سید اعجاز علی رحمانی: کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

سید اعجاز علی رحمانی نے اپنے عہد کے جن نابغۂ روزگار ادیبوں سے اکتساب فیض کیا ان میں قمر جلالوی (۱۸۸۷۔ ۱۹۶۸) اور فضا جلالوی شامل ہیں۔ ایک وسیع المطالعہ، زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار کی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے ہر صنف شاعری میں طبع آزمائی کی۔ حمد، نعت، غزل، نظم، قطعات اور رباعی میں انھوں نےا پنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اسلامی تاریخ کو منظوم صورت میں پیش کیا جائے۔ انھوں نے منظوم تاریخ اسلام لکھنے کے کام کا آغاز کر دیا تھا لیکن اسے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ ان کی نعت گوئی اور نعت خوانی کی ہر طرف دھوم تھی۔ وہ جب ترنم سے نعت پڑھتے تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اپنی درج ذیل تصانیف سے انھوں نے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کیا:

اعجاز مصطفی، پہلی کرن، آخری روشنی، کاغذ کے سفینے، افکار کی خوشبو، غبارِ انا، لہو کا آبشار، لمحوں کی زنجیر

اردو میں نعتیہ شاعری کے ابتدائی نقوش خواجہ سید محمد گیسو دراز بندہ نواز کے فرزند سید محمد اکبر حسینی کے کلام میں ملتے ہیں۔ اس کے بعد بیدار (بھارت) سے تعلق رکھنے والے شاعر فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ میں نعتیہ کلام ملتا ہے۔ ایک ہزار بتیس (۱۰۳۲) اشعار پر مشتمل یہ مثنوی قدیم ترین (۱۴۲۱۔ ۱۴۳۵) دکنی مثنوی ہے۔ اردو نعت گوئی کی سیکڑوں سال قدیم روایت کے منابع اسی مثنوی سے وابستہ ہیں۔ تاریخ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کی نعت میں اس مثنوی کے آثار ملتے ہیں:

خدا سنوریا مصطفیٰﷺ سنوریا

خدا با صفا مصطفیٰﷺ سنوریا (سنوریا: محبوب) (1)

نعت گوئی کی اس روایت کو مولانا کفایت علی کافی ؔنے استحکام بخشا۔ مراد آباد (اتر پردیش، بھارت) سے تعلق رکھنے والے حریت فکر و عمل کے اس مجاہد نے ۱۸۵۷کی جنگ آزادی میں غاصب برطانوی استعمار کے خلاف جد و جہد کی۔ نوآبادیاتی دور میں اس جری تخلیق کار کو برطانوی استعمار نے سال 1858میں دار پر کھنچوا دیا۔ مولانا کفایت علی کافیؔ کی نعتیہ شاعری سید اعجاز رحمانی کو بہت پسند تھی۔

طفیلِ سرورِ عالم ہوا سارا جہاں پیدا

زمین و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا

نہ ہوتا گر فروغِ نور پاک رحمت عالم

نہ ہوتی خلقتِ آدم نہ گلزارِ جناں پیدا

اردو کی نعتیہ شاعری کے محقق اور ممتاز نعت گو شاعر امیر اختر بھٹی (مصنف: توشۂ آخرت) کہا کرتے تھے کہ مولوی غلام امام شہیدؔ کی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ’’گلزار خلیل‘‘ اردو نعتیہ شاعری کی روایت میں گراں قدر اضافہ ہے۔ سید اعجاز علی رحمانی سمیت اُردو زبان کے نعت گو شعرا نے ہر عہد میں اس سے استفادہ کیا:

اے خوشا نام خداوندِ جلیل

جس سے آتش ہوئی گلزار خلیلؑ

مظہر حق ہے محمدﷺ کا نور

آفرینش کا اُسی سے ہے ظہور

اردو شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر دور میں اردو شعرا نے حمد اور نعت لکھ کر اپنے قلبی و روحانی جذبات کو زیب قرطاس کیا۔ اپنی نعتیہ شاعری میں سید اعجاز علی رحمانی نے نعت کی سیکڑوں سال قدیم روایت کو زادِ راہ بنایا۔ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے پاکستانی زبانوں کے علاوہ عربی اور فارسی نعت کابہ نظر غائر جائزہ لیا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث بر صغیر کی مقامی زبانوں کی نعتیہ شاعری میں کسی قدر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ عقیدت کے مظہر وہ کون سے عوامل اور تخلیقی روّیے ہیں جو عربی اور فارسی زبانوں کی نعتیہ شاعری کو منفرد حیثیت عطا کرتے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عربی اور فارسی میں تخلیق ہونے والی نعتیہ شاعری اور بر صغیر کی مختلف زبانوں کی نعتیہ شاعری میں پائے جانے والے فرق کے پس پردہ ادبی اقدار کے بجائے قلبی وابستگی، روحانی عقیدت اور کچھ عمرانی عوامل کارفرما ہیں۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ بعض ناقدین کی رائے میں عالمی ادب کی نعتیہ شاعری کی فکری منہاج میں پایا جانے والا فرق اپنی اصلیت کے اعتبار سے ادبی روایات کا فرق ہے۔ روایت کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جسے کوئی قوم یا گروہ سیکڑوں برس سے پیہم رو بہ عمل لا رہا ہو۔ روایت کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس کا آثار قدیمہ سے گہرا تعلق ہے۔ یہی وہ تعلق ہے جو روایت کو لائق صد رشک و تحسین مقام عطا کر کے عصری آ گہی پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں بر صغیر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں جمالیات کا فلسفہ عنقا ہوتا چلا گیا حالانکہ جمالیات کو الٰہیات کے ایک اہم حصے کی حیثیت حاصل ہے۔ قوم مذہب سے متشکل ہوتی ہے اور جہاں تک مذہب کا تعلق ہے یہ اعتقادات، عبادات اور اخلاقیات کا گنجینہ ہے۔ پس نوآبادیاتی دور میں محققین نے پاکستانی نثر نگاروں، حمد اور نعت گو شعرا بالعموم مسلمان ادیبوں کے تخلیق کردہ ادب پاروں اور دوسری زبانوں کے ادب کے مطالعہ پر توجہ مرکوز کر دی۔ نعتیہ شاعری کے حوالے سے یہ مختلف ممالک میں تخلیق ہونے والے سیرتِ طیبہ اور نعتیہ ادب کا تقابلی مطالعہ نہیں۔ مشرقی ادبیات میں اس خطے کی مکین دوسری اقوم اور ملل سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کی ملی شاعری بالخصوص حمد اور نعت کی اصناف میں ان کی خدمات کو نظر انداز کرنا حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے۔ سید اعجاز علی رحمانی کا خیال تھا کہ ہر ادب کی اساس حقیقت کے ایک خاص تصور پر ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر مذہب، قوم اور ملک سے وابستہ ادیبوں نے نعت کی تخلیق میں عقیدت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کو دنیاکی مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والی نعتیہ شاعری کے انجذاب پر توجہ دینی چاہیے۔ اس طرح وہ جس فکری تونگری سے متمتع ہوں گے اس کے اعجاز سے پاکستانی ادبیات بالخصوص نعتیہ شاعری کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔ وہ دن دُور نہیں جب تخلیق ادب کا اہم ترین موضوع معاشرتی زندگی میں انسانوں کے باہمی تعلقات کے بجائے خالق اکبر، محسن انسانیتﷺ اور مخلوق کے ربط کے بارے میں ہو گا۔ پس نوآبادیاتی دور میں قومی تشخص اور ملی اقدار کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے پر بہت کم توجہ دی گئی۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اپنی نعتیہ شاعری میں تاریخی تناظر میں آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں کے بارے میں لکھا ہے:

ہر طرف تِیرگی تھی نہ تھی روشنی

آپﷺ آئے تو سب کہ ملی روشنی

بزمِ عالم سے رخصت ہوئیں ظلمتیں

جب حرا سے ہویدا ہوئی روشنی

لے کے سب اپنے اپنے سفینے چلو

گر اماں چاہتے ہو مدینے چلو

تربیت گاہ سرکار میں دوستو

سیکھنے زندگی کے قرینے چلو

لے کے پیغام آئی ہے بادِ صبا

یاد تم کو کیا ہے نبیﷺ نے چلو

روح کے چاک طیبہ میں سِل جائیں گے

جامۂ زندگی اپنا سینے چلو

————————————

اوّل و آخر جس کی رسالت عرش کا جو مہمان بھی ہے

بعد خدا وہ انسانوں میں سب سے بڑا اِنسان بھی ہے

باعث رحمت ذِکرِ محمدﷺ اسم گرامی راحت جاں

مدحِ محمدﷺ دِل کی تڑپ ہے اور یہی ایمان بھی ہے

محسنِ اعظم، رحمت عالم، خلقِ مجسم، حسنِ اتم

شاہ امم کے بعد بتاؤ اور کوئی انسان بھی ہے

دنیا میں ہم اور کسی کی کا ہے کو تقلید کریں

پاس ہمارے سرورِ دیں کے قول بھی ہیں قرآن بھی ہے

اپنی خطا پہ ہو کے پشیماں دل سے اُنھیں آواز تو دے

ڈُوبنے والے بحرِ الم میں بچنے کا امکان بھی ہے

ہم بھی تو اعجاز ؔ سرِ فہرست ہیں ایسے لوگوں میں

کوئی عمل دامن میں نہیں اور جنت کا ارمان بھی ہے

زندہ اقوام اپنی درخشاں اقدار و روایات کی پاس داری کو سدا اپنا نصب العین بناتی ہیں۔ ان اقدار و روایات کا مذہب، تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت سے گہرا تعلق ہے۔ عقیدت، روحانیت اور ذہانت کی اساس پر استوار نعت گوئی کی یہ عظیم الشان روایت تا ابد دلوں کو مرکز مہر و وفا کر کے حریم کبریا سے آشنا کرتی رہے گی۔ یہ روایت ہی ہے کہ جب راعی نے للکار کر پکارا تو سار گلہ تھرا گیا اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سب افراد کھرا اور کھوٹا الگ کرنے کے عمل میں معاون بن گئے۔ سید اعجاز علی رحمانی نے پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونے والی نعتیہ شاعری اور ادب کو قومی تشخص اور ملی شناخت کا موثر وسیلہ قرار دیا ان کی نعتیہ شاعری میں پائی جانے والی روحانیت اور عقیدت قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اپنے اسلوب میں جدت، تنوع، زندگی کی تمازت اور خلوص کے امتزاج سے روایت کو وسعت عطا کی۔ ان کا خیال تھا کہ درخشاں روایات کے استحکام کے لیے انھیں افکارِ تازہ سے مزین کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے عملی، بزدلی، ہوس اور خود غرضی نے بے حسی کو جنم دیا ہے۔ اپنی شاعری میں سید اعجاز علی رحمانی نے معاشرتی زندگی میں آنے والے شکست و ریخت کے موسم کے مسموم اثرات سے متنبہ کیا ہے۔ انھوں نے مفاد پرست مرغانِ باد نما کے قبیح کردار کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے ان کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ آج کے دور میں خود ستائی نے ایک مہلک متعدی مرض کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایسے ابلہ جن کی کور مغزی اور بے بصری کا یہ حال ہے کہ وہ خورشید جہاں تاب کی ضیا پاشیوں سے بھی بے خبر ہیں وہ بونے بھی اپنے تئیں باون گزا ثابت کرنے پر تُل گئے ہیں۔ مادی دور کی لعنتوں کے باعث معاشرتی زندگی میں بے غیرتی، بے ضمیری، بے حیائی اور محسن کشی بڑھ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں آئینہ صفت حساس اہل درد سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ ذاتی منفعت کی خاطر ارض وطن اور اہلِ وطن کے مفادات کو پسِ پشت ڈال کو گل چھرے اُڑانے والے جہلا اور سفہانے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ سید اعجاز علی رحمانی کی شاعری میں اس صورت حال کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔

جس نے چاہا ہمیں اذیت دی

اور خاموش ہو گئے ہم لوگ

ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں

دیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں

کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا

وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں

نقش بر آب ہو گیا ہوں میں

کتنا کم یاب ہو گیا ہوں میں

کیا کروں گا میں اب خوشی لے کر

غم سے سیراب ہو گیا ہوں میں

ذوقِ سلیم سے متمتع ایک قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے اپنی شاعری میں صنائع بدائع کے بر محل استعمال سے حسن پیدا کیا ہے۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اپنی شاعری میں تلمیحات، تراکیب، مرکبات، تشبیہات اور استعارات کے استعمال سے حسن و دل کشی پیدا کی ہے۔ فنی مہارت سے کی گئی یہ مرصع سازی اس قدر دل کش ہے کہ تفہیم کے بغیر بھی یہ اپنی افادیت کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اظہار و ابلاغ کے منفرد انداز اور لسانی حسن و جمال سے لبریز یہ شاعری ایسی ساحری کا رُوپ دھار لیتی ہے جو ہر قلبِ پریشاں کو سکون سے متمتع کرتی ہے۔ اس شاعری کو مفاہیم اور مطالب کے اعتبار سے فنی محاسن نے جو نکھار عطا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی تخلیقی فعالیت کو روبہ عمل لاتے ہوئے سید اعجاز علی رحمانی نے اخوت اور محبت کا پیغام دیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ جبر، تعصب اورنفرت کی دیواروں کو تیشۂ حرف سے منہدم کر دیا جائے۔ اس شاعری میں دل پر اُترنے والے سب موسم جن میں جذبات، احساسات، حسرت و یاس، رجائیت، اضطراب، اُمید، وفا، عہد و پیمان، حق گوئی و بے باکی اور خلوص و درد مندی شامل ہیں پوری شدت سے جلوہ گرہیں۔ سید اعجاز علی رحمانی کا منفرد اسلوب جو افکارِ تازہ سے مزین ہے ایسا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے جو قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتا ہے۔

ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

یہ کون ہے جو مرے گھر کے پاس رہتا ہے (تجاہلِ عارفانہ)

گزر رہا ہوں میں سوداگروں کی بستی سے

بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے (تجاہلِ عارفانہ)

لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحل پر

بہت دنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے (تجاہلِ عارفانہ)

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

سورج کو سمندر میں اُترنا ہی پڑے گا (حسن تعلیل)

فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے

خوشبو ہے اگر وہ تو بِکھرنا ہی پڑے گا (حسن تعلیل)

وہ ایک پل کی رفاقت بھی کیا رفاقت تھی (تعجب)

جو دے گئی ہے مجھے عمر بھر کی تنہائی

تالاب تو برسات میں ہو جاتے ہیں کم ظرف

باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا (محاورہ)

ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو

ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے (فعل نہی)

رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں

یہ پرندے کہاں سے آئے ہیں (تجاہلِ عارفانہ)

بیٹھ جاتے ہیں راہ رو تھک کر

کتنے ہمت شکن یہ سائے ہیں (حسن تعلیل)

دھوپ اپنی زمین ہے اپنی (تکرار)

پیڑ اپنے نہیں پرائے ہیں (تضاد)

دشمنوں کو قریب سے دیکھا

دوستوں کے فریب کھائے ہیں (تضاد)

ہم نے توڑا ہے ظلمتوں کا فسوں

روشنی کے بھی تیر کھائے ہیں (تضاد)

زندگی ہے اسی کا نام اعجازؔ

ہیں وہ اپنے جوغم پرائے ہیں (تضاد)

گلشن گلشن بھڑکایا ہے شبنم نے انگاروں کو (تکرار)

پھول نے پتھر کاٹ دیا ہے، ریشم نے تلواروں کو ( تضاد)

طمانیت کے ماحول میں تحلیل و تجزیہ کو بروئے کار لاتے ہوئے سید اعجاز علی رحمانی نے اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات و احساسات کو اس بے ساختگی سے قطعات کے قالب میں ڈھالا ہے کہ ان کی اثر آفرینی قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتی ہے۔ دروں بینی کے مظہر یہ قطعات جذبات سے مضمحل اور نڈھال ہو کر ان کے سامنے سپر انداز ہونے کی راہ نہیں دکھاتے بلکہ بے عملی کو تحریک دینے والی سستی جذباتیت اور بیزاری سے نجات حاصل کر کے جہد و عمل پر مائل کرتے ہیں۔

کسی معاشرے میں منافقت، خست و خجالت، انصاف کُشی اور بے حسی کا بڑھنا اس معاشرے کے وجود اور بقا کے لیے بہت بُرا شگون ہے۔ پس نو آبادیاتی دور میں تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں چور محل میں جنم لینے والے، کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اور چور دروازے سے گھُس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے والے سگانِ راہ نے سماجی اور معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پُر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ سید اعجاز علی رحمانی نے ان طالع آزما مرغانِ باد نما کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے لکھا ہے:

جن سے ہم کو روشنی درکار تھی

ان چراغوں سے بھی گھر جلنے لگے

اب شکایت دھوپ سے بے کار ہے

اب تو سائے سے شجر جلنے لگے

—————————–

ہم کو معلوم ہے سحر ہو گی

ظلمتوں کا حصار ٹوٹے گا

جب تلک پتھروں کی زد میں ہیں

آئینہ بار بار ٹُوٹے گا

————————–

چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے

ہوا کا رخ بدلنا آ گیا ہے

کہاں تک آگ برسائے گا سورج

ہمیں شعلوں پہ چلنا آ گیا ہے

——————————

یہ انتشار، یہ آندھی جو ہے سیاست میں

یہ اتحاد کا گلشن اُجاڑ دیتی ہے

وہ جس درخت کی گہری جڑیں نہیں ہوتیں

اُنھیں ذرا سی ہوا بھی اُکھاڑ دیتی ہے

——————————————-

جانتے ہو جو آگ کی فطرت

پھر نہ ہم سے کوئی سوال کرو

آگ کا کھیل کھیلنے والو

اپنے گھر کا بھی کچھ خیال کرو

اپنی تحریروں میں سید اعجاز علی رحمانی نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کھُلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے کے عادی طیور کو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں۔ عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار اور موہوم ہو کررہ گئی ہے۔ مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت، فنون لطیفہ، سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔ حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ (Napoleon Bonaparte) نے سال 1798میں مصر اور شام پر دھاوا بول دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان سابقہ نو آبادیات میں سلطانیِ جمہور کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ ان ممالک کے حکمرانوں کے سر پر تو خود مختار حکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اِس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ روشنی کا تعلق چشم کی روشنی کے عکس سے ہے جب آنکھیں ہی بند کر لی جائیں تو نمود سحر کا امکان معدوم ہو جاتا ہے۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے سید اعجاز علی رحمانی نے لکھا ہے:

چڑھتا چاند اُبھرتا سورج اُن کو نظر کیا آئے گا

جن کی آنکھیں دیکھ نہ پائیں عظمت کے میناروں کو

کل بارش دریا کو چڑھا کر بستی تک لے آئی تھی

لاکھ سہی ہونٹوں پہ تبسم طوفاں دِل کے اندر ہے

میرا ایک اک آنسو دریا میری آنکھ سمندر ہے

اس کی خوشبو پھیل گئی ہے رنگ فضا میں بکھرے ہیں

وہ میرے گھر آیا ہے یا کوئی خواب کا منظر ہے

انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ مفاد پرست استحصالی عناصر کے کرتا دھرتا فراعنہ کے کاسۂ سر میں جو کبر و نخوت و رعونت بھری ہے اس کے خلاف سید اعجاز علی رحمانی نے جس جرأت کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے وہ سدا حریت ضمیر سے جینے کے آرزومند رہے۔ پس نو آبادیاتی دور میں سیاسی بساط پر شاطر قیادت کیا چال چلتی رہی ہے اس کے بارے میں سید اعجاز علی رحمانی نے لکھا ہے:

راہ بر سو گئے ہم سفر سو گئے

کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے

بے گھروں کو تکلف سے کیا واسطہ

نیند آئی سرِ رہ گزر سو گئے

تم تو اعجاز ؔ پھولوں پہ بے چین ہو

جن کو سونا تھا وہ دار پر سو گئے

————————————–

پس نوآبادیاتی دور میں پاکستان میں سیاسی اور معاشرتی حالات نے جو رخ اختیار کیا سید اعجاز علی رحمانی اس پر رنجیدہ رہتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے اسلاف نے وفا، خلوص، درد مندی اور ایثار کے جو چراغ فروزاں کیے ہوس کے مسموم بگولوں نے انھیں گُل کر دیا ہے۔ جبر کی بھیانک تاریک رات کے خاتمے کے بعد یہ جلوۂ سحر ہمیں راس نہ آ سکا۔

انسان شناسی میں سید اعجاز علی رحمانی کو مہارت حاصل تھی۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جابر قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مظلوم انسانوں کو قلعۂ فراموشی میں محبوس کرد یا ہے جہاں سکوت مرگ طاری ہے۔ اپنی شاعری میں انھوں نے کم ظرف درندوں اور سادیت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا اہلِ جور پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ ایسے اجلاف و ارذال کی مثال گندے پانی کے جوہڑ کی سی ہے جس میں برسات کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ اس جوہڑ سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ کھلے سمندر کو دیکھیں جو کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی کے سب نشیب و فراز قریب سے دیکھے۔ بوالہوس موذی اس قدر سفاک ہیں کہ بے بس و لاچارانسانیت پر کوہِ ستم توڑنے میں اُنھیں کوئی عار نہیں۔ آج کے دور میں ہر فرد کاجولیس سیزر کے مانند کسی نہ کسی بروٹس یا آستین کے سانپ سے پالا پڑتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ موت ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے مگر بعض ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو موت سے خوفزدہ نہیں ہوتیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ موت تو محض ایک ماندگی کا وقفہ ہے۔ اس سے آگے متعدد دور فلک آنے والے ہیں۔ سید اعجاز علی رحمانی نے انجمن خیال سجا کر بھر پور زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ عشق رسولﷺ کی روح پرور فضا میں گزرا۔ انھیں عدم کے کُوچ کی فکر تو رہی مگر وہ موت کو ایک ایسی اٹل حقیقت سمجھتے تھے جو تمام مصائب و آلام کے خاتمے کا پیغام لاتی ہے۔ توحید ورسالت کی محبت سے سر شار ایسے جلیل القد رانسان کبھی نہیں مرتے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کی بنا پر ان کا دوام جریدۂ عالم پر ثبت ہو جاتا ہے۔ ایسے نعت گو شاعر کی وفات کے بعد بھی روحانیت اور عقیدت کا سفر جاری رہے گا۔ نہاں خانۂ دِل میں ان کی عطر بیز یادیں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔

٭٭٭

مآخذ

(1) جمیل جالبی ڈاکٹر (مرتب): مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، جے کے آفسٹ پریس دہلی، نظر ثانی شدہ ایڈیشن، 1979، صفحہ 71

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے