غزلیں ۔۔۔ شفق سوپوری

رونے لگا ہے بھبکا، جنازہ نکل گیا

لوگو! چراغِ شب کا جنازہ نکل گیا

 

مرنا تھا اب کو، اب کی جگہ مرگیا ہے تب

تب کے بجائے اب کا جنازہ نکل گیا

 

پہلے زبانِ اردو میں غسال گھس گئے

پھر اس کے بعد ادب کا جنازہ نکل گیا

 

بولا طبلچی دیکھ کے کوچے میں، ہائے ہائے

اُستاد جی غضب کا جنازہ نکل گیا

 

آنکھوں کا پانی مرگیا، اے آب و تاب سن

اچھا ہوا کڈھب کا جنازہ نکل گیا

 

مدخولہ ہے غزل متشاعر کی آج کل

یعنی سخن کی چھب کا جنازہ نکل گیا

 

رو اے مرے عزیز فلسطین کے لہو

رو غیرتِ عرب کا جنازہ نکل گیا

 

وہ صدمہ ابتسام کا گزرا شفق کہ بس

مشتاقِ غنچہ لب کا جنازہ نکل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آئینہ کانپنے لگا میرا

عکس پر عکس گر پڑا میرا

 

کس طرح کی بلا ہے تنہائی

یا تو میں جانوں یا خدا میرا

 

میں جہاں آنکھ کھول دیتا ہوں

وہیں کھلتا ہے راستہ میرا

 

مجھ کو کہتے ہیں گردِ پا بہ رکاب

کیا بگاڑے گی یہ ہوا میرا

 

نہیں جانا اگر تو خاک نے بس

نہیں جانا ہے مرتبہ میرا

 

اپنی حاجت روائی کو ہی نہ دیکھ

دیکھ اسلوبِ التجا میرا

 

کفش بردارِ میر صاحب ہوں

مان لو مستند کہا میرا

 

ق

 

نہیں ہے میرا ہمسفر کوئی

نہیں ہے کوئی قافلہ میرا

 

نہ کسی سے ہے دوستی میری

نہ کسی سے معاملہ میرا

 

نہ کسی سے تنازعہ کوئی

نہ کسی سے مجادلہ میرا

 

مل گیا دشمنوں سے جا کے مرے

جو بھی لونڈا تھا منہ چڑھا میرا

 

دشمنی مول لی ہے جن کے لئے

کیا انہوں نے بھلا کیا میرا

 

ایسے ڈرپوکوں کی حمایت سے

ٹوٹ جاتا ہے حوصلہ میرا

 

جا کے کہہ دو مرے رقیبوں سے

وار ہوتا نہیں چھپا میرا

 

گھات میں بیٹھتا نہیں ہوں میں

تیر چلتا ہے برملا میرا

 

دل میں جو ہے وہی زباں پر ہے

نہیں معیار دوہرا میرا

 

خلق میں امتیاز کرتا ہوں

نہیں کردار دوغلا میرا

 

کبھی جرمِ جنوں پہ جو پرچہ

فوجداری کا کٹ گیا میرا

 

کچہری میں ضمیر کی میرے

ہوا فیصل مقدمہ میرا

 

کبھی خانہ خرابیوں کا یہاں

جرم ثابت نہیں ہوا میرا

 

بھاگ جاتے ہیں دم دبا کر شیر

دیکھ کر نقشِ بوریا میرا

 

چہرہ دھوتا ہوں نیشِ عقرب سے

سانپ کا پھن ہے آئینہ میرا

 

وہیں مر جاؤں رعب سے جو ہوا

ایک بھی رونگٹا کھڑا میرا

 

میں تو چوکھٹ اکھاڑ دوں گا اگر

ہاتھ دروازے میں پھنسا میرا

 

جو سمجھتے ہیں خود کو کوہِ گراں

ان کے جتنا ہے لبلبہ میرا

 

پھر بھی درخواست ان سے ہے کہ کریں

در گزر سب کہا سنا میرا

 

مت ستاؤ تلامذہ کو مرے

اب نہیں ان سے رابطہ میرا

 

اب بلاؤ مشاعروں میں انہیں

کٹ گیا ان سے سلسلہ میرا

 

اب صدارت کرو عنایت اسے

بخش دو جو حبیب تھا میرا

 

اب میں باشندہ ہوں تو یو پی کا

تم سے ہے لینا دینا کیا میرا

 

اب کے وادی سے آب و دانہ شفق

بیس اپریل کو اٹھا میرا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے