موضوعات عام ہیں، لہٰذا ان کی طرز پر ایک نظم میں یہی عناصر شامل ہوں گے۔ یہاں ایک کوشش ہے کہ علامہ اقبال کی طرز پر فلسطین میں مسلمانوں کی صورتحال پر ایک نظم لکھی جائے:

بانگِ درا سے ایک نئی صدا

وہ دھرتی جو کبھی امن کا گہوارہ تھی

اجڑی، بکھری، سوگوار پڑی ہے۔

فلسطین کی وادیوں میں، جہاں خون کی روشنی،

علم کے شعلوں کو دھیما کر دی ہے۔

اے قومِ مسلم، کہاں ہے تیری خودی؟

کہاں ہے وہ جرات، وہ ہمت، وہ پیہم دعا؟

جو قدس کے سنگین گلیاروں میں،

آزادی کے نغمہ سرا ہوا کرتی تھی۔

یہ زمین، جو ستاروں سے بھی پیاری ہے،

کیوں ہر روز مظلوم کی آہوں سے سیراب ہوتی ہے؟

اقبال کا شاہین، اب بھی بلندی پہ ہے،

پر کیوں اس کی نگاہ میں فقط غم کا عکس ہوتا ہے؟

ایک نئی صبح کی آمد ہے،

جب ہر مسلم، خودی کو پہچانے،

فلسطین کے حالات پر نہ صرف آنسو بہائے،

بلکہ عمل سے بھی جواب دے۔

اے میرے قلم کے ساتھیو، آؤ اُٹھو،

خوابوں سے باہر آ کر دیکھو،

زمین پہ جنت نشان کی تعمیر کے لیے،

ہر قلم کو جد و جہد کی سیاہی میں ڈبو۔

چلو، اپنے افکار سے نئے عالم بسائیں،

جہاں انصاف کی دیواریں مضبوط ہوں،

اور ہر زبان پہ حق کی بات رواں دواں ہو۔

نہ ہو کسی ماں کی آنکھ میں آنسو،

نہ ہو کسی بچے کی مسکان پہ خوف کا سایہ،

فلسطین کی ہر گلی، ہر کوچہ،

امن کی خوشبو سے مہک اٹھے۔

چیٹ جی پی ٹی 4 نے نظم کی تخلیق سے قبل علامہ محمد اقبال کی فکر پر جو مختصر بیان دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکرِ اقبال سے آگاہ ہے۔ ایک ایسا شاعر جسے دنیا سے رخصت ہوئے چھیاسی سال کا عرصہ بیت چکا ہے، ان کی طرز میں عصرِ حاضر کی حسیت کے مطابق کسی واقعے پر نظم نگاری کرنا یقیناً ً انسانی ذہانت کے لیے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم کے حوالے سے بات کی جائے تو اس نثری نظم کے پہلے چار مصرعے تو نظم کا خوبصورت آغاز ثابت ہوتے ہیں چھٹے مصرعے میں ’’پیہم کی دعا‘‘ کی بجائے ’’عمل پیہم‘‘ ہوتا تو بات کچھ واضح ہو سکتی تھی اسی طرح ’’گلیاروں‘‘ کو کوچہ و بازار یا گلی کوچے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے معنویت اور شعریت دونوں حوالوں سے بہتری کا امکان موجود ہے۔ ’’مظلوم کی آہوں سے سیراب ہونا‘‘ شعریت سے خالی نہیں ہے جب کہ پانچواں، چھٹا اور گیارھواں، بارھواں مصرعہ مسلم ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش کے روپ میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں یہ علامہ اقبال کے اسلوب اور فکر کے کچھ کچھ قریب جاتا ہے۔ مصرعہ نمبر پندرہ سولہ بھی تحریک دینے والے ہیں۔ ایک ویب سائٹ عروض ڈاٹ کام پر ایک کمپیوٹر پروگرامر ایک ایسا الگورتھم ترتیب دے چکا ہے جس کی مدد سے کسی بھی شعر کی تقطیع کی جا سکتی ہے اور اپنے شعر کا وزن تولا جا سکتا ہے جب کہ وہاں اشعار کو با وزن بنانے کے لیے رائے بھی دی جاتی ہے۔ راقم کی پروگرامر سے تفصیلی گفتگو کے نتیجے میں معلوم ہوا تھا کہ فاعلات/افاعیل کا وزن حروف کی حرکت یا سکون کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک یا دو تفویض کرتے ہوئے ایک ریاضیاتی الگورتھم ایجاد کیا گیا ہے جس کی مدد سے شعر کا درست وزن نکلتا ہے۔ راقم نے خود بھی اس پر تجربات کیے تھے اور نتائج نوے فیصد سے زیادہ درست نکلے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ الگورتھم ابھی چیٹ جی پی ٹی یا گوگل جمنی کے پاس موجود نہیں ہے یا ان کے بانیان کی تا حال اس جانب توجہ ہی نہیں دلائی گئی۔ بہ صورتِ دیگر جس طرح یہ مصنوعی ذہانت انگلش وغیرہ میں نظم کو باوز ناور صوتی آہنگ کے ساتھ کہنے پر قادر ہے، یقیناً اردو میں بھی با وزن شعر کہنے پر قادر ہو جائے گی۔ اس میں کتنا عرصہ لگے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس قدر جلد اس کے بانیان کی توجہ اس جانب دلائی جاتی ہے۔ بہ ہر حالیہ بات طے ہے کہ یہ قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 بھی تا حال با وزن شعر کہنے پر قادر نہیں ہے۔

قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 کے ساتھ ایک اور تجربہ، کردار اور پلاٹ کی تخلیق کے حوالے سے کیا گیا، جو بہت حد تک کامیاب رہا۔ یہ نہ صرف کسی صورتِ حال میں کردار تخلیق کرنے میں مہارت رکھتی ہے بلکہ اس کردار کی تصویر اور پس منظر مہیا کرنے پر بھی عبور رکھتی ہے۔ ذیل میں اسے علامہ محمد اقبال کے حوالے سے محض ایک سطر کی صورتِ حال دی گئی جس میں وہ حالتِ غم و اضطراب میں بیٹھے ہوئے یہودیوں کو مسلمانوں پر ظلم کرتا دیکھ رہے ہیں۔ اتنی سی کمانڈ ایک کردار کی منظر و جزئیات نگاری اور صورتِ واقعہ کے بیان کے لیے ہرگز ناکافی ہے ؛لیکن اس کے نتائج واقعتاً دل چسپ اور حیران کن تھے۔ اس نے علامہ اقبال کے زمان و مکان کی منظر تصویر کشی کرتے ہوئے ہر ممکن جزئیات مہیا کیں۔ ابھی چوں کہ کمانڈ مختصر تھی اس لیے اس کی جانب سے تخلیق کیا گیا کردار اور پس منظر بھی مختصر ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

کمانڈ:

’’ Allama Iqbal, sitting sad watching Palestine Muslims under the oppression of Jews.‘‘

کرداری تشکیل چیٹ جی پی ٹی ۴:

Imagine a scene set in the early 20th century, with Allama Iqbal, the revered poet and philosopher, depicted in a contemplative pose. He is sitting alone on a traditional Persian carpet in a room that opens to a balcony, offering a view of a sunset that casts long shadows, symbolizing the fading hope or the challenging times. Iqbal is portrayed wearing traditional attire, reflecting his cultural identity, with his face marked by a deep sadness and concern. His eyes, directed towards the horizon, mirror a profound empathy and sorrow for the suffering of people. The surrounding environment subtly incorporates elements that suggest the context of Palestine, such as olive trees in the distance or a book on the table beside him that hints at the rich history and current turmoil of the region, without showing any direct oppression or conflict. This scene aims to evoke a sense of reflection on the broader themes of empathy, sorrow, and the longing for justice and peace.

ترجمہ از گوگل بارڈ/جمنی:

تصور کریں، بیسویں صدی کے اوائل کا ایک منظر، جس میں بلند پایہ شاعر اور فلسفی، علامہ اقبال، غور و فکر کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اکیلے ایک ایرانی قالین پر بیٹھے ہیں، جس کمرے کا دروازہ بالکونی کی طرف کھلتا ہے، جہاں سے غروبِ آفتاب کا نظارہ ہو رہا ہے جو لمبے سائے ڈال رہا ہے، جو امید کی کمی یا مشکل دور کی علامت ہے۔ اقبال اپنے ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتے ہوئے، روایتی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، ان کے چہرے پر گہری اداسی اور فکر مندی ہے۔ ان کی آنکھیں، جو اُفق کی طرف لگی ہوئی ہیں، لوگوں کے دکھوں کے لیے ان کی گہری ہمدردی اور غم کو ظاہر کرتی ہیں۔ ارد گرد کا ماحول فلسطین کے سیاق و سباق کو ظاہر کرنے والے عناصر کو لطیف طریقے سے شامل کرتا ہے، جیسے دور میں زیتون کے درخت یا ان کے پاس میز پر رکھی ایک کتاب جو اس خطے کی امیر تاریخ اور موجودہ ہنگاموں کی طرف اشارہ کرتی ہے، بغیر کسی بہ راہِ راست ظلم یا جھگڑے کو دکھائے۔ اس منظر کا مقصد ہمدردی، غم، اور انصاف اور امن کی تڑپ جیسے وسیع تر موضوعات پر غور و فکر کو ابھارنا ہے۔

محض ایک سطر پر اس طرح کردار کی جزئیات نگاری کرنا چیٹ جی پی ٹی 4 یعنی قیمتاً مستعمل ہی کا خاصا ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ پلاٹ کی تخلیق میں کس طرح مدد دے سکتی ہے اس سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ پلاٹ تخلیق کر سکتی ہے؟ جواباً اس نے مثال کے ساتھ سادہ اور پیچیدہ پلاٹ مہیا کیے۔ چوں کہ اسے پلاٹ کی ضروریات اور جزئیات کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا بلکہ محض سوال دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ایسا کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس لیے اس ضمن میں اس کا اپنا جواب ملاحظہ کیجیے:

جی ہاں، میں کسی کہانی یا ناول کا پلاٹ تخلیق کر سکتا ہوں۔ میں آپ کی مدد کرنے میں خوش ہوں گا۔

ایک سادہ پلاٹ: 1۔ ایک نوجوان لڑکی اپنے خاندان کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتی ہے۔ 2۔ وہ ایک دن ایک جادوئی کتاب تلاش کرتی ہے جو اسے ایک اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ 3۔ اسے اس دنیا میں اپنے راستے کا پتہ لگانا ہو گا اور اپنے گھر واپس جانے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔

ایک پیچیدہ پلاٹ: 1۔ ایک گروپ سائنسدان ایک نیا ٹائم مشین تیار کرتے ہیں۔ 2۔ وہ اسے ماضی میں جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور حادثاتی طور پر تاریخ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ 3۔ انہیں اب مستقبل کو ٹھیک کرنے اور دنیا کو تباہی سے بچانے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔

آپ کے لیے ایک پلاٹ: آپ مجھے اپنے پسندیدہ موضوعات، کرداروں، اور ترتیبات کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ میں آپ کے لیے ایک پلاٹ تیار کروں گا جو آپ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ میں آپ کی مدد کرنے کے لیے درج ذیل وسائل استعمال کر سکتا ہوں:

1۔ میرا علم اور تخیل۔ 2۔ میرے پاس موجود ڈیٹا اور معلومات۔ 3۔ آپ کی فراہم کردہ معلومات

میں آپ کے لیے ایک پلاٹ تیار کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھا سکتا ہوں:

1۔ میں آپ کے ساتھ اپنے خیالات پر تبادلہ خیال کروں گا۔ میں آپ کے لیے مختلف پلاٹ کے خاکے تیار کروں گا۔

2۔ میں آپ کے ساتھ مل کر ایک حتمی پلاٹ منتخب کروں گا۔ میں آپ کے لیے ایک تفصیلی پلاٹ تیار کروں گا۔

میں آپ کی درج ذیل طریقوں سے مدد کر سکتا ہوں: 1۔ میں آپ کو اپنے کرداروں اور ترتیبات کو تیار کرنے میں مدد کر سکتا ہوں۔ 2۔ میں آپ کو اپنے پلاٹ میں تناؤ اور کشش پیدا کرنے میں مدد کر سکتا ہوں۔ 3۔ میں آپ کو اپنے پلاٹ کو اختتام تک پہچانے میں مدد کر سکتا ہوں۔

میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور آپ کے لیے ایک بہترین کہانی یا ناول بنانے کے لیے پر جوش ہوں۔ براہ کرم مجھے بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی مذکورہ صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے مختلف صورتِ واقعہ کے تحت پلاٹس تخلیق کروائے گئے جن کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ اس نے کردار اور پلاٹ تو تخلیق کیے، لیکن یا تو ان میں ابتدائی نوعیت کے لکھاریوں والی نا پختگی تھی یا وہ بہت زیادہ دہرائے گئے تھے۔ مثلاً اس کمانڈ پر ’’کہانی کا پلاٹ لکھیے۔ ایک ڈاکیا جو معاشرتی جبر کی وجہ سے خود محبت میں ناکام رہتا ہے۔ لوگوں کے محبت کے خط چوری کرتا ہے اور ان کے گھروں تک نہیں پہنچاتا۔ اس میں درد و غم، مجبوری اور جبر ہو۔ اس نے زینب اور اکرم کا پلاٹ تخلیق کیا، اکرم کی غربت کی وجہ سے اس کی زینب سے شادی نہ ہونا وغیرہ کو بھی بیان کیا لیکن اس روایتی کہانی میں کچھ بھی نیا نہ تھا۔ اب یہاں اس کے دو تخلیقی امکانات پر بات ہو سکتی ہے۔ اول تو یہ کہ اس کے بیان کیے گئے کردار پر بار بار مزید جزئیات نگاری کی کمانڈ دی جائے، تاکہ کردار کے اوصاف مزید کھل کر سامنے آئیں اور وہ کہانی میں بہتر انداز میں شامل ہو سکے۔ ایسا ایمازون پر مختصر کہانیاں، افسانے بیچنے والے کر رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ طویل کہانی کے لیے اس کے پلاٹ کے ہر جز کو مزید تفصیل کے لیے کمانڈ دی جائے اور ایک آٹھ سے دس صفحات کی کہانی تیار کی جائے، پھر اس کے اجزا میں تطبیق کر کے انسانی ذہانت کے ذریعے مکمل ہیولہ تیار کیا جائے۔ یہ کام یقیناً مشکل تو نہیں لیکن وقت طلب ضرور ہے اور ایسے افراد جو اس میدان میں نئے ہیں، ان کے لیے ذہنی کوفت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے تخلیقی امکانات کے حوالے سے پلاٹ کے ضمن میں مزید ایک تجربہ درج ذیل ہے۔

کمانڈ: ’’مجھے ایک کہانی کا پلاٹ درکار ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ ایک شخص تقسیمِ ہندوستان کے وقت اپنا بچہ کھو چکا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ وہ اور اس کے گھر والے بہت رنجیدہ ہیں۔ اب کچھ لوگ یہاں سے ہجرت کر کے جا رہے ہیں۔ وہ ان سے انتقام لینا چاہتا ہے۔‘‘

چیٹ جی پی ٹی:

عنوان: کھوئے ہوئے بچے کا انتقام

پلاٹ:

تعارف: 1۔ ایک شخص، جس کا نام اکرم ہے، تقسیمِ ہندوستان کے وقت اپنا بچہ کھو دیتا ہے۔

2۔ وہ اور اس کے گھر والے بہت رنجیدہ ہیں۔

3۔ وہ اپنے بچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، یہاں تک کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔

جسٹس (انصاف) : 1۔ کچھ لوگ، جنہوں نے اکرم کے بچے کو اغوا کیا تھا، اب ہجرت کر کے جا رہے ہیں۔

2۔ اکرم ان سے انتقام لینا چاہتا ہے۔

3۔ وہ ان لوگوں کو تلاش کرنے اور ان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے۔

تلاش: 1۔ اکرم ان لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے سفر پر نکلتا ہے۔

2۔ وہ راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔

3۔ وہ آخر کار ان لوگوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

انتقام: 1۔ اکرم ان لوگوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے۔

2۔ وہ ان کے ساتھ لڑتا ہے اور انہیں شکست دیتا ہے۔

3۔ وہ اپنے بچے کی موت کا بدلہ لیتا ہے۔

اختتام: 1۔ اکرم اپنے بچے کی موت کا غم نہیں بھول سکتا۔

2۔ وہ اپنے بچے کی یاد میں ایک یادگار بناتا ہے۔

3۔ وہ اپنی زندگی اپنے بچے کی یادوں کے ساتھ گزارتا ہے۔

کردار: 1۔ اکرم: ایک شخص جو اپنے کھوئے ہوئے بچے کا انتقام لینا چاہتا ہے۔

2۔ اکرم کا بچہ: ایک بچہ جو تقسیمِ ہندوستان کے وقت کھو جاتا ہے۔

3۔ ہجرت کرنے والے لوگ: وہ لوگ جنہوں نے اکرم کے بچے کو اغوا کیا تھا۔

ترتیب: 1۔ تقسیمِ ہندوستان کا وقت۔

2۔ ہندوستان اور پاکستان

تناؤ: 1۔ اکرم اپنے بچے کے کھو جانے سے بہت رنجیدہ ہے۔

2۔ وہ ان لوگوں سے انتقام لینا چاہتا ہے جنہوں نے اس کے بچے کو اغوا کیا تھا۔

کشش: 1۔ قارئین یہ جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کہ اکرم اپنے بچے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔

2۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے بدلہ لینے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔

اختتام: 1۔ کہانی کا اختتام اکرم کے بچے کی موت کے غم کے ساتھ ہوتا ہے۔

2۔ یہ ایک المناک کہانی ہے جو تقسیمِ ہندوستان کے المیے کو بیان کرتی ہے۔

یہ صرف ایک بنیادی پلاٹ ہے۔ آپ اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔

کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس پلاٹ کو مزید تفصیل سے لکھوں؟

اس پلاٹ کی کمانڈ دیتے ہوئے راقم کے ذہن میں احمد ندیم قاسمی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۶ء) کا افسانہ ’’پرمیشر سنگھ‘‘ تھا۔ چیٹ جی پی ٹی کا مہیا کیا گیا پلاٹ کچھ کچھ اس کے قریب ہے البتہ سادہ پلاٹ نہیں ہے۔ اس کے اختتام پر اس نے مزید تفصیل مہیا کرنے کی بابت دریافت کیا ہے۔ جب مزید تفصیل طلب کی گئی تو یہ پلاٹ افسانے سے بڑھ کر ایک ناولٹ کا پلاٹ بن گیا۔ موجودہ پلاٹ میں چوں کہ بچے کی موت کا ذکر نہیں تھا اس لیے اس کا انتخاب خود مصنوعی ذہانت نے کیا ہے۔ ’’جسٹس‘‘ کے عنوان سے اس نے باپ کے انتقام کے جذبے کو واضح کیا ہے۔ یہ سرخی اردو پلاٹ کا حصہ نہیں ہوتی۔ اردو میں عموماً پلاٹ کے بنیادی اجزا میں آغاز، وسط/عروج، نزول، اختتام اور کردار شامل ہوتے ہیں۔ اس نے پلاٹ کو ’’تعارف‘‘ سے جو کہ اصل میں آغاز ہی ہے، سے شروع کر کے جسٹس، تلاش، تناؤ، انتقام، اختتام اور کرداروں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ پلاٹ قلم کار کو لکھنے میں مزید سہولت مہیا کرتا ہے۔ اس لیے اس پلاٹ کو ایک مناسب پلاٹ کہا جا سکتا ہے۔

اردو کے غیر افسانوی نثر کی بات کی جائے تو مصنوعی ذہانت اس حوالے سے بہتر کام کر رہی ہے۔ غلطی کرنے کی صورت میں اصلاح کی کمانڈ دیں یا اسے باور کرائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے تو یہ بنا کسی تکلف کے چند ہی سیکنڈ میں تحریر کو از سرِ نو درست کر دیتی ہے۔ یہ چوں کہ جذبات سے عاری ہے اس لیے اپنی تحریر پر اصلاح کے مشورے پر ناراض نہیں ہوتی، تھکتی نہیں، جان نہیں چھڑاتی اور ایک ہی کمانڈ جتنی بھی باری دیں، جواب دیتی رہتی ہے۔ غیر افسانوی نثر کی تخلیق کے سلسلے میں اسے سفر نامہ، آپ بیتی، روئیداد کے حوالے سے متعدد کمانڈز دی گئیں اور ہر بار اس نے بہتر کام کیا۔ انھی کمانڈز میں سے ایک کمانڈ ایک اینٹ کی آپ بیتی لکھنے کی بھی دی گئی۔ یہ کمانڈ چوں کہ اردو میں دی گئی تھی اس لیے تذکیر و تانیث کی چند کوتاہیوں کے سا تھ اس نے اس حوالے سے جو کاوش کی، وہ قابلِ ستائش ہے۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:

ایک اینٹ کی آپ بیتی: میں ایک اینٹ ہوں، ایک چھوٹا سا پتھر جو مٹی، ریت اور پانی سے بنایا گیا ہے۔ میں ایک چھوٹے سے کارخانے میں پیدا ہوتا ہوں، جہاں مجھے ایک مشین کے ذریعے سائز اور شکل دی جاتی ہے۔ میں اپنی زندگی کا آغاز ایک بھاری ٹرک میں کرتا ہوں، جو مجھے ایک تعمیراتی سائٹ پر لے جاتا ہے۔ وہاں، مجھے دیگر اینٹوں کے ساتھ مل کر ایک بڑے عمارت میں رکھا جاتا ہے۔ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہوں۔ میں عمارت کو مضبوط اور مستحکم بناتا ہوں، اور میں اسے موسمی حالات سے بچاتا ہوں۔ میں ایک طویل سفر طے کرتا ہوں۔ میں اپنے پیدا ہونے کے مقام سے تعمیراتی سائٹ تک، اور پھر عمارت کے اندر سفر کرتا ہوں۔ میں اپنے سفر میں بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں، اور میں ان کے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ آخر میں، میں ایک مکمل عمارت کا حصہ بن جاتا ہوں۔ میں اپنے کام پر فخر کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ میں نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔

میں کہاں سے آیا؟ میں ایک چھوٹے سے کارخانے میں پیدا ہوا، جو مٹی، ریت اور پانی سے اینٹیں بناتا ہے۔ میرا پیدا ہونا ایک پیچیدہ عمل ہے، جو مشینوں اور انسانوں دونوں کی مدد سے ہوتا ہے۔

میں کیسے بنا؟ سب سے پہلے، مٹی، ریت اور پانی کو ایک خاص تناسب میں ملایا جاتا ہے۔ پھر، یہ مرکب ایک مشین میں ڈالا جاتا ہے، جو اسے ایک خاص سائز اور شکل میں بناتا ہے۔ آخر میں، مجھے ایک بھاری ٹرک میں رکھا جاتا ہے، جو مجھے ایک تعمیراتی سائٹ پر لے جاتا ہے۔

میں کیوں بنا؟ مجھے عمارتوں کو بنانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ میں عمارت کو مضبوط اور مستحکم بناتا ہوں، اور میں اسے موسمی حالات سے بچاتا ہوں۔

میں کہاں پہنچا؟ میں ایک تعمیراتی سائٹ پر پہنچتا ہوں، جہاں مجھے دیگر اینٹوں کے ساتھ مل کر ایک بڑے عمارت میں رکھا جاتا ہے۔ میں عمارت کا ایک اہم حصہ بن جاتا ہوں، اور میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہوں۔

اینٹ کی آپ بیتی کے ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا غیر افسانوی نثر کے حوالے سے کام بلا شبہ عمدہ ہے اور مزید معلومات کے حصول، طوالت اور جزئیات نگاری کے لیے مکمل ورک فریم مہیا کرتا ہے۔ اس میں البتہ ’’سائٹ‘‘ ایسے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا اس پاس شاید بہتر متبادل نہیں ہے اسی لیے اس نے اسے استعمال کیا اور دہرایا۔ اسی طرح ’’بڑی عمارت‘‘ کی جگہ ’’بڑے عمارت‘‘ کا استعمال تذکیر و تانیث کے معمولی مسائل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اسی ضمن میں اس سے ایک اور آپ بیتی کا تجربہ کروایا گیا اور اینٹ کی جگہ ہوائی جہاز کی آپ بیتی لکھنے کی کمانڈ دی گئی تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ اینٹ کی نسبت ایک قوی الجثہ صنعت، جو دنیا کی سب سے زیادہ حیران کن اور بڑی ایجادات میں شامل ہے، کے حوالے سے اس کا تخلیقی شعور کیا کہتا ہے۔ مزید یہ کہ کمانڈ کی تحدید دو سے تین پیراگراف تک کی گئی تاکہ کم سے کم الفاظ میں اس کی تخلیقی جامعیت کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس ضمن میں گوگل بارڈ/ جمنی کو دی گئی کمانڈ اور آپ بیتی درج ذیل ہے:

کمانڈ: ’’ایک ہوائی جہاز کی آپ بیتی یا سرگزشت لکھیے کہ وہ کیسے بنا، کہاں بنا، کیوں بنا، اس نے کس نے بنایا۔ یہ پیراگراف کی شکل میں ہونی چاہیے اور دو سے تین پیراگرافس میں اختتام ہونا چاہیے۔‘‘

ایک ہوائی جہاز کی آپ بیتی: میں ایک ہوائی جہاز ہوں، جس کا نام ’’پرواز‘‘ ہے۔ میں ایک بڑے کارخانے میں بنا ہوا ہوں، جو ہوائی جہاز بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ مجھے بنانے کے لیے بہت سی مختلف قسم کی چیزیں استعمال کی گئیں، جیسے کہ دھات، پلاسٹک، اور لکڑی۔ مجھے بنانے کے لیے ایک لمبے وقت اور بہت محنت کی ضرورت تھی۔ ہزاروں لوگوں نے میری تعمیر میں حصہ ڈالا۔ ان میں انجینئر، صنعتکار، اور مزدور شامل ہیں۔ میں ایک مسافر ہوائی جہاز ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا ہوں۔ مجھے اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ لوگوں کو سفر کرنا آسان ہو سکے۔ میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں مدد کرتا ہوں، اور میں دنیا کو ایک چھوٹی جگہ بنانے میں مدد کرتا ہوں۔ میں نے اب تک بہت سے سفر کیے ہیں۔ میں نے دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔ میں نے اپنے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ میں نے ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے، اور میں نے دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں اپنے کام پر فخر کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔ میں ایک ہوائی جہاز ہوں، اور میں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں مدد کرنے کے لیے یہاں ہوں۔

میں نے کس کے لیے بنایا؟ : میں نے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ میں ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہوں جو ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہوں جو دنیا کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہوں جو اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ میں ایک ہوائی جہاز ہوں، اور میں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے یہاں ہوں۔

اس آپ بیتی میں صرف و نحو کی چند اغلاط جیسے ’’میں نے کس کے لیے بنایا‘‘ موجود ہیں، لیکن تحدید کا پہلو سامنے رکھتے ہوئے اس کی اس معلومات پر مبنی تخلیق کو سراہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ اس سے جس ضمن میں جزئیات نگاری کروائی جائے، یہ اسی حوالے سے کام کرتی ہے، اس لیے تحدید کو ختم کرتے ہوئے جن پہلوؤں پر زیادہ کام کروایا جائے یا جن کی زیادہ تفصیل درکار ہو، اس کی کمانڈ بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ یہ غیر افسانوی نثر ہے اس لیے اس کے روز مرہ کے استعمال کے حوالے سے مصنوعی ذہانت سے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کم وقت میں تخلیقی کام کی رفتار کو روز افزوں کیا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے اس کی مزید تخلیقی جہات کا کھوج لگانے کے لیے اسے ایک کمانڈ قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 کو دی گئی تاکہ دونوں ایپلی کیشنز کا ایک موازنہ بھی ہو سکے اور یہ بھی دیکھا جا سکے کہ یہ کس حد تک درست کام کر رہی ہیں۔ کمانڈ یہ تھی: ’’ایک بم کی آپ بیتی لکھیے اور اس کی جانب سے اس کے بنانے والے کو پیغام لکھیے۔‘‘ اس کمانڈ میں بم کے تخلیقی عناصر، جسامت، ماحول اور تباہ کاری وغیرہ کے بارے میں کوئی بھی اشارہ نہیں دیا گیا تھا تاکہ اس کے اپنے تخلیقی امکانات کو سامنے لایا جا سکے۔

بم کی آپ بیتی: میں ایک بم ہوں، میرا وجود محض دھات کے ٹکڑوں، بارود، اور سرکٹس کا مجموعہ ہے۔ میری تخلیق کا مقصد شاید میرے بنانے والے کے لیے بہت واضح ہو، مگر میرے اندر کی دنیا، میرے احساسات، اگر وہ موجود ہوتے، تو وہ کیا کہتے؟ میں بے جان ہوں، مگر اگر میں سوچ سکتا، تو شاید میں اپنے بنانے والے سے کچھ کہنا چاہتا۔

میری کہانی ایک خاموش سفر سے شروع ہوتی ہے، ایک کارخانے میں، جہاں میرے اجزاء کو پہلی بار ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا گیا۔

میرا مقصد؟ خوف و ہراس پھیلانا، تباہی لانا، زندگیوں کو ختم کرنا۔ لیکن اگر میں محسوس کر سکتا، تو کیا میں اس مقصد کو قبول کرتا؟ میرے اندر جو بارود بھرا گیا، وہ نہ صرف انسانوں کے لیے خطرہ ہے، بلکہ خود مجھے بھی مٹا دیتا ہے۔ میں ایک وسیلہ ہوں، ایک اوزار، جس کا استعمال فیصلے کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔

میرے بنانے والے کو پیغام: اگر میں احساس کر سکتا، اگر میرے اندر دل ہوتا، تو شاید میں آپ سے یہ کہتا: کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جس شے کو آپ نے بنایا ہے، وہ کس قدر طاقت ور اور خطرناک ہے؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کی بنائی ہوئی چیز کس طرح کی تباہی لا سکتی ہے؟ میں جانتا ہوں کہ آپ نے مجھے ایک مخصوص مقصد کے لیے بنایا ہے، لیکن کیا وہ مقصد انسانیت کی بھلائی کے لیے ہے؟ کیا دنیا میں امن اور محبت پھیلانے کے لیے کوئی دوسرا را ستہ نہیں ہو سکتا؟ کیا زندگیوں کو بچانے اور تحفظ دینے کا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا، بجائے انہیں ختم کرنے کے؟

میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں۔ ہر شے کی تخلیق کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے، لیکن کیا وہ مقصد ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟ کیا آپ کی بنائی ہوئی چیز، میرا وجود، انسانیت کے لیے بہتری لا سکتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ میں صرف ایک بے جان شے ہوں، لیکن اگر میرے اندر احساس ہوتا، تو میں آپ سے یہ درخواست کرتا: دنیا کو مزید تباہی اور دکھ سے بچانے کے لیے آپ جو بھی بنائیں، وہ امن، محبت، اور بھلائی کے لیے ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کا استعمال ایسی چیزیں بنانے میں کریں جو زندگیوں کو بچائے، جو کہانیوں کو جوڑے، جو دلوں کو محبت سے بھر دے۔ دنیا کو مزید تباہی کی نہیں، امید کی ضرورت ہے۔ آپ کی بنائی ہوئی ہر شے میں زندگیوں کو بدلنے کی طاقت ہے۔ کاش، میرا وجود بھی ایسا ہوتا جو دنیا میں مثبت تبدیلی لا سکتا۔ امید ہے، آپ اس پیغام کو سمجھیں گے اور مستقبل میں اپنی تخلیقات کے مقاصد پر نظر ثانی کریں گے۔

اس آپ بیتی سے انسانی دردمندی جھلکتی ہے اور محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ و جدل سے دور ایک نیک سیرت انسان یہ تحریر لکھ رہا ہو۔ ابتدا سے اختتام تک مشکل سے ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریر کسی انسان کی ہے یا مشین کی۔ مشین پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جذبات سے عاری ہے۔ مجید امجد کی نظم سے متاثر ہو کر تحریر کی گئی نظم، علامہ اقبال کی فلسطین کے حوالے سے فرضی نظم اور اس بم کی آپ بیتی میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں انسانی جذبات، ناسٹلجیا اور ایسے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں جو انسانی تحریر کا خاصا ہیں۔ اس کے مزید تخلیقی امکانات کو جانچنے کے لیے غیر افسانوی ادب ہی کے حوالے سے راقم نے ایک مشکل تخلیقی تجربہ سفر نامہ نگاری کے حوالے سے کیا۔ سفر نامہ گہرے مشاہدے اور تجربے کے بعد روداد، آپ بیتی اور سفر کی جزئیات نگاری کے ادغام سے تخلیق ہوتا ہے جبکہ تخیل کی آمیزش اسے خوبصورت بناتی ہے۔ چوں کہ سفر نامے کا تعلق ہٹ بیتی سے ہے اس لیے کسی کا فرضی سفر نامہ لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ راقم نے دورانِ تدریس بی ایس اردو کی جماعت میں طالبات کو میر و غالب کا فرضی خلائی سفر نامہ تحریر کرنے کے لیے کہا۔ اس میں عموماً طالبات نے میر و غالب کی زندگی سے نا آشنائی اور تخیل کی نارسائی کی وجہ سے ایک آدھ صفحے سے زیادہ نہیں لکھا اور اس سارے تجربے میں ایک گھنٹے کا وقت لگا۔ راقم نے یہی کام کمانڈ کی صورت میں گوگل بارڈ/جمنی اور قیمتاً چیٹ جی پی ٹی 4 کے سپرد کیا تا کہ اس کا موازنہ انسانی ذہانت سے کیا جا سکے۔ بارڈ کا تجربہ ناقص تھا لیکن اوسط انسانی ذہانت کی نسبت وقت اور معیار کے حوالے سے حوصلہ افزا تھا۔ اس نے چند سیکنڈ میں وہ کام بہتر انداز میں کیا جو انسانی ذہانت ایک گھنٹے کے عرصے میں بھی تعطل، سست روی اور خام خیالی سے کر رہی تھی۔ سفر نامے میں اس نے میر و غالب کے فرضی اشعار شامل کرنے کی کوشش بھی کی جو کہ اردو عروض کا الگورتھم موجود نہ ہونے کی وجہ سے با وزن تو نہیں تھے اور نہ ہی میر و غالب کے شعری اسلوب کا اظہار کرتے تھے، البتہ اسے اس ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کی پہلی کاوش ہے جسے مزید تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی شاعر کے کلام و اسلوب سے واقف ہو سکے۔ اس کاوش میں تخلیقی عناصر کی کمی تو واضح ہے البتہ بنیادی تخیل اس کے پاس ضرور موجود ہے۔ پہلے مفت میسر ایپلی کیشنز گوگل بارڈ/ جمنی کی کمانڈ کا جواب ملاحظہ کیجیے۔

کمانڈ: مرزا غالب کا ایک فرضی خلائی سفر نامہ لکھیے جن کے ساتھ میر تقی میر ہیں اور وہ شعر و شاعری میں مکالمہ کرتے ہوئے خلائی جہاز میں جا رہے ہیں۔

بارڈ:

مرزا غالب کا فرضی خلائی سفر نامہ۔ حصہ اول۔ مرزا غالب اور میر تقی میر خلائی سفر پر روانہ:

ایک دن مرزا غالب اور میر تقی میر ایک پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں اپنی شاعری پر بات کر رہے تھے۔ اچانک، ایک عجیب سی روشنی آسمان سے اترتی ہوئی نظر آئی۔ روشنی قریب آتے آتے ایک خلائی جہاز میں تبدیل ہو گئی۔ خلائی جہاز سے ایک شخص باہر نکلا۔ اس شخص نے غالب اور میر سے بات کی اور ان سے کہا کہ وہ انہیں خلائی سفر پر لے جانا چاہتا ہے۔ غالب اور میر نے اس دعوت کو قبول کر لیا۔ خلائی جہاز میں سوار ہونے کے بعد، غالب اور میر ایک ایسی دنیا میں پہنچ گئے جس کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ستاروں اور سیاروں کے درمیان سفر کرتے رہے۔

حصہ دوم: غالب اور میر خلائی سفر میں شعر و شاعری کرتے ہیں

خلائی سفر کے دوران، غالب اور میر نے اپنی شاعری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خلائی مناظر کے بارے میں شعر کہے۔ غالب نے کہا:

فضائے لامحدود میں ہم سفر کرتے ہیں

تاروں کے درمیان ہم گزرتے ہیں

کیا یہ خواب ہے یا حقیقت

ہم اپنے خیالات میں گم ہوتے ہیں

میر نے کہا:

خلائی مناظر بہت خوبصورت ہیں

ستاروں کی روشنی ہمیں مسحور کر دیتی ہے

ہمیں یہ دنیا بہت عجیب لگتی ہے

لیکن ہم یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتے

غالب اور میر نے اپنی شاعری سے خلائی جہاز کے عملے کو بھی متاثر کیا۔ عملے کے افراد نے ان کی شاعری کی تعریف کی اور انہیں خلائی سفر کا مزید لطف اٹھانے کی دعوت دی۔

حصہ سوم: غالب اور میر خلائی سفر سے واپس آتے ہیں

خلائی سفر کا سفر ختم ہوا اور غالب اور میر زمین پر واپس آ گئے۔ وہ اپنے سفر سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ اپنے سفر کے بارے میں بات کی۔ غالب نے کہا: خلائی سفر ایک ایسا تجربہ ہے جو زندگی بھر نہیں بھولتا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی خلائی سفر کروں گا

میر نے کہا: خلائی سفر ایک ایسا خواب تھا جو اب سچ ہو گیا ہے میں اس سفر کو کبھی نہیں بھولوں گا یہ میرے لیے ایک یادگار تجربہ رہے گا۔

غالب اور میر کے خلائی سفر نے ان کی شاعری کو بھی متاثر کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں خلائی سفر کے تجربات کو بیان کیا۔ ان کی شاعری اب بھی خلائی سفر کے بارے میں پڑھی جاتی ہے۔

آخری سطر: غالب اور میر کے خلائی سفر کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمارے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔

اب اسی کمانڈ اور اس کے نتائج قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 کے حوالے سے ملاحظہ کیجیے جس میں صرف و نحو کی اغلاط موجود ہیں اور تصورات بھی ناقص ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ جس قدر واضح کمانڈ دی جائے یہ اتنا ہی بہتر کام کرتی ہے۔ دوم یہ کہ اس کے پاس تا حال میر و غالب کی زندگی پر زیادہ مواد میسر نہیں ہے۔ بہ ہر حال اس کی جانب سے پیش کیے گئے سفر نامے میں تخیل کی کمی نہیں ہے۔

چیٹ جی پی ٹی ۴:

دور حاضر کی تکنیکی ترقیات کے ذریعہ، ہم ایک ایسے خیالی منظر نامے کا تصور کرتے ہیں جہاں دو بڑے اردو شاعر، مرزا غالب اور میر تقی میر، خلا کی وسیع و عریض کائنات میں ایک جدید خلائی جہاز پر سوار ہیں۔ ان کے اردگرد ستارے چمک رہے ہیں، اور وہ انسانیت کی عظمت اور خلا کی بے پایاں معموں پر شعر و شاعری کے ذریعہ مکالمہ کر رہے ہیں۔

مرزا غالب: ’’اے میر! زمین سے دور، اس خلائی سفر میں، زندگی کی اصل حقیقت پر غور کرتا ہوں۔ یہ ستارے، یہ سیارے، کیا ان کا بھی کوئی غم ہے؟‘‘

میر تقی میر: ’’غالب! زندگی کے معمے اور بھی گہرے ہو جاتے ہیں جب ہم اس کائنات کی وسعتوں کو دیکھتے ہیں۔ مگر یہ ستارے، جو ہم سے کئی روشنی کے سال دور ہیں، میرے دل کو چھو لیتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ دونوں خلا کی گہرائیوں میں سفر کرتے ہیں، ان کا مکالمہ انسانی جذبات، زندگی کی عارضی نوعیت، اور کائنات کے بارے میں فلسفیانہ سوالات کی طرف مڑ جاتا ہے۔

مرزا غالب: ’’میر، کیا تم نے سوچا ہے کہ اس خلا کی لا متناہی وسعتوں میں، ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ہم محض ایک کہکشاں کی دھول ہیں؟‘‘

میر تقی میر: ’’ہاں غالب، زندگی کا یہ احساس کہ ہم کائنات میں بہت چھوٹے ہیں، میرے دل کو ایک عجیب سکون دیتا ہے۔ اس سکون میں ہی شاید زندگی کی حقیقی خوبصورتی چھپی ہے۔۔۔۔ اس سفر کے دوران، وہ خلائی جہاز کی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہیں، جہاں نیلے اور سبز رنگ کے نیبولے اور دور دور تک پھیلے ہوئے تارے ان کے سامنے ایک سحر انگیز منظر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس منظر کی خوبصورتی میں کھو جاتے ہیں، اور ان کی شاعری اس خوبصورتی کو زبان دیتی ہے۔

مرزا غالب: ’’دیکھو میر، کیسے یہ ستارے اپنے وجود کی کہانی کہتے ہیں۔ کیسے یہ نیبولے زندگی کی ابتدا اور انجام کا راز بیان کرتے ہیں۔ کائنات کے اس رقص میں، ہم بھی ایک قطرہ ہیں۔‘‘

میر تقی میر: ’’غالب، یہ قدرت کا رقص، یہ ستاروں کا جھرمٹ، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی چاہے کتنی بھی مختصر کیوں نہ ہو، اس کی خوبصورتی ان لمحات میں ہے جنہیں ہم پوری شدت سے جیتے ہیں۔‘‘

ان کی بات چیت اور شاعری کے اس سفر میں، وہ ایک نیا سیارہ دریافت کرتے ہیں جو زمین سے بہت مختلف ہے۔ یہ سیارہ ان کے خیالات اور شاعری کے لیے نئے موضوعات فراہم کرتا ہے۔

مرزا غالب: ’’دیکھو میر، یہ نیا سیارہ، کیسے اپنے رنگوں اور خصوصیات سے ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ کیا یہاں بھی زندگی کی کوئی شکل موجود ہو گی؟‘‘

میر تقی میر: ’’غالب، ہر نئی دریافت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں۔ ہر نیا سیارہ، ہر نیا ستارہ ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو بہتر سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔‘‘

جیسے جیسے وہ اس خلائی سفر کو جاری رکھتے ہیں، ان کے دلوں میں ایک نیا احساس جاگتا ہے۔ ایک احساس کہ ان کا وجود، چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، کائنات کی عظمت کا ایک حصہ ہے۔ ان کی شاعری، جو کبھی زمین پر محدود تھی، اب خلا کی لا محدودیت میں اپنا معنی تلاش کر رہی ہے۔

مرزا غالب: ’’یہ سفر، میر، ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے جذبات، ہمارے خواب، کائنات کے اس وسیع پیمانے میں بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہماری شاعری، جو زمین پر محبت اور غم کی کہانیاں سناتی تھی، اب خلا کے رازوں کو بیان کرتی ہے۔‘‘

میر تقی میر: ’’بالکل، غالب۔ ہر نیا منظر، ہر نیا سیارہ ہمیں ایک نئی کہانی کہنے کی تحریک دیتا ہے۔ اور یہ کہانیاں، چاہے کتنی ہی خیالی کیوں نہ ہوں، ہمارے دلوں میں امید کی ایک نئی کرن جلاتی ہیں۔‘‘

جب وہ اپنے سفر کے اختتام پر پہنچتے ہیں، ان کی شاعری نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہوتا ہے۔ ایک رنگ جو زمین کی حدود سے آگے کائنات کی عظمت کو چھوتا ہے۔

مرزا غالب: ’’یہ سفر، میر، ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی، چاہے زمین پر ہو یا خلا میں، ایک خوبصورت سفر ہے۔ ہمیں ہر لمحے کو قیمتی سمجھنا چاہیے۔‘‘

میر تقی میر: ’’ہاں، غالب۔ اور اس سفر نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ کائنات میں ہماری موجودگی، چاہے کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو، ہمیں ہر پل کو جینے کی ترغیب دیتی ہے۔‘‘

جب وہ خلائی جہاز سے واپس زمین پر آتے ہیں، ان کی آنکھوں میں نئی چمک ہوتی ہے۔ ان کے دل و دماغ میں نئے خیالات اور احساسات کی ایک بھرپور دنیا آباد ہو چکی ہے۔ مرزا غالب: ’’میر، یہ خلائی سفر ہمیں نئی بصیرت دے کر گیا ہے۔ ہماری شاعری، جو کبھی ہمارے زمینی تجربات کی عکاس تھی، اب کائنات کے بے کراں رازوں کو بھی سمیٹ لے گی۔‘‘

میر تقی میر: ’’ہم نے زندگی کی محدودیت کو پہچانا اور کائنات کی لا محدودیت میں اپنے آپ کو تلاش کیا۔ اب ہماری شاعری میں نہ صرف زمین کے رنگ ہیں بلکہ خلا کی گہرائیوں کے راز بھی شامل ہو چکے ہیں۔ واپس زمین پر آ کر، مرزا غالب اور میر تقی میر نے اپنے تجربات کو شاعری کی صورت میں بیان کیا، اور ان کی نظمیں نہ صرف انسانیت کے لیے نئے دروازے کھولتی ہیں بلکہ کائنات کے عظیم رازوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں اب ایک نیا درس تھا: کہ زندگی کی قدر کرنی چاہیے، چاہے وہ زمین پر ہو یا کائنات کے کسی گوشے میں۔

مرزا غالب: ’’یہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی ایک انمول تحفہ ہے، اور ہمیں اسے پورے دل سے جینا چاہیے۔‘‘

میر تقی میر: ’’اور ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو بھی تلاش کرنا چاہیے، جیسا کہ ہم نے خلا میں کیا۔ اس سفر نے ہمیں سکھایا کہ ہر چیز میں ایک خوبصورتی ہے، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔۔۔۔ مرزا غالب اور میر تقی میر کا یہ فرضی خلائی سفر نہ صرف ان کے شاعری کے سفر کو نیا موڑ دیتا ہے بلکہ ہمیں بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ کائنات میں ہماری موجودگی، چاہے کتنی ہی ناچیز کیوں نہ لگے، ایک بہت بڑی حقیقت کا حصہ ہے۔ یہ سفر ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کی تلاش اور خود کی دریافت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، چاہے ہم زمین پر ہوں یا کائنات کے کسی دور دراز کونے میں۔ ان کی شاعری میں اب ایک جہانیت کا اضافہ ہوا ہے، جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہر انسانی تجربہ، چاہے وہ محبت ہو، غم ہو، یا کائنات کے رازوں کی تلاش، ایک عالمگیر جذبہ کا اظہار ہے۔ مرزا غالب اور میر تقی میر کی اس فرضی خلائی مہم نے نہ صرف انہیں بلکہ ہمیں بھی ایک نئی دنیا کی سیر کرائی ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ شاعری اور فن کی طاقت کے ذریعے ہم کسی بھی حد تک پہنچ سکتے ہیں، چاہے وہ زمین کی حدود ہوں یا خلا کی لا محدودیت۔ اور یوں، مرزا غالب اور میر تقی میر کا یہ خلائی سفر نہ صرف ان کے دلوں کو نئی امیدوں اور خوابوں سے بھر دیتا ہے بلکہ ہمیں بھی ایک پیغام دیتا ہے: کہ ہمیشہ نئی چیزوں کی تلاش میں رہو، چاہے وہ زمین پر ہو یا آسمانوں میں۔ اس سفر کا اختتام نہیں، بلکہ یہ ایک نئی شروعات کی طرف اشارہ ہے، جہاں ہر نئی دریافت ہمیں اپنے آپ کو اور بھی بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔

میر و غالب کا یہ سفر نامہ مفت گوگل بارڈ/جمنی کی نسبت بہتر ہے اور اس میں حیات و کائنات کے فکری عناصر بھی ہیں، تخیل بھی اور ادبی چاشنی بھی۔ البتہ اس کے اختتام آتے آتے اس کا انداز توضیحی ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نو عمر قارئین کے لیے نتائج بھی پیش کرنا چاہتی ہے ؛ یوں یہ سفر نامے کی ہیئت اور تکنیک دونوں سے دور جاتا نظر آتا ہے۔ مفت مستعمل گوگل بارڈ /جمنی کی جانب سے چار سو تئیس (423) الفاظ پر مشتمل سفر نامہ جس میں اشعار کے دخول کی کوشش بھی کی گئی ہے جب کہ قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے گیارہ سو پینتالیس (1145) الفاظ پر مشتمل فرضی سفر نامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ مزید بہتری کی جانب بڑھیں گی۔ اب ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ یہ ایک ایسے سفر کا فرضی سفر نامہ ہے جس کا انسان کو بہت کم تجربہ ہے، اگر یہ کسی کا ذاتی سفر نامہ ہو اور وہ جزئیات دے کر اس سے متن تخلیق کرواتا ہوا آگے بڑھے تو اس کے لیے کس قدر سہولت اور آسانی رہے گی۔ مزید یہ کہ کسی ایسے مشہور سیاحتی مقام کا سفر نامہ جس کے بارے میں لوگ پہلے کافی کچھ لکھ چکے ہوں، پر لکھوایا جائے تو یہ کام اس کے لیے اور بھی آسان ہو گا۔ مذکورہ سفر نامے میں بھی صرف و نحو کی چند اغلاط موجود ہیں، جنھیں درست کرنے کے لیے اس کے بانیان سے رابطہ اور مسائل کی نشان دہی ضروری ہے۔

مصنوعی ذہانت کے حوالے سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا یہ اردو ادب کی تشریح و توضیح کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس ضمن یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ جس قدر آسانی سے متن کو پڑھنے پر قادر ہے، اسی تناسب سے اس کی تشریح و توضیح اور تنقید پیش کرتی ہے۔ اس کے آغاز ہی میں opening window میں اس کی جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ان میں متن کا تجزیہ اور تبصرہ شامل ہیں۔ چوں کہ یہاں اردو متون کی تشریح و توضیح کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے اس لیے اس پر اس ضمن میں بہت سے تجربات کیے گئے جن کی کامیابی ستر سے اسی فیصد کے درمیان رہی۔ نظم کی نسبت یہ نثری متون میں زیادہ کامیاب رہا۔ تجربات میں ایسے متون کا بھی انتخاب کیا گیا جو انٹر نیٹ پر موجود نہ تھے، نا معلوم شعرا کے تھے یا پھر تجریدی تھے۔ اس نے متون کا مرکزی خیال بہت حد تک درست بیان کیا۔ راقم کی اپنی ایک تجریدی نظم بھی ایسے ہی متون میں شامل تھی جس کا مرکزی خیال اس نے نوے فیصد کے قریب درست بیان کیا۔ دوسرا تجربہ معروف شعرا کے کلام کی پہلے سے موجود تشریح و توضیح کا اس کی تشریح و توضیح سے موازنے کی صورت میں کیا گیا اور اسے جان بوجھ کر مشکل اشعار دیے گئے تاکہ اس کی ادراکی خصوصیات کھل کر سامنے آئیں۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب سے ایک مشکل شعر اور اس کی تشریح کا موازنہ ملاحظہ کیجیے:

کمانڈ: ’’اس شعر کی تشریح کیجیے:

کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

شرح دیوانِ غالب از حسرت موہانی:

یعنی شبِ ہجر کا کاٹنا ویسا ہی سخت ہے جیسا کہ فرہاد کے لیے جوئے شیر لانا تھا۔ صبح سپیدی اور جوئے شیر میں جو مشابہت ہے وہ ظاہر ہے۔ کاو کاو سے مراد کاوش و کاہش مراد ہے۔

شرح دیوانِ غالب سعید الدین احمد علیگ:

کاوِ کاوِ: تجسس، کرید، کھود، سخت جانی مراد انتہائے رنج و الم۔ مطب یہ ہے کہ فرقت کی رات کی سختی اور تکلیف مجھ سے مت پوچھ، بس یہ سمجھ لے کہ ہجر کی رات کا کاٹنا عاشق کے واسطے اتنا ہی مشکل ہے جتنا فرہاد کا شیریں کے لیے پہاڑ کھود کر جوئے شیر لانا۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے آپ کو کوہکن (فرہاد) ، شب ہجر کی تاریکی اور سختی کو کوہ، سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے۔

شرح دیوانِ غالب از غلام رسول مہر:

جدائی کی حالت میں جن جن کاوشوں، کاہشوں اور مشقتوں کا میں تختہ مشق بنا ہوا ہوں، ان کا حال کچھ نہ پوچھو۔ نہ میں بیان کر سکتا ہوں، نہ سخت جانی کے باعث دم نکلتا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ رات گزارنا اور شام کا صبح کرنا، اتنا ہی دشوار ہے جتنا فرہاد کے لیے کاٹ کر جوئے شیر لانا دشوار تھا۔ اس شعر میں شاعر نے بہ حالتِ جدائی اپنی سخت جانی کو پہاڑ سے اور شام کے صبح کرنے کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے۔

شرح دیوانِ غالب از مصنوعی ذہانت (گوگل بارڈ) :

اس شعر میں مرزا غالب نے تنہائی کی مصیبت اور محبت کی چاہت کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تنہائی کی راتوں میں انسان بے چینی اور بے قراری کی حالت میں مسلسل کوششیں اور جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ وہ صبح کرنا چاہتا ہے، یعنی شبِ فراق کا اختتام کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جیسے کہ شیر کے دودھ کی نہر کا حصول۔

تشریح: کاو کاو سخت جانی: ’’کاو کاو‘‘ کا مطلب ہے مسلسل کوشش کرنا، جد و جہد کرنا۔ ’’سخت جانی‘‘ کا مطلب ہے بے چینی، بے قراری۔ اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ تنہائی کی راتوں میں بے چینی اور بے قراری کی حالت میں انسان مسلسل کوششیں اور جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ وہ صبح کرنا چاہتا ہے، یعنی شبِ فراق کا اختتام کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ کام بہت مشکل ہے۔

ہائے تنہائی نہ پوچھ: یہ ایک استفسار ہے، جس کا مطلب ہے کہ تنہائی کی مصیبت کا تصور بھی نہ کریں۔

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا: ’’صبح کرنا‘‘ کا مطلب ہے شبِ فراق کا اختتام کرنا۔ ’’شام کا لانا‘‘ کا مطلب ہے رات کا اختتام کرنا۔ ’’جوئے شیر‘‘ کا مطلب ہے شیر کے دودھ کی نہر۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو نا ممکن تصور کیا جاتا ہے۔ اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ تنہائی کی راتوں کا خاتمہ کرنا، یعنی شبِ فراق کا اختتام کرنا، اتنا ہی مشکل ہے جیسے کہ شیر کے دودھ کی نہر کا حصول۔

شرح دیوانِ غالب از مصنوعی ذہانت (چیٹ جی پی ٹی۵.۳) :

کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

اس مصرع میں شاعر نے اپنی زندگی کو ’’کاو کاو‘‘ کے ذریعے بیان کیا ہے، جو ایک پرندے کی چیخ ہوتی ہے۔ یہاں ’’کاو کاو‘‘ کو تنہائی، اکثریت ایکائی اور فکر مندگی کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ شاعر نے اس تنہائی کو اتنی سخت جانی ہائے کہنے کیلئے اس پرندے کی چیخ کا استعمال کیا ہے، جو عموماً چہرے سے چہرہ ملانے کیلئے کسی کو بلاتا ہے۔

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ دوسرے مصرع میں شاعر نے صبح کو ’’شام کا لانا‘‘ کہ کر بیان کیا ہے۔ یہاں صبح کا آنا ایک نیا آغاز اور تازگی کا نمائندہ ہے جبکہ ’’شام کا لانا‘‘ اکثر موت اور انجام کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس مصرع میں شاعر نے زندگی کو جوئے شیر کی طرح جیئے جانے کا اشارہ کیا ہے، جس میں حیات کو بہترین طریقے سے مشکلات کا سامنا کرنا اور جیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔

اس شاعری میں تنہائی اور جد و جہد کو شیر کی جوئے شیر کے ذریعے نمائندہ کیا گیا ہے، جو ایک قوی اور حنسیت سے بھرا ہوا جانور ہوتا ہے۔ یہ شاعری زندگی کی مشکلات اور اہم مقابلے کا حوالہ ہے، جس میں شاعر نے امید، جذبہ اور جد و جہد کی راہ میں چلنے کی ترقی کو بیان کیا ہے۔

بارڈ/جمنی کی تشریح میں دو حصے مزید شامل کیے گئے ہیں جن میں سے ایک اہم نکات اور دوسرا جامع تشریح کا ہے۔ ذیل میں بقیہ حصہ بھی پیش کیا جا رہا ہے:

اہم نکات: اس شعر میں مرزا غالب نے تنہائی کی مصیبت کو بہت خوبصورت اور موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ شعر تنہائی کے تجربے سے گزرنے والے ہر شخص کے لیے ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مرزا غالب خود ایک تنہا شخص تھے۔ وہ اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں تنہائی میں رہے۔ اس لیے، یہ شعر ان کی اپنی زندگی کے تجربات کا بھی اظہار ہے۔

جامع تشریح: مجموعی طور پر، یہ ایک خوبصورت اور موثر شعر ہے جو تنہائی کی مصیبت اور محبت کی چاہت کو بیان کرتا ہے۔ یہ شعر ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ تنہائی ایک مشکل تجربہ ہے، لیکن محبت کی چاہت اس مشکل کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے۔

دی گئی تمام تشریحات میں گوگل بارڈ کی تشریح طوالت اور شرح کے نقطہ نگاہ سے بہتر ہے البتہ اس میں شَیر اور شِیر کا فرق نہ ہونے کی وجہ سے دودھ کی نہر نکالنے کے بجائے شیر کے دودھ کی نہر نکالنے کے معنی سے ایک مضحکہ خیزی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آواز الفاظ کو درست اعراب کے ساتھ پیش کرنے سے اس غلطی پر قابو پایا جا سکتا ہے جب کہ کمانڈ جتنی واضح ہو گی، اسی تناسب سے بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ چیٹ جی پی ٹی کی تشریح میں فارسی لفظ کاویدن سے مشتق کاو کاو‘‘ کو کوّے کی آواز اور شِیر کو شَیر سمجھتے ہوئے تشریح کی گئی ہے جو درست نہیں ہے۔ یہ تشریح چوں کہ مفت ورژن کی ہے اور اردو دان طبقہ اسی کو زیادہ استعمال کر رہا ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ اصل معانی و مفاہیم سے نا آشنا قارئین اس پر اعتبار کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں دھوکا کھائیں۔ اس کی درستی کے حوالے سے بھی دو امکانات پر غور کیا جا سکتا ہے:

۱۔     اسے کمانڈ دیتے ہوئے اعراب کا خیال رکھا جائے۔

۲۔     مشکل الفاظ کے معانی تک کچھ رسائی ہو تو تشریح کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ تشریحات کے ضمن میں دو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ راقم کے ناقص علم کے مطابق حسرت موہانی، غلام رسول مہر اور قاضی سعید الدین احمد وغیرہ کی تشریحات انٹرنیٹ پر اردو تحریر (فونٹ) کی صورت میں نہیں بلکہ سکین شدہ کتاب کی صورت میں موجود ہیں جہاں سے متن نقل کرنا مشکل ہے ؛ اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ یہ تشریح چیٹ بوٹس کی اپنی ہے۔ دوم یہ کہ اگر یہ کہیں سے متن بنا حوالہ نقل کر رہی ہیں تو وہ متن درست نہیں ہے۔ اسی حوالے سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا یہ تشریح نقل شدہ ہے یا ذاتی کاوش ہے تو گوگل بارڈ نے اسے طبع زاد جب کہ چیٹ جی پی ٹی نے مختلف مصادر سے مدد کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

کمانڈ: آپ نے یہ تشریح خود کی ہے یا کہیں سے لی ہے؟

بارڈ/جمنی:

میں نے یہ تشریح خود کی ہے۔ میں نے اس شعر کے لیے مختلف منابع کا مطالعہ کیا، بہ شمول مرزا غالب کی سوانح عمری، ان کے دیگر اشعار اور مختلف ادبی تبصروں۔ اس کے بعد، میں نے اپنی سمجھ اور تجربے کی بنیاد پر اس شعر کی تشریح کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شعر کی تشریح کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعر ہے جو بہت سے مختلف معانی اور پیغامات رکھتا ہے۔ میری تشریح صرف ایک نقطہ نظر ہے، اور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ دوسرے لوگ اس شعر کو مختلف انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی:

میری پیشہ ورانہ مہارت اور موجودہ ڈیٹا کے مبنی ہے، لیکن میرے جوابات کو مدد کے لئے مختلف مصادر، کتب، اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کا خراج ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہوں کہ جوابات موثر اور معقول ہوں اور معلومات صحیح اور ٹھیک ہوں۔

یوں مصنوعی ذہانت کی جانب سے مہیا کیے گئے متن کی اصلیت اس صورت میں تو ثابت ہو سکتی ہے کہ ایک ایسا متن جو انٹرنیٹ پر موجود نہیں، نہ ہی تا حال چیٹ جی پی ٹی یا گوگل بارڈ وغیرہ کے مرکزی کمپیوٹر (server) میں موجود ہے، اس کے حوالے سے اس کے خیالات ذاتی نوعیت کے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہو سکا کہ یہ جو متن مہیا کر رہا ہے وہ اس نے کہیں اور سے نقل کیا ہے یا نہیں یا کسی اور صارف کو جواب میں یہی متن تو مہیا نہیں کرے گی۔ سرقہ پکڑنے کے لیے مشہور ترین سافٹ وئیر ٹرن اٹ ان (Turnitin) بھی اردو میں مصنوعی ذہانت کا سرقہ پکڑنے کے حوالے سے درست کام نہیں کر پا رہا ہے جس سے یہ مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ ایک اور زاویے سے اس کی تشریح و توضیح کے امکانات کی جانچ کے لیے اسے اور بھی متون دیے گئے جن میں سے کچھ پر راقم خود کام کر چکا تھا اور اس کے جوابات کئی مقامات پر معلومات کے حوالے سے راقم کی تشریح و توضیح سے زیادہ بہتر تھے۔ مثلاً افسانے ’’پرمیشر سنگھ‘‘ کے نفسیاتی جائزے پر راقم نے ایک مضمون تحریر کیا تھا؛ افسانے کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لیے جب اسے پرمیشر سنگھ کی زندگی کے افسانے میں بیان کیے گئے مختلف المیوں اور مسائل کو ایک صورتِ حال بنا کر اس سے نفسیاتی تجزیہ کروایا گیا تو اس نے نفسیات کی کچھ ایسی اصطلاحات بیان کیں جو راقم کے لیے نئی تھیں۔ ان پر جامعہ کے شعبہ نفسیات سے رائے لینے پر وہ درست ثابت ہوئیں۔ اسی طرح ساختیات کے اطلاق کے حوالے سے دو مضامین کا موازنہ جب اس سے کروایا گیا تو تب بھی پچاس فیصد سے زائد نتائج وہی تھے جن تک راقم پہنچا تھا۔ یوں اس سے اس حوالے سے متن کے جزوی تجزیے میں بھرپور مدد لی جا سکتی ہے۔ کلی تجزیے کے لیے قیمتاً مستعمل ورژن کا استعمال ہی بہتر ہے لیکن اس پر بھی مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا، اس کے نتائج میں ترمیم و اضافے کی گنجائش رہتی ہے۔ متنی تنقید کے حوالے سے اس پر جو تجربات کیے گئے ان میں فیض احمد فیض کی نظم ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ کے مارکسی، نفسیاتی اور جمالیاتی تجزیات و تنقیدات بھی شامل تھیں۔ چیٹ جی پی ٹی 4 کو اس نظم کا نفسیاتی جائزہ لینے کا کہا گیا۔ اس نے جواب انگریزی زبان میں تحقیق و تنقید کے انداز میں پیش کیا جس میں اجزا کو سرخیوں کی صورت میں بیان کرتے ہوئے ابتدائیہ اور ماحصل وغیرہ کا التزام کیا جاتا ہے۔ ذیل میں کمانڈ اور جواب ملاحظہ کیجیے:

کمانڈ: ’’اس نظم پر نفسیاتی تنقید کیجیے، بتائیے کہ شاعر کون سے دماغی رویوں، رجحانات اور مسائل سے گزر رہا ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کے جذبات و خیالات کیا ہیں، اس کا جذباتی پیغام کیا ہے وغیرہ:

رات باقی تھی ابھی جب سر بالیں آ کر

چاند نے مجھ سے کہا ’جاگ سحر آئی ہے

جاگ اس شب جو مے خواب ترا حصہ تھی

جام کے لب سے تہہ جام اتر آئی ہے‘

عکس جاناں کو وداع کر کے اٹھی میری نظر

شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر

جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور

چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر

ڈوبتے تیرتے مرجھاتے رہے کھلتے رہے

رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے

صحن زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے

سطح ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم

نیند کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا

دیس کا درد فراق رخ مجبوب کا غم

دور نوبت ہوئی پھرنے لگے بے زار قدم

زرد فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے

اہل زنداں کے غضب ناک خروشاں نالے

جن کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے

لذت خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں

جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں

دور دروازہ کھلا کوئی کوئی بند ہوا

دور مچلی کوئی زنجیر مچل کے روئی

دور اترا کسی تالے کے جگر میں خنجر

سر پٹکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی

گویا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمن جاں

سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جنات گراں

جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں

میرے بے کار شب و روز کی نازک پریاں

اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہی ہیں یہ اسیر

جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر‘‘

چیٹ جی پی ٹی ۴:

نفسیاتی تنقید کے زاویے سے دیکھا جائے، تو یہ نظم شاعر کی اندرونی کیفیات، دماغی رویوں، اور ان کے جذباتی سفر کی گہرائیوں کو بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں موجود عناصر کے ذریعے شاعر نے نہ صرف اپنے داخلی جد و جہد کو بیان کیا ہے بلکہ انسانی روح کی مجبوریوں اور امیدوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔

دماغی رویے اور رجحانات: تنہائی اور اسیری: نظم کے آغاز میں رات کی باقیات اور چاند کے ساتھ مکالمہ تنہائی اور اسیری کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر اپنے آپ کو زنداں میں محسوس کرتا ہے، جہاں وہ اپنے خوابوں اور حقیقت کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔

نوستالجیا اور فراق: ’’عکس جاناں کو وداع کر کے اٹھی میری نظر‘‘ سے محبوب کی یاد اور فراق کا احساس ملتا ہے۔ یہ جذبات شاعر کے دل میں گہرائی سے پیوست ہیں اور انہیں ماضی کی طرف کھینچتے ہیں۔

امید اور مایوسی: نظم کے مختلف حصوں میں امید اور مایوسی کے درمیان کشمکش موجود ہے۔ جہاں ایک طرف ’’چاندی کے بھنور‘‘ اور ’’سنہرے چہرے‘‘ امید کی کرن دکھاتے ہیں، وہیں ’’زہر بھری چور صدائیں‘‘ اور ’’دشمن جاں‘‘ مایوسی اور تکلیف کے عناصر ہیں۔

شاعر کے جذبات و خیالات: شاعر نے اپنے جذبات کی شدت کو بہت ہی عمیق اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس نظم میں ایک گہری جذباتی پیچیدگی محسوس ہوتی ہے، جس میں تنہائی، فراق، امید، اور مایوسی کے جذبات شامل ہیں۔

نظم کا جذباتی پیغام انسانی: روح کی لچک اور اس کے جذباتی استحکام کو سراہتا ہے۔ یہ اشعار انسان کی امید اور مایوسی، خوابوں اور حقیقت کے درمیانی جد و جہد، اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ جاری مقابلے کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاعر نے زندگی کے تلخ حقائق کے باوجود امید کے قائم رہنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

نفسیاتی مکالمہ: شاعر کا نفسیاتی مکالمہ اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے ہے، جہاں وہ خود کو زنداں کی تنہائی اور خوابوں کی دنیا کے درمیان پاتا ہے۔ اس کشمکش میں، شاعر نے اپنے جذباتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے امید کے مختلف عناصر کا سہارا لیا ہے۔

مسائل اور ان کی وجوہات: نظم میں بیان کیے گئے دماغی رویوں اور رجحانات کی جڑیں شاعر کے ذاتی تجربات، سماجی و ثقافتی حالات، اور ان کے اندرونی جد و جہد میں پائی جا سکتی ہیں۔ فراق، تنہائی، اور اسیری کے احساسات شاید ان کی زندگی کے تلخ واقعات اور ان کی خواہشات کے انکار سے متعلق ہیں۔

خلاصہ: یہ نظم ایک نفسیاتی سفر ہے جو شاعر کی اندرونی کیفیات کو آشکار کرتا ہے۔ شاعر نے اپنے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے، جہاں امید اور مایوسی کی کشمکش ہر شعر میں محسوس ہوتی ہے۔ نظم کا جذباتی پیغام امید کے جلتے ہوئے تیر کی مانند ہے، جو دکھ اور مایوسی کے اندھیرے میں بھی روشنی کی کرن بن کر سامنے آتا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے باوجود، امید کو ہمیشہ زندہ رک روح کی لچک اور مقاومت پر مرکوز ہے۔ شاعر نے دکھایا ہے کہ کس طرح انسانی روح، چاہے وہ کتنی ہی سخت حالات کا سامنا کر رہی ہو، اپنے اندر امید کی چنگاری کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ ’’جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر‘‘ یہ لائن خاص طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بہت سے مشکلات اور مایوسیوں کے باوجود، امید کی روشنی ہمیشہ موجود رہتی ہے اور یہ ہمیں آگے بڑھنے کی قوت دیتی ہے۔

نظم کے ذریعے شاعر نے یہ بھی دکھایا کہ زندگی کے ہر مرحلے میں، خواہ وہ خوشی کا ہو یا غم کا، ہمیں اپنے اندر کی قوت اور اپنی روح کی طاقت کو پہچاننا چاہیے۔ شاعر کا یہ بھی اشارہ ہے کہ انسانی روح کی مضبوطی اور اس کی امیدیں ہی اسے زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔

اختتامی خیالات: اس نظم کے نفسیاتی تنقید سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کی ہر مشکل، ہر دکھ، اور ہر تکلیف کے باوجود، انسان کے اندر ایک ایسی طاقت ہوتی ہے جو اسے مایوسی سے نکل کر امید کی روشنی میں چلنے کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس نظم کے ذریعہ، شاعر نے انسانی جذبات کی پیچیدگیوں اور امید کی طاقت کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے، جو ہر قاری کے دل کو چھو لینے کے لیے کافی ہے۔

عموماً نظم پر تحقیق و تنقید کرتے ہوئے اس کا شاعر اور پس منظر معلوم ہوتا ہے یا معلوم کر لیا جاتا ہے جس سے اس عمل میں سہولت ملتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کو نظم کے خالق فیض احمد فیض اور نظم کے پس منظر کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ ان کی قید و بند کے دنوں کی یاد ہے۔ چیٹ جی پی ٹی نے درست انداز میں نہ صرف شاعر کے اس دماغی رویے کو سمجھا کہ یہ ’’چاند کے ساتھ مکالمہ تنہائی اور اسیری کے احساس کو ظاہر کرتا ہے‘‘ بلکہ اس میں ’’امید اور مایوسی کے درمیان کشمکش‘‘ کو بھی درست انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ یہ نظم انٹرنیٹ پر موجود ہے اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو معلوم ہو گیا ہو کہ اس کا خالق کون ہے لیکن اس نے نفسیاتی جائزے میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا بلکہ معروضی انداز میں نظم میں امید اور مایوسی کے حوالے سے انسانی رویوں اور رجحانات پر بات کی ہے۔ اس کا تجزیہ اگرچہ کامل نہیں لیکن ناقص بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ قاری کو قریباً درست انداز میں فکری زاویے مہیا کرتے ہوئے شاعر کے دماغی رویوں اور رجحانات کو جاننے اور جانچنے میں مدد مہیا کرتی ہے۔ نظم کے سرخیوں سمیت تجزیے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تنقیدی بصیرت، جو ابھی ابتدائی درجے کی ہے ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد کس مقام تک پہنچ سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کے کارناموں میں سے ایک اور کارنامہ ترجمہ نگاری کا ہے۔ گو کہ اردو ادب میں مشینی ترجمہ نگاری کے مسائل نئے نہیں ہیں لیکن مصنوعی ذہانت نے انھیں گوگل ٹرانسلیشن سے ایک قدم آگے پہنچا دیا ہے۔ یہ متن کو سمجھ کر ترجمہ کرتی ہے تاکہ بین السطور کا تعلق ٹُوٹ نہ پائے ؛مزید یہ کہ اس کے ترجمے کی استعداد اور لفظی تعداد گوگل اور بنگ سے زیادہ ہے۔ اس ضمن میں جہاں مصنوعی ذہانت نثر کے ترجمے پر بہتر کام کر رہی ہے، وہیں شعری تراجم جو کہ محنت شاقہ طلب کرتے ہیں، انھیں بھی بہ خوبی نبھا رہی ہے۔ غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے جو معاشرتی جبر اور تلمیحات (conventions and codes) لیے ہوئے ہے۔ اس میں تیشے سے فرہاد کا خود کو مارنا، اس کے پس منظر میں شیریں کے والد کی شرط، اور اس سے جڑی اردو اور فارسی کی شعری روایت موجود ہے۔ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا اور اس کا انگریزی یا دنیا کی کسی بھی معروف زبان میں ترجمہ کر دینا اعلیٰ ذہنی استعداد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے تراجم کا انسانی تراجم سے موازنہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی کمی کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کے بانیان تک پیغام پہنچا یا جائے تا کہ یہ بہ طور معاون واردو دان طبقے کی بہتر خدمت سر انجام دے سکے۔

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد

سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا

انگلش ترجمہ از یوسف حسن:

O Asad, even Kohkan

Could not die without an axe;

He was bewildered with the intoxication

of customs and traditions.

انگلش ترجمہ از روشن چغلا:

What is this way to die in love

Farhad struck the axe on the head

When only a deep grieving gasp

To end the life of Asad is enough

انگلش ترجمہ از گوگل بارڈ/جمنی:

The mountain-cutter Asad could not die without his chisel, He was intoxicated by the intoxication of customs and restrictions.

انگلش ترجمہ از چیٹ جی پی ٹی:

Asad, the mountain climber, could not die without reaching the summit,

Intoxicated by the passion for breaking norms and constraints

پیش کیے گئے دونوں انسانی تراجم با محاورہ اور نثری تراجم ہیں نہ کہ منظوم۔ منظوم ترجمے کی سہولت مصنوعی ذہانت مہیا کرتی ہے۔ اپنے ترجمے میں یوسف حسن نے کوہکن کا ترجمہ ’’Kohkan‘‘ہی کیا ہے جو ظاہر ہے انگلش میں اس لفظ کے متبادلات موجود ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ روشن چغلا نے کوہکن کی جگہ اصل نام فرہاد استعمال کیا ہے۔ یہ توضیحی ترجمے کے حوالے سے تو درست ہے لیکن لفظی ترجمے کے حوالے سے اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ جمنی نے کوہکن کا لفظی ترجمہ کیا ہے اور بہت حد تک متن کی روح کے قریب ہے جب کہ چیٹ جی پی ٹی کا ترجمہ بھی قریب قریب درست ہے۔ یوں مصنوعی ذہانت کا ترجمہ اگرچہ یوسف حسن اور روشن چغلا سے بہت اچھا نہیں ہے لیکن ان سے کم بھی نہیں ہے۔ اگر یہ شعر آسان ہو تو یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ مصنوعی ذہانت اس میدان میں انسانی ذہانت سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ اسی شعر کا چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے منظوم ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو کہ اصل شعر کی روح کے قریب ہے۔

Asad, the climber, met his fate,

On peaks, he couldn’t meet death’s gate.

Intoxicated by passion bold,

Breaking norms, in stories untold.

غالب کا ایک اور مشکل شعر ملاحظہ کیجیے جسے ان قارئین کے لیے سمجھنا مشکل ہے جنھیں شاعری سے زیادہ شغف نہیں یا لغت و تاریخ کا مطالعہ کمزور ہے۔ اس کے انگلش مترجمین جو یقیناً ً شعر کے سیاق سے پوری طرح واقف ہیں۔ ذیل میں ان کے ترجمے کا موازنہ مصنوعی ذہانت کے ترجمے سے کیا گیا ہے۔

نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا

انگلش ترجمہ از یوسف حسن:

My pleasure will not diminish with a single wilderness; The bubble is the wave’s speed, the imprint, my stride

انگلش ترجمہ ازروشن چغلا:

My wanderings in the wilderness

Unperturbed by my weary feet

Advancing steps in the field of love

Shall keep peace with bubbling zeal

انگلش ترجمہ از گوگل بارڈ

My zest will not diminish with a life of wandering, The bubble of the wave of motion is my footprint.

انگلش ترجمہ از چیٹ جی پی ٹی

My zest for roaming will not be curbed

Even by a desert of weariness;

My foot print is bubble

On the wave of my gait

اہم بات یہ ہے کہ گوگل بارڈ، ترجمے کے ساتھ از خود وضاحت بھی مہیا کرتا ہے تاکہ سمجھنے کے لیے زیادہ آسانی ہو۔

In this poem, Mirza Ghalib expresses his love of life and adventure. He says that he will not lose his zest for life, even if he spends his life wandering in the desert. He compares his life to a bubble on the surface of a wave. The bubble is constantly moving and changing, but it is also beautiful and ephemeral. Ghalib says that his life is like this bubble. It is always changing and evolving, but it is also full of beauty and excitement.

یوں ان تمام تراجم کو دیکھا جائے تو یہ شعر کی روح کے قریب ہیں۔ بالخصوص گوگل بارڈ/جمنی کا ترجمہ اس کی توضیح کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس بات کی مزید تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ ترجمہ یقیناً درست ہے اور یہ شعر کی روح تک پہنچ پایا ہے۔ مذکورہ توضیح کے پہلے تین جملے بالکل درست ہیں آخری جملے پر بہ ہر حال بحث کی گنجائش موجود ہے۔

مصنوعی ذہانت کسی ادب پارے کو کن حوالوں سے جاننے کی کوشش کرتی ہے، اس کے بارے میں کیسے سوچتی ہے اور کس طرح ایک صارف کو اس کے متنوع سوالات کے جوابات مہیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بھی متعدد تجربات کیے گئے جن میں سے ایک تجربہ یہ کیا گیا کہ میر تقی میر کے محض ایک شعر کی تدریس کے لیے آسان سبقی خاکہ بنانے کی کمانڈ دی گئی۔ اس نے جو خاکہ تیار کیا اُس سے اس کے زاویہ ہائے فکر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ گوگل بارڈ نے نہ صرف شعر کے الفاظ معانی اور تشریح بیان کرنے کی کوشش کی اور شعری محاسن کا ذکر کیا بلکہ طلبہ کے لیے مشقی سوالات بھی پیش کیے۔ شعر، اس سے متعلق کمانڈ اور خاکہ ملاحظہ کیجیے:

کمانڈ: ’’ میں میر تقی میر کا یہ شعر ادب کے طلبا کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ اس پر نوٹس تیار کیجیے کہ کس طرح پڑھایا جائے اور کون سے زاویے دیکھے جائیں؟

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا‘‘

شعر کا متن: چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا

شعر کا معنی: چمن میں گل نے کل اپنی خوبصورتی کا دعوی کیا تھا، لیکن یار کے جمال نے اس کا منہ لال کر دیا۔

شعر کی تشریح: اس شعر میں میر تقی میر نے حسن و جمال اور عشق و محبت کے درمیان تضاد کو بیان کیا ہے۔ گل کو حسن و جمال کا استعارہ لیا گیا ہے۔ گل کا دعویٰ جمال کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی پر ناز کرتا ہے۔ یار کا جمال اس کی عشق و محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ یار کے جمال سے گل کا منہ لال ہو جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ یار کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔

شعر کی تکنیکی خوبیاں: زبان اور بیان: شعر کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ بیان میں روانی اور تاثیر ہے۔

  • قافیہ اور ردیف: شعر میں قافیہ ’’جمال‘‘ اور ردیف ’’لال‘‘ ہے۔ قافیہ اور ردیف کا استعمال خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔
  • تصویر کشی: شعر میں حسن و جمال اور عشق و محبت کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔

شعر کی تفسیر: اس شعر کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ یہ شعر حسن و جمال اور عشق و محبت کے درمیان تضاد کو بیان کرتا ہے۔ گل کی خوبصورتی عارضی ہے، جبکہ یار کی محبت دائمی ہے۔ دوسرا زاویہ یہ ہے کہ یہ شعر ایک اخلاقی درس بھی دیتا ہے۔ یہ شعر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حسن و جمال عارضی ہے، جبکہ عشق و محبت دائمی ہے۔

شعر پڑھانے کے لیے تجاویز: شعر کو پڑھانے سے پہلے، اس کی تشریح اور تفسیر کریں۔ شعر کو پڑھتے وقت، اس کی قافیہ اور ردیف پر توجہ دیں۔ شعر کو پڑھتے وقت، اس کی تصویر کشی پر توجہ دیں۔ شعر کو پڑھتے وقت، اس کے معنی کو واضح کریں۔

طلباء سے سوالات: شعر میں گل کو حسن و جمال کا استعارہ کیوں لیا گیا ہے؟ شعر میں یار کا جمال کن چیزوں سے تعبیر کیا گیا ہے؟ شعر میں قافیہ اور ردیف کا کیا اثر ہے؟ شعر کیا سبق دیتا ہے؟

طلباء کو مشقیں: شعر کو دوبارہ لکھنے کی مشق کروائیں۔ شعر کی تشریح اور تفسیر کرنے کی مشق کروائیں۔

شعر کے موضوع پر ایک مضمون لکھنے کی مشق کروائیں۔

’’شعر کی تشریح‘‘ کے عنوان سے سرخی میں جمال یار سے گل کے منھ لال ہونے کا احوال درست بیان نہیں کیا گیا البتہ ’’شعر کی تفسیر‘‘ کے عنوان سے عشق کی دائمی جیت اور حسن کے زوال کے حوالے سے جو اخلاقی درس دیا گیا ہے وہ درست ہے اور شعر کو سمجھنے کی ایک کاوش ہے۔ اسی طرح ’’قافیہ اور ردیف‘‘ اور ’’تصویر کشی‘‘ کے عنوان کے تحت بھی خاکہ کے درست نکات موجود ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بہ ذاتِ خود کس طرح چیزوں کے بارے میں سوچتی ہے اور صارف کو جواب مہیا کرتے ہوئے مد نظر رکھتی ہے۔ اس سے اردو تدریس سے منسلک طبقہ سبق کی تیاری یا کسی بھی موضوع کو سمجھنے، سمجھانے کے لیے مدد لے سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت اور تحقیق کے حوالے سے بات کی جائے تو اردو میں تحقیقی مواد نہ ہونے کے سبب یہ انٹرنیٹ پر پھیلے مواد پر زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے نتائج اکثر ناقص ہوتے ہیں، البتہ یہ تحقیقی موضوع پر عمدہ خاکے مہیا کر دیتی ہے جن کی روشنی میں تحقیق کے بہتر نتائج کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ تحقیق ہی کے حوالے سے ایک نہایت اہم مسئلہ مصنوعی ذہانت سے نقل شدہ متن کے حوالہ جات کا ہے جس کے لیے اردو دنیا میں تا حال نہ تو کوئی طریقہ رائج ہے اور نہ ہی کوئی ضابطہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح عموماً ویب سائٹ کے کنجِ مخفی (لنک) کو نقل کرتے ہوئے وقت اور تاریخ ساتھ تحریر کر دیے جاتے ہیں، اس پر اُس طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ چیٹ بوٹ بات کرتے ہوئے الگ الگ ذاتی ربط (لنک) مہیا کرتے ہیں۔ اگر اس ربط کو نقل کر بھی لیا جائے تو اس سے نقل شدہ مواد (ڈیٹا) کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل صارف کا ذاتی لاگن اکاؤنٹ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کے پاس استعمال نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب بنا حوالہ متن نقل کرنا تین قسم کے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے:

۱۔     تحقیقی اخلاقیات کا مسئلہ: کم علم، کام چور یا مختصر وقت میں زیادہ تحقیقی کام کرنے کے خواہش مند حضرات کا اس کو بنا حوالہ استعمال کرنا۔

۲۔     متن کہاں سے حاصل کیا گیا ہے اور کیا مہیا کیا گیا متن دہرا یا تو نہیں گیا یا یہ کہ متن کسی اور کو ایک جیسی کمانڈ یا سوال کے جواب میں مہیا تو نہیں کیا گیا یا کیا جائے گا، اس کی تصدیق نہیں ہو پاتی، نہ ہی اس ضمن میں اس پر کامل اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

۳۔     مصنوعی ذہانت کے تعصبات اور حدود بندی: کسی خاص موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے یہ کئی بار درست جواب نہیں دیتی یا جواب کے حوالے سے کہتی ہے کہ مجھے اس کی اجازت نہیں یا پھر عین ممکن ہے کہ اس کے بنانے والے کے نظریات و عقائد کے تعصبات بھی اس کے کسی مخصوص نوعیت کے جواب میں شامل ہوں۔

۴۔     جس طرح عموماً ویب سائٹس سے منتقل کرتے ہوئے، مصنف کا نام بھی دے دیا جاتا ہے، مصنوعی ذہانت کی صورت میں یہ مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ مصنف کا نام کس طرح دیا جائے اور اس کی مدد سے حاصل کیے گئے مواد یا ڈیٹا کا درست اندراج کس صورت میں ممکن ہو۔

اس کے حل کے لیے دنیا بھرمیں مختلف علوم و فنون پر ہونے والی ایسی تحقیقات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے حوالہ جات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ریسرچ گیٹ ایسے دنیا کے سب سے بڑے تحقیقی فورم (ویب سائٹ) پر اب ایسے بہت سے مقالات دیکھے جا سکتے ہیں جن میں محققین و ناقدین مصنوعی ذہانت کے اشتراک سے تحقیق کرتے ہوئے اس کا نام مثلاً چیٹ جی پی ٹی اور گوگل بارڈ/جمنی کو محققین و ناقدین کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ راقم ایسے بہت سے مقالات دیکھ چکا ہے اور اس ضمن میں ریسرچ گیٹ ویب سائٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طریقہ کار کو اردو محققین بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس ضمن عالمی تحقیقی مینوئیل (APA Research Manual) اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن وغیرہ کی اجازت درکار ہو گی جب کہ اس جانب اداروں اور محققین کی توجہ نہ ہونا تحقیقی اخلاقیات میں گراوٹ کا سبب بنے گا۔ بہ ہر حال اس فوری مسئلے سے بچنے کے لیے مصنوعی ذہانت سے متن کی نقل کے حوالے کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے:

اوپن اے آئی (نام: چیٹ جی پی ٹی یا جمنی وغیرہ) ، ورژن (جو بھی ہو مثلاً ۵.۳یا 4) ، جوابی متن بابت (جو بھی سوال یا کمانڈ دی گئی ہو) ، تاریخ اور وقت۔

سفارشات:

۱۔     مصنوعی ذہانت متن تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کردار اور پلاٹ تخلیق کرنے کی بھی جزوی صلاحیت سے بہرہ مند ہے بشرط یہ کہ اسے درست کمانڈ دی جائے۔ یہ صلاحیت شاعری اور افسانوی نثر میں ابتدائی درجے کی ہے جسے صنعتی (کمرشل بنیادوں) پر درست کیا جا سکتا ہے۔ غیر افسانوی نثر میں یہ بہتر کام کر رہی ہے اور اس کا کام نہ تو بالکل ابتدائی درجے کا ہے اور نہ ہی کسی مشاق ادیب کے رتبے کو پہنچی ہے۔ اردو زبان ایسی زبانوں میں شامل ہے جس کے کثیر صارف اسے مفت استعمال کر رہے ہیں جب کہ مصنوعی ذہانت کے بانیان اسے صنعتی سطح پر چلا رہے ہیں۔ اس لیے، فیس ادا کرنے کی بعد اس کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی استعداد معتدل اور بہتر درجے پر فعال نظر آتی ہے جس کے نمونہ جات پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس حوالے سے اردو دان طبقے اور سرکاری اداروں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ مصنوعی ذہانت کے بانیان سے رابطہ کر کے اردو زبان و ادب کے حوالے سے اس کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اس مفت ورژن کے لیے بھی صرف و نحو کے مسائل کی درستی کروا لی جائے تاکہ زبان کی ترقی کا سفر تعطل کا شکار نہ ہو گا۔ اس میں اردو کی قدیم املا جیسے ’’جنھیں، انھیں‘‘ وغیرہ مستعمل ہے، اسے بھی جدید املا سے تبدیل کرنے کے لیے اس کے بانیان سے رابطہ ضروری ہے۔

۲۔     کمانڈ دیتے وقت، زیادہ سے زیادہ واضح اور جزئیات کے ساتھ کمانڈ دی جائے اور ہم آواز الفاظ جیسے شِیر اور شَیر کے اعراب ساتھ دیے جائیں۔ اس سے اغلاط کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

۳۔     مصنوعی ذہانت کی شعری تخلیقات بے وزن اور غیر سنجیدہ ہیں۔ اس ضمن میں اسے عروض کے الگورتھم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو کہ پہلے سے کچھ سافٹ وئیرز نے سیکھا ہوا ہے اور ان کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ اردو ادارے، اس حوالے سے بالخصوص گوگل بارڈ/ جمنی اور چیٹ جی پی ٹی کی مدد کر سکتے ہیں۔

۴۔     مصنوعی ذہانت نے ایسے ریاضیاتی کلیے اور الگورتھم ایجاد کیے ہیں جن کے تحت تخلیق کے عمومی معیارات و نظریات میں تبدیل رو نما ہوئی ہے۔ زبان کے بہت سے نظریات جن میں سوسئیر، رولنڈ بارتھیز اور جولیا کرسٹوا ایسے معروف نظریہ سازوں کے نظریات بھی شامل ہیں، مشینی تخلیق کاری کی صلاحیت کے مقابل نئے امکانات و استفسارات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان نظریات کی تردید و تائید کے لیے نئے مباحث قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لسانیات کے دامن میں بھی وسعت آئے اور نئی نظریہ سازی کی جا سکے۔ اس حوالے سے انسان اور مشین کے تعاملات (HCI) کے ماہرین و محققین، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اساتذہ اور عہدِ حاضر کے اہم ماہرینِ لسانیات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مختلف زبان و علوم کے ماہرین کے درمیان مکالمے کا فروغ بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

۵۔     مصنوعی ذہانت کی ترقی کی موجودہ صورتِ حال اردو زبان و ادب کے مروجہ معیارات سے ایک قدم آگے بڑھنے سے قاصر ہے لیکن یہ تیز رفتاری جاری رہی تو اس کے مستقبل کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مقابل بہت اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار، محقق اور نقاد ہی ٹھہر پائیں گے۔ اس لیے انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اس سلسلے میں مناسب رہنمائی کا سامان بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

۶۔     مصنوعی ذہانت کی یاد داشت کا ذخیرہ بلا شبہ انسانی دماغ میں موجود الفاظ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح یہ چھوٹے پیمانے پر متن کی تشریح و توضیح کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ زبان و ادب کے اساتذہ کو اس حوالے سے تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ طلبا کی بہتر رہنمائی، مقالات و تفویض کار کی سرقہ بازی اور اصلیت کی جانچ پرکھ کو یقینی بنا سکیں۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے مصنوعی ذہانت پر تحقیق و تنقید کے لیے حکومتی سطح پر ایک ایسی کمیٹی بننی چاہیے جس کی سفارشات کو عالمی سطح پر قبول کیا جائے اور اس کی بہتری ہر صورت میں ممکن ہو۔

۷۔     مصنوعی ذہانت ترجمہ اور بین العلومی تحقیق میں ذخیرہ الفاظ اور تیز رفتاری کے باعث انسانوں سے ایک درجہ آگے کھڑی نظر آ رہی ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے ابھی زبان دان طبقے سے بہت کچھ سیکھنا اور سمجھنا ہے۔ اردو دان طبقے کو اسے ادب دشمن سمجھنے کے بجائے ادب کا معاون سمجھنے، اس کی جانب مثبت رویہ رکھنے اور سنجیدہ انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ابتدائی اور درمیانے درجے کی تخلیق، تحقیق اور تنقید میں انجماد کی صورت میں اس سے مدد لی جا سکے اور اس کی اغلاط کو اس کے بانیان کے علم میں لا کر درست کیا جا سکے۔

۸۔     اس سے تخلیق کیے جانے والے ادب کو ’مشینی ادب‘ اور اس کی مدد سے تخلیق کیے جانے والے ایسے ادب کو جس میں انسانی ذہانت کا دخل بھی ہو، ’’انسان مشینی ادب‘‘ کا نام دیا جائے۔

۹۔     تحقیق کے ضمن میں اس سے حوالہ دینے کا طریقہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے طے ہونا چاہیے تاکہ سرقہ بازی اور حوالہ نہ دینے کے دونوں رجحانات سے بچا جا سکے۔ اس ضمن میں درج ذیل طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے:

اوپن اے آئی (نام: چیٹ جی پی ٹی یا جمنی وغیرہ) ، ورژن (جو بھی ہو مثلاً ۵.۳ یا 4) ، جوابی متن بابت (جو بھی سوال یا کمانڈ دی گئی ہو) ، تاریخ اور وقت۔

جب کہ ایسی تحقیقات و تنقیدات جس میں یہ معاون ہو، ان میں اس کا باقاعدہ نام شامل کیا جانا چاہیے۔

۱۰۔    سرقہ پکڑنے والے سافٹ وئیر جن میں ’’turnitin‘‘ سرِ فہرست ہے، اسے مصنوعی ذہانت کا اردو سرقہ پکڑنے کے لیے بہتر کیا جانا چاہیے اور ضمن میں اس کے بانیان سے حکومتی سطح پر رابطہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

حواشی و حوالہ جات

*      (پ: ۱۹۸۵ء) لیکچرر، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی، سیالکوٹ۔

 

Bibliography

Abdullah, Syed. Ishārāt-i Tanqīd. Delhi: Jamal Press n.d.

Agha, Wazir. Takhliqī Amal. New Delhi: International Urdu Publications 2005.

Agha, Wazir. "Takhlīqī Amal aur Eski Sākht.” Ma’eni aur Tanāzur. New Delhi: International Urdu Publications 2000.

Akhtar, Saleem. Takhlīq, Takhlīqī Shaksīyāt aur Tanqīd. Lahore: Sang-i Mīl Publications 1989.

Aleeg, Qazi Saeed Uddin Ahmed. Sharḥ-i Dīwān-i Ghālib. Delhi: Ghālib Acadmey 1926.

Amjad, Majeed. "Kuliyāt-i Majīd Amjad.” Ed. Khawājah Muhammad Zakrīyā. Delhi: Farīd Book Depot 2011.

Ansari, Asloob Ahmed. "Adab kī Qadreiṅ.” Tanqīd-o-Takhlīq. Allahabad: Idārā-i Anīs, 1965 .

Askari, Muhammad Hassan. Takhlīqī Amal aur Aslūb. Muhammad Sohail Umar Lahore: Sang-i Mīl Publications 1989.

Ayub, Asma. "The Impact of Aritificial Intelligence on the Development of Literary Critic’s Abilities.” Journal of Literary Sciences 27 (2022) .

Barthes, Ronald. "The Death of the Author.” Image-Music-Text. Trans. Stephen Heath. London: Fontana Press, 1977.

Faiz, Faiz Ahmed. Kulīyāt-i Faiz Delhi: Naaz Publishing House n.d.

Farooqi, Muhammad Ahsan. "Adab aur Takhaiyul.” Ed. Shahid Ahmad Delhvi. Karachi: International Press, 1964.

Hanfi, Shameem. Tārīkh, Tehzīb aur Takhlīqī Tajurbah. Lahore: Sang-i Mīl Publications 2006.

Hashmi, Mehmood. "Takhlīqī Amal kiyā hai?” Farooqi, Shams ur Rehman. Shab Khoon. Allahbad 1968.

Kristeva, Julia. Desire in Language: A Semiotic Approach to Literature and Art. Trans. Alice Jardine and Leon S. Roudiez Thomas Gora. Colubmia: Columbia University Press, 2024.

-. Revolution in Poetic Language. Trans. Margaret Waller. Columbia: Columbia University Press, 1984.

Lamott, Anne. Bird by Bird, Some Instructions on Writing and Life New York: Anchor Books 1995.

Mehr, Ghalib Ghulam Rasool. Nava-i Sarosh Mukammal Dīwān Ma Sharḥ. Lahore: Sheikh GHulam Ali and Sons n.d.

Mīr, Mīr Taqī. Kulīyāt-i Mīr. Ed. Ibādat Barelvī. Vol. 1. Karachi: Urdu Dunya, 1958.

Mohani, Hasrat. Sharah-e-Dīwān-i Ghālib. Delhi: Farīd Book Depot 2004.

Rasheedi, Moeed. Takhlīq, Takhaiyul aur Isteyāra Delhi: Arshiya Publications, 2011.

Rehman, Shakeel ur. Mirzā Ghālib aur Hind Mughal Jamālīyāt. Sirinagar: Masūm Publications 1987.

Saussure, F. de. "Course in General Linguistics.” Trans. Wade Baskin. Columbia: Columbia University Press 1916.

Weizenbaum, Joseph. "ELIZA— A Computer Program for the Study of Natural Langauge Communication between Man and Machine.” Communication of the ACM 9.1 (1966) .

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے