پرواز — ظہیر احمد

پرواز

تفسیر احمد

ماں ، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟” چھ سالہ ساجدہ نے ماں سے سوال کیا۔

ساجدہ کی ماں نے صحن میں جھاڑو دیتے ہو ے جواب دیا”۔ بیٹی مجھ بے پڑھی لکھی کو کیا پتہ ہے ان باتوں کا۔ جب اسکول جاؤ تو استانی جی سے پوچھنا۔”

” اچھا ماں ، میں باہر کھیلوں گی۔” ساجدہ اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھول کر گلی میں آگی۔

گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہر طرف غلاظت کے ڈھیر تھے۔ گلی کے درمیان ایک گندے پانی کو نالا بہہ رہا تھا۔دو دروازے دور اس کی دوست نجمہ اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی۔ساجدہ بھی نجمہ کے برابر بیٹھ گی۔

” تم نے اپنی ماں سے پوچھا؟”۔ نجمہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

” ہاں”۔ساجدہ نے بے دلی سے کہا۔

” تو”۔ نجمہ نے زور سے پوچھا۔

"ماں کو بھی نہیں پتہ وہ کہتی ہے استانی جی سے پوچھو”۔ ساجدہ بولی۔

” نا ، بابا میں تو کبھی نہ پوچھوں”۔نجمہ نے کہا۔” تم پوچھنا "

” اچھا "۔ ساجدہ نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔”چلو کھیلیں”

٭

سخت گرمی تھی۔ تمام بچے برگد کے درخت کی نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گے۔استانی نے پہلی کی کتاب کھولی اور کہا۔” آج ہم اپنے ملک کے بارے میں پڑھیں گے۔ صفحہ دس پر کتاب کھولو”

” ہمارے ملک کے دو حصہ ہیں۔ایک حصہ مغرب میں ہے اور دوسرا مشرق میں۔ ہم مشرقی حصہ میں رہتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ مسلمان سب ایک دوسرے کے بھائی اور بہن ہوتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے ہیں "۔

” میرا تو کوئی بھائی نہیں۔ کیا بھائی بہنوں سے پیار کرتے ہیں؟۔ کیا اگر میرا کوئی بھائی ہوتا تو وہ مجھے نئے کپڑے لا کر دیتا؟ میں نے کبھی برفی نہیں کھائی کیا وہ مجھے مٹھائی لا کر دیتا "۔نجمہ نے اداس ہو کر استانی سے پوچھا۔

سبق کے بعد ساجدہ اُستانی جی کے پاس گی۔ اُستانی جی، ساجدہ نے ادب سے کہا۔

” کیا بات ہے ساجدہ ؟ "

” کیا میں ایک سوال پوچھ لوں؟ ” ساجدہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

” پوچھو "۔

” استانی جی، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "

” یہ تو بہت اچھا سوال ہے۔ میں تم سب کو کل ایک ساتھ کلاس میں بتاؤں گی”۔ استانی نے جواب دیا۔

” چلو جاؤ۔ اندھیرا ہو رہا ہے۔ تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہو گی”۔

٭

” ساجدہ ، تم آج سے باہر مت کھیلنا۔ لڑائی ہو رہی ہے اور یہاں مغربی فوجیں آئی ہیں اور ہمارے سپاہی ان سے لڑرہے ہیں۔” ماں نے ساجدہ کے بالوں میں مانگ ڈالتے ہوئے کہا۔

” ماں وہ تو ہمارے بھائی ہیں نا۔ ہم ان سے کیوں لڑتے ہیں۔استانی جی کہتی ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں۔ میں سپاہیوں سے کہوں گی کہ ان سے نہ لڑیں "۔

٭

زبردست بارش ہو رہی تھی۔ جھونپڑی میں کوئی جگہ خشک نہ تھی۔پانی ٹخنوں تک آ چکا تھا۔ بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ساجدہ خوف سے ماں سے لپٹی ہوئی تھی۔ باہر سے شور و غل کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بجلی کی چمک میں ساجدہ نے چار سائے دیکھے۔ وہ ایک ایسی زبان بول رہے تھے جسے ساجدہ نے کبھی نہیں سنا تھا۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ ساجدہ کا دل چاہا کہ وہ دوڑ کر اپنے بھائیوں سے لپٹ جائے۔ آخر وہ اس کو ملنے آئے ہیں۔ ماں نے ساجدہ پر اپنی گرفت مضبوط کر دی۔ ان میں سے ایک نے زبردستی ساجدہ کو ماں سے جدا کیا۔ ساجدہ نے ماں کی چیخیں سنی۔ کسی نے اسے زمین پر گرا کر اس کی شلوار کھنچ لی۔ ساجدہ نے ا پنی ٹانگوں کے درمیان ایک زبردست درد محسوس کیا جیسے کیسی نے چھری سے اس کو کاٹا ہو۔ یہ درد پھر سارے بدن میں پھیل گیا۔اسکے بعد اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔

٭

کچھ دنوں بعد جب ساجدہ کی آنکھ کھولی تو اس کا سارا بدن آگ کی طرح جل رہا تھا۔

” ماں، ساجدہ چلائی”۔ نرس نے جھک کر ساجدہ کو گلے سے لگا لیا۔

” میری ماں کہاں ہے ؟۔” نرس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

٭

” دائی ماں آپ ساجدہ کو بھی اپنے پاس رکھ لیں”۔

” یہ گیارویں بچی ہے میں ان سب کی کیسے دیکھ بھال کرو ں گی۔” محلے کی دائی نے کہا۔

” ہم آپ کی پیسوں سے مدد کریں گے۔ مگر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے جگہ کی ضرورت ہے۔”

” بیٹی تم مجھ کو اپنی ماں سمجھو”۔دائی ماں نے ساجدہ کا ہاتھ پیار سے پکڑا اور کھلی جگہ میں لائی۔

” اب یہ سب لڑکیاں تمہاری دوست اور بہن ہیں یہ تمہارے سونے کی جگہ ہے "۔دائی ماں نے ایک چادر کیطرف اشارہ کیا۔

٭

ہر لڑکی کی کچھ نہ کچھ ذمّہ داری تھی۔ ساجدہ کے ذمّہ کنویں سے پانی لانا تھا۔ وہ صبح جاتی اور کنویں سے پانی لاتی۔ کنواں بہت دور تھا اور ہر وقت لائن لگی ہوتی تھی اور اس کی وجہ سے پانی لانے میں کافی وقت لگتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا بچیوں کے پیٹ بڑھنے لگے۔دائی ماں کو بچیوں کو بتانا پڑا کہ ان کے جسم میں یہ تبدیلیاں کیوں آ رہی ہیں۔

٭

ساجدہ کو خاموشی لگ گئ اُس نے سب سے بات کرنا چھوڑ دیا۔ہر وقت اپنے پیٹ کو نوچتی رہتی یہاں تک کہ اس سے خون رسنے لگتا اور دائی اماں اس کے ہاتھ باندھ دیتی۔ساجدہ۔۔۔۔ جو کچھ بھی اسکے پیٹ میں تھا اس کو نکال کر پھینک دینا چاہتی تھی۔

٭

نو ماہ گزر گے۔ دائی ماں کا گھر بچوں سے بھر گیا۔ بہت بچے ماں پر نہیں گئے۔ ان سانولی ماؤ ں کے بچوں کے رنگ سانولے نہ تھے۔ رنگ کے علاوہ ساجدہ کا بچہ اندھا پیدا ہوا۔ ساجدہ کو اس بچے سے ایسی نفرت تھی کہ اس نے اس سے بالکل تعلق قطع کر لیا۔ دوسری لڑکیاں اس بچہ کی دیکھ بھال کرتیں۔ ساجدہ اپنے حصہ کا کام روز کرتی اور ہر شام پہاڑی پر بیٹھ کر نیچے بہتے دریا کو دیکھتی۔ اسی طر ح کی ایک شام وہ پہاڑی پر بیٹھی تھی کہ ایک چیل اس سے کچھ دور آ کر بیٹھی۔ساجدہ نے چیل سے پو چھا تم کیوں اُڑتی ہو؟ چیل نے اپنے پر پھیلائے۔ ساجدہ نے کھڑے ہو کر چیل کی نقل کی۔چیل نے پہاڑی کے کنارے کی طرف چلنا شروع کیا ساجدہ نے بھی۔ چیل نے اپنے پر ہلائے اور وہ اڑنے لگی۔ ساجدہ کنارے تک پہونچ چکی تھی۔اس نے بھی ایک قدم بڑھایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی بہ پرواز تھی۔ اس نے ہوا کو اس طرح محسوس کیا جیسے ہوا اس کے جسم سے اس کے بھائیوں کی دی ہوئی غلاظت کو صاف کر رہی ہو۔ پہلی بار اس نے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا۔آخری بار ساجدہ نے سوچا پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟۔ وقت رک گیا۔ اور ساجدہ کا ذہین خاموش ہو گیا۔

***

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے