ہندی غزلیں ۔۔۔ عدم گونڈوی

 

ہندی غزلیں: عدم گونڈوی

 

 

زلف، انگڑائی، تبسم، چاند، آئینہ،  گلاب

بھکمری کے مورچے پر ڈھل گیا ان کا شباب

 

پیٹ کے بھوگول *میں الجھا ہوا ہے آدمی

اس عہد میں کس کو فرصت ہے پڑھے دل کی کتاب

 

اس صدی کی تشنگی کا زخم ہونٹوں پر لئے

بے یقینی کے سفر میں زندگی ہے اک عذاب

 

ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول

سبھیتا** رجنیش کے حمام میں ہے بے نقاب

 

چار دن فٹ پاتھ کے سائے میں رہ کر دیکھیئے

ڈوبنا آسان ہے آنکھوں کے ساگر میں جناب

*جغرافیہ

**تہذیب

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند ہے زیرِ قدم۔ سورج کھلونا ہو گیا

ہاں، مگر اس دور میں کردار بونا ہو گیا

 

شہر کے دنگوں میں جب بھی مفلسوں کے گھر جلے

کوٹھیوں کی لان کا منظر سلونا ہو گیا

 

ڈھو رہا ہے آدمی کاندھے پہ خود اپنی صلیب

زندگی کا فلسفہ جب بوجھ ڈھونا ہو گیا

 

یوں تو آدم کے بدن پر بھی تھا پتوں کا لباس

روح عریاں کیا ہوئی موسم گھنونا ہو گیا

 

اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں

اس عہد میں پیار کا سمبل تکونا ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کاجو بھنے پلیٹ میں وسکی گلاس میں

اترا ہے رام راج ودھایک نواس* میں

 

پکے سماجوادی ہیں تسکر ہوں یا ڈکیت

اتنا اثر ہے کھادی کے اجلے لباس میں

 

آزادی کا وہ جشن منائیں تو کس طرح

جو آ گئے  فٹ پاتھ پر گھر کی تلاش میں

 

پیسے سے آپ چاہیں تو سرکار گرا دیں

سنسد **بدل گئی ہے یہاں کی نخاص میں

 

جنتا کے پاس ایک ہی چارہ ہے بغاوت

یہ بات کہہ رہا ہوں میں ہوش و حواس میں

*رہائش رکن اسمبلی

**پارلیامینٹ

٭٭٭

 

 

 

 

آپ کہتے ہیں سراپا گل مہر ہے زندگی

ہم غریبوں کی نظر میں اک قہر ہے زندگی

 

بھکمری کی دھوپ میں کمہلا گئی عصمت کی بیل

موت کے لمحات سے بھی تلخ تر ہے زندگی

 

ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول

خواب کے سائے میں پھر بھی بے خبر ہے زندگی

 

روشنی کی لاش سے اب تک زِنا کرتے رہے

یہ وہم پالے ہوئے شمس و قمر ہے زندگی

 

دفن ہوتا ہے جہاں آ کر نئی پیڑھی کا پیار

شہر کی گلیوں کا وہ گندا اثر ہے زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو

یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو

 

جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی

اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو

 

مجھ کو نظم و ضبط کی تعلیم دینا بعد میں

پہلے اپنی رہبری کو آچرن* تک لے چلو

 

گنگا جل اب برژوا تہذیب کی پہچان ہے

تشنگی کو وودکا کے آچرن تک لے چلو

 

خود کو زخمی کر رہے ہیں غیر کے دھوکے میں لوگ

اس شہر کو روشنی کے بانکپن تک لے چلو

*اخلاق

٭٭٭

One thought on “ہندی غزلیں ۔۔۔ عدم گونڈوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے