ہندی غزل ۔۔۔ رویندر پربھات

ہندی غزل

 

 

                   رویندر پربھات

 

ایک زمانہ تھا جب عاشق اور معشوقہ کی محبت بھری گفتگو کو غزل کہا جاتا تھا۔ حسن عشق اور ساقی۔۔شراب، یہی اس کی زمین ہوا کرتی تھی، جس سے پرے جا کر دوسرے کسی احساس پر غزل کہنا غزل گو شاعروں کے لئے بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی تھی۔ ایسے حالات میں کسی نئی انقلاب کی  تجویزکسی بھی شاعر کے لئے ممکن نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ غزل کے روپ میں اسی کلام کو قبول کیا جاتا تھا جو عورتوں کے حسن اور جمال کی تعریف کرے۔ یہاں تک کہ جو ہندی کی غزلیں ہوا کرتی تھی اس میں اردو غزلوں کا وسیع اثر  دیکھا جاتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ جب پہلی بار شمشیر نے روایتی رومانی پس منظر سے اوپر اٹھ کر غزل کہی تو ڈاکٹر رام ولاس شرما نے اسے یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ” غزل تو درباروں سے نکلی ہوئی صنف ہے، جو ترقی پسند اقدار کے اظہار کرنے میں ناکام ہے !” لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ، ہندی والوں نے غزل کو صرف قبول ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا نیا منظر نامہ بھی تشکیل دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر آج غزل اردو ہی نہیں ہندی کی بھی مشہور صنف ہے۔ تو آئیے ہم عصر ہندی غزل کی شکل، ارتقاء اور اس کے امکانات پر غور کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

اردو غزل خاص طور پر محبت کے جذبات کا مرقع ہے۔ اچھی غزلیں وہی سمجھی جاتی ہے، جن میں عشق  و محبت کی باتیں سچائی اور اثر کے ساتھ لکھی جائیں ، جبکہ ہندی غزل گو اس تعریف کو نہیں مانتے۔ ان کا اردو غزل گوؤں سے اصولی اختلاف ہے۔ نچی کیتا کا ماننا ہے کہ ” ہندی غزل اردو غزلوں کی طرح نہ تو  نان کمیٹیڈ صنف شاعری ہے اور نہ اس کا اہم عنصر فراری ہے، اس کا مزاج عقیدتی بھی نہیں ہے ظہیر قریشی کا ماننا ہے کہ "ہندی غزلیں عام آدمی کا  عوامی اظہار ہیں ، جو سب سے پہلے اپنا قاری تلاش کرتی ہے !” جبکہ گیان پرکاش وویک کا کہنا ہے کہ ” ہندی کویوں  کے ذریعے لکھی جا رہی غزل میں شراب کا ذکر نہیں ہوتا، ذکر ہوتا ہے گنگا جل میں دھلے تلسی کے پتوں کا، پیپل کی چھاؤں کا، نیم کے درد کا، عام آدمی کی تکلیفوں کا۔ ہندی بھاشا میں لکھا جا رہا ہر شعر زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ بہت نزدیک سے محسوس کیے گئے درد کا اظہار ہوتا ہے !” فیض احمد فیض نے تو اتنا تک کہہ ڈالا ہے کہ ” غزل کو اب ہندی والے ہی زندہ  رکھیں گے، اردو والوں نے تو اس کا گلا گھونٹ دیا ہے !” وہیں ہم عصر ہندی غزلوں کے  اہم شاعر عدم گونڈوی کہتے ہیں کہ ” جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو !”

ہندی غزل کے ماضی کی گفتگو کئے بغیر اس کے امکانات کے بارے میں کچھ بھی کہہ پانا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ غزل کی روایت ہندی میں بھی بہت پرانی ہے۔ اگر امیر خسرو نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سے ہندی میں غزل کیے امکانات کا  افتتاح کیا، تو درمیانی عرصے میں کبیر،شوقی اور بھارتیندو ہریش چندر نے اسے مزید ترقی دی۔ بعد کے دنوں میں پریم دھن، شری دھر پاٹھک، رام نریش ترپاٹھی، نرالا، شمشیر، ترلوچن وغیرہ شاعروں نے اسے مزید بہتر بنایا۔  شمشیر نے اس صنف کو رفتار اور سمت عطا کی۔ پھر ہنس راج رہبر، جانکی ولبھ شاستری، رام درس مشر وغیرہ نے اس کی نئی لفظیات اور جمالیات گڑھنے کا اہم ترین کام انجام دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندی شاعری کی ایک اہم دستخط  دشینت کمار نے غزل کے میڈیم سے ایک نئے انقلاب کی شروعات کی۔ غزل کے نئے آفاق کی ابتدا ہی ہی نہیں کی، بلکہ ہندی شاعری کی ایک آزاد صنف کے طور پر غزل کو  قبولیت کا درجہ دلانے کی بنیاد بھی تیار کی۔ دشینت کے بعد عدم گونڈوی ایک ایسے  شاعر ہیں ، جنہوں نے غزل کے میڈیم سے تصور کی ست رنگی روشنی میں دھواں دھار نور انڈیلنے کا کام کیا اور اس روایت کو آگے بڑھانے کا کارٕ ثواب انجام دے رہے ہیں آج کے غزل گو شعراء۔

غزل سے متعلق  بہت سی کتب بھی شائع ہو چکی ہیں ، جس میں ڈاکٹر روہتاشو استھانا کا  تحقیقی مقالہ ” ہندی غزل : ادبھو اور وکاس ” اہم ہے۔ ساتھ ہی  اعلیٰ درجے کے غزلوں کے مجموعوں  میں ڈاکٹر کنور بیچین کی ” رسیاں پانی کی ” اور ” پتھر کی بانسری ” چھندراج کی ” فیصلہ چاہئیے” مادھو مدھوکر کی ” آگ کا راگ ” نیز آچاریہ جانکی ولبھ شاستری کی ” کون سنے نغمہ ” وغیرہ کتابیں دشینت کی "سائے میں دھوپ "کے بعد اہم ترین مانی جا سکتی ہیں۔

میری سمجھ کے مطابق غزل کی اصلی کسوٹی اثر انگیزی ہے۔ غزل وہی اچھی ہوگی جس میں اثر ہو، جس سے پڑھنے والے سمجھیں کہ یہ انہیں کی دلی باتوں کا بیان ہے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے غزل میں جانے پہچانے اور آسان الفاظ کا ہی استعمال ہو، تاکہ اس میں بہاؤ بنا رہے۔ غزل کے ہر شعر میں الگ الگ مضامین کو لے کر بھی خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہےاور مسلسل بھی۔ لیکن ہر الگ الگ شعر کے مضامین میں امتیاز ہونے کے باعث نئی وچار دھارا زیادہ اثر انگیز ڈھنگ سے پیش ہو جاتی ہے۔ ہندی غزل کے لئے ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ ہندی گرامر کے احاطے کے اندر ہی  الفاظ کو توڑا جائے، اور ماترا کی گنتی بھی، تاکہ غزل کی ساخت اور مضمون میں ہمواری رہ سکے۔ لفظوں کی تقسیم مختلف افاعیل کی ماترا کی گنتی کے مطابق ہی کیا جائے، اور اس کے لئے ضروری ہے چھندوں کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہم عصریت کی پکڑ بھی ہو۔

آج اپنی جد و جہدی کاوشوں اور ایک کے بعد دوسری  ارتقاء کے میلان کے بسبب ہندی غزل ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جہاں وہ ہندی ادب میں اپنی آزاد وجود کو  درج کرانے کے لئے بے چین نظر آتی ہے۔ آج ہندی بلاگ نگاروں میں پنکج سبیر ایک ایسے بلاگ نگار ہیں جو غزل کی پاٹھ شالا چلاتے ہیں۔۔۔ ہندی بلاگوں کی دنیا میں نرملا کپلا، گوتم راج رشی، نیرج گوسوامی، ثروت ایم جمال، شیامل سمن، پرکاش سنگھ عرش وغیرہ تخلیق کار پوری مستعدی کے ساتھ ہندی غزلوں کو نیا مقام دینے کی سمت میں کار فرما ہیں۔۔!

 

آجکل تو غزل میں نئے نئے  تجربے ہونے لگے ہیں ، کوئی اسے گیتیکا، کوئی نئی غزل، کوئی کچھ تو کوئی کچھ۔۔۔۔۔۔۔ کل ملا کر دیکھا جائے تو ہے غزل ہی نہ؟

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے