زین کہانیاں ۔۔۔ سلام بن رزاق

تالیف و ترجمہ: سلام بن رزاق

پیشکش و ٹائپنگ: احمد نعیم

 

آواز

 

ایک زین سادھو کا انتقال ہو گیا۔ اُس کے آشرم کے پاس ایک اندھا بوڑھا رہتا تھا۔ اُس نے مرنے والے کے تعزیتی جلسے میں کہا

’’میں پیدائشی اندھا ہوں اس لیے لوگوں کو جذبات کو اُن کے چہرے سے نہیں آواز سے پہچانتا ہوں۔ عام طور پر میں جب کس کو مبارکباد دیتے ہوئے سنتا ہوں تو اُس کی آواز میں پوشیدہ حسد کی گونج بھی مجھے سنائی دیتی ہے۔ جب کسی کو تسلی دیتے ہوئے سنتا ہوں تو اُن لفظوں میں پوشیدہ ریا کاری بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ جب کسی کو تسلی دیتے ہوئے سُنتا ہوں تو اُن لفظوں میں پوشیدہ ریا کاری بھی مجھ پر عیاں ہو جاتی ہے لیکن مرحوم کو میں نے جب بھی سُنا اپنے جذبہ کے تئیں صادق پایا۔

جب وہ کسی کو مبارک باد دیتا، تو اندر سے باہر تک خوش ہوتا۔ جب دُکھ جتاتا تھا تو سچ مچ دُکھی ہوتا تھا۔

٭٭

 

پرارتھنا

 

زین گُرو بال سین کے پاس ایک موچی آیا اور اُس نے بال سین سے کہا:

’’میں بڑی مشکل میں پڑ گیا ہوں۔ میں غریب آدمی ہوں۔ بارہ تو میرے بچے ہیں بیوی ہے بوڑھا باپ ہے اور بیوہ بہن ہے۔ ان سب کا بوجھ مجھ پر ہے۔ میں جوتا بنانے کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ صبح سے کام میں لگ جاتا ہوں اور رات گئے تک کام کرتا ہوں۔ ورنہ گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو جائے۔ ایسی حالت میں بھلا میں کب تک پرارتھنا کروں؟؟‘‘

بال سین نے کہا ’’جب تو جوتا بناتا ہے تو عبادت کی ضرورت کیا ہے؟ بس جوتا بنا وہی تیری پرارتھنا ہے اور جو گاہک آتا ہے وہی تیرا پرماتما ہے‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے