نظمیں ۔۔۔ غضنفر

 

لکھنے کی بیماری

 

کسی کو عارضہ دل کا

کسی کو دق کی بیماری

دمے سے کوئی بے دم ہے

کسی کا سر گراں باری سے ہے بھاری

کسی کے دانت میں پیڑا

کسی کے پیٹ میں کیڑے

کسی کے من میں طغیانی

کسی پر یاس ہے طاری

۔کسی کو صبح اٹھتے ہی طلب ٹی کی

کسی کو علت سیر جہاں بانی ، ہوا خوری

کسی کو دفتری اوقات کی جلدی

مجھے لکھنے کی بیماری

نہیں لکھتا تو لگتا ہے

گلا بھنچ جائے گا میرا

لہو کھنچ جائے گا میرا

عجب اک اضطرابی کیفیت

سینے میں اٹھتی ہے

عجب سیماب سی صورت

رگ و ریشے کی ہوتی ہے

کوئی منظر نظر کے رخ پہ آ جائے

کوئی نکتہ انوکھا ذہن پا جائے

دل حسًاس میں شعلہ لپک جائے

کوئی جذبہ چمک جائے

کسی احساس کی حدت دمک جائے

ہر اک لمحہ یہی خواہش ابھرتی ہے

مجھے بے چین کرتی ہے

مگر لکھنا نہیں آساں

کہ لکھنے میں بھی

دل کا خون ہوتا ہے

رگیں اس میں بھی کھنچتی ہیں

نفس اس میں بھی بھنچتا ہے

تخئیل کے بھی بال و پر جھلستے ہیں

تلاش لفظ و معنی میں

پھپھولے آنکھ کی پُتلی میں پڑتے ہیں

کئی تیر و تبر دیدوں میں گڑتے ہیں

رگ و ریشے ادھڑتے ہیں

تصور کے کئی اشجار بھی

جڑ سے اکھڑتے ہیں

عجب اک ٹیس اٹھتی ہے

چبھن رہ رہ کے ہوتی ہے

ہر اک ساعت رگ و پے میں

نئی پیڑا سموتی ہے

کوئی تحریر لکھ جاتی ہے

آخر تک

مگر یک جنبشِ خامہ سے

اکثر کٹ بھی جاتی ہے

کوئی تخلیق کٹتی ہے

تو دل پر کیا گزرتا ہے

نواح ذات میں کیا کیا بکھرتا ہے

دل و جاں میں تلاطم کیسا اٹھتا ہے

تھپیڑے کیسے لگتے ہیں

کلیجہ کیسے پھٹتا ہے

قلم رکتا نہیں پھر بھی

تخئیل دم نہیں لیتا

کبھی احساس بھی تھکتا نہیں میرا

مرے جذبوں کا ریلا بھی نہیں تھمتا

کہ بیماری ہے لکھنے کی

٭٭٭

 

 

 

یادیں

 

بہت مشکل تھی آسائش

سہولت کم تھی جینے کی

نہ بجلی تھی

نہ پانی کی تھی آسانی

نہ چیزوں کی

نہ دولت کی فراوانی

ہر اک میدان میں

ہر دائرے میں تنگ دامانی

ضروری حاجتوں میں بھی پریشانی

اندھیرے میں مکانوں سے نکلنا تھا

کھلے میں، کھیت میں

چھپ کر پہنچنا تھا

بچا کر خود کو دنیا سے

گزرنا تھا

شجر کو کاٹ کر

ایندھن بنانا تھا

دھوئیں میں بیٹھ کر

چولھا جلانا تھا

کسی سوئی ہوئی لکڑی کو

پھونکوں سے جگانا تھا

سمجھ لیجے کہ مردے کو جلانا تھا

نہ اپنے پاس گھوڑا تھا

نہ ہاتھی تھا

نہ گاڑی تھی

اٹاری تھی، نہ کوٹھی تھی

حویلی تھی ، نہ باڑی تھی

سبھی کو کام پر پیدل نکلنا تھا

نکیلے پتھروں کی راہ پر

دن رات چلنا تھا

دوا دارو کی تنگی تھی

غذا میں سادگی تھی

ایک رنگی تھی

خبر گیری بڑی مشکل سے ہوتی تھی

کئی ہفتوں میں نامہ ہاتھ لگتا تھا

صعوبت جھیلنے کے بعد

منزل پاس آتی تھی

بہت دشوار کن تھی زندگی

پر یاد آتی ہے

کہ اس کی یاد سے اک نور چھنتا ہے

بصیرت میں پہنچتا ہے

کوئی سرمہ سا رکھتا ہے

عجب اک رس نکلتا ہے

رگ و ریشے میں گھلتا ہے

دل و جاں میں سرور و کیف بھرتا ہے

کہ اس تنگی میں دل کتنا کشادہ تھا

نظر میں کیسی وسعت تھی

سمٹ آتے تھے باہوں میں پرائے بھی

بسا لیتے تھے گھر میں مسکرا کر

بے گھروں کو بھی

نوالہ منہ کا دے دیتے تھے اوروں کو

خبر دکھ کی جو سنتے تھے

تو پیدل بھاگ پڑتے تھے

ہمارا دل بھی کتنا نرم ہوتا تھا

کسی کی آہ سن کر کانپ جاتا تھا

کسی کی چھٹپٹاہٹ پر

وہ خود بھی چھٹپٹاتا تھا

دھواں تھا

پر دھویں میں دم نہیں گھٹتا تھا سینے میں

اندھیرا تھا ،بہت گہرا اندھیرا تھا

اندھیرے میں مگر لوگوں کا چہرہ

صاف دکھتا تھا

بہت دشوار تھا رستہ

مگر چلنے کا یارا تھا

کہیں جانے ،کسی کا کام نمٹانے کا جذبہ تھا

خصوصاً اس گھڑی یادوں کا ریلا تیز ہوتا ہے

کبھی جب دفتری کاموں میں ہوتے ہیں

کسی اسٹار ہوٹل میں

بڑی سی ڈیل کرتے ہیں

کروڑوں ایک جنبش میں

بناتے ہیں

لٹاتے ہیں

گنواتے ہیں

الجھتے ہیں

بپھرتے ہیں

بکھرتے ہیں

تو گزرے دن چلے آتے ہیں آنکھوں میں

ملازم کی کوئی لڑکی بھی آ جاتی نگاہوں میں

وہی لڑکی جو بس جاتی تھی سینے میں

وہی جو پاس ہوتی تھی

مگر ملنا بہت دشوار ہوتا تھا

جسے پانے کی خاطر

کیسی بے چینی سی ہوتی تھی

بہت ہی خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں دفتر میں

جو اک جنبشِ سے آ جاتی ہیں پہلو میں

رگ و ریشے میں لیکن کیفیت ویسی نہیں گھلتی

جو گھلتی تھی نصیبن سے لپٹنے میں

مسرت کی کوئی کھڑکی نہیں کھلتی

جو کھلتی تھی

نصیبن کے بدن کے لمس سے تن میں

بہت ہی روشنی ہے ،گہما گہمی ہے

ہر اک شے کی سہولت ہے

ضرورت کی سبھی چیزیں مہیا ہیں

ہر اک نعمت میسر ہے

مگر دل میں

نظر میں

ذہن میں

سب میں قیامت ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے