روحزن (ایک باب)۔۔۔ رحمٰن عبّاس

باب دوم : مجھے بھی رہ نہ ملے گی جو لوٹنا چاہوں

 

 

جماعت کی کھولی ایک پرانے طرز کی تین منزلہ عمارت میں گراؤنڈ فلور پر واقع تھی۔ عمارت کے سبھی مکین پگڑی سسٹم پر پانچ دہائیوں سے قیام پذیر تھے۔ بلڈنگ کا مالک صلاح الدین میمن ایک خاندانی تاجر اور دین دار آدمی تھا۔ عمارت خستہ حال تھی لیکن مکین عمارت کی تعمیر نو کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمارت کے تاریک دیوان سے جب اَسرار اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلا تو مئی کی تیز دھوپ میں پل بھر کے لیے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

اَسرار کے ساتھ دو اور لڑکے پہلی بار ممبئی آئے تھے۔ تینوں کی زندگی کا یہ ایک یاد گار لمحہ تھا۔ کھولی سے باہر آتے ہی تینوں گویا مجسمے میں بدل گئے۔ ارد گرد کی عمارتوں، کھڑکیوں، کھڑکیوں پر لگے پردوں، سڑک، سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اور لوگوں کے ملبوسات کو دیکھتے رہے۔ فٹ پاتھ اور کنارۂ سڑک تا حدِ نظر باکڑے (چھابڑے ) نظر آئے۔ اُن کے سامنے جو باکڑا (چھابڑا) تھا اُس پر بچوں کے کپڑے، ٹوپیاں، مصلے، مسواک، آب زم زم، تسبیحات، مسنون دعاؤں کی کتابیں، رحل اور قرآن کے چند نسخے رکھے ہوئے تھے۔ باکڑے کے نیچے ایک کالے رنگ کا کتا سو رہا تھا۔ اَسرار نے کتے کو دیکھا۔ کتے کا آدھا جسم فٹ پاتھ کے کنارے پر جمع گندے پانی میں تھا۔ کتے کی آنکھیں بند تھیں اور ناک کے پاس ایک موٹی سی مکھی ایک مٹھائی کے ٹکڑے پر السی گدھے کی طرح بیٹھ کر کتے کے ناک کو دیکھ رہی تھی۔ کتے کی ناک مکھی کے لیے یقیناً ایک سرنگ تھی۔ ممبئی بھی بعض اوقات نو واردان کو سرنگ لگتی ہے۔ فٹ پاتھ پر اَسرار کو تین چار بڑے بل نظر آئے۔ کتے نے اچانک اپنی دم زور سے ہلا کر ایک چوہے کو بھگایا جو دم پر لگے کچرے کو کھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چوہا فوراً ایک بل میں گھس گیا۔ چوہا ایک بل میں گھسا اور اُسی لمحے دو چوہے لڑتے ہوئے ایک دوسرے بل سے باہر نکلے اور کتے کو عبور کر کے ایک نالے میں گھس گئے۔ مکھی شور سن کر اڑ گئی لیکن اپنی ذات میں گم کتا ٹس سے مِس نہیں ہوا۔ شاید یہ اُس کا روز مرہ کا معمول تھا۔ فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے ہوئے اب وہ چوہوں کی گستاخیوں پر اُن کی سرزنش کرنے کے تادیبی جذبے سے بھی بلند ہو چکا تھا۔ اَسرار کی چندھیائی ہوئی آنکھیں تیز دھوپ کی مناسب سے ایڈجسٹ ہوئیں تو اُس نے دیکھا کہ فٹ پاتھ سے لگ کر عطریات کی تین چار دکانیں ہیں۔ اِن دکانوں پر عربی رسم الخط میں بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک دکان کا نام ’خالص عطریات جمیل الآسام ‘ تھا۔ دکان کھلی تھی۔ چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مختلف اشکال کی شیشیوں میں عطر رکھا ہوا تھا۔

’کہاں کھو گیا بے۔ ‘ محمد علی نے اَسرار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور پھر جملہ مکمل کیا’ چلو، ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے۔ ‘

وہ لوگ بمشکل ایک منٹ چلے ہوں گے کہ مینارہ مسجد نے اُن کے قدم روک لیے۔ سلیم گھارے نے مینارہ مسجد کے بارے میں دو چار جملے ادا کیے اور بتایا کہ ماہِ رمضان میں کس طرح یہ علاقہ پر رونق ہو جاتا ہے۔ راستے پر پیر رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ ۔ سلیم گھارے کی باتیں سبھی دھیان سے سن رہے تھے۔ قاسم دلوی نے پوچھا:’جب راستے پر پیر رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہوتی ہے، تو پیر کدھر رکھتے ہیں ؟‘ سب ہنس پڑے۔ سلیم چپ رہا۔ پھر وہ بھی مسکرایا۔ محمد علی نے اُس دوران نکڑ کی پان پٹی سے تین چار پان بنوا لیے۔ مینارہ مسجد کے نقش و نگار اور پر پیچ کاریگری نے اَسرار کو متاثر کیا۔ دیر تک وہ مینارہ مسجد کو دیکھتا رہا۔ ابھی اَسرار کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جس عمارت کو وہ حیرانی سے دیکھ رہا ہے اُس عمارت کے میناروں نے شہر کی کتنی بہاروں اور حبس زدہ راتوں کو ایسی ہی حیرانی اور استعجاب سے دیکھا ہے۔ عظیم الشان جلسے اور جلوس دیکھے ہیں۔ افراتفری اور سیاسی ہنگامہ آرائی دیکھی ہے۔ مسلک اور مذہب کی مسابقت دیکھی ہے۔ اِن میناروں نے پولیس کی وردی میں ملبوس اُن افراد کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے ’ عمر علی عثمان لنگی کٹ بیکری‘ میں فسادات کے دوران قتل عام کیا تھا لیکن جن کا جرم سپریم کورٹ میں بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ مینارہ مسجد کے میناروں نے ممبئی فسادات کے چند ماہ بعد رات کے آخری پہر، بلکہ کاذب کے وقت امام مہجور البخاری المعروف ہجر غلمان کو قریب کی ایک سڑک پر اپنے معتقدین کے ذریعے آر ڈی ایکس کے بکس رکھواتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ راز کوئی نہیں جان سکا کہ یہ کام امام مہجور البخاری المعروف ہجر غلمان نے کس کے اشارے پر کیا تھا۔ یہ معمہ اس وقت کچھ دیر کے لیے زیر بحث رہا جب چند برسوں بعد ایک دن مینارہ مسجد سے چند کلو میٹر دور بڑی سفاکی سے اُس کا قتل ہوا۔ مینارہ مسجد کے مینار اَسرار کو بڑے پُر اَسرار لگے۔ اُسے ایسا لگا ان پُر شکوہ میناروں کے چھجوں اور مخروطی خانوں میں بہت ممکن ہے جنات اور اُن کے کنبے رہتے ہوں گے۔ اَسرار کو ابھی اِس بات کا علم نہیں تھا کہ مینارہ مسجد کے اطراف کے علاقے میں کتنی بار قیامتیں گزری ہیں اور اِن قیامتوں نے اِن میناروں کو کتنی بار شرمندہ اور مغموم کیا ہے۔ اِن میناروں نے وہ دن بھی دیکھا ہے جب ہزاروں مسلمان سلمان ولد منصور الحلاج عرف کتاب الطواسین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہاں پہنچے تو پولیس نے یکایک فائرنگ شروع کر دی تھی۔ درجن بھر نوجوان موت کی تاریک سرنگ میں گر گئے تھے۔ مینارہ مسجد کی فٹ پاتھ کے نیچے سے بہنے والی نالیوں میں عمر علی عثمان لنگی کٹ بیکری میں قتل کیے گئے افراد اور سلمان ولد منصور الحلاج عرف کتاب الطواسین کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ یہ خون خرابہ ریاست کی پولیس کی فائرنگ کا شاخسانہ تھا جس میں گولیوں کے ساتھ نفرت بھی شامل تھی۔ خون گٹر کے گندے پانی میں مل کر بہ ظاہر اپنا رنگ کھو دیتا ہے لیکن تازہ خون کی مہک کو جنات اور دیو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی محمد علی روڈ کے نواح میں معصوم لوگوں کا خون بہتا ہے اور زیرِ زمین نالیوں کے پانی میں مل کر یہ خون ممبا دیوی کے مندر کے اطراف کی نالیوں سے ہوتا ہوا سمندر کی طرف بڑھتا ہے، مندر کے صحن میں دیو اور راکھشس تانڈو کرتے ہیں۔ بہت ممکن ہے یہ خون پینے والے راکھشس، اْس راکھشس ونش سے تعلق رکھتے ہوں جن کو ممبا دیوی نے شکست دی تھی۔ یہ تانڈو ممبا دیوی کی مایوسی میں اضافہ کرنے کی نیت سے کیا جا تا ہے۔ ہر بار تانڈو کرنے کے بعد یہ دیو اور راکھشس ممبا دیوی کے مندر کے باہر کی نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ زیر زمین نالیوں کی بے شمار چھوٹی بڑی سرنگیں پار کر کے محمد علی روڈ سے بہہ کر آنے والے خون کو گندے پانی سے علیحدہ کر کے پی لیتے ہیں۔ پانی میں جتنی چیزیں محلول ہوتی ہیں راکھشس اُن کو کشید کر کے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خون پینے کے بعد یہ دوبارہ ممبا دیوی کے مندر کے سامنے آ کر رقص کرتے ہیں۔ یہ رقص ممبا دیوی کے غضب کو بڑھاتا ہے لیکن چونکہ ممبا دیوی نے برہما سے وعدہ کیا ہے کہ ممبئی کے ساتوں جزیرے جب تک اپنی اصلی حالت میں رہیں گے وہ راکھشس پر جاتی پر حملہ آور نہیں ہو گی، اِس لیے پی کر چپ ہو جاتی ہے۔ برہما نے جب ممبا کو یہ بتایا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب چالیس دن اور چالیس راتیں ممبئی میں بارش ہو گی۔ ساتوں جزیرے ڈوب جائیں گے۔ سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ تاریخ بھی مٹ جائے گیا۔ اِس واقعے کے چالیس سال بعد ساتوں جزیرے دوبارہ سمندر سے ابھریں گے اور تب وہ سات نہیں بلکہ ایک جزیرہ بن کر ابھر یں گے۔ اُس جزیرے پر گجراتم دیشم کالعدم نامی ایک راکھشس اپنی حکومت قائم کرے گا۔ یہ حکومت جب قتل و غارت گری کا ننگا ناچ کرنے لگے گی تب ایک دن ممبا کے مندر کی دیواریں جو شہر کے غرقاب ہونے کے باوجود محفوظ رہ گئی تھیں از خود مسمار ہو جائیں گی اور تب۔ ۔ ممبا دیوی کو اس راکھشس گجراتم دیشم کالعدم سے جنگ کر کے اسے شکست دینا ہو گی۔ ممبا کو برہما نے اُس فیصلہ کن جنگ کی بشارت دے دی تھی لیکن یہ نہیں بتایا کہ اُس جنگ کا انجام کیا ہو گا۔ شاید اِسی لیے ممبا دیوی کے چہرے پر جہاں تیج اور غضب ہے وہیں احساسِ فکر مندی کی جھلک بھی ہے۔

٭٭

 

محمد علی ونو نے سلیم گھارے کو پان پیش کیا۔ سلیم گھارے نے پان منہ میں ڈالا۔ تھوڑا اضافی چونا جو پان والے نے پان کے ساتھ دیا تھا، انگلی سے لے کر زبان پر لگایا۔

وہ لوگ آگے بڑھے۔

’محمد علی روڈ ‘پر کاریں، ٹیکسیاں، بسیں رینگ رہی تھیں۔ بہت آہستہ۔ لوگ ان گاڑیوں کے سامنے سے دوڑ کر راستہ عبور کر رہے تھے۔ ہورن بج رہے تھے۔

لب سڑک کچھ لوگ زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ جے جے فلائی اوور کے نیچے دو ہتھ گاڑی والے اپنی گاڑیوں پر بیٹھے بیڑی پھونک رہے تھے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور ایک بوہری عورت کے ساتھ جھگڑا کر رہا تھا۔ بوہری عورت کے سامنے ایک لنگڑا آدمی جس کے سر پر سبز رنگ کی ٹوپی تھی بوہری عورت سے بھیک کی امید لگائے کھڑا تھا۔ گویا جھگڑا ختم ہوتے ہی بھکا ری کی مراد پوری ہو جائے گی۔ ممبئی میں بھکاری بھی کس قدر پر امید دکھائی دیتے ہیں۔ اَسرار کو بھکاری کے گلے میں سبز، سرخ اور چمکدار نیلے رنگ کی مالائیں اچھی لگیں۔ ابھی بوہری عورت کا جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نو عمر لڑکی بھی وہاں آ گئی اور بھکاری لنگڑے کی دیکھا دیکھی عورت کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگی۔ لنگڑے بھکاری کے لیے نوعمر لڑکی کی مداخلت ناگوار تھی۔ اُس نے بیساکھی اٹھائی اور لڑکی کے کولہوں پر ماری۔ نو عمر لڑکی فوراً وہاں سے بھاگی لیکن سڑک پار کرنے سے پہلے لڑکی نے لنگڑے کو تین چار گالیاں دیں جو ٹرافک کے شور میں دب گئیں۔ کسی نے اِس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اَسرار نے جے جے فلائی اوور کو تا دیر دیکھا۔ تیز دھوپ میں جے جے فلائی اوور سویا ہوا اینا کونڈا دکھائی دے رہا تھا۔

محمد علی روڈ پر عمر علی عثمان میٹھائی والا کی دکان کے سامنے لذیذ مٹھائیوں کی مہک ہوا میں تحلیل تھی۔ نان خطائی کے ٹوکروں پر ان کی نظر پڑی۔ ایک لڑکا جس نے لنگی اور بنیان پہن رکھی تھی۔ وہ سر پر مٹھائی کی ٹرے لیے آیا اور دکان میں داخل ہوا۔ مٹھائی کی تازہ مہک نے قاسم دلوی کو سب سے زیادہ متوجہ کیا۔ اُس نے فوراً لنگی بنیان پہنے ہوئے لڑکے سے پوچھا:’ کونسی مٹائی ہے ؟‘

’افلاطون۔ ‘ لڑکے نے کہا۔

محمد علی نے قاسم سے پوچھا:’ کھانے کا ہے کیا ترے کو؟‘

قاسم کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے محمد علی نے آدھا کلو افلاطون خرید کر نوواردان کو پیش کیے۔ پان کی پیک ایک طرف تھوکنے کے بعد محمد علی نے یہاں کی مٹھائیوں کی کچھ خاص قسموں پر اپنی معلومات کا مظاہرہ کیا۔ سلیم گھارے نے اُس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ڈم ڈم کی مٹھائی بھی لذیذ ہوتی ہے۔ ابھی وہ مٹھائی کھا ہی رہے تھے کہ تین چار چھوٹے بچے ہاتھ پھیلائے مٹھائی میں اپنا حصہ مانگنے لگے۔ ایک لڑکے نے صرف پتلون پہن رکھی تھی۔ سب سے بڑے لڑکے نے ایک پھٹی ہوئی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ سلیم گھارے نے فٹ پاتھ پر پان کی پیک تھوکی اور ان کی طرف دیکھ کر کہا :’ کیا رے کام دھندا نہیں ہے، چل ہٹ؟‘

’چل ہٹ‘ سن کر چھوٹے لڑکے نے بڑی عاجزی سے اپنا سیدھا ہاتھ منہ کی طرف کرتے ہوئے اشارتاً کہنا چاہا کہ اسے بھوک لگی ہے۔

محمد علی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا:’ ابے سالے تو ادھرچ پیچھے کی فٹ پاتھ پر رہتا ہے نا‘۔

لڑکے نے محمد علی کو گھور کر دیکھا۔ محمد علی نے نو واردان کو بتایا کہ یہ سب چرسی ہیں۔ بھیک مانگ کر کھاتے ہیں اور نشے میں غرق رہتے ہیں۔ محمد علی کو باتیں سن کر تینوں چرسی وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔ سڑک پر ٹرافک بدستور تھا۔ چرچ گیٹ کی طرف جانے والی دو بسیں آئیں۔ افلاطون ابھی وہ کھا ہی رہے تھے کہ سلیم گھارے نے کہا:’ بس خالی ہے پکڑ لیتے ہیں۔ ‘

وہ ایک بس میں سوار ہو گئے۔ بس کے دوسرے منزلے پر سیٹیں خالی تھیں۔ وہ بیٹھ گئے۔ اَسرار اور محمد علی آگے کی سیٹ پر ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ دونوں کا گاؤں ایک تھا لیکن یہ اُن کی پہلی ملاقات تھی۔ تعارفی نوعیت کی باتیں ہوئیں۔ محمد علی نے اَسرار کو بتایا کہ وہ ہیروں کے ایک تاجر کے یہاں ملازمت کرتا ہے اور اگر وہ چاہے تو اپنے سیٹھ سے اس کے لیے بات کر سکتا ہے۔ اَسرار نے کہا وہ قاسم دلوی سے بات کرے گا پھر کوئی فیصلہ کرے گا۔ بس حج ہاؤس کے پاس پہنچی۔ عمارت پر قرآن کی آیات کندھی ہوئی دیکھ کر اَسرار کو پہلے خوشی ہوئی پھر حیرانی ہوئی۔ اُس نے محمد علی سے کہا:’اتنی اونچی مسجد؟‘

محمد علی نے مسکراتے ہوئے کہا:’ارے یہ حج ہاؤس ہے۔ ‘

’حج ہاؤس مطلب؟ حج کے لیے تو سعودی عرب جا تے ہیں نا۔ ‘ قاسم دلوی نے کہا۔

’ایڑے وہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے، حج کے لیے سعودی جانا پڑتا ہے، لیکن اِدھر سے انتظام ہوتا ہے۔ ‘ محمد علی نے جواب دیا۔

اَسرار خاموشی سے حج ہاؤس کی عمارت کی شان و شوکت دیکھتا رہا۔ اِتنی خوب صورت عمارت اُس نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ محمد علی نے اُسے چرچ گیٹ اسٹیشن، انجمن اسلام اور ٹائمز آف انڈیا کی عمارتیں دکھائیں اور ان کے بارے میں مختصراً بتایا۔ اَسرار، محمد علی کی معلومات سے متاثر ہوا۔ چرچ گیٹ اسٹیشن کے سامنے کے سگنل کو پار کرنے کے بعد جو ممبئی اَسرار کے سامنے تھی وہ مینارہ مسجد کی فٹ پاتھ اور عمر علی عثمان سلیمان مٹھائی والے کی دکان کے سامنے دکھائی دینے والی ممبئی سے بہت مختلف تھی۔ اُس نے محمد علی سے کوئی سوال نہیں کیا اور خاموشی سے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو مبہوت کرنے والی ممبئی کو دیکھتا رہا۔

تاج ہوٹل سے کچھ فاصلے پر وہ بس سے اترے۔

گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر نوواردان شہر نے تاج ہوٹل کو اِس محبت سے دیکھا گویا اپنی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہتے ہوں۔ اُس شاندار عمارت کو دیکھنے کے بعد اُن سب میں ایک احساسِ کمتری پیدا ہوا جس نے عمارت کے شکوہ میں اضافہ کیا اور اُس کا رعب، اُن کے دلوں پر قائم کیا۔ آج وہ جہاں کھڑے ہو کرتا ج کو دیکھ رہے تھے ٹھیک اِسی مقام سے پانچ سال بعد ہندستان اور دنیا کا میڈیا تاج ہوٹل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی رپورٹنگ کرنے والا تھا۔ یہ سارے دوست کئی برسوں تک تاج ہوٹل اور گیٹ وے آف انڈیا کے اِس یاد گار سفر کو یاد کرنے والے تھے۔

ٹھیک سات سال بعد جولائی مہینے کے آخری دنوں میں ایک اتوار کی دوپہر کو جماعت کی کھولی میں محمد علی نے خواب میں اسرار کو دیکھا۔ دیر تک دونوں نے معمولات زندگی پر باتیں کیں۔ خواب میں اَسرار کسی دوسری مملکت کا شہری تھا۔ اَسرار نے اسے تاج ہوٹل پر ہوئے بہیمانہ حملے کی تفصیل سنانا چاہا تو اُس نے انتہائی مغموم لہجے میں کہا:’اب میں وہاں نہیں ہوں جہاں دہشت گرد رہتے ہیں، اِس لیے میں اُن باتوں کو جان کر کیا کروں گا۔ ‘ محمد علی اُس کی یہ بات سن کر اُداس ہو گیا۔ حالتِ خواب میں ہی اُسے یاد آیا کہ اَسرار کس دنیا میں ہے۔ دل شکستہ محمد علی کی آنکھیں کھل گئیں۔ اُس نے اپنی آنکھوں میں پانی کے چند قطرے محسوس کئے۔ اسے اَسرار کی شدید کمی کا احساس ہوا۔ وہ اٹھا اور ٹیکسی کر کے حاجی علی درگاہ پر گیا۔ درگاہ کے صحن میں ایک کونے میں بیٹھ کر وہ اَسرار کو یاد کرتا رہا۔ دیر تک روتا رہا۔

٭٭

 

سلیم گھارے نے اُنھیں گیٹ وے آف انڈیا کی تاریخ بتائی اور آئس کریم کھلائی۔

آئس کریم کھانے کے بعد سلیم نے انھیں بتایا کہ آج ایک سرپرائز بھی ہے۔ سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا :’کیا کیا کیا؟‘

سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا:’انا اللہ مع الصّا برین۔ ‘

’نہیں نہیں نہیں۔ ۔ ۔ ‘ صبر ببر گئی کھڈے میں، جلدی بتاؤ۔ ‘ قاسم دلوی نے کہا۔

’اسلم بھائی شاید شام میں کھانے کی دعوت دینے والے ہوں گے۔ ‘ اسلم دھامسکر نے کہا۔

’ کھانا کھولی میں ویسے بھی بن جائے گا۔ ‘ سلیم گھارے نے کہا۔

’پھر پکچر بتانے کا ارادہ ہے کیا؟‘ سلیمان ونو نے پوچھا۔

’یار بچے لوگ پہلی بار ممبئی گھوم رے لے ہیں، چلو بتا بھی ڈالو۔ ‘ محمد علی ونو نے سلیمان ونو کے سوال پر اسلم کے رد عمل سے پیشتر کہا۔

ـ’چلو، آؤ سب میرے ساتھ۔ ‘ سلیم گھارے نے کہا۔ وہ سب اُس کے پیچھے پیچھے گیٹ وے آف انڈیا کے عقبی حصے کی طرف گئے۔ جہاں سے سمندر میں کنکریٹ کی سیڑھیاں اترتی تھی۔

سلیم گھارے کے ایک رفیق دیرینہ کی چار پانچ فیری بوٹ ٹورسٹوں کو سمندر کی سیر کرایا کرتی تھیں۔ سلیم نے سمندر کی سیر کا انتظام کر رکھا تھا۔ وہ سب بوٹ پر سوار ہو گئے۔ جب بوٹ کھچا کھچ بھر گئی تو سفر شروع ہوا۔ اب وہ سمندر کی ڈولتی ہوئی سطح سے تیز دھوپ میں چمکتی ہوئی ممبئی کا دیدار کر رہے تھے۔ ممبئی بہ ظاہر اُن سے دور ہو رہا تھا۔ ساحلی پٹی سے گہرے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے شہر کو دیکھنا ایک منفرد تجربہ تھا۔ تاج ہوٹل کی عمارت کے محراب و گنبدوں کو اپنی آنکھوں کے دائرے میں رفتہ رفتہ سمٹتے ہوئے دیکھنے کا احساس نیا تھا۔ سمندر کی لہروں کو چھو کر آنے والی ہواؤں میں ٹھنڈک اور نمک شامل تھا۔ گرمی کی شدّت میں کمی محسوس ہوئی۔ سمندر کی موجوں کو دیکھ کر اَسرار کے دل میں اُداسی نے کروٹ لی۔ اِس کروٹ نے اُس کی نظروں کے سامنے سمندر کو ایک بھنور نما میں بدل دیا۔ بھنور نما ایک چھوٹا سا دائرہ تھا لیکن اِس دائرے میں پانی کا رنگ سرخ تھا، بلکہ یہ پانی نہیں تازہ لہو تھا۔ تازہ لہو صرف گردش نہیں کر رہا تھا بلکہ دوران گردش لہو میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے بھنور بن رہے تھے۔ ہر بھنور میں اسے اپنے والد کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ تین چار منٹ اُس کی آنکھوں میں یہ بھنور رقص کرتے رہے۔ اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ڈِرل مشن سے اپنے دیدوں میں چھید کرے تا کہ وہاں جمع لہو فوارہ بن کر اُبل پڑے۔ کبھی کبھی یکایک اپنے لہو میں تر بتر ہونے کی خواہش اُس کے دل میں پناہ گزین ہو جاتی تھی۔ حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ جمیلہ مِس نے اِس خواہش کو رفتہ رفتہ زائل کر دیا تھا۔ اُس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں۔ مسکرایا۔ اُس کی آنکھوں میں اب جمیلہ مِس تھی۔ اُس کے ساتھ ایک چھوٹا سا سمندر کا سفر اُس کے تہہ خانۂ دل میں کہیں محفوظ تھا۔ وہ تازہ ہو گیا۔

٭٭

 

برسات کی رات جو کچھ ہوا تھا اُس کے بعد جمیلہ مِس کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت یکایک بدل گئی تھی۔ ہر دو سرے تیسرے دن جمیلہ مِس اُسے کیمیا، حیاتیات اور الجبرا کی گنجلک اصطلاحات آسان زبان میں سمجھایا کرتی تھی۔ مِس نے سائنس کی نصابی کتاب کا باب : ’’حیاتی دور اور ہمارے جین کا خاکہ‘‘ دلچسپی سے پڑھایا تھا۔ ماہواری، بار آوری اور بالیدگی کی اصطلاحات کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے فوطے، بولی تناسلی نلی، منوی کیسہ، غدوقدامیہ اور عضو تناسل جیسے مشکل الفاظ کو سہل زبان میں سمجھاتے ہوئے اُن کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ بیضہ دان، قاذف نلی، رحم اور اندام نہانی پر بھی کتاب میں درج جملوں کی وضاحت کی تھی۔ دوسری طرف درسی کتاب میں اندام نہانی اور عضوِ تناسل کے افعال کے بارے میں جو باتیں لکھی ہوئی تھیں اُن سے عدم اتفاقی کا اظہار کیا تھا۔ کتاب میں اندام نہانی کے افعال کے بارے میں تحریر تھا :’ ماہواری کے بہنے کا راستہ، منویے کے گزرنے کا راستہ اور بچے کی پیدائش کی جگہ۔ جبکہ تناسل کا فعل :’ بار آوری کے مقام پر منووں کو پہچانا۔ ‘ لکھا ہوا تھا۔ جمیلہ مِس نے کہا کہ یہ باتیں اہمیت رکھتی ہیں لیکن اعضا محض مذکورہ افعال کے لیے نہیں ہیں بلکہ وہ جذبۂ عشق کے اظہار کا وسیلہ بھی ہیں۔ جسم، روح اور جذبات کے درمیان پل کا رول ادا کرتے ہیں۔

٭٭

 

ایک دن مِس نے اُس سے کہا کہ وہ سمندر کی سیر کرنا چاہتی ہے اور یہ دیکھنا چاہتی ہے :’ مچھلیاں کس طرح شکار کی جاتی ہیں ؟‘

’مچھلیاں خود پھنستی ہیں۔ ‘ فوراً اُس کی زبان سے ادا ہوا تھا۔

جمیلہ مِس نے دزدیدہ نگاہی سے اُس کی طرف دیکھا۔

اسے احساس ہوا کہ اِس جملے میں وہ معنی بھی پوشیدہ ہیں جس کا اظہار اس کا مقصد نہیں تھا۔ وہ اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا تھا کہ مِس نے کہا:’موسم بھی تو ویسا عاشقانہ منگتا ہے نا۔ ‘ جمیلہ نے بڑی متانت اور شوخی کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی بات کہی تھی۔

وہ مسکرایا۔ جمیلہ مِس بھی مسکرائی۔

اِس کے باوجود اُس نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ در اصل وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔ جمیلہ اس کے غیر ضروری استدلال سے لطف لیتی رہی۔ اُس کی زانو پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے اُس نے مِس کو سمندر کی بہت ساری خصوصیات کے بارے میں بتایا جن کا تعلق مچھلیوں کے شکار سے تھا۔ اَسرار نے بتایا کہ اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے کئی برسوں تک اُس کے باپ نے بہ طور ’تانڈیل ‘ (خلاصی) دوسرے لوگوں کی کشتیوں پر ملازمت کی تھی۔ سمندر کی موجوں، حرکات اور پانی کی حرارت سے وہ اِس بات کا اندازہ لگا لیتے تھے کہ کونسی مچھلیاں کہاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ سمندر کے بارے میں اَسرار کی معلومات سے جمیلہ مِس کے اشتیاق میں اضافہ ہوا۔ اَسرار نے کہا سمندر کی سیر کا جلدی انتظام کرے گا۔ اُس نے یہ بات اپنی ماں کو بتائی اور ماں سے کہا وہ چچا سے بات کر ے۔ چچا نے گزشتہ تین سال سے جماعت میں وقت لگانا شروع کیا تھا۔ رشتے داروں اور محلے میں بڑی محترم شخصیت بن گئے تھے۔ اَسرار کی والدہ نے اُن سے بات کی وہ، بہ خو شی راضی ہو گئے۔

ایک ہفتے بعد سنیچر کی شام جمیلہ، اسرار، اُس کی ماں، چچا اور دو ملازمین لانچ پر سوار ہو گئے۔ ایندھن پر چلنے والی یہ لانچ سال بھر پہلے اَسرار کے چچا نے بینک لون پر خریدی تھی۔ پرانے طرز کی اِس لانچ کو کشتی کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ کشتی میں ایک کیبن تھی جس میں پانچ چھ لوگ قیام کر سکتے تھے۔ کیبن سے لگ کر ایک کھڑکی نما دروازہ تھا جس سے مزدور تہہ خانے میں ضروری سامان لاد چکے تھے۔ کشتی کا سامنے کا مخروطی حصہ خاصا ابھرا ہوا تھا۔ درمیان میں اتنی جگہ تھی کہ پندرہ بیس لوگ کھڑے رہ سکتے تھے۔ آج مچھلیوں کے شکار کی بجائے سیر و تفریح مقصود تھا۔ کھانے پینے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کیبن کے سامنے کھڑے ہو کر جمیلہ مس، اَسرار کے چچا اور اُس کی ماں باتیں کرنے لگے۔ اَسرار کیبن میں بیٹھ گیا تھا۔ جیٹی سے کشتی آزاد ہوئی۔

کشتی میں بیٹھ کر رتناگیری کے ساحل پر صدیوں پہلے تعمیر کردہ قلعے کو دیکھنا مِس جمیلہ کے لیے بیش قیمتی تجربہ تھا۔ قلعہ ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ سمندر کی سمت سے پہاڑ پر چڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔ پہاڑ کے نیچے ایک سرنگ سی دکھائی دیتی تھی ممکن ہے کسی زمانے میں قلعے سے فرار ہونے کا کوئی خفیہ راستہ یہاں سے نکلتا ہو۔ قلعے کی دیوار سے لگ کر کھڑے ہو کر اگر نیچے سمندر کو دیکھیں تو سمندر نیلے اور سبز مائل رنگ کی ایک خوبصورت طشتری دکھائی دیتا ہے۔ بائیں جانب گہری سرخ مٹی کی چادر بچھی ہے۔ برسات میں گہری سرخ مٹی کی چادر سبز گھاس کے لہلہاتے کھیت میں بدل جاتی ہے۔ قلعے پر جمیلہ مِس کئی بار گھوم چکی تھی۔ ایک مرتبہ اَسرار کے ساتھ چار پانچ گھنٹے وہ قلعے کی ایک مخدوش دیوار کے سائے تلے وقت گزار چکی تھی۔ اب وہ اس قلعے کو بالکل مختلف سمت سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسرت اور حیرانی کی آمیزش تھی۔ کشتی نے موڑ کاٹا تو روشنی کا مینار سورج کے روبرو کھڑا دکھائی دیا۔ سورج کی سرخ کرنیں لائٹ ہاؤس کے ایک سرے پر منجمد ہو کر مُنعکِس ہو رہی تھیں۔ مِس جمیلہ کی نظر جب لائٹ ہاؤس سے پریشاں ہوتی ہوئی سورج کی مرتعش لہروں پر پڑی تو چندھیا گئی۔ اُس نے اپنے بیگ سے دھوپ کا چشمہ نکال کر پہن لیا۔ اَسرا رکی ماں کو مِس جمیلہ کا چشمہ پسند آیا۔ اُس نے اَسرار کے چچا کی طرف مڑ کر کہا:’ میڈم پر چشمہ اچھا دکتا ہے۔ ‘

’میڈم بھی اچی دکتی ہے۔ ‘ اَسرار کے چچا کہتے کہتے رک گئے۔ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کہا :’ سبحان اللہ۔ ‘

اَسرار کی ماں مسکراتے ہوئے کیبن کی طرف چلی گئی۔ ملازم کیبن کے پیچھے بیٹھے تمباکو کا شوق فرماتے ہوئے گپ مار رہے تھے۔ کشتی راجیوڑے کی ساحلی پٹی میں داخل ہوئی۔ اَسرار کی ماں تھرماس اور پلاسٹک کے کپ لیے کیبن سے باہر آئی۔ اَسرار بسکٹ کے پیکٹ لیے آیا۔ راجیوڑا ایک قدیم بستی تھی۔ یہاں سمندر ایک کھاڑی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ پانی گدلا دکھائی دیتا تھا۔ راجیوڑا میں پیشتر لوگ مچھلی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ان میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر کیکڑے پکڑا کرتے تھے۔ ڈھلوان پہاڑیوں پر چھوٹے چھوٹے مکانات کا سلسلہ کھاڑی سے دلکش لگتا تھا۔ دوسری طرف ایک بہت چھوٹا سا جزیرہ نما تھا جس میں سمندری جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اَسرار کی ماں نے تھرماس سے چائے انڈیلی، اَسرار نے ایک پلیٹ میں بسکٹ نکالے۔ سورج کا سرخ گولا سمندر کے سینے کے قریب آ گیا تھا چنانچہ جزیرہ نما کی گہری سبز جھاڑیاں سرخ زرد کرنوں سے چمک رہی تھیں۔ ہوا میں خنکی اور نمک تھا۔ تازہ معتدل ہوا میں چائے مزہ دے گئی۔ سب چائے پیتے ہوئے راجیوڑے اور آس پاس کے علاقوں کی باتیں کرتے رہے۔ اَسرار کے چچا نے جمیلہ مِس کو بتایا کہ راجیوڑے کے چند بزرگوں سے روایت ہے کہ یہ بستی ایک صحابی نے بسائی تھی جو رسول اقدسؐ کی وفات کے بعد دین کو عام کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ اَسرار نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انگریزی کے معلم عباس دھامسکر نے بتایا تھا کہ جو عربی بزرگ ہندستان کے ساحلی علاقوں میں آ کر بسے وہ در اصل مکہ و مدینہ کی سیاسی کشمکش سے دلبرداشتہ لوگ تھے۔ اسرار نے جمیلہ مِس کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ دھامسکر سر نے بتایا تھا کہ رسولؐ کے انتقال کے بعد مکہ میں اقتدار کے لیے خون خرابا ہوا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اُس نفرت کے ماحول میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ اَسرار کے چچا تذبذب کا شکار تھے۔ انھوں نے فوراً کہا :’ وہاں خون خرابا کیسے ہو سکتا ہے ؟ ‘

جمیلہ مِس نے پچھلے سال مئی کی چھٹیوں میں ’ تاریخِ اسلام ‘ کے عنوان سے ایک کتاب پڑھی تھی۔ اُس نے اَسرار کے چچا کے سوال کے جواب میں کہا :’ تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے :’پہلے تیس پینتس سال بہت خون خرابا ہوا۔ ‘

اَسرار کے چچا کے لیے مِس جمیلہ کا یہ بیان حیران کن تھا۔ مِس جمیلہ ذہین معلمہ کے طور پر مشہور تھی اور ذمے دار تصّور کی جاتی تھی۔ وہ خاموش ہو گئے۔ مچھلیوں کی مختلف اقسام کے بارے میں بات کرتے رہے لیکن یہ بات اُن کے دل میں کانٹے کی طرح بس گئی تھی چنانچہ چند روز بعد مابعد مورفو کی جامع مسجد کے مفتی سے انھوں نے اِس بابت سوال کیا۔ جامع مسجد کے مفتی ازہر یونی ورسٹی سے فارغ تھے اور ایک علمی شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ انھوں نے جواب دیا :’کہ بھئی جو کچھ ہوا اسے خون خرابا کہنا لوگوں کو مناسب نہیں لگتا۔ اس لیے حق اور باطل کی لڑائی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ ورنہ سچ یہی ہے کہ خون خرابا تو ہوا تھا۔ ‘

سورج کا سرخ زرد گولا اب سمندر کے سینے پر لیٹ گیا تھا۔ راجیوڑے کی کھاڑی کا ایک طواف کرنے کے بعد کشتی دوبارہ سمندر کی طرف مڑ گئی تھی۔ اب کشتی سورج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آسمان پر بادل نہیں تھے۔ پرندوں کے غول اپنے آشیانوں کی طرف مراجعت کر رہے تھے۔ جزیرہ نما پر یکایک سیکڑوں ہنس آ کر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے علاوہ بھورے رنگ کے بے شمار پرندے تھے جن کے پھدکنے اور شور مچانے سے ماحول میں ایک دل پذیری پیدا ہو گئی تھی۔

٭٭

 

اَسرار ایک طرف کھڑے ہو کر جزیرہ نما کو دیکھ رہا تھا۔

یاد کی لہروں میں وہ اُس جزیرہ نما تک بہہ گیا تھا کہ یہاں ممبئی کے سمندر سے کچھ دور ایک چھوٹے سے جزیرہ نما پراس کی نظر گئی۔ یاد کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ سلیم گھارے نے اُس کی طرف ایک وڑا پاؤ بڑھایا۔ وہ مسکرایا۔ وہ اِس خیال پر مسکرایا کہ کس آسانی سے وہ ماضی میں بہہ جا تا ہے۔ کشتی، ممبئی ڈاک یارڈ کے مقابل جنوب مغرب کی سمت سے ایک چکر کاٹ کر دوبارہ گیٹ وے آف انڈیا کی طرف مڑ گئی۔ ڈاک یارڈ کے آس پاس عالی شان تجارتی جہاز لنگر انداز تھے۔ محمد علی نے ایک پان منہ ’یہ سمجھا آنکھ مارے گا تو اِس کو بھی دے گی۔ ‘ اسلم دھامسکر نے اونچی آواز میں کہا۔

’یہ چھوکرے تو سالے ایکدم اکسپرٹ ہیں۔ میں سمجھ رہا تھا ابھی بچکنڈے ہیں۔ ‘ سلیم گھارے محمد علی سے کہا۔

’اسلم بھائی، کھانے کھجانے میں اکسپرٹ رہناچ پڑتا ہے۔ نہیں تو آئٹم لوگ رفو چکر سمجھو۔ ‘ محمد علی نے سلیم گھارے سے کہا۔ سلیم سمجھ گیا کہ یہ بات محمد علی اسے اِس لیے بھی بتا رہا ہے کہ چند مہینوں پہلے اُس کے سیٹھ کی بیوی نے دو تین بار اُسے سیٹھ کی غیر موجودگی میں گھر پر بلایا تھا لیکن اپنی شرافت کی وجہ سے وہ صرف ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہ گیا۔ سیٹھ کی بیوی شاید شریفانہ باتوں سے زیادہ مرعوب نہیں ہوئی۔ اُس نے چند ہفتوں بعد ایک دوسرے ملازم کو گھر میں صاف صفائی کے لیے بلا یا۔ دوسرا ملازم نہ صرف چالاک تھا بلکہ عورتوں کی فطرت اور اقسام کا خاصا تجربہ بھی رکھتا تھا۔ دوسرے دن باقی ماندہ کام پورا کرنے وہ دوبارہ سیٹھ کے گھر گیا اور وہ کام بھی اُس نے کیا جس کے لیے میڈم کا جی مچل رہا تھا۔ محمد علی کو دوسرے ملازم نے رازدارانہ انداز میں بتایا تھا :’ سیٹھ کی عورت اُن عورتوں میں سے ہے جو کبھی خود دعوت نہیں دے گی۔ جب تو آگے بڑھے گا تو روکنے کی ایکٹنگ کرے گی۔ بولے گی یہ سب گناہ ہے۔ غلط ہے۔ ایسا کرنا اپنے میں منع ہے۔ وہ بولے گی اللہ کے واسطے ایسا مت کرو۔ قسم دے گی۔ لیکن یہ سب کچھ وہ ایسے اسٹائل میں بولے گی کہ تو ایکدم ٹائٹ ہو جائے گا۔ا س کا اسٹائل بھیگی ہوئی گھاس میں بھی آگ لگا سکتا ہے۔ ‘ اس تفصیل کے بعد اُس نے محمد علی کو یہ بھی بتایا کہ سیٹھ کی عورت نے اپنا کام ہونے کے بعد اُس سے کہا تھا :’میں لٹ گئی، جذبات میں بہہ گئی۔ ‘

محمد علی نے پوچھا :’ پھر تو نے کیا کہا۔ ‘

’ارے یار میرے کو اُس کا اسٹائل سمجھ میں آ گیا تھا، میں نے ڈائرک بولا: ’واپس کب ملتے ہیں۔ ‘

’تو وہ کیا بولی؟‘

’موقع دیکھ کر میں فون کروں گی۔ ‘

’ارے سالا! ابھی تووہ بول رہی تھی لٹ گئی۔ ‘

’ناٹک یار۔ ہر عورت کا اسٹائل ہوتا ہے۔ شکار سب کو کرنے کا رہتا ہے۔ لیکن سیفٹی کے ساتھ۔ ‘

’سیفٹی مطلب؟‘

’مطلب کام بھی ہو، مزہ بھی ہو اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ ‘ دوسرے ملازم نے محمد علی کو سمجھایا۔

’تو سالا ایکسپرٹ ہو گیا ہے۔ ‘

’ تو کیا کم اکسپرٹ ہے۔ بھیننی کو پھانس رکھا ہے۔ سالے تیرا مال تو ایکدم کنولا ہے۔ ‘ محمد علی اپنے دوست کے راست حملے پر پہلے مسکرایا۔ پھر اس نے کہا:’ وہ میرے سے پیار کرتی ہے۔ ‘

دوست نے بہت زور دار قہقہہ لگایا تھا۔

اس قہقہے میں تہہ داری تھی۔ محمد علی بھی اُس کے ساتھ قہقہے لگاتا رہا۔ دونوں بہت دیر تک ہنستے رہے اور اُن کی زبان سے اُس وقت ایک لفظ ادا ہوتا رہا۔ ’پیار۔ ۔ ۔ پیار۔ ۔ ۔ ۔ پیار۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر قہقہہ۔ محمد علی کے گمان میں بھی اُس وقت یہ بات نہیں تھی کہ چند مہینوں بعد پیار کی ایک نئی تعبیر اُس کی سامنے آئے گی۔ ایک ایسی تعبیر جواس کی سابقہ زندگی کے داغ اُس کے دل میں دوبارہ ابھارے گی اور اُس کی موجودہ زندگی کی بے راہ روی کو نشان زَد کرے گی۔ پچھلے چند برسوں میں دس بارہ عورتوں کے ساتھ اُس کے قلیل مدتی تعلقات قائم ہوئے، جنھیں رضاکارانہ جنسی رشتہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ چھ سات مہینوں سے جماعت کی کھولی والی عمارت کے تیسرے منزلے پر رہنے والی ایک شیعہ لڑکی اُس پر فریفتہ تھی۔ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ ماں کپڑوں کا کاروبار کرتی تھی۔ سورت سے کپڑے لا کر ممبئی میں فروخت کیا کرتی تھی۔ کاروبار کے سلسلے میں مہینے پندرہ دن میں اُسے سورت جانا پڑتا تھا۔ جب وہ سورت چلی جاتی تو لڑکی محمد علی کو بلا لیتی تھی۔ بیشتر اوقات وہ ممبئی نمبر ۸ میں واقع ریڈ لائٹ ایریا بھی ہو آتا تھا جہاں ایک لڑکی سے اُس کی بے تکلفی تھی۔

٭٭

ایک عرصے بعد کے بعد محمد علی نے سلیم گھارے کو سیٹھ کی عورت اور اُن کے مشترکہ دوست کے جسمانی مراسم کے بارے میں بتایا تو اُسے بہت ملال ہوا تھا۔ ملال دوست کی کامیابی پر نہیں بلکہ اپنی نا کارکردگی پر ہوا تھا۔ مذکورہ پس منظر میں محمد علی کا جملہ ’اسلم بھائی، کھانے کھجانے میں اکسپرٹ رہنا پڑتا ہے۔ نہیں تو آئٹم رفو چکر سمجھو۔ ‘ سلیم گھارے کے لیے آموختہ سے کم نہیں تھا۔

’صحیح ہے بوس۔ ‘ بالآخر اسلم گھارے نے سر تسلیم خم کیا۔

اِسی دوران ایک لڑکا گردن میں کیمرہ لٹکائے ہوئے اُن کے قریب آیا اور گیٹ وے آف انڈیا کے مقابل یا تاج ہوٹل کے سامنے تصویریں کھنچوانے کی ضد کرنے لگا۔ اِس قِماش کے کیمرہ والے اکثر لوگوں کو زچ کرتے ہیں اور مُصر ہوتے ہیں کہ اُن کے کیمرے سے تصویر کھینچوائی جائے۔ یہ اُن کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ کیمرے والا سو روپے پر راضی ہو گیا۔ سب نے ایک تصویر گیٹ وے آف انڈیا اور ایک تاج ہوٹل کے پس منظر میں اتروائی۔ چند منٹوں میں تصویریں اُن کے ہاتھ میں تھیں۔ سب خوش تھے، خاص کر نوواردان شہر کہ یہ تصویر یں ممبئی میں اُن کے پہلے دن کی یادگار تھیں۔

غروبِ آفتاب سے کچھ منٹ پہلے گیٹ وے آف انڈیا پر لوگ اِس قدر جمع ہو گئے کہ اندیشہ تھا اگر نوواردان اِس بھیڑ میں کھو گئے تو تلاش کرنا مشکل ہو گا چنانچہ محمد علی نے کہا کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں۔ وہ تاج ہوٹل کے سامنے سے ہوتے ہوئے فصیل سمندر سے نیچے، پانی کو دیوار سے ٹکراتے ہوئے دیکھتے ہوئے بائیں طرف بڑھنے لگے۔ وہاں بھیڑ نسبتاً کم تھی۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گئے۔ سمندر کنارے کی دیوار پر بیٹھ کر سمندر میں تیرتی ہوئی بوٹس کو دیکھنے لگے۔ اُن کے اطراف چند غیر ملکی ٹورسٹ بھی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ دو چار پری چہرہ مغربی عورتیں دکھائی دیں۔ ایک دودھ سی سفید جلد والی لڑکی شورٹ پہن کر وہیں سامنے کھڑے ہو کر سمندر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اُس سڈول ٹانگوں میں، سفید چمک دار جلد اور سنہری زلف سے زیادہ کشش تھی۔ سب کے دلوں کی دھڑکن اُسے دیکھ کر کسی نہ کسی درجہ پر متاثر تھی لیکن ایک نظر اُس کو دیکھنے کے بعد وہ یہاں وہاں دیکھنے کی اداکاری کر کے اِس تاثّر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پری چہرہ مغربی حور نے اُن کے اندر ایک احساس بے مائے گی پیدا کر دیا ہے۔ اُسی وقت دو چکنی صورت لڑکے اُن پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

چکنی صورت والے لڑکوں کو قریب کھڑا دیکھ کر محمد علی نے کہا :’ چلو، اب تھوڑی دیر چہل قدمی کرتے ہیں۔ ‘

وہ سب کالا گھوڑا تک پیدل چلتے آئے۔

تاج ہوٹل سے کالا گھوڑا تک پیدل آتے آتے آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چکا چوند نے اُنھیں بے حد مرعوب کیا تھا۔ ممبئی اُنھیں ایک ناقابلِ تسخیر شہر لگنے لگا۔ یہاں دولت، حسن اور شہوت کا ایک سمندر تھا جسے وہ صرف ساحل پر کھڑے ہو کر دیکھ سکتے تھے۔ محمد علی نے نوواردان کے اصر ار پر اُنھیں چکنی صورت والے اُن لڑکوں کے بارے میں بتایا جو تاج ہوٹل کے مقابل قریب آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ محمد علی نے بتایا کہ ’ یہ لوگ دھندا کرتے ہیں لیکن بہت سارے پھُکٹ میں بھی دیتے ہیں ؟‘

قاسم دلوی نے مزید ایک احمقانہ سوال کیا:’ پھُوکٹ میں کیا دیتے ہیں ؟‘

محمد علی مسکرایا اور جہانگیر آرٹ گیلری کے سامنے استادہ مجسمے کو دیکھنے لگا۔ سلیم گھارے بھی سوچ میں پڑ گیا کہ محمد علی اس سوال پر کیا جواب دے گا۔ اسلم دھامسکرنے ان دونوں کے چہروں کے رنگ کو بھانپتے ہوئے قاسم دلوی سے مخاطب ہو کر کہا :’ جو جنت میں حوریں نہیں دے سکتیں۔ ‘

سب دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔ قاسم بھی ہنستا رہا۔ یہ لمحہ بڑا خوشگوار تھا۔ اُن کے دلوں میں کوئی دوسرا خیال نہیں تھا۔ وہ جی کھول کر اسلم دھامسکر کے برجستہ جملے پر قہقہے لگا تے رہے۔

جماعت کی کھولی پر وہ رات ساڑھے دس بجے پہنچے۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد محمد علی، اَسرار اور اسلم دھامسکر کھولی سے باہر نکلے۔ گیارہ بج رہے تھے۔ کھولی کی بلڈنگ کی دکانیں بند ہو گئیں تھیں۔ ایک دکان کی دہلیز پر وہ بیٹھ گئے۔ راستے پر اب بھی بھیڑ تھی۔ صبح جب وہ کھولی سے باہر نکلے تھے اُس وقت باکڑے کم تھے لیکن اب باکڑے زیادہ تھے جن پر شربت، سموسے، بھجئے، کباب، چکن ٹکہ، ٹوپیاں، کپڑے اور کوسمیٹکس فروخت ہو رہا تھا۔ باکڑوں کے گرد خریدار کم دکھائی دے رہے تھے لیکن مسکین، بد حال بوڑھے، بچے اور گندے کپڑوں میں ملبوس بھکا ری زیادہ تھے۔ ایک بدحال، غلاظت میں لپٹا ہوا ادھیڑ عمر آدمی ایک بند باکڑے کے پاس راستے پر بیٹھا تھا۔ اُس کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا وہ دنیا و مافیہا سے ماورا کسی دوسری خلقت میں سانس لے رہا تھا۔ وہ خلا میں دیکھتے ہوئے سرگوشی کر رہا تھا۔

یکایک باکڑے کے پاس بیٹھا وہ غین آدمی کھڑا ہو گیا اور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھائے اور یک بارگی اس نے کہا :’حق اللہ‘

آس پاس کے باکڑے والے ہنس کر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئے۔ ایک باکڑے سے ایک پٹھان چکن تکہ خرید رہا تو اُس نے مڑ کر بدحال ادھیڑ عمر والے کی طرف دیکھا اور کہا :’ گانڈو کا بچہ ! چرس، سر میں گھس گیا کیا؟‘

پٹھان کے جملے پر چکن تکہ بنانے والا مسکرایا۔

’ روز کا ناٹک ہے۔ صبح جب اترے گی، تو بولے گا جنات لوگ سے رات بھر بات کرتا رہا۔ ‘ چکن تکہ والے نے بوٹیوں کو آنچ بتاتے ہوئے کہا۔

’جنات لوگ کو بھی سالا چرس پلاتا ہو گا۔ ‘ پٹھان نے بذلہ سنجی سے کام لیا۔

’حق اللہ‘ کا نعرہ بلند کرنے کے بعد غین آدمی دوبارہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا تھا۔ محمد علی نے اَسرار اور اسلم کو بتایا کہ اِس علاقے میں چرس اور دوسری منشیات پینے اور بیچنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ایسے لوگوں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ اِسی دوران ایک دس بارہ سال کا لڑکا کہیں سے آیا اور کھچڑا فروخت کرنے والے کے باکڑے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ایک ہاتھ آگے کر کے لڑکے نے کہا:’ صبح سے بھوکا ہوں۔ ‘

بھاگ بھین چود۔ ‘ غصّے میں باکڑے والے نے کہا۔

اَسرار نے فوراً محمد علی سے پوچھا۔ ’اس بھکاری کو باکڑے والے نے گالی کیوں دی؟ـ‘

’وہ بھکاری تو ہے لیکن بہت کمینہ بھکاری ہے۔ ابھی کہیں سے وائٹنر کا بندوبست کر کے نشے میں دھت، فٹ پاتھ پر گرا پڑا رہے گا۔ اس گلی میں ایسوں سے سبھی واقف ہیں۔ البتہ شاپنگ کرنے کے لیے آنے والے یا مسافر ان کو دو پانچ روپے دے دیتے ہیں۔ ‘ علی نے مزید بتایا کس طرح وائٹنر اور اس میں ملائے جانے والا محلول ’رو مال نشہ‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چرس اور افیم مہنگی ہے، اِس لیے نادار نشہ باز وائٹنر سے کام چلا تے ہیں۔ قاسم نے علی کی باتیں سننے کے بعد بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا:’ اللہ سب کا خیال رکھتا ہے۔ ‘

قاسم کی معصومانہ حماقت پر علی کی زبان سے برجستہ ادا ہوا :’ اللہ پاک کیا اتنا۔ ۔ ۔ ہے۔ ‘

’اگر اللہ ان کو نہیں دیتا ہے تو کون دیتا ہے۔ دینے والا تو صرف اللہ ہے۔ ‘ قاسم نے اپنے دفاع میں کہا۔

’اللہ نے عقل بھی دی ہے، سمجھا۔ ‘ علی نے کہا۔

اَسرار نے اس دوران محمد علی کی بات کاٹ کر اُسے یاد دلایا کے وہ ملازمت کے بارے میں کچھ بتانے والا تھا۔ محمد علی نے ہاتھی چھاپ تمباکو کا پیکٹ نکالا، چونے کی ڈبیا سے تھوڑا سا چونا انگوٹھے کے ناخن سے نکالا۔ دائیں ہاتھ پر چونا اور تمباکو مل کر منہ میں ایک طرف رکھا اور اپنی ملازمت کے بارے میں بتانے لگا۔

محمد علی ونو نے بتایا کہ اُس کا سیٹھ نقلی ہیروں کا بہت بڑا تاجر ہے۔ ہیرے چین سے لائے جاتے ہیں۔ ایک پل کے لیے وہ رکا، تمباکو کا تھوک اُس نے نگل لیا اور بتایا کہ ’ کیوبک زرکونیا ‘نامی پتھر، نقلی ہیروں کی سب سے مقبول قسم ہوتی ہے اور یہ اصل ہیرے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اُس نے اَسرار کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے دوبارہ اپنی بات دہرائی کہ کیوبک زر کونیا کو CZ کہتے ہیں اس کی چمک دمک اور سختی اصل کے برابر ہوتی ہے۔ اَسرار نے گردن ہلائی۔ محمد علی نے بتایا کہ CZڈائمنڈ اصلی ڈائمنڈ سے اتنا مشابہ ہوتا ہے کہ آسانی سے لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ اصلی اور نقلی کا فرق صرف تجربہ کار اور کہنہ مشق پارکھ کر سکتا ہے۔ قاسم بھی اس کی باتوں کودلچسپی سے سننے لگا۔ محمد علی نے اپنی معلومات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ CZ کے بعد موئزونائٹ پتھر اصلی ہیرے کا دوسرا متبادل ہے۔ وہ لوگ دھوکا کھاتے ہیں جو کم قیمت پر ہیرے خریدنے کا لالچ رکھتے ہیں۔ اَسرار کی زبان سے ’اچھا‘ ادا ہوا۔ محمد علی نے ایک پل اُس کی طرف دیکھا پھر کہنے لگا کہ اُس کے سیٹھ کا کہنا ہے کہ جعلی ہیرے اپنی مشابہت کے باوجود اصل ہیرے کی اہمیت کم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہر اصلی ہیرے کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے اور اُس سے ایسی غائبانہ لہریں خارج ہوتی ہیں جو براہِ راست دل پر اثر کرتی ہیں۔ ہیرے کی اپنی روح ہوتی ہے۔ اصلی ہیرے کی تعریف کرنے کے بعد محمد علی نے بتایا کہ نقلی ہیرے کی پہچان کرنے کے بہت سارے آسان طریقے ہیں۔ قاسم کو اصلی سے زیادہ نقلی ہیروں کو پہچاننے کا طریقہ جاننے میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ اُس نے کہا :’بتاؤ، بتا ؤ ‘۔ اُس نے منہ میں جمع تھوک ایک طرف جھک کر اگل دی اور پھر کہا کہ ڈائمنڈ کو اخبار پر رکھ کر عبارت پڑھی جائے۔ اگر وہ کیوبک زر ہوا تو عبارت پڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی، تاہم اصل ہیرے کی صورت میں پڑھنا بہت مشکل ہو گا۔ اسرار، محمد علی کی معلومات سے متاثر تھا۔ اُس کی آنکھوں میں تجسس دیکھ کر محمد علی نے کہا کہ اصلی ہیرے پر بھاپ تین سیکنڈ سے زیادہ نہیں ٹھہرتی۔ نقلی جواہر اپنے حجم اور چمک دار رنگوں سے پکڑ لیے جا تے ہیں۔ البتہ موئزونائٹ اور زرکونیا کچھ ایسے پتھر ہیں جو اصل ہیروں کیطرح شیشہ کاٹنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قاسم نے محمد علی کو ٹوکتے ہوئے کہا :’علی بھائی سولڈ ہے آپ کی معلومات۔ علی مسکرایا اور اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔ علی نے بتایا کہ اصلی ہیرے کی ایک پہچان اُس کی سائز ہے۔ عموماً مارکیٹ میں ہیروں کا وزن سینٹ سے شروع ہوتا ہے، اُس کا میزان قیراط میں بھی ہوتا ہے۔ بڑے ہیروں کا وزن پا ؤ قیراط سے ڈیڑھ قیراط تک ہوتا ہے۔ ڈیڑھ قیراط کا مطلب ہے ہیرے کا سائز مکئی کے دانے کے برابر ہوتا ہے۔ زیادہ وزن اور بڑے سائز کے ہیرے کم اور بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ چنانچہ پیش کیا جانے والا ہیرا اگر مکئی کے دانے سے بڑا ہو تو پھر محتاط ہو جانا چاہیے۔

ہیروں کے بارے میں محمد علی کی معلومات سے اَسرار اور قاسم نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ انھوں نے جی ہی جی میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ ہیروں کی پالش کا کام سیکھیں گے۔ اُنھیں احساس ہو گیا تھا کہ محمد علی کی نگرانی میں یہ ہنر سیکھنا آسان ہو گا۔ فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا غین آدمی دوبارہ کھڑا ہوا۔ آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر اُس نے چند منٹ سرگوشی کی اور فٹ پاتھ پر چڑھ کر ایک بند دکان کی دہلیز پر لیٹ گیا۔ بہت سارے باکڑے والے اپنا سامان سمیٹ چکے تھے۔ سڑک پر اب لوگوں کی آمدو رفت بہت کم ہو گئی تھی۔ فٹ پاتھ کچرے کا ڈھیر تھا جس پر چوہے، گھونس اور کا کروچ رینگ رہے تھے۔ چند کتے کچرے میں بکھری مرغی کی ہڈیاں چبا رہے تھے۔

محمد علی نے اپنے سیٹھ کی فیاضی کی تعریف کی اور بتایا وہ ملازمین کے ساتھ گھر کے افراد جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ کوئی مصیبت آن پڑے تو مدد بھی کرتا ہے۔

رات قریب ساڑھے بارہ بجے اُن کی باتیں ختم ہوئیں۔

٭٭٭

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے