ہندی غزلیں ۔۔۔ دشینت کمار

ہندی غزلیں: دشینت کمار

 

لفظ احساس سے چھانے لگے، یہ تو حد ہے

لفظ معنی بھی چھپانے لگے، یہ تو حد ہے

 

آپ دیوار اٹھانے کے لئے آئے تھے

آپ دیوار اٹھانے لگے، یہ تو حد ہے

 

خامشی شور سے سنتے تھے کہ گھبراتی ہے

خامشی شور مچانے لگے، یہ تو حد ہے

 

آدمی ہونٹ چبائے تو سمجھ آتا ہے

آدمی چھال چبانے لگے، یہ تو حد ہے

 

جسم پہناؤوں میں چھپ جاتے تھے، پہناؤوں میں

جسم ننگے نظر آنے لگے، یہ تو حد ہے

 

لوگ تہذیب و  تمدن کے سلیقے سیکھیں

لوگ روتے ہوئے گانے لگے، یہ تو حد ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک گڑیا کی کئی کٹھ پتلیوں میں جان ہے

آج شاعر یہ تماشا دیکھ کر حیران ہے

 

خاص سڑکیں بند ہیں تب سے مرمت کے لئے

یہ ہمارے وقت کی سب سے صحیح پہچان ہے

 

ایک بوڑھا آدمی ہے ملک میں یا یوں کہو

اس اندھیری کوٹھری میں ایک روشن دان ہے

 

مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم

تو نہ سمجھے گا سیاست، تو ابھی نادان ہے

 

اس قدر پابندیِ  مذہب کہ صدقے آپ کے

جب سے آزادی ملی ہے، ملک میں رمضان ہے

 

کل نمائش میں ملا وہ چیتھڑے پہنے ہوئے

میں نے پوچھا نام تو بولا کہ ہندوستان ہے

 

مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں

ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے

٭٭٭

 

 

یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا

میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا

 

یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں

مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا

 

غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سنتے

وہ سب کے سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہوگا

 

تمہارے شہر میں یہ شور سن سن کر تو لگتا ہے

کہ انسانوں کے جنگل میں کوئی ہانکا ہوا ہوگا

 

کئی فاقے بِتا کر مر گیا جو، اس کے بارے میں

وہ سب کہتے ہیں اب، ایسا نہیں،ایسا ہوا ہوگا

 

یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں

خدا جانے وہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا

 

چلو، اب یادگاروں کی اندھیری کوٹھری کھولیں

کم از کم ایک وہ چہرہ تو پہچانا ہوا ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

 

ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں

میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں

 

تو کسی ریل سی گزرتی ہے

میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں

 

ہر طرف اعتراض ہوتا ہے

میں اگر روشنی میں آتا ہوں

 

ایک بازو اکھڑ گیا جب سے

اور زیادہ وزن اٹھاتا ہوں

 

میں تجھے بھولنے کی کوشش میں

آج کتنے قریب پاتا ہوں

 

کون یہ فاصلہ نبھائے گا

میں فرشتہ ہوں سچ بتاتا ہوں

٭٭٭

 

 

کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے

کہیں پہ شام سرہانے لگا کے بیٹھ گئے

 

جلے جو ریت میں تلوے تو ہم نے یہ دیکھا

بہت سے لوگ وہیں چھٹپٹا کے بیٹھ گئے

 

کھڑے ہوئے تھے الاووں کی آنچ لینے کو

سب اپنی اپنی ہتھیلی جلا کے بیٹھ گئے

 

دوکاندار تو میلے میں لٹ گئے یارو

تماش بین دوکانیں لگا کے بیٹھ گئے

 

لہو لہان نظاروں  کا ذکر آیا تو

شریف لوگ اٹھے، دور جا کے بیٹھ گئے

 

یہ سوچ کر کہ درختوں میں چھاؤں ہوتی ہے

یہاں ببول کے سائے میں آ کے بیٹھ گئے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے