برسوں کا شناسا بھی شناسا نہیں لگتا
کچھ بھی دمِ ہجراں مجھے اچھا نہیں لگتا
کر لوں میں یقیں کیسے کہ بدلہ نہیں کچھ بھی
لہجہ ہی اگر آپ کا لہجہ نہیں لگتا
اک تیرے نہ ہونے سے ہوا حال یہ دل کا
بستی میں کوئی شخص بھی اپنا نہیں لگتا
کاغذ سے وہ مانوس سی خوشبو نہیں آئی
یہ خط بھی تیرے ہاتھ کا لکھا نہیں لگتا
آنکھوں میں مری اس لئے جاذب یہ نمی ہے
سوکھا ہوا دیا مجھے اچھا نہیں لگتا
٭٭٭
وقت نے یوں مجبور کیا
خود کو خود سے دور کیا
کب نشے میں طاقت تھی
الفت نے مجبور کیا
تیری یادوں نے آ کر
اور بھی کچھ رنجور کیا
چاند کھڑا تھا رستے میں
رکنے پر مجبور کیا
جاذب توڑا آئینہ
عکس کو چکنا چور کیا
٭٭٭
جب بھی اُس کی مثال دیتی ہو
جان میری نکال دیتی ہو
پہلے سنتی ہو غور سے باتیں
پھر سلیقے سے ٹال دیتی ہو
سب خطائیں تمہاری اپنی ہیں
پھر بھی قسمت پہ ڈال دیتی ہو
جب بھی کرنا ہو فیصلہ کوئی
ایک سکہ اچھال دیتی ہو
جانِ جاذب تمہارا کیا ہو گا
دشمنوں کو بھی ڈھال دیتی ہو
٭٭٭