آہ اے ارض فلسطین ۔۔۔ اسلم عمادی

ہماری آنکھوں میں اشک پر ہیں

ہماری آہیں، ہمارے نالے، ہمارے نوحے فضا میں

ماتم بچھا رہے ہیں،

سب اہل انصاف و دانش و عدل

ہیں غم زدہ، دل گرفتہ، حیراں

 

خبیث جابر کے ظلم، جبر اور بہیمیت بھی عروج پر ہیں،

عدو سبھی، امن و حق کے دشمن جٹے ہوئے ہیں،

 

ادھر ہمارے عزیز پیارے،

وہ سارے خود دار، گھر سے بے گھر ہوئے بچارے

سب اپنے حق، اپنے گھرکی خاطر تڑپ رہے ہیں،

کئی برس سے یونہی شب و روز،

مر رہے ہیں، بے کفن پڑے ہیں، [بے علاج زخمی، ضعیف، اپاہج]

ستم کا آئینہ بن گئے ہیں۔۔۔۔

 

 

عجیب ہے یہ ہماری اکیسویں صدی کا کریہہ منظر

اور اس پہ دعوی ہے

شور ہے یہ

کہ ہم ہیں اعلی اور ارتقا کی بلندیوں پر

یہ دعوی

لگنے لگا ہے اب سچ میں شریر ذہنوں کا جھوٹ،

ہر قولِ بے شک ہے کذب، اور مکر کا تماشہ

 

 

اے سب کے رب، ای عظیم و قادر، اے میرے اللہ،

یہ میرے بھائی، بہن، یہ بچے، جوان، بوڑھے،

شہید و مجروح، یتیم و بیوہ، یسیرو تنہا،

یہ سب ترے نام سے جڑے ہیں،

تری کمک، تری مدد اور تری عنایت کی آس میں ہیں

 

بہت ہوا انتظار مولی، رحیم ہے تو، کریم ہے تو،

تجھی نے پیدا کیا ہے ان کو، تو پھر، انہیں کا حافظ، عظیم ہے تو

 

گذر چکا ضبط و صبر و شکیب کا پل

بس اب کرم کر،

اے نور والے، قران والے ؛ اے شان والے

وہ نبیوں کا دیس، وہ فلسطین

تری توجہ کے منتظر ہے، اتار دے فتح کے فرشتہ

ستم گروں کو ہلاک کر دے،

لئیم و جلاد غاصبوں کو تباہ و نابود و خاک کر دے

 

وہ خوبیوں کی زمیں فلسطین، جاگ اٹھے، اس کے اصلی باسی بھی لوٹ آئیں

وہ تین و زیتون کی پیاری دھرتی‘ جو قید میں ہے

وہ پھر سے شاداب ہو، بہاریں پھر اس میں لہلہائیں

اے صاحب عز و جل، اے اللہ

ہم کئی دہوں سے ہیں سر بہ سجدہ،

ہیں منتظر تیرے فیصلے کے

بہت ہوا انتظار مولیٰ

بس اب کرم کر، بس اب کرم کر۔۔۔۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے