ہجرت ۔۔۔ غضنفر

 

وہ آغوش جس میں پلے

اور پل کر جواں ہم ہوئے ہیں

اسے چھوڑنے کی تدابیر کرنے میں مصروف ایسے ہوئے ہیں

کہ زنداں سے قیدی رہائی کی راہوں کی

تعمیر کرنے میں مشغول ہوتے ہیں جیسے

وہ آغوش جس میں جواں ہم ہوئے ہیں

اسے چھوڑ کر دور جانے کے احساس سے

جو خوشی مل رہی ہے

کسی بھی طرح اس سے کمتر نہیں ہے

جو زنداں سے باہر نکلنے میں محسوس ہوتی ہے زندانیوں کو

خوشی کا یہ احساس

ایسا نہیں کہ فقط ایک ہم تک ہی محدود ہو

یہ خوشی گھر کے دیوار و در میں بھی گھر کر گئی ہے

ماں، بہن، باپ بھائی بھی گردن اٹھائے ہوئے

اپنے ہمسایوں سے کہتے پھرتے نظر آ رہے ہیں

کہ میرا قمر بھی عرب جا رہا ہے

شریک سفر کی رگوں میں بھی خوشیاں اچھلنے لگی ہیں

وہ راتوں کی سب لذّتیں بھول کر

جانے والے کی تیاریوں میں

بڑے چاؤ سے منہمک ہو گئی ہے

عجب جاں فزا ہے یہ ہجرت کا منظر

مگر یہ روایت ہے

مکّے سے یثرب کو جاتے ہوئے

مصطفیٰ اور سارے صحابی بہت رو رہے تھے

وطن کی محبت انھیں روکتی تھی

جدائی جگر میں تبر بھونکتی تھی

وہ ہجرت کا منظر بڑا جاں گسل تھا

مگر آج ہجرت کا منظر بدل سا گیا ہے

یہ منظر تو سچ مچ بڑا جاں فزا ہے

مگر ایسا کیوں ہو گیا ہے

یہاں تو مظالم کی وہ سختیاں بھی نہیں ہیں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے