غزلیں ۔۔۔۔ طارق بٹ

وجہِ بے گانگی بتاتے نئیں

جو ہمارے ہیں اور ہمارے نئیں

 

آپ کیا دوریاں مٹائیں گے

راستے ملنے کے بناتے نئیں

 

چلیے منزل شناس ہم نہ ہوئے

خیر سے آپ بھی تو پہنچے نئیں

 

ہم نے ہر لمحہ دل اُسارے ہیں

کر کے پیماں کسی سے توڑے نئیں

 

اک تمھیں اپنی داستاں میں ہو

اور کردار ہم نے رکھے نئیں

 

نت نئی ہیں بجھارتیں تیری

بوجھتے جائیں گے تھکیں گے نئیں

 

کچھ بڑھ کے ہیں خداؤں میں

ورنہ ہم تو انا کے بندے نئیں

 

کوئی کچھ بھی بنا ہو حرفوں کا

ہم پہ مشکل کسی کے ہجّے نئیں

 

ایک دنیا ہے کارِ وحشت میں

یعنی رم خوردہ، ہم اکیلے نئیں

 

لمحے خوشیوں کے بارہا آئے

دے کہ دستک ذرا بھی ٹھہرے نئیں

 

یوں تو کیا کیا سخن زباں پر ہیں

بولتے نئیں، جو ان میں، رس کے نئیں

٭٭٭

 

 

کنارہ کر کے وہ دریا بدل گیا مجھ کو

کہ بہتے وقت کا دھارا بدل گیا مجھ کو

 

تو، ریت کر گیا آخر، وہ دل کی دیواریں

بنا گیا مجھے صحرا، بدل گیا مجھ کو

 

کبھی میں اپنے لیے اجنبی نہ تھا ایسا

کوئی ہے سارا کا سارا بدل گیا مجھ کو

 

میں جی رہا ہوں بدلتی رتوں کے عکس لیے

نظارہ کر یہاں، کیا کیا بدل گیا مجھ کو

 

لکھا ہے دل پہ مرے سب حساب، بیش و کم

کہاں پہ، کب، کوئی کتنا، بدل گیا مجھ کو

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے