غزلیں ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

 

یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں

پتہ تو ہے کہ اُسے عمر بھر نہیں آنا

 

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی

جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا

 

ذرا سی غیب کی لکنت زباں میں لاؤ

بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا

 

ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے

اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا

 

ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی

نہیں تو تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا

 

کروں مسافتیں نا آفریدہ راہوں کی

مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا

٭٭٭

 

 

 

اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں

اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں

 

کیفیتِ بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں

بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں

 

جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے

ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں

 

آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامہ دنیا پر

اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں

 

میں کون ہوں! ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں

اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام

منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام

 

ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام

خواب گاہوں سے ادھر خواب میں چلتی ہوئی شام

 

گوندھ کر موتیے کے ہار گھنی زلفوں میں

عارض و لب پہ شفق سرخیاں ملتی ہوئی شام

 

اک جھلک پوشش بے ضبط سے عریانی کی

دے گئی دن کے نشیبوں سے پھسلتی ہوئی شام

 

ایک سناٹا رگ و پے میں سدا گونجتا ہے

بجھ گئی جیسے لہو میں کوئی جلتی ہوئی شام

 

وقت بپتسمہ کرے آب ستارہ سے اسے

دست دنیا کی درازی سے نکلتی ہوئی شام

٭٭٭

 

 

 

 

سادہ سی حقیقت کو افسانہ بنا لینا

چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا

 

ہو اوجِ مکاں جس جا معیار بلندی کا

ہم خاک نشینوں کو اُس شہر سے کیا لینا

 

کیوں تاکتے رہتے ہو رستے میں حسینوں کو

اس شغل میں تم اپنی آنکھیں نہ گنوا لینا

 

کچھ سہل نہیں ایسا، اِس دار کے موسم میں

سر تان کے چلنے کا اقرار نبھا لینا

 

یہ یاریاں، یہ رشتے مضبوط بس اتنے ہیں

پرسوں کی عمارت کو اک آن میں ڈھا لینا

 

موجود ہیں کھونے میں گنجائشیں پانے کی

یعنی ہو زیاں جتنا اُتنا ہی مزا لینا

٭٭٭

 

 

 

 

دلوں پہ شوق اطاعت کا وہ نزول ہوا

کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا

 

فنا کے بعد پیامِ بقا بھی لایا ہے

یہ پھول کل جو اسی راستے کی دھول ہوا

 

گرفتِ فیصلہ میں آ کے کیا سے کیا ہو جائے

ابھی وہ مثلِ شرر تھا، ابھی وہ پھول ہوا

 

میں اس کی راکھ کے صدقے، اُڑا دیا جس نے

وجود، جس کے لئے جبر نا قبول ہوا

 

میں عمر کے نہیں کونین کے سفر میں ہوں

کسی زیاں سے کبھی میں نہیں ملول ہوا

٭٭

 

 

 

 

دونوں ہی اک ساتھ بھلا ملتے ہیں

یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں

 

آنکھیں کھول کہ دیکھو معنی دنیا کے

اِس لغّت میں سارے مطلب ملتے ہیں

 

کون کسے یاں جانے ہے پہچانے ہے

ملنے کو تو آپس میں سب ملتے ہیں

 

غم بھی اک تہذیب ہے جس کی کشور میں

تشنہ آنکھیں اور پیاسے لب ملتے ہیں

 

جان گنوا کر نام ملے گم ناموں کو

یہ گوہر جب کھو جائیں تب ملتے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے