رومن جیکب سن(Roman Jakobson):لسانیات کے ساختیاتی تجزیہ کا اہم نام ۔۔۔ غلام شبیر رانا

 

رومن جیکب سن B:11 October 1896,D:18 July 1982 (aged 85))کا شمار بیسویں  صدی کے عالمی شہرت کے حامل ممتاز ماہرین لسانیات میں  ہوتا ہے۔ وہ ماسکو کے ایک متمول گھرانے میں  پیدا ہوا اور بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا جہاں  اس نے بوسٹن (امریکہ) میں  وفات پائی۔ اس کا شمار جدید لسانیات میں ساختیاتی تجزیہ کے موضوع پر فکر انگیز مباحث کو پروان چڑھانے والے بنیاد گزار ماہرین لسانیات میں  ہوتا ہے۔ بیسویں  صدی میں  ماسکو لنگوسٹک سرکل سے روشنی کا سفر شروع کرنے والے اس رجحان ساز نقاد نے اپنے فکر پرور اور خیال آفریں  مباحث سے دنیا بھر کے ماہرین لسانیات کو حیران کر دیااوراس کے خیالات کو ایک غالب رجحان کی حیثیت سے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ساختیاتی لسانیات میں  وہ پراگ سکول ( Prague School) کا میرِ کارواں  سمجھا جاتا ہے۔ پراگ سکو ل نے سال 1928 سے لے کر سال 1939تک کے عرصے میں ادبی تنقید اور لسانیات کے شعبے میں  پورے چیکو سلواکیا  میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ پراگ سکول نے لسانیات کے شعبے میں  جدت اور تنوع پر مبنی نئے مباحث کے لیے راہ ہموار کر دی۔ اس کا صدر ویلم متھوس   Vilem Mathesius (1882-1945)) تھا جس نے تحقیق و تنقید میں  گہری دلچسپی لی۔ رومن جیکب سن کا شمار ان ممتاز ماہرین لسانیات میں  ہوتا ہے جنھوں  نے سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات فرڈینڈ ڈی سوسئیر (,B:26-11-1857,D:27-02-1913 Ferdinand de Saussure  ( اور مشہور جرمن فلسفی ایڈمنڈ ہسرل(Edmund Hussrel,B:08-04-1859,D:27-04-1938)سے گہرے اثرات قبول کیے۔ لسانی عمل کے تجزیہ میں  رومن جیکب سن دلچسپی کا آغاز اسی عہد کی یاد ہے۔ لسانیات اور فلسفہ کے موضوع پر سوسئیر کے لسانیات، علامتی ابلاغ، یک زمانی اور کثیر زمانی عوامل کے بارے میں  متنوع خیالات نے انیسویں  صدی کے فلسفہ پر دُوررس اثرات مرتب کیے۔ فلسفہ تاریخ، ادبی تنقید، لسانیات اور تخلیقی ادب  کے شعبوں میں  اس کی یکساں  مہارت اور فعالیت کا ایک عالم معترف تھا۔ رومن جیکب سن نے اپنے دیرینہ رفیق، ہم خیال ساتھی اور معتمد شریک کار نکولائی ٹربٹ زکوئی  (Nikolai Trubetzkoy ,B:16-4-1890,D:25-6-1938)کے ساتھ مل کر صوت و آہنگ کے تجزیہ کی تکنیک پر غور و خوض کا سلسلہ شروع کیا۔ سال 1920میں  رومن جیکب سن نے اپنے معاون رفقائے کار نکولائی ٹربٹ زکوی اور ایس آئی کرسوسکی( S.I. Karcevskij)کے ہمراہ ماسکو کو خیرباد کہا اور چیک ری پبلک کے صدر مقام پراگ میں  ڈیرے ڈال دئیے۔ سال 1929میں  رومن جیکب سن نے پہلی بار لفظ ’’ساختیات "کو استعمال کیا۔ رومن جیکب سن نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ تکلم اور صوت و آہنگ کی وہ سب سے چھوٹی اکائیاں  جن کی مدد سے ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے ممیّز کیا جا سکتا ہے اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہ پیچ در پیچ سلسلے کی مظہر ہیں جو دوہرے خد و خال کا آئینہ دار ہے۔ اس میں  ارتباط و تضاد کی کیفیات سے معانی کے سوتے پھوٹتے ہیں  جسے متکلم، غیر متکلم اور مطلوب، غیر مطلوب وغیرہ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پیش، نظر رومن جیکب سن نے سال 1941کے اوائل میں  امریکہ جانے کا فیصلہ کیا اور وہ نیو یار ک سٹی منتقل ہو گیا۔ یہاں  اس نے کولمبیا یونیورسٹی میں  (1943-1949)اور ہارورڈ یونیورسٹی (1949-1967)میں  تدریسی خدمات انجام دیں۔ رومن جیکب سن نے ساختیاتی شعریات کی ترویج و اشاعت میں  جو اہم کردار ادا کیا وہ تاریخِ ادب میں  ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ رومن جیکب سن کے بارے میں  یہ تاثر عام ہے کہ وہ جہاں  بھی گیا اپنے متنوع خیالات کی باز گشت اور افتاد طبع کی حیران کُن داستان چھوڑ آیا۔ ماسکو، پراگ اور نیویارک کے لنگوسٹک سرکل کے بنیاد گزار کی حیثیت سے اس کی فعالیت سے ساختیات اور ساختیاتی لسانیات کی تھیوری کے ارتقا میں  مدد ملی۔ اس نے صوتیات، علم بشریات، تحلیل نفسی، نژاد اور نسل کے موضوعات، اظہار و ابلاغ کے تصورات، مطا لعۂ ادب اور دیومالائی داستانوں  جیسے متنوع موضوعات پر اپنی گل افشانیِ گفتار سے قارئین کو حیرت زدہ کر دیا۔ جب وہ کولمبیا یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور تھا اس نے مارس ہیلے (Morris Halle,B:23-07-1923)کی پی ایچ۔ ڈی کے تحقیقی مقالے کی رہنمائی کی۔ اس عرصے میں  اس نے زبان کے امتیازی اوصاف کی تھیوری پر اپنے تحقیقی کام کا آغاز کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اظہار و ابلاغ کی خاطر ہمیں  ایک ثنائی نظام کی احتیاج ہے۔ خاص نوعیت کا یہ ثنائی نظام تکلم اور صوت کے ایسے سلسلے کو سامنے لاتا ہے جس سے خاص صوتی صلاحیتوں  مثلاً مدھر رسیلی لے، غنغنا پن اور کرخت و تیکھا پن کی موجودگی یا عدم موجودگی کا مطالعہ ممکن ہے۔ رومن جیکب سن نے لسانی تحقیق کو جس وسعت اور تنوع سے آشنا کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے جس لسانی تھیوری پر کام کیا اس کا تعلق صوتیات سے ہے۔ آوازوں  کے مطالعات اور قواعدی صوتیات پر مبنی اس نے جو لسانی تھیوری پیش کی اس کا اطلاق عالمی کلاسیک پر بھی کیا گیا۔ اس نے جن ممتاز ادیبوں  کے فکر و فن کے لسانی مطالعات پر توجہ مرکوز رکھی ان میں  درج ذیل مشاہیر قابل ذکر ہیں :

1 Dante Alighieri, B: June 1, 1265, Florence, Italy, D : September 14, 1321, Ravenna, Italy

2 William Shakespeare, B: April 1564, Stratford-upon-Avon, UK,D:April 1564, Stratford-upon-Avon, UK.

3 Mihai Eminescu, B: January 15, 1850, Botosani, Romania,D:June 15, 1889, Bucharest, Romania

4 Bertolt Brecht, B:February 10, 1898, Augsburg, Germany,D:August 14, 1956, East Berlin

بیسویں صدی میں  جن انتہائی مؤثر، زیرک، فعال اور مستعد دانش وروں  نے اپنے افکار کی جولانیوں سے قارئین کے فکر و نظر کو مہمیز کر کے مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں  اہم کردار ادا کیا ان میں  رومن جیکب سن کا نام کلیدی مقام رکھتا ہے۔ اپنی قوتِ فیصلہ، اصابت رائے، ثقاہت اور جدت فکر کی مظہر انقلابی سوچ کے اعجاز سے اس روسی دانش ور نے فکر و دانش کے ارتقا کی تاریخ میں  بلند مقام حاصل کیا۔ رومن جیکب سن ماسکو لنگوسٹک سر کل (Moscow Linguistic Circle) کا ممبر تھا۔ ما سکو لنگو سٹک سر کل جس نے روسی ہیئت پسندی کے ارتقا میں  اہم کردار ادا کیا رومن جیکب سن کی علمی وا دبی سر گرمیوں  کا مرکز بن گیا۔ رومن جیکب سن ماسکو لنگوسٹک سر کل کے بانی ارکان میں  شامل تھا۔ رومن جیکب سن کو روس کے مستقبل پسند شعرا میں  بہت مقبولیت حاصل تھی۔ اختر اع پسندی،  جدت اور تنوع اس کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔ رومن جیکب سن نے سال 1920 میں  چیکو سلواکیہ کا رخ کیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد اس نے پراگ لنگوسٹک سرکل(Prague Linguistic Circle) کی داغ بیل ڈالی جس میں  لسانی مباحث کا سلسلہ پوری قوت، شدت اور استدلال کے سا تھ جا ری رکھا۔ اس رجحان ساز ادبی تنظیم نے جن خطوط پر جدید لسانی تحقیق کو آگے بڑھایا، انہی کی اساس پر ساختیاتی شعریات کا قصر عالی شان تعمیر ہوا۔ رومن جیکب کا رخش حیات مسلسل رو میں  رہا اور وہ گردش ایام کے تند و تیز بگولوں  میں  اپنے افکار کی مشعل ضو فشاں  رکھنے کی کوششوں  میں  ہمہ تن مصروف رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے جان لیوا مہیب شعلے بلند ہو رہے تھے اور  دُکھی انسانیت مصائب و آلام کے پاٹوں  میں  پِس رہی تھی۔ سال 1939 میں  جب نازی افواج نے چیکو سلواکیہ پر دھاوا بولا اور اسے مسخر کر لیا  تو رومن جیکب سن نے چیکوسلوا کیا سے کوچ کر کے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ متعدد مسائل، مصائب، دشواریوں  اور صعوبتوں کا سامنا کر نے کے بعد وہ سال 1941 میں  امریکہ پہنچا اور زندگی کے آخری اکتالیس برس امریکہ ہی میں  گزارے۔ سال 1942-46کے عرصے میں  اس نے امریکہ میں واقع ایکول لبر ( École Libre des Hautes Études in New York City)میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکہ کے اس عظیم تاریخی ادارے میں  وہ مشہور ماہر لسانیات کلاڈ لیوی سٹراس( Claude Lévi-Strauss)کا شریک کار رہا۔ سال 1943میں  رومن جیکب سن نیو یارک لنگوسٹک سر کل کا بانی رکن بنا اور سال 1949تک اس کے نائب صدر کے منصب پر فائز رہا۔ اس عرصے میں  اس نے یورپی اور امریکی لسانیات میں  معتبر ربط پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ لسانیات کے بارے میں  رومن جیکب سن کے افکار کے گہرے اثرات سلیوک زبانوں  کے مطالعات اور نوم چومسکی (Noam Chomsky)اور مورس ہیل(Morris Halle)کے اسلوب پر تحقیق و تجزیہ میں  نمایاں  ہیں ۔ سلیوک زبانوں  کے لوک ورثہ، لوک داستانوں  اور لو ک گیتوں  پر اس کے کام کو ذوق سلیم سے متمتع ہر شخص نے سرا ہا۔ اس نے سلیوک دیومالا میں  مذکور تخلیق کائنات کے حوالے سے بیان کیے گئے واقعات میں  گہری دلچسپی لی۔ اس کے مشہور لسانی ماڈل (Function Of Language)کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت کی بنا پر اسے لسانیات کی عظیم میراث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ زبانوں  کے ارتقا اور مختلف زبانوں  کے اشتراک و ادغام اور اس سے وابستہ امور کی تفصیلات اور تمثیلات، زبان کی مسلمہ صداقتیں، زبان سے متعلق عام مروج اصول اور بیانیہ کے نظام ا کی توجہ کا محور رہے۔

کلاڈ لیوی سٹراس( Died: October 30, 2009, Paris, France، Born: November 28, 1908, Brussels, Belgium )نے لسانیات میں  اپنے شریک کار رومن جیکب سن کی صلاحیتوں  کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ کلاڈ لیوی سٹراس جیسا دبنگ لہجے میں  بات کرنے والا ماہر لسانیات جس نے سال 1960میں  ساختیاتی فکر کے موضوع پر اپنے خیالات سے تہلکہ مچا دیا اس نے بھی بر ملا کہا کہ وہ رومن جیکب سن کا معتقد ہے۔ کلاڈ لیوی سٹراس نے اس حقیقت کا ممنونیت کے جذبات کے ساتھ اعتراف کیا کہ اس نے رومن جیکب سن کی لسانی تھیوری کی خوشہ چینی کی ہے۔ سلیوک زبانوں (Slavic Languages) پر رومن جیکب سن کی عالمانہ مہارت کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ زندگی کی تغیر پذیر کیفیات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس نے لسانیات اور تنقید کو عصری تقاضوں  سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے انگریزی اور فرانسیسی زبانوں  میں  بھی اپنی استعداد کا لوہا منا یا۔ امریکہ میں  قیام کے دوران رومن جیکب سن نے امریکہ کی جن بڑی جامعات میں  تدیسی خدمات انجام دیں۔ ان میں  کو لمبیا یونیورسٹی، ہا ورڈ یو نیورسٹی اور ایم۔ آئی۔ ٹیMIT (Massachusetts Institute of Technology.) شا مل ہیں ۔ امریکہ کی ان ممتاز جامعات میں  رومن جیکب سن نے لسا نیا ت، گرا مر اور آوازوں کے مطالعہ (Phonology    ) پر اپنی توجہ مر کو ز رکھی۔ علمِ بیان سے وابستہ مختلف صورتیں جن میں  تشبیہہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز مرسل شامل ہیں وہ رومن جیکب سن کی دلچسپی کا مرکز رہیں۔ ان کی شناخت پر اس نے خصوصی توجہ دی تا کہ اظہار و ابلاغ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کا خیال تھا کہ علمِ بیان کی ان مختلف صورتوں  کی اہمیت سے آگہی قاری پر اظہار و ابلاغ کے نئے در وا کرتی چلی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ ادبیت کی اثر آفرینی، جاذبیت اور افادیت کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں  حقیقی  شعور و آگہی پروان چڑھانا ضروری ہے۔ ایک تخلیق کار خونِ  دِل میں  انگلیاں  ڈبو کر پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتا ہے تب کہیں  جا کر معجزۂ فن کی نمود کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ تکلم کے سلسلے ادبیت کے مرتبے تک پہنچنے میں  بڑی جگر کاوی کے متقاضی ہوتے ہیں۔

رومن جیکب سن کی اہم تصانیف:

Fundamentals of Language,  س رجحا Six Lectures on Sound and Meaning(1978),Language in Literature(1990)

Brain and Language, Puskin and his sculptural myth(1975),The Sound Shape of Language(1979)

On Language, Verbal Art, Verbal Sign, Verbal Time, Framework of Language, Jakobson-Pomorska Dialogues,

Main Trends in the Science of Language,Russian and Slavic Grammar,

رومن جیکب سن نے واضح کیا ہے کہ ایک زیرک ماہر لسانیات جب فکر و خیال کی وادی میں  مستانہ وار اپنے اشہب قلم کی جولانیاں  دکھانے پر مائل ہوتا ہے تو ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور تکلم کی پیچیدہ اکائیوں  کو مرحلہ وار زبان کی انتہائی مختصر اورسادہ ترین اکائیوں  میں  پیہم توڑتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح کسی بھی زبان میں  اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں  قاری کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں  رومن جیکب سن نے لکھا ہے :

"The listener is obliged to choose either between two polar qualities of the same category, as in the case of grave vs. acute, or between the presence and absence of a certain quality such as voiced vs. voiceless.” (1)

رومن جیکب سن کے اختراع کیے ہوئے جس لسانی ماڈل کے ہر سُو چرچے تھے وہ اظہار و ابلاغ سے منسلک زندگی کے تمام پہلوؤں  کا احاطہ کرتا ہے۔ اپنی مو شگافیوں  سے رومن جیکب سن نے نہ صرف  اپنے عہد کے لسانی نظام اور ابلاغیات کے تصورات پر گہرے اثرات مرتب کیے بل کہ آنے والے زمانے میں  نئے افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے قابل عمل لائحہ عمل بھی پیش کر دیا۔ اس نے اپنے زاویۂ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر ہمیشہ اصرار کیا کہ جہاں  تک دبنگ لہجے اور الفا ظ کی ترنگ کا تعلق ہے تکلم سے وابستہ آوازوں  کا کوئی متبادل موجود نہیں  جو ان کی جگہ لے سکے۔ رومن جیکب سن کے تصورات کے پسِ پردہ اُس کا ذہن و ذکاوت، مستحکم شخصیت اور سماجی و معاشرتی زندگی سے وابستہ عوامل کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔ اس نے یہ واضح کیا کہ اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں  ستاروں  پر کمند ڈالنے کی غرض سے درج ذیل چھے عناصر کی موجودگی ناگزیر ہے :

1۔ سیاق و سباق ( Context)، 2۔ خطاب کرنے والا(Addresser/Sender)، 3۔ خطاب سننے والا(Addressee/Receiver)، 4۔ رابطہ(Contact)

5۔ کوڈ(Code)، 6۔ پیغام (Message)

رومن جیکب سن کا خیال تھا کہ تکلم کے سب سلسلوں  سے وابستہ آوازوں  کی تفہیم، حد بندی، درجہ بندی اور توضیح اس وقت تک ممکن ہی نہیں  جب تک ان کی جانچ پرکھ اس فعالیت کی روشنی  میں  نہ کی جائے جو وہ زبان میں  انجام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں  اس نے اس لسانی ماڈل کو پیش نظر رکھا:

سیاق و سباق(Context)

خطاب سننے والا  (Addressee)         پیغام(Message)    خطاب کرنے والا(Addresser)

رابطہ(Contact)                                                                                                                              کوڈ(Code)

رومن جیکب سن نے تکلم کے جن سلسلوں  کا ذکر کیا ہے، کسی بھی زبان میں  ان کو درج ذیل سکیم کے تحت رو بہ عمل لاتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے لامحدود امکانات تک رسائی ممکن ہے۔ اس نے قارئین کو متوجہ کیا ہے کہ خطاب کرنے والا اپنا پیغام خطاب سننے والے کی طرف ارسال کرتا ہے۔ اس پیغام کو فعال اور قابل عمل بنانا بے حد ضروری ہے، اس مقصد کے لیے سیاق و سباق کی احتیاج ہے۔ خطاب کرنے والے اور خطاب سننے والے کے درمیان پیغام کو قابل فہم بنانے میں  سیاق و سباق اور خاص نوعیت کا کوڈ بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں  خفیہ کوڈ لگانا اور اس خفیہ کوڈ کو کھولنا ہی گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ اس کا خطاب کرنے والے اور خطاب سننے والے سے جو گہرا تعلق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ا س کے خیالات سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ قلبی جذبات اور مؤثر احساسات سے لبریز اور حسین الفاظ سے مزین دل کش پیرایۂ اظہار حبس کے ماحول میں لالۂ خونیں  کفن کے دِل و جگر میں  خنکی کا فرحت بخش احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تلاطم خیز دریاؤں  کی طغیانی، سمندروں  کی لہروں  کی بپھرتی ہوئی روانی اور مہیب موجوں  کا گرداب بھی جذبوں  کی صداقت کے امین الفا ظ اور حریت فکر کے مظہر الفاظ کی سحر آفرینی کے سیل رواں  کو دیکھ کر اضطراب میں بدل جاتا ہے، اس نے قارئین کو اس جانب متوجہ کیا کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں  کہ شعری عمل کا بنیادی لسانی معیار کیا ہے ؟یہ امر بالخصوص پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی شعری تخلیق میں  وہ کون ساناگزیر جبلی خد و خال ہے جسے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے سبھی استعاروں  کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے اور جو زبان کو ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی کی دل کش کیفیات سے آشنا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ تخلیقِ ادب میں  ہمہ تن مصروف ادیب لفظوں  کے مکانوں  میں  کیسے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس عقدہ کو وا کرنے کی خاطر ادب کے سنجیدہ قارئین کو گفتگو اور تکلم کے سلسلے کے دو بنیادی طریقوں  یعنی انتخاب اور اتصال کو ذہن میں  رکھنا ہو گا۔ رومن جیکب سن نے زبان کی حوالہ جاتی کیفیت کو درج ذیل ماڈل سے واضح کیا ہے۔

حوالہ جاتی(Referential)

ارادی (Conative)                      شاعرانہ (Poetic)                    جذباتی (Emotive)

مراسم والی(Phatic)                                                                              حدِ  لسانیات(Metalingual)

جب بھی کوئی خطاب کرنے والا کوئی پیغام کسی مخاطب کو ارسال کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس مقصد کی خاطر موزوں  الفاظ کا انتخاب کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی پیغام کا موضوع بچہ ہے تو بولنے والا پیغام کی ترسیل کے لیے موضوع سے متعلق دستیاب الفاظ میں  سے کسی ایک موزوں  لفظ کو منتخب کرتا ہے۔ الفاظ کا یہ انتخاب اس کے ذوقِ سلیم اور فہم و فراست کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ مقدور بھر کوشش کرتا ہے کہ وہ جو پیغام ارسال کرنے والا ہے، وہ اصل سے کم و بیش مماثلت رکھتا ہو تا کہ سننے والا مفہوم کے قریب پہنچ جائے۔ وہ اس پیغام کے اہم موضوع یعنی ’’بچے” کے متعلق موجود یکساں  نوعیت کے بیش تر الفاظ مثلاً بچہ، ننھا، نونہال، ثمرِ  نورس، طفل، کم سن، ہونہار بروا، شیرخوار اور گُلِ نو دمیدہ جیسے الفاظ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد ان میں  سے کوئی ایک لفظ چُن کر اسے پیغام میں  جگہ دیتا ہے۔ بادی النظر میں  یہ حقیقت واضح ہے کہ یہ سب الفاظ بڑی حد تک یکساں  مفہوم کے حامل ہیں۔ اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے پیغام کو حتمی شکل دینے کی غرض سے وہ معنویاتی اعتبار سے ہم نسل الفاظ و افعال کی اثر آفرینی پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ افعال و اعمال کے موضوع پر اپنے مجموعی تاثرات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے لیے وہ مطلوبہ الفاظ کے انتخاب میں  یہی سلیقہ اور اظہار میں  یہی قرینہ پیشِ نظر رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر نیند ہی کو لے لیں  اس کے لیے نوم، اونگھنا، غنودگی، استراحت، خوابیدہ، عالمِ خواب، گہری نیند، خوابِ  خرگوش، مُردوں  سے شرط باندھ کر سونااور گھوڑے بیچ کر سونا جیسے الفاظ سامع کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ان میں  سے موزوں  الفاظ کا انتخاب کرتے وقت مساوات، یکسانیت، عدم یکسانیت، مترادفات اور متضاد کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ جہاں  تک اتصال کا تعلق ہے اس کے لیے گہرے ربط اور پیوستگی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ جب دو الفاظ منتخب کر لیے جائیں  تو انھیں  تکلم کے ایک سلسلے میں  جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہاں  یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک تخلیق کار اپنے ذوق سلیم اور ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے تخلیقی فعالیت کے دوران شعری عمل کو اس طرح جاری رکھتا ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے اصول مساوات کو انتخاب کے محور سے اتصال کے محور میں  پیش کرنے کی منصوبہ سازی میں  بے پناہ مدد ملتی ہے۔ آوازوں  کے مطالعات پر مبنی رومن جیکب سن کی تھیوری سے لسانیات پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے معنویاتی گرامر اور ٹھوس نتائج کی مظہر عملی لسانی شعریات کے منفرد آہنگ اور مافوق لسانی صلاحیت کے بارے میں  جن حقائق کی جانب متوجہ کیا اسے ماہرین علم بشریات نے باریک بینی پر مبنی اس کی تحقیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اس کا خیال تھا کہ مافوق لسانی استعدادزبان کے ذخیرۂ الفاظ کو اس قدر ثروت مند بنا دیتی ہے کہ اس کے وسیلے سے کسی دوسری زبان کے تجزیاتی عمل کو ثمر بار کیا جا سکتا ہے۔ اپنی جدت پسندی کو رو بہ عمل لا کر رومن جیکب سن نے شاعری کے موضوعات، اسالیب اور ہئیت کے بارے میں  منطقی نتائج کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ شاعری میں  ابہام (Ambiguity) کی ضرورت کیوں  محسوس ہوتی ہے۔ اس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ایک تخلیق کار صریر خامہ کو نوائے سروش سمجھتے ہوئے اپنی دھُن میں  مگن تزکیۂ نفس کی خاطر اپنے جذبات و احسات کو جب صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے تو اس کے مخاطب اس کے قارئین ہی ہوتے ہیں۔ وہ جن لوگوں  سے مخاطب ہوتا ہے اس کا پیغام سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں  کہ یہ خود مرکوز نوعیت کا پیغام ہے جس کی ترسیل کے سلسلے میں  ابہام کو ایک نا گزیر اندرونی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے اعجاز سے وہ دل کی بات لبوں  پر لا کر اپنی راہ لیتا ہے مگر یہ بات پردۂ اخفا میں  رہ جاتی ہے کہ کہنے والے نے کسے مخاطب کرتے ہوئے یہ پیغام ارسال کیا ہے۔ ان ادھوری ملاقاتوں  کے مبہم بیان میں  کئی ضروری باتوں  کی تشنگی کا احساس قاری کو متجسس کر دیتا ہے۔ رومن جیکب سن کے دئیے گئے لسانی ماڈل میں حوالہ جاتی عنصر بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کے معتبر حوالے کی تہہ تک پہنچے بغیر مفاہیم تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ مثال کے طور پر مرز اسداللہ خان غالب کے یہ اشعار اپنی حوالہ جاتی نوعیت کی بنا پر آج بھی قابل توجہ ہیں۔ یہ اشعار پڑھ کر قاری چشم تصور سے اس عہد کے الم ناک حالات و واقعات کو دیکھ کر تڑپ اُٹھتا ہے۔

گھر سے بازار میں  نکلتے ہوئے

زَہرہ ہوتا ہے آب اِنساں  کا

چوک جس کو کہیں  وہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں  کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک

تشنۂ خوں  ہے ہر مسلماں  کا

تخلیقی فعالیت میں  حوالہ جاتی عنصر کی اہمیت مسلمہ ہے۔ تاریخ کے ثبوت اور عہد بہ عہد رونما ہونے والے تغیرات کے اثرات تخلیقی عمل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ حوالہ جاتی عناصر ماضی کے حالات و واقعات کی ایسی مرقع نگاری پر مبنی ہوتے ہیں  جن کے مطالعہ سے قاری فکر و خیال کی نئی انجمن آرائی کر کے ذہن و شعور کو حقائق کی گرہ کشائی کی صلاحیت سے متمتع کر سکتا ہے۔ ماضی کے حالات اور اس عہد کے ادیبوں  کے خیالات کی امین یہ حوالہ جاتی کیفیت فکر و نظر کو مہمیز کر کے سوچ کے متعدد نئے در وا کرتی ہے۔

سانحہ 1857کے بعد برطانوی استعمار نے جب بر صغیر میں  مغلوں  کی قانونی حکومت کو غیر قانونی طور پر بر طر ف کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا اور تاجر کے روپ میں  گھسنے والے طالع آزما اور مہم جو انگریز بر صغیر میں تاج ور بن بیٹھے تو اس آفت نا گہانی کو دیکھ کر مرزا اسداللہ خان غالب نے کہا:

روز اس شہر میں  اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں  نہیں  آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

انگریزوں  نے پورے بر صغیر کو ایک دشت بے نوا میں  بدل دیا جس میں جنگل کے کالے قوانین نافذ کر کے انسانیت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ ظالم و سفاک برطانوی حاکم مظلوم انسانوں  کو موت اور  حبس دوام کی سزائیں  سنا  تے اور یوں  عدل و انصاف کا قتل عام معمول بن گیا۔ مرزا اسداللہ خان غالب کی شاعری میں  ان واقعات کا بیان ایسا معتبر حوالہ جاتی عنصر ہے جسے تاریخ میں  ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شاعری میں یہ حوالہ جاتی عنصر اس عہد کی تاریخی، معاشرتی، تہذیبی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی مدو جزر کے بارے میں  تمام حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے :

ایک اہلِ  درد نے سنسان جو دیکھا قفس

یوں  کہا ’’ آتی نہیں  اب کیوں  صدائے عندلیب”

بال و پر دو چار دِکھلا کر کہا صیاد  نے

’’یہ نشانی رہ گئی ہے اب بہ جائے عندلیب”

بہادر شاہ ظفر کی اقتدار سے معزولی اور 17۔ اکتوبر 1857کو زینت محل بیگم کے ہمراہ رنگون جلا وطنی ظلم کی انتہا ہے۔ اسی جلا وطنی کے عالم میں  بہادر شاہ ظفر نے 7۔ نومبر 1862کونواسی سال کی عمر میں  زندان میں  داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ شوہر کی وفات کے بعد(17۔ جولائی 1886) زینت محل بیگم بھی رنگون میں  تریسٹھ سال کی عمر میں  زینۂ ہستی سے اتر گئی اور وہ اپنے شوہر اور معزول بادشاہ کے پہلو میں  آسودۂ خاک ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے یہ اشعار اس زمانے کا ایسا حوالہ جاتی عنصر سمجھے جاتے ہیں  جو ماضی کی تاریخ کا ورق اور عبرت کا سبق ہیں۔

شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں  جلتی ہے

ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں  جلتی ہے

پس مرگ قبر پر اے ظفر کوئی فاتحہ بھی کہاں  پڑھے

وہ جو ٹُوٹی قبر کا تھا نشاں  اُسے ٹھوکروں  سے اُڑا دیا

کر گئی ویراں  چمن بادِ خزاں  گُل جھاڑ کے

اِس قفس میں بیٹھ رہ پر اپنے بلبل جھاڑ کے

کہہ دو غنچے سے نہ پھُولے مشتِ زر پر باغ میں

آخر جانا ہے یہاں  سے ہاتھ بالکل جھاڑ کے

گر لگے دنیائے دوں  دامن سے اُن کے اے ظفر

پھینک دیں  مانند گرد اہلِ تغافل جھاڑ کے

ان تمام اشعار میں  تاریخی واقعات اور سانحات کو جس انداز میں  بیان کیا گیا ہے ان کی مدد سے اس عہد کے بارے میں  پوری حوالہ جاتی کیفیت سامنے آ جاتی ہے۔ اس حوالہ جاتی کیفیت کے معجز نما اثر سے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی تفہیم میں  مدد ملتی ہے۔ ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل کر کے اپنے موجودہ حالات کی اصلاح روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ تہذیب و تمدن کی بالیدگی کے لیے تاریخ کا حوالہ جاتی عنصر کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ ان اشعار کے مطالعہ سے ظاہر کہ اگر بیان کرنے والا تاریخی پس منظر اور سیاق و سباق کو تخلیقی عمل کی اساس بناتا ہے تو حوالہ جاتی عنصر کو کلیدی مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی حوالہ جاتی عنصر کے معجز نما اثر سے تاریخی واقعات پر پڑنے والی ابلقِ ایام کے سُموں  کی گرد خود بہ خود ہٹنے لگتی ہے اور تلمیحات، تشبیہات، استعارات اور تراکیب کے دامن میں  نہاں  گنجینۂ معانی کا طلسم اپنی پوری اثر آفرینی کے ساتھ سامنے آ کر پتھروں  سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔

رومن جیکب سن نے صوتیہ کو ایک ارادی یا تخیلاتی نوعیت کے حامل نقل و عکس پر مبنی عمل سے تعبیر کیا ہے۔ ا س کا خیال تھا کہ صوتیاتی عکاسی ہی صوتیہ کی اثر آفرینی کی گرہ کشائی پر قادر ہے۔ رومن جیکب سن نے صوتیہ کو ایک ارادی یا تخیلاتی آہنگ کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ منھ سے نکلی ہوئی ہر آواز کے بر عکس علمی و ادبی شان کی آئینہ دار لسانی صوتیات کا جسمانی صوتیات سے گہرا تعلق ہے۔ اشارے اور کنائے اپنے دامن میں اظہار و ابلاغ کے وسیع امکانات سموئے ہوئے ہیں۔ جہاں  تک کوڈ کا تعلق ہے اس میں نہ صرف جبلی خد و خال نمایاں  ہوتے ہیں  بل کہ اس میں  وضع قطع، عمو می خدوخال اور سیاق و سباق سے وابستہ متغیرات اور اظہاری خد و خال بھی شامل ہوتے ہیں  جنھیں  اختیاری تغیرات کے زیر اثر رو بہ عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے کچھ غیر متعلقہ آثار و اشارات کو بھی اظہار میں  جگہ دی جاتی ہے۔ اس کے خیالات کے مطالعہ سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صوتیہ کو منھ سے نکلنے والی آواز کے مساوی ذہنی متبادل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ رومن جیکب سن نے اگرچہ سوسئیر سے استفادہ کیا  اور اس کے لسانی تصورات کو بڑی حد تک مفید سمجھتے ہوئے ممنونیت کے جذبات کے ساتھ اس کی تحسین بھی کی لیکن ایک جری نقاد کی حیثیت سے اس نے سوسئیرسے اختلاف بھی کیا۔ سوسئیر کا استدلال یہ تھا کہ صوتیہ کو ایسے منفی، مخالف مگر اظہار کے لازم و ملزوم موجودات کے طور پر دیکھنا چاہیے جو کوئی خاص آہنگ اپنا کر کسی لفظ کے فرق کے ذریعے معنی کی تفہیم کی ممکنہ صورت پیش کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لسانی مطالعات کے آخری تجزیے میں سوسئیر تھک کر محض آوازوں  کے مطالعہ کی فہرست کی ترتیب تک محدود ہو کر رہ گیا۔ علمی مباحث میں  بسا اوقات ایسے سخت مقام بھی آتے ہیں  جب خرد کی گتھیاں  سلجھاتے سلجھاتے انسان اس قدر مضمحل ہو جاتا ہے کہ وہ صاحبِ جنوں  ہونے کی تمنا میں  سر گرداں  دکھائی دیتا ہے۔ سوسئیر کی لسانی استعداد کا ایک عالم معترف تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کئی حقائق سرابوں  کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اس کے تجزیات کی عمومی نوعیت محض صوتیہ پر مشتمل ایک مجموعہ ہے جس میں  ان اہم حقائق کی گرہ کشائی نہیں  ہوتی کہ یہ مختلف صوتیے ایک نظام میں  رہتے ہوئے یا اپنی مکمل حیثیت میں  کس طرح باہم مربوط ہیں۔ سوسئیر کے افکار میں  پائی جانے والی اس کمی کا ازالہ کرتے ہوئے روسی ماہر لسانیات نکولائی تربت زکوئی,(April 15, 1890 – June 25, 1938) Nikolai Trubetzkoy  )اور رومن جیکب سن نے مقدور بھر کوشش کی۔ اور اس نے واضح کیا کہ یہ وسیع و عریض کائنات تغیرات کے ایک غیر مختتم سلسلے کی اسیر ہے، ان تمام تغیرات کا ایک واضح پیغام ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تغیرات اور نظامِ اسباب کی موجودگی سے فکر و خیال کی دنیا آباد ہے۔ قارئین کے دل کی انجمن میں  لفظوں  کی صد رنگی نئے امکانات تک رسائی کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔

جس مربوط اور سلسلہ وار طریق کار کو اپناتے ہوئے رومن جیکب سن نے مختلف النوع نادر موضوعات و مضامین کی بین العلومی حیثیت کے بارے میں  اپنا منفرد زاویۂ نگاہ پیش کیا وہ اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ میں  حقیقت نگاری کے موضوع پر رومن جیکب سن کے خیالات اس کی انفرادیت کے مظہر ہیں۔ اس کاخیال تھا کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں  ویسے نہیں  ہوتے۔ زندگی میں  ہمارا واسطہ جن حقائق سے پڑتا ہے، تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں  وہ سب خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمِ  خواب میں  ہم جن حقائق کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں  جب آنکھ کھلتی ہے تو سب کچھ ہو اہو جاتا ہے۔ رومن جیکب سن کے خیالات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حقیقت نگاری کے بھی کچھ اصول اور تقاضے ہوتے ہیں لیکن ادب میں  حقیقت نگاری سائے، سراب اور فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک تخلیق کار جب حقیقت نگاری پر مائل ہوتا ہے تو دراصل وہ سائے پر اعتماد کرتے ہوئے سراب کے تعاقب اور نایاب کی جستجو میں  ایسی دنیاکی تخلیق کی سعی کرتا ہے جس کا عملی زندگی میں کہیں  وجود ہی نہیں۔ رومن جیب سن نے ڈاڈا ازم، فیوچرازم اور کیوب ازم کا حقیقت نگاری سے انسلاک کر کے مصوری کی دنیا کو نئے تصورات سے روشناس کرایا۔ اس نے اس جانب متوجہ کی کہ اشیا کی طبعی حالت اور ان کے بارے میں  تخیل کی جولانیوں  میں  پایا جانے والا بُعد اس موضوع پر تمام حقائق واضح کر دیتا ہے۔

لسانی شعریات پر تحقیق سے قبل زبان سے وابستہ اہم فرائض کو زیر بحث لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے رومن جیکب سن نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ قارئین کو یہ دیکھنا چاہیے کہ زبان دوسرے معمولاتِ زندگی میں  کیا کردار ادا کرتی ہے اور  اس کا ان عوامل میں  کیا مقام ہے۔ یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ زبان میں ہئیت کا مادہ سے ایسا ہی تضاد ہی جیسا کہ مستقل کا متغیر سے۔ لسانیات کے حوالے سے بعض اوقات لا علمی اور عصبیت پر مبنی حاشیہ آرائی کے نتیجے میں  موضوعات اُلجھ جاتے ہیں ۔ رومن جیب سن نے اس قسم کے غیر محتاط مطالعات پر گرفت کی جن کے باعث تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں  غلط فہمی پر مبنی صریح معاندانہ طرز عمل پروان چڑھتا ہے۔ لسانیات کے موضوع پر رومن جیکب سن نے اپنے زاویۂ نگاہ کی صراحت کرتے ہوئے اپنے مضمون ’’Linguistics and poetics, ”  (جو ڈیوڈ لاج کی تالیف جدید تنقید اور تھیوری میں  شامل ہے)  میں لکھا ہے :

"I privately believe that the poetic incompetence of some bigoted linguists has been mistaken for an inadequacy of the linguistic science itself. All of us here, however, definitely realize that a linguist deaf to the poetic function of  language and a  literary scholar indifferent to to linguistic problems and unconversant with linguistic methods are equally flagrant anachronisms.  (2)

رومن جیکب سن نے لسانی ماڈل اور اس سے متعلق متنوع تصورات کے ذریعے قارئین کو فکر و خیال کے نئے جہان سے متعارف کرایا۔ اس نے ادب اور فنون لطیفہ میں  رئیلزم، سر رئیلزم، تجریدیت،               صوتیات، دیو مالا، ڈاڈاازم، حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کے موضوع پر فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا جو سلسلہ شروع کیا اسے قارئین نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ممتاز ماہر لسانیات ژاک لاکاں   نے بھی رومن جیکب سن کے خیالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ رومن جیکب سن ایک وسیع المطالعہ نقاد تھا، اس نے سگمنڈ فرائیڈ(Sigmund Freud ,B:06-05-1856,D:23-09-1939) کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لیا اور اس کے تصورات کی حقیقی کیفیت کی صراحت کر نے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن عملی طور پر اس نے تحلیل نفسی پر مبنی تنقید میں  بہت کم دلچسپی لی۔ سگمنڈ فرائیڈ کے خیالات کی تفہیم کے سلسلے میں  اس کی مساعی بار آور ثابت ہوئیں۔ رومن جیکب سن نے سگمنڈ فرائیڈ کے لا شعورسے متعلق خیالات کا نہایت توجہ سے مطالعہ کیا۔ سگمنڈ فرائیڈ نے لا شعور کی فکر و خیال کی بے دخلی پر منتج ہونے والی کیفیت اور انجماد کی مظہر حالت کی جانب متوجہ کرایا۔ رومن جیکب سن نے واضح کیا کہ مجاز اور استعارہ کا تعلق زبان و بیان کے اسی سحر سے ہے جس کے وسیلے سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں  مدد ملتی ہے۔ اس نے اپنی منفرد سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے اظہار و ابلاغ میں  یکسانیت اور ربط کے نئے پہلو تلاش کر نے کی ضرورت پر زور دیا۔ استعارہ کو علم بیان میں  جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ جب کسی کی صفات کو بیان کرنا مقصود ہو تو استعارہ ہر اعتبار سے کافی ہوتا ہے اسے تشبیہہ کی بیساکھی کی احتیاج نہیں ۔

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا  کا استدلا ہے

رن ایک طر ف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

مجا ز اور استعارے کے اسی تفرق کو بعد میں  آنے والوں  نے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا۔ ژاک دریدا نے رومن جیکب سن اور اس کے شاگرد مورس ہیلے(Morris Halle) کے تکلم اور تحریر کے تفرق پر مبنی خیالات اور سوسئیر کے ثنائی نظام تضادات کے بارے میں  اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ تکلم کے ہر سلسلے کو تحکم سے تعبیر کرنے والے ا س ماہر لسانیات کے خیالات کی باز گشت ہر عہد میں  سنائی دے گی۔ جہاز عمر رواں  کے مسافر اور راہِ رفتگاں  پر چلنے والے اپنے پیش روؤں  کے تسلسل اور ان کی جگہ لینے والوں  کے خیالات کے بارے میں  سوچتے رہیں  گے لیکن ان کا جواب دینے والے صوت و بیاں  کے سب سلسلے منقطع کر کے جا چکے ہیں۔

تمام مرحلے صوت و بیاں  کے ختم ہوئے

اب اس کے بعد ہماری نوا ہے خاموشی

٭٭

مآخذ:

1 Roman Jakobson: Fundamentals Of Language, Mouton & Co. S. Gravenhage, 1956, Page 4

2 David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearson, Singapore, 2004, Page 5

٭٭٭

One thought on “رومن جیکب سن(Roman Jakobson):لسانیات کے ساختیاتی تجزیہ کا اہم نام ۔۔۔ غلام شبیر رانا

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے