گیت کار اجملؔ سلطانپوری ۔۔۔ پروفیسر صالحہ رشید

’کوئی بھی زبان اور اس کا ادب جو ماحول اور معاشرے میں رائج ہو وہ شاعروں ادیبوں اور قلم کاروں کی دین و عطا ہے‘ ۔ یہ قول ہے گیت کار اجمل سلطانپوری کا۔ اتّر پردیش کے ضلع سلطانپور، ریاست کوڑوار کے ہر رکھ پور گاؤں میں مرزا عابد حسین کے گھر ۱۹۲۶؁ء میں ایک چراغ روشن ہوا، جس کا نام مرزا محمد بیگ رکھا گیا۔ آگے چل کر اس چراغ کی لو نے نہ فقط سلطانپور بلکہ پورے ہندوستان کو اپنی روشنی سے منور کر دیا۔ یہ ہستی آج اجمل سلطانپوری کے نام سے مشہور ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی شہرت کی کرنیں ہندوستان سے باہر دور دراز ملکوں میں بھی پھیل چکی ہیں اور اس کا سبب آپ کی عمدہ شاعری ہے۔

اجملؔ صاحب نے زندگی کی نوے (۹۰) بہاریں دیکھ لی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ آپ نے اس جہان میں جب آنکھیں کھولیں تو نہ گھر کے حالات آسودہ تھے نہ ملک کے احوال درست۔ ان سب کے باوجود آپ کی خلاق فطرت نے پانچ برس کی چھوٹی عمر سے ہی اپنے جوہر دکھانے شروع کر دئے۔ گویا شاعری آپ کے لئے قدرت کا عطیہ ہے۔ آپ نے شاعری کی کئی صنف میں طبع آزمائی کی ہے جیسے نعت، نظم، غزل، گیت وغیرہ۔ ہر صنف میں آپ نے دفتر کے دفتر پیش کر دئے ہیں۔ آپ قادر الکلام ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الکلام شاعر ہیں۔ آپ کا شعری اثاثہ لامحدود ہے۔ اس کے باوجود آپ نے شاعری کے وقار کو ہمیشہ قائم رکھا۔ شعر کے معیار سے سمجھوتا کرنا آپ کی فطرت میں شامل نہیں ہے۔ در اصل شعر کے معیار اور مزاج کو آپ نے اپنی شناخت کی آخری منزل قرار دیا۔

گیت کار کی حیثیت سے اجمل صاحب کو اولیت اور ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آپ نے ہی مشاعروں کی محفلوں میں گیت پیش کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ گیت کار اب تک فلمی جہان سے وابستہ کوئی ہستی ہوتی تھی اور اس کے گیت کسی گلوکار کے ریڈیو سے نشر کئے جاتے تھے۔ اجمل صاحب کی جدت پسندی نے گیت اور گیت کار کو مشاعرے کی محفلوں سے جوڑ دیا۔ گیت کار اب پس پردہ نہ رہ کر مشاعروں کے اسٹیج پر آ گیا۔ عوام نے کھلی آنکھوں سے اسے دیکھا جس کے گیت کے بول اب تک فقط کسی گلو کار کی آواز کے مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ آپ انتہائی پر کشش آواز اور زبردست ترنم کے مالک ہیں۔ تقریباً پچاس برس تک آپ مشاعروں کی روح تسلیم کئے جاتے رہے۔ آپ کی مشاعروں میں شمولیت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی رہی۔ آپ اسٹیج پر تشریف لاتے تو ہر طرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں۔ لوگ آپ سے فرمائش کرتے رہتے اور آپ انھیں اپنے گیت سناتے رہتے۔ اس طرح آپ نے اپنے اس شعر کو حرف بحرف سچ کر دکھایا ؎

یہ میرے گیت کا دیپک میری غزل کا چراغ

یہ ہر کٹی کا دیا ہے، یہ ہر محل کا چراغ

اجمل صاحب کا تعلق لکھنؤ سے بہت قریب ضلع سلطانپور سے ہے۔ مجروحؔ سلطانپوری (۱۔ ۱۰۔ ۱۹۱۳تا ۲۴۔ ۵۔ ۲۰۰۰) سے ہم سب واقف ہیں۔ مجروح نے فلمی دنیا کا دامن تھام کر تو اجمل صاحب نے مشاعروں کے اسٹیج سے اپنی زاد گاہ کا نام روشن کیا ہے۔

اجمل صاحب با اصول اور مہذب ہونے کے ساتھ ہی نہایت سنجیدہ اور صاف گو ہیں۔ خود داری اور نازک مزاجی آپ کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ جو لوگ آپ کے شب و روز اور آپ کی نازک مزاجی سے واقف ہیں، انھیں یہ سب فطری محسوس ہو گا۔ آپ با وضع، شریف النفس اور با مروت بھی واقع ہوئے ہیں۔ آپ کی نازک مزاجی پر غور کرنے سے ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ ہے آپ کا ایک غلام ملک میں آنکھیں کھولنا اور ایک جلتے سلگتے عہد کو دیکھنا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی ذاتی زندگی بھی ہر دم ایک چیلینج بنی رہی۔ آپ فرماتے ہیں ؎

میری حق گوئی سولی پر چڑھ کر دیکھو

کھلی ہوئی پستک ہوں، مجھے پڑھ کر دیکھو

میں ایک تاریخی کتاب تفصیل وار ہوں

میں گیت کار ہوں

آپ کی خود داری اور نازک مزاجی ہی ہے جس کے سبب آپ نے اپنی زندگی کے اس طویل عرصے آپ نے کسی ادارے، حلقے یا کسی ادبی و فکری شخصیت کا نیاز گوارا نہ کیا۔ آپ اپنی ذات سے مطمئن ہیں اور ’میں قادر الکلام، زباں میری قدرت میں‘ پر آپ کو پورا یقین ہے۔ آپ کو ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ؎

جانے کتنے امیر، کتنے داغ

بجھ گئے آہ بے شمار چراغ

اور دنیا انھیں جان نہ سکی

آپ کو تو اپنی ذات تمام عالم سے منوانی تھی۔ یہ آپ کا عزم مصمم تھا۔ آپ کا یہ عزم ہندوستان اور تاج محل جیسی لازوال نظموں کی شکل میں پورا ہوا۔ ان نظموں نے نہ فقط ہندوستان بلکہ اس کے باہر آپ کو شناخت اور شہرت دلوائی۔ نظم ہندوستان کے چند بند ملاحظہ ہوں ؎

مسلماں اور ہندو کی جان

کہاں ہے میرا ہندوستان

میں اس کو ڈھونڈھ رہا ہوں

میرے بچپن کا ہندوستان

نہ بنگلا دیش نہ پاکستان

میری آشا میرا ارمان

وہ پورا پورا ہندوستان

میں اس کو ڈھونڈھ رہا ہوں

اسی نظم کا ایک اور شعر اس طرح ہے ؎

مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم

جو دے یکجہتی کی تعلیم

مٹا کر کنبوں کی تقسیم

جو کر دے ہر قالب یک جان

میں اس کو ڈھونڈھ رہا ہوں

یہ بارہ بند کی طویل نظم ہے جس کا ایک ایک حرف آج بھی سچ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسی طرح معنی کی ندرت سے بھر پور نظم تاج محل کا نمونہ پیش ہے ؎

تاج اوروں کے لئے قابل نفرت ہی سہی

ان کو اس وادی رنگیں سے رقابت ہی سہی

میرے محبوب یہیں روز ملا کر مجھ سے

اک جہاں دیدہ ہو تنگ نظر، کیا معنی

جس کی آنکھوں کے ترازو میں تلے ارض و سما

اس کے دل میں حسد شمس و قمر کیا معنی

تاج میں سیکڑوں مزدوروں نے محنت کی ہے

کون کہتا ہے وہ مزدوری نہیں پاتے تھے

لیکن ان میں کوئی باغی صفت انسان نہیں

جو کسی شاہ کا کیا ذکر، خدا سے بھی لڑے

ہم غریبوں کے مقابر بھی ہیں اب تک محفوظ

ان میں جلتی ہے سدا شمس و قمر کی قندیل

یہ عمارت، یہ عجوبہ، یہ مرقع یہ محل

اس سے اس ملک کے معیار کا اونچا ہے مذاق

اک قلم کار نے شہرت کا سہارا لے کر

اک شہنشاہ کی الفت کا اڑایا ہے مذاق

بہہ کے موتی جو نہ جمنا کے کنارے لگتا

جانے کس بحر میں سیلاب بہا لے جاتے

یہی دولت جو تجوری میں مقفل ہوتی

اجملؔ اس ملک سے انگریز اٹھا لے جاتے

تاج اوروں کے لئے قابل نفرت ہی سہی

ان کو اس وادی رنگیں سے رقابت ہی سہی

میرے محبوب یہیں روز ملا کر مجھ سے

اس نظم میں خیال کی ندرت کے ساتھ ساتھ آپ کی دور رس فکر کار فرما ہے۔ آپ انگریزوں کی ہندوستان کو منتشر اور ننگا بھوکا چھور جانے کی منشاء سے واقف تھے اس لئے ملک کی دولت سے ایک شاہکار کی تعمیر کو نہ صرف بجا قرار دیتے ہیں بلکہ اس کے لئے مناسب دلیل بھی پیش کرتے ہیں۔

اجمل صاحب کو زبان پر قدرت حاصل ہے۔ جمالیاتی حس آپ کی رگ رگ میں سمائی ہے۔ آپ کا انداز کلاسیکی ہے اور زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ اور قلم سے لکھی ہر تحریر آپ کی جمالیاتی حس کی مظہر ہے۔ آپ کے مطابق ؎

’ہر نئی صبح طلوع ہونے والا سورج اپنی گذشتہ شام کے غروب ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ کائنات میں بکھرا ہر ذرہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔‘ آگے فرماتے ہیں ؎

’خلائے بسیط میں یہ جاگتے جگمگاتے شب و روز، سورج، چاند، ستارے، اپنی گرم دھوپ اور خنک چاندنی کے سہارے اپنا تعارف خود پیش کرتے ہیں۔ ارض ہستی پر یہ سر سبز و شاداب چمن و باغ و بن، یہ شجر و حجر و برگ و گل، یہ رنگ و نکہت و نسیم، یہ برستی گھٹائیں، یہ سنکتی پروائیاں، یہ بہتے دریا، یہ لہلہاتی وادیاں، یہ نشیب و فراز، یہ ہموار و نا ہموار، یہ ابر بر دوش برفیلی چوٹیوں والے کوہسار، یہ آبشاروں کے قہقہے، یہ پرداروں کے چہچہے، یہ سکوت دشت، یہ صدائے بازگشت، یہ صحرائے لق و دق، یہ سرخی شفق، یہ ظلمت شب، گویا سب کے سب اپنا تعارف پیش کر تے ہیں۔‘

اجمل صاحب کے گیتوں کی رنگا رنگی دیکھتے بنتی ہے۔ آپ کے گیت دلکش ہونے کے ساتھ اثر انگیز بھی ہیں۔ ان کا بیشتر حصہ قومی یکجہتی پر مبنی ہے۔ اس کی ایک مخصوص وجہ ہے۔ تاریخی و تہذیبی اعتبار سے آپ کی شاعری کا آغاز ہوا تو ہندوستان تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا تھا۔ ملک کی سیاسی فضا کروٹیں لے رہی تھی۔ نظام زندگی بوسیدگی کا شکار تھاجو بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا۔ پرانے طور طریقے اور قدریں نئے حالات کے ہمراہ نہیں چل پا رہی تھیں۔ ہر طرف بے چینی ہی بے چینی تھی۔ ایسے جلتے سلگتے عہد، ناسازگار ماحول اور حالات کی بے رحمی نے آپ کی فکر میں چنگاری بھر دی۔ آپ نے ہوش سنبھالا تو آزادی کی جدّ و جہد نے اونچے اور متوسط طبقے سے ہوتے ہوئے کسانوں، مزدوروں، دلتوں، نوجوانوں، عورتوں اور طلباء کے درمیان اپنی راہ بنا لی تھی۔ اب ان طبقے کی مشکلیں بھی سیاسی غور و فکر کا حصہ بن چکی تھیں۔ جدّ و جہد آزادی کو عوام کی زبردست حاصل کر چکی تھی۔ نوجوان ملک کو آزاد کرانے کے لئے انقلابی راستوں کا انتخاب کر رہے تھے۔ کتنوں نے پھانسی کے پھندے کو ہنستے ہنستے قبول کر لیا تھا۔ گویا ہندوستانی معاشرے میں زبردست تبدیلی رونما ہو رہی تھی۔ تہذیبی و تمدنی تصادم برپا تھا۔ اس سے پیدا ہونے والی الجھنیں انسانی فکر پر بھی اثر انداز ہو رہی تھیں۔ یہ الجھنیں ادب کا حصہ بھی بن رہی تھیں۔ اجمل صاحب جو شاعرانہ مزاج لے کر پیدا ہوئے، انتہائی حساس دل کے مالک، بھلا ان پر یہ حالات کیوں نہ اثر انداز ہوتے۔ اس وقت ان کی حالت تو ایک بہتی ندی کی سی تھی جو اپنے کنارے کی مٹی کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے لحاظ سے اپنے رخ کا تعین کرتی ہیں۔ نکیلے پتھروں کو گھس کر، پیس کر، زر خیز مٹی میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ پھر اس مٹی میں گل، بوٹے، درخت، اگتے ہیں۔ آپ نے زندگی کی اتھل پتھل، خوابوں کی حیرانی، صحراؤں کا سناٹا، کوہساروں کا دھیان گیان، دریا دھاروں کی مدھر سرگم، سب کچھ اپنے گیتوں کے زیر و بم میں سمو دیا۔ آپ فطرتاً شاعر تھے۔ آپ کی دنیا عام لوگوں سے الگ، جینے کا نظام کچھ انوکھا اور فکر کے دائرے وسیع تھے۔ آپ نے اپنا دل دماغ اور آنکھیں کھلی رکھیں۔ سماج کے تہذیبی و ثقافتی مزاج، رسم و رواج، فکر و فلسفے کا اثر قبول کیا۔ آپ کی فکر جب نغمہ بن کر زبان پر آئی یا قلم و کاغذ کی نذر ہوئی تو اس کے ایک ایک لفظ، معانی اور مفہوم سے آپ کی شخصیت عیاں ہوئی۔ آپ کی شہرت اور مقبولیت کا ایک اور راز ہے اور وہ ہے آپ کا اپنی مٹی سے جڑاؤ۔ آپ اپنے ماحول سے کبھی علٰحدہ نہیں ہوئے۔ ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل کو آپ نے اپنا نصب العین بنایا۔ سماج کو گرد و پیش کے حالات سے آگاہ کرنا آپ نے اپنی ذمہ داری سمجھی۔ آپ کے گیت آپ کی انھیں خوبیوں کے مظہر ہیں۔ آپ نے آس پاس کے ماحول، سماجی حالات، رہن سہن کے طور طریقے اور روایتوں سے جنم لینے والے الفاظ، استعاروں اور کہاوتوں کو جتنے فطری انداز سے اپنے اشعار میں پرو دیا وہ حیرت کن ہے۔ آپ کے گیتوں کی دلکشی اور اثر انگیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

آپ کا سیاسی شعور ہمیشہ بیدار رہا۔ اسی لئے اپنے وقت کی سیاسی صورت حال کا آپ نے بچشم خود مشاہدہ کیا اور ساتھ ہی ان کا تجزیہ بھی۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں ان کے گیتوں میں معاصرانہ حالات کے حوالے ملتے ہیں۔ آپ نے اس وقت رائج قوانین، نظم و نسق، توہم پرستی وغیرہ کے خلاف آواز اٹھائی۔ آپ کو ہمیشہ ملک اور قوم کی بہبود کا خیال رہا۔ ذاتی مفاد آپ کے پیش نظر کبھی نہیں رہا۔ ہندوستان کے حالات دیکھ کر آپ کا دل درد سے تڑپ اٹھا، آپ کی روح بے چین ہو گئی۔ آپ درد و غم سے کراہ رہے تھے اور زبان پر یہ الفاظ آ گئے ؎

’الہ العالمیں دنیا میں یہ کیا انقلاب آیا‘

انھیں درد و آلام سے جوجھتے ہوئے آپ نے ’زخمی گیت‘ لکھا جس کی چند سطریں پیش ہیں ؎

بے رونق بیکار سی راتیں پژمردہ ایام

کہرے میں کفنائی صبحیں دھواں دھواں سی شام

امیدوں پر پڑ گئی ہے مایوسی کی سیت

گیت میرے زخمی ہو گئے

ایک وطن دو ٹکڑے ہو گیا ہند اور پاکستان

نفرت کی دیوار کھنچ گئی دو دل کے درمیان

کنبے کی تقسیم کو اپنی ہار کہوں یا جیت

گیت میرے زخمی ہو گئے

اسی زمین پر آپ نے گیت ’دیپک راگ‘  لکھا جس کے ایک ایک لفظ سے آپ کا اندرونی کرب چھلکا پڑ رہا ہے ؎

جنوں میں چھیڑ کے دیپک راگ، لگا دی گئی گلوں کو آگ

چمن کر دیا گیا تاراج، بہاروں کا لٹ گیا سہاگ

تو میں نے گیت لکھا ہے

مٹا کر بھارت کا اتہاس، غزل کو دیا گیا بنباس

تعصب کا پھیلا کر زہر، زبان کی ہر لی گئی مٹھاس

تو میں نے گیت لکھا ہے

یہ کس نے چھیڑا زخمی گیت درد سے چیخ پڑا سنگیت

بکھر کر ڈوب گئی جھنکار، گئیں اک پل میں صدیاں بیت

تو میں نے گیت لکھا ہے

اجمل صاحب جب اپنے وقت کی عکاسی کرتے ہیں تو ان کی لفظیات یکسر بدل جاتی ہیں۔ شیریں میٹھے رس گھولتے الفاظ کی جگہ گھپ اندھیرا، دھرم، کوا، ٹولی، ریل کی سیٹی، بھبکا، ظلمت کا ڈیرا جیسے الفاظ لے لیتے ہیں۔ آپ کی شاعرانہ خوبی ہے کہ ان الفاظ کو بھی اپنے کلاسیکی رنگ میں رنگ لیتے ہیں۔ ان کا استعمال کرتے وقت بھی لفظ کی حرمت، شعریت اور غنائیت برقرار رکھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ؎

 

ابھی تو انقلابی ٹولیوں پر نیند طاری ہے

کسی شہزادۂ خاور کی سب کو انتظاری ہے

کرن لہرائے تو جانا، ابھی تو رات ہے راہی

ابھی تو رات ہے

فضا میں ریل کی سیٹی کی تیز آواز لہرائی

اٹھا انجن سے بھبکا کھولتے پانی کی بو آئی

سمے ہو جائے تو جانا ابھی تو رات ہے راہی

ابھی تو رات ہے

ابھی آکاش پر پھیلا ہوا ہے جال تاروں کا

بہت سنگین حال زار ہے، فرقت کے ماروں کا

کوئی آ جائے تو جانا، ابھی تو رات ہے راہی

ابھی تو رات ہے

آپ کے گیتوں میں سیاسی ہیجان، وقت کے ساتھ زندگی اور ادب کے بدلتے اقدار کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ آپ کے گیت ترقی پسند فکر کی بھی عمدہ مثال ہیں۔ ان میں ایک طرف جہاں ہندوستانیوں کے حال زار کا ذکر ہیتو وہیں دوسری طرف اٹھ کھڑے ہونے اور نئی صبح کا استقبال کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔ آپ نے ایک بیدار فکری رویہ اختیار کیا ایسے دور میں جب کہ خواب بہت تھے لیکن ان کی تعبیریں واضح نہیں تھیں۔ آپ نے ایک نئی صبح کا خواب دیکھا جس کی جلد تعبیر دیکھنے کی تمنا آپ کے اندر انگڑائی لیتی ہے۔ آپ کی شاعری پر کلاسیکییت کی گرفت مضبوط ہے لیکن نئے خیالات ہمیشہ آپ کے گیتوں میں جگہ پاتے رہے ہیں۔ آپ نے سیاست پر گیت لکھے ہوں یا مزدوروں پر، انقلاب کی آرزو کی ہو یا آزادی کی تمنا، آپ کی کلاسیکی ذہنی تربیت آپ کو منظم رکھتی ہے۔ اسی لئے نہ تو آپ شعری حدود کو توڑتے ہیں اور نہ گیتوں کی غنائیت مجروح ہوتی ہے۔ گیت نعرۂ انقلاب اس کی عمدہ مثال ہے ؎

یہ ظلم بدل دیں گے یہ جور بدل دیں گے

یہ ڈھنگ بدل دیں گے یہ طور بدل دیں گے

فی الفور بدلنا ہے، فی الفور بدل دیں گے

اس دور میں خامی ہے یہ دور غلامی ہے

یہ دور بدل دیں گے

یہ قحط زدہ فاقے یہ غربت و ناداری

یہ دور یہ بیکاری، یہ بھوک یہ بیماری

آنسو ہے کہ انگارہ، شبنم ہے کہ چنگاری

اس دور میں خامی ہے یہ دور غلامی ہے

یہ دور بدل دیں گے

اک عصر جدید اجملؔ اس دہر میں لانا ہے

رخنوں کو کچلنا ہے، فتنوں کو دبانا ہے

ایوان تعصب کو بنیاد سے ڈھانا ہے

اس دور میں خامی ہے، یہ دور غلامی ہے

یہ دور بدل دیں گے

آپ کا ایک جوشیلا گیت ’تم میرا راستہ چھوڑ دو‘ کے عنوان سے ہے۔ اس گیت سے آپ کی وطن پرستی، آپ کا جوش، جذبہ، جنون، عزم، فرض، اور دوسروں کو اس راہ پر آنے کی تلقین سب کچھ ظاہر ہوتا ہے ؎

مجھ کو جانا ہے جانے دو روکو نہیں

تم میرا راستہ چھوڑ دو

ہو سکے تو میرے ساتھ تم بھی چلو

اپنے جیون کا رخ موڑ دو

زندگی کو سبھی ڈھونڈھتے ہیں مگر

خود میری زندگی ڈھونڈھتی ہے مجھے

موت راہ وطن میں اگر مل گئی

تو میری موت بھی زندگی ہے مجھے

فرض نے میرے شاید پکارا مجھے

میری منزل نے آواز دی ہے مجھے

لاج گھر کی بچانے دو روکو نہیں

تم میرا راستہ چھوڑ دو

اپنی سیما پہ دشمن کی سینا بڑھے

اور میں دیکھوں یہ مجھ کو گوارا نہیں

اپنے بھائی کے سینہ پہ گولی چلے

اور میں دیکھوں یہ مجھ کو گوارا نہی

اپنی مان کے دوپٹے کا آنچل جلے

اور میں دیکھوں یہ مجھ کو گوارا نہیں

آگ گھر کی بجھانے دو روکو نہیں

تم میرا راستہ چھوڑ دو

اپنے گیتوں کے ذریعہ ہندوستانیوں کی جہالت، وہم اور غلط عقیدوں پر بھی چوٹ کی ہے۔ ہندوستانیوں پر آنکھ بند کر کے مغربی تہذیب کے پیچھے بھاگنا آپ کو قطعی پسند نہیں آیا۔ آپ انگریزوں کی منشا سے بخوبی واقف تھے۔ ان کا ظلم و ستم اور برادران وطن کی بدحالی اور بے بسی آپ کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ آپ ان حالات کو بدل دینا چاہتے تھے۔ آپ کو ایک خوش حال ہندوستان دیکھنے کی آرزو تھی، کچھ اس طرح ؎

چھوڑا نہیں مشرق نے مغرب کا چلن اب بھی

لٹتا ہے وطن اب بھی، جلتا ہے وطن اب بھی

ہے لاش یتیموں کی محتاج کفن اب بھی

اس دور میں خامی ہے، یہ دور غلامی ہے

یہ دور بدل دیں گے

یہ حقیقت ہے کہ اجمل صاحب نے اپنے گیتوں میں اپنے عہد کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ انھوں نے گیت ’دیپک راگ‘ میں لکھا ہے ؎

ستارے ٹوٹے روئی رین، بہے آنسو ڈھرکے جب نین

لگی جب دل پر کوئی چوٹ، ہوئی جب روح میری بیچین

تو میں نے گیت لکھا ہے

اسی گیت کا ایک اور بند حیرانی میں ڈال دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو ؎

مسل دی گئی کلی معصوم، بڑھا جب حد سے اتیاچار

رچا کر رام راج کا ڈھونگ، ہوا جب راون کا پرچار

تو میں نے گیت لکھا ہے

گیت کے اس بند نے ہمیں اکیسویں صدی کا آئینہ دکھا دیا ہے۔ یہاں اجمل صاحب اپنی فکر کے اعتبار سے زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد نظر آتے ہیں۔ آپ کی ہمہ گیر فکر آپ کی شاعرانہ عظمت کی دلیل ہے۔ آپ کے لکھے انقلابی گیت، آزادی کے گیت جہان ایک طرف قاری کو جوش سے بھر دیتے ہیں اور انھیں سوچنے پر مجبور کر تے ہیں وہیں دوسری طرف آپ کی شگفتہ بیانی، الفاظ کی روانی بھی انھیں مسحور کر دیتی ہے۔ گیت ’تم بھی راہی میں بھی راہی‘ میں الفاظ کا عمدہ انتخاب اور استعمال گیت کے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے ؎

دیر، حرم، گردوارا، گرجا، سب رستے اپنی منزل کے

ہندو مسلم، سکھ عیسائی، سب ٹکڑے دھرتی کے دل کے

بھید بھاؤ کب تک رکھو گے، تم بھی راہی، میں بھی راہی

دھرتی، پون، گگن، جل، اگنی، سورج چاند، ستارے، راہی

برق، گھٹا، طوفان، سفینہ، دریا، موجیں، دھارے، راہی

ماجھی کب اس پار چلو گے، تم بھی راہی میں بھی راہی

یہ گیت معنی کے اعتبار سے تو اعلیٰ ہے ہی ساتھ ہی دوسرے بند کا ایک ایک لفظ حرکت و رفتار سے تعبیر ہے اور آخری لفظ راہی ان تمام الفاظ کی وضاحت کر دیتا ہے۔ اس کے بعد ’ماجھی کب اس پار چلو گے‘ نے ایک شعر کو مکمل داستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ اجمل صاحب کی قادر الکلامی کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ کے گیت موضوع کے اعتبار سے رنگارنگ ہیں۔ انقلاب اور آزادی کے گیتوں کے علاوہ ساون گیت، جدائی گیت، بابل وغیرہ بھی آپ نے لکھے ہیں اور یہ گیت الگ کیفیت اور حسن کے حامل ہیں۔ آپ اپنی جڑ سے ہمیشہ جڑے رہے۔ سلطانپور آپ کا جائے پیدائش اور پوروانچل کی ستائش آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ نے اودھی زبان میں انتہائی شیریں گیت لکھے ہیں۔ جس وقت آپ اودھی گیتوں کو عمدہ ترنم کے ساتھ پیش کرتے ہیں تو سننے سامعین پر عجب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ آپ نے ایک ساون گیت تحریر کیا ہے۔ پتی پردیس گیا ہے۔ برہا کی ماری پتنی اپنی بپتا سناتی ہے اور ساتھ ہی پورے کنبے کا حال بھی۔ گیت میں مٹھاس، روانی، دکھ، درد اور بہت حسین منظر کشی بھی ہے۔ ملاحظہ ہو ؎

ہو مورے پردیسیا، ساون آیا تم نہیں آئے

لونکے بجریا برس رہے بدرا، ڈھرک رہے مورے نینن سے کجرا

رین اندھیری کچھ نہ سجھائے، تم نہیں آئے

ہوئی گئے دوروا کی نمیا سیانی، سات برس کی بھئی توری بھوانی

نس دن گڑیوں کا بیاہ رچائے، تم نہیں آئے

مہوا کے کوا پاکے، امؤ اورانے، نموا، نورنگیا کے بروے پھلانے

توھرے پتاجی کا ہے دکھ بھاری، تھے بن بلکھیں تہار مہتاری

تہے بن نندی کے گونا نہ جائے، تم نہیں آئے

ہو مورے پردیسیا، ساون آیا تم نہیں آئے

ایسی ہی برہا کی تکلیف گیت ’پردیسی‘ میں بیان کی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ درد و غم میں ڈوبا ہوا ہے اور پاٹھک کو اپنے ساتھ لے چلتا ہے۔ اس کا ایک بند اس طرح ہے ؎

جو میری یاد ستائے گی، نیند بیرن ہو جائے گی

ڈسے گی ناگن بن کر رات، آنکھ آنسو برسائے گی

تو مجھ کو یاد کرو گے

گاؤں کی بیٹی انجانی نگریا میں بیاہی جا رہی ہے۔ ڈولی میں بیٹھ گئی ہے۔ اپنے گاؤں سے ناتا ٹوٹ رہا ہے۔ پورا گاؤں غمگین ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے اور اجمل صاحب گاؤں کی بیٹی کو اس طرح وداع کر رہے ہیں ؎

سکھیاں گائیں گیت کہ بابل نئیہر چھوٹا جائے

بیل، ببول، بیر، برگد کی چھاؤں سے ناتا ٹوٹا

پیار جہاں معصوم تھا ایسے گاؤں سے ناتا ٹوٹا

بچپن چھوٹا جائے، جوانی چڑیل مجھے ستائے

کہ بابل نئیہر چھوٹا جائے

پھول پھول کے سہرا روئے، مسک مسک کے کلیاں

منہ میں آنچل بھر بھر روئیں، سکھیاں اور سہیلیاں

بجنے والی شہنائی بھی منڈپ میں چلائے

کہ بابل نئیہر چھوٹا جائے

ماتا، پتا، بہن بھائی نے لاڈ پیار سے پالا

جانے کس قصور پر مجھ کو گھر سے آج نکالا

انجانی نگری میں اک انجان بیاہ لے جائے

کہ بابل نئیہر چھوٹا جائے

کاگا بئیٹھ منڈیر پہ روئے، روئے اونچ بکھریا

پنگھٹ پر پنہارن روئے، چھلکی جائے گگریا

ڈولی میں اک لمبا گھونگھٹ نین رتن ڈھرکائے

کہ بابل نئیہر چھوٹا جائے

گیت ’نردوش ہے اپنا پیار‘ میں دو دلوں کے باہم نہ مل سکنے کا درد بیان کیا گیا ہے۔ یہ گیت بھی آپ کی شگفتہ بیانی، ہندوستانی اعلیٰ اقدار اور دو دلوں کے بے انتہا پیار کا عمدہ نمونہ ہے۔ گیت کا آخری بند پیار میں حد سے گذر جانے اور اس کے ناموس کو برقرار رکھنے کی داستان یوں بیان کرتا ہے ؎

تم غم میں میرے برباد نہ ہو، اپنا سنسار بسا لینا

چاہت کی قسم دیتی ہوں تمھیں، تم اپنا بیاہ رچا لینا

ہے اتنی ارج سرکار

مگر میں کیسے تمھیں سمجھاؤں

نردوش ہے اپنا پیار

منجملہ اجملؔ  صاحب کے سادہ رواں اور دلکش گیتوں نے ہر ہندوستانی کا دل چھوا ہے۔ آپ کے گیت فنکاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان میں تفکر ہے تو عمدہ علامات سازی اور خوبصورت لفظیات کا سنگم بھی۔ آپ کی شاعری نے انسانی کیف و کم اور زمینی پیچ و خم سے جنم لیا ہے۔ اس میں درد مندی، آرزو مندی، چاہت، نشاط اور امید سبھی کچھ موجود ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آپ انسان کی دنیا میں بستے ہیں۔ آپ کا قلمی اور ذہنی سفر مستقل جاری ہے۔ جمود اور ٹھہراؤ آپ نے جانا ہی نہیں۔ شمع، خورشید، قمر، برق، شرر کا نور آپ کو راہ دکھاتے ہیں تو سفینہ، دریا، موجیں، دھارے، آپ کو رفتار عطا کرتے ہیں۔ وہیں شجر، حجر، برگ و گل کی بدولت آپ کے گیتوں کی تازگی برقرار ہے۔ ان تمام خوبیوں کے ہمراہ آپ کے انقلابی گیت ہوں یا رومانی وہ ہمیں ایک نئی فضا کا احساس دلاتے ہیں۔ ابھی قادر الکلام شعرا کے درمیان اجملؔ صاحب کے مقام کا تعین باقی ہے۔ یہ ذمہ داری ہماری آنے والی نسل کی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے