زندگی
خوبصورت سی ایک دوشیزہ
اپنے کندھوں پہ لے کے غم کی صلیب
ٹھوکریں کھاتی
اشک برساتی
راستوں پر بھٹکتی پھرتی ہے
٭٭
آرزو
بھولی بھالی سی اک بچّی
نِسدن اپنی بے کس ماں کی گود میں جا کر
رنگ برنگی
نئی نئی گڑیوں کی خاطر
چِلّا چِلّا کر روتی ہے
آخر تھک کر سو جاتی ہے
مسرّت
جھیل کی نیلگوں سطح پر
ایک مچھلی، سنہری سی
آوارہ اور خوشنما
چند لمحوں کو
لہروں سے اٹھکھیلیاں
کر کے
پھر ڈوب جاتی ہے
اک مدّتِ بے کراں کے لئے
٭٭٭
برسات کے دنوں کی ایک نظم
امڈتی بڑھتی گھٹا
دن پہ رات کے سائے
کڑکتی بجلیاں لہرا کے ٹوٹتی برسات
گلی کا موڈ، شکستہ مکاں، ٹپکتی چھت
لباسِ نم میں ٹھِٹھرتے ہوئے
جواں دو جسم
حجاب و خوف بھُلا کر
لپٹ کے ……
جلتے ہوئے لب کی آگ پیتے رہے
مکاں ٹھٹھرتا رہا اور مکین جلتے رہے
٭٭٭