گور کن ۔۔۔ سلطان جمیل نسیم

گورکن کی مصروفیت میں اضافہ تو اُس وقت سے ہی ہو گیا تھاجب قبرستان شہر کے ایک کنارے سے سمٹ سمٹا کے شہر کی بیچ آغوش میں آن سمایا تھا۔ اب لوگوں نے اسی قبرستان میں عزیز اقارب کی تدفین کو اسٹیٹس سمبل بنا لیا تھا۔ جوں جوں آبادی بڑھ رہی تھی قبرستان کی زمین بھی مہنگی ہوتی جا رہی تھی ․․․․مہنگے ہونے کی کہانی تو الگ ہے ․․ گورکن کی بڑھتی ہوئی عمر کام کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو رہی تھی اسی لئے اپنی مدد کو اس نے گاؤں سے بھتیجے کو بلا لیا تھا کہ یہاں آ جا، گاؤں میں رہ کر بہت فرصت کی بیگار بھگت لی، یہاں اب کام مجھ سے نہیں سنبھلتا، تیرے آنے سے مجھے بھی سہارا ملے گا اور تیری جیب میں بھی چار پیسے ہوں گے دونوں مل کر اپنے ساتھ لگے فرض آسانی سے پورے کر سکیں گے۔

گورکن کو یاد تھا کہ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب مہینہ بیس دن میں آٹھ دس جنازے آ گئے تو آ گئے ورنہ فراغت انگلیاں چٹخاتی رہتی تھی اور کہاں اب یہ صورتِ حال کہ وہ کئی کئی قبریں تیار رکھتا تھا اور فرصت کا ایک لمحہ نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک کے بعد ایک میت چلی آتی تھی۔ لا وارث لاشیں تو کہیں بھی دفنا دی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا․․․․․ پرانی قبریں وہی باقی رہ گئی تھیں جن کے ورثاء مہینہ پندرہ دن کے بعد ضرور پھیرا لگاتے ․․․․ فاتحہ درود پڑھ کے مرحوم کی مغفرت کے لئے دعا کرتے تھے۔

گورکن کو یہ بھی یاد تھا کہ جب اس نے اپنے باپ کے ساتھ یہاں کام شروع کیا تھا، اُس وقت ایک اور گورکن بھی اپنے کنبہ کے ساتھ یہاں رہتا تھا۔ مگر اس زمانے میں کام نہ ہونے کے برابر تھا، اس لئے وہ قبرستان چھوڑ کے ایسے کام کے لئے چلا گیا جس سے اپنے بال بچوں کا پیٹ بھر سکے ․․․․ پھر کچھ گُر کی باتیں اس کے باپ نے اور بہت کچھ وقت نے سکھا دیں ․․․․ کون سی قبریں اس لئے خالی ہیں کہ مُردے کو ڈالنے کے بعد وارثوں نے پلٹ کے خبر ہی نہ لی اور موسم بے موسم کی بارشوں نے اپنا بوجھ ڈال کر بالکل بٹھا دیا، پھر مٹی بہا کے پاٹ بھی دیا․․․․ جیسے مرا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، ایسے ہی وہ قبریں تھیں۔ منہ مانگے دام وصول ہوتے تھے۔ منہ مانگے دام دینے والوں کی پہچان آسان ہوتی تھی، وہ جلدی میں ہوتے تھے۔ یہ بھی چاہتے تھے گاڑی سے اتریں اور قبر تک جا پہنچیں ․․ اُن کو اپنے کاروبار پر جانے کی بھی جلدی ہوتی تھی۔ جلدی مردے کو لحد میں اتارا، جلدی فاتحہ پڑھی اور جلدی سے اپنی اپنی کاروں میں یا میّت گاڑی میں بیٹھے اور چل دیئے، کبھی کبھی ایسے کاروباری بھی آ جاتے تھے جو کاروبار کے ساتھ وسیع تعلقات بھی رکھتے ․․․․ وہ قبر کی قیمت پر بھی بھاؤ تاؤ کرتے ․․․․وزیر سفیر کا حوالہ بھی دیتے ․․․․ یہ وہ لوگ ہوتے جن کا کاروبار انکم ٹیکس کے اعتبار سے نقصان میں چل رہا ہوتا لیکن مختلف ملکی غیر ملکی بنکوں میں بے نامی کھاتے کھلے ہوتے اور جیب کریڈٹ کارڈ کے بوجھ سے پھولی ہوئی ہوتی، اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ مرحوم کے تعلق سے خبر اخباروں میں چھَپ جائے لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ جنازے میں کتنے سیاسی لیڈر یا شہر کے نامور لوگ شریک ہوئے ․․․․ سرمایہ دار خبر کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے اُن کی خبر تو بغیر کوشش کے شائع ہو جاتی تھی۔ پھر بھی وہ ایک بڑا سا اشتہار شائع کراتے مگر قبر کی اجرت طے کرتے ہوئے ضرور کمی کے لئے حجت کرتے ․․․․ ایسے لوگوں کی جیب کا حال اُس وقت کھلتا جب وہ بخشش دینے کے لئے دس بیس کا نوٹ نکالنے کی کوشش میں کریڈٹ کارڈوں کے ساتھ حساب کتاب کی چھوٹی بڑی پرچیاں بھی نکلتی تھیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ محافظوں کا دستہ بھی چلتا تھا․․․․ ایسے ہی لوگ کبھی کبھی پھولی ہوئی لاش۔ یا۔ لاش کے ٹکڑے دفن کرنے کو لاتے تھے۔

سرکاری افسر بھی اسی قبرستان کا رخ کرتے ․․․․ لیکن وہ پیسہ دینے کے بجائے دھمکیاں دیتے تھے ․․․․ اُن کو کبھی موقع کی قبر نصیب نہیں ہوتی تھی․․․․ بھتیجے کے آنے سے ذرا سکون ملا تھا۔

گورکن نے بوڑھوں کو بھی دفن کیا تھا اور بچوں کو بھی لحد میں اُتارا تھا اور کڑیل جوانوں کوبھی دفنایا تھا اور دفناتے وقت جو گریہ و زاری ہوتی تھی اُس پر کبھی دل نہیں پسیجا تھا اور نہ کسی کے جذبات سے عاری سپاٹ چہرے کو دیکھ کر حیرت جاگی تھی․․․․․․ لوگ جنازہ لے کر آتے۔۔ آخری بار مرنے والے کا دیدار کرتے اور قبر میں اُتارکے مٹھیاں بھر بھر کے مٹی ڈالتے ․․․․․ زمانے کے اِس دستور پر اُس نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا․․․․ غور کرنے کی ضرورت تھی نہ فرصت․․․․ وہ سب سے الگ تھلگ اِس انتظار میں کھڑا رہتا کہ ماتم دار اپنے غم کو․․․․ اپنے تعلقات کو مٹی میں دبا دیں تو وہ قبر پاٹ کے پھاؤڑا سنبھالے اور مٹی سمیٹ کے ڈھیر بنا دے ․․․․ جب قریبی عزیز رونے جیسا منہ بناتے یا ایسی آواز میں روتے جس کو سن کر کوئی مسکرائے بِنا نہ رہ سکے۔ تب وہ منہ پھیر کے یا کھانسنے کا بہانہ کر کے ہنستا تھا اور بہت زیادہ گریہ و زاری کرنے والوں پر جھنجلاتا بھی تھا۔ دل ہی دل میں بیچ و تاب کھاتا کہ جس بات پر یہ لوگ بَین کر رہے ہیں وہ تو اُس کی روزی روٹی ہے اگر لوگ مریں نہیں تو وہ زندہ کیسےر ہے۔

گورکن کیونکہ موت کا روزینہ دار تھا اس لئے اُس کے دل میں موت کا خوف نہیں تھا مگر تھا تو انسان، جیسے کبھی کبھار بیمار پڑنے پر ڈاکٹر کے پاس جا کے دوا لیتا یا سُوئی لگوا لیتا تھا اِسی طرح بچوں اور جوانوں کی قبر کھودتے ہوئے اُس کو اُتنی ہی الجھن ہوتی تھی جیسے دوا کا کڑوا گھونٹ پیتے یا سُوئی لگواتے ہوئے ہوتی تھی۔ لکھنا پڑھنا تو اُس کو آتا نہیں تھا میونسپلٹی والوں نے جو رجسٹر گورستان میں رکھوا دیا تھا قبر کا ’’آرڈر‘‘ لانے والے سے ہی وہ خانہ پُری کرا لیا کرتا تھا۔ اُسی وقت مرنے والے کی عمر کا پتا چلتا تھا، ویسے اپنے دیرینہ تجربے کی بِنا پر وہ سوگواروں کو دیکھ کر مرنے والے کے بارے میں جان لیا کرتا تھا لیکن سب سے زیادہ کوفت اور پریشانی اُس وقت ہوتی تھی جب عدالتی حکم پر کسی پرانی قبر کو کھود کر مردے کو نکالنا پڑتا تھا ․․․․وہ سوچتا․․․․زندگی کے دوش پر سوار لوگ، مُردہ جسم کی گواہی پرکتنا اعتبار کرتے ہیں ․․․․ جب کبھی ایسا ہوتا وہ مٹی میں سنے ہاتھ جھاڑتا ہوا وہاں سے دور ہٹ جاتا․․․․․․اور دل ہی دل میں دعا کرتا کہ اللہ کسی کا مردہ خراب نہ کرے ․․․․

ایک روز وہ دیر سے سویا تھا، قبرستان میں بہت سے نشئی آتے تھے، کچھ ادھر اُدھر چھپ چھپاکے بیٹھ جاتے تھے۔ دو چار ایسے بھی تھے جن کے ساتھ علیک سلیک ہو گئی تھی، اُن ہی سے بغیر کہے سنے ایک معاہدہ ہو گیا تھا وہ نشہ کرا دیتے تھے۔ انہیں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے دیر ہو گئی․ نشے کی نیند جب ٹوٹی تو دیکھا سورج دھند کی چادر میں منہ چھپائے پڑا ہے اور کہیں کہیں سے زمین دھوئیں کا ماتمی لباس پہنے ہوئے ہے، اور وہ عمارتیں جو اُس کو اپنی کھاٹ پہ لیٹے لیٹے دکھائی دے جاتی تھیں، اُن میں سے کئی غم کے مارے سر نیہوڑائے کھڑی ہیں، ہوا سسکیاں بھرتی پھر رہی ہے اور فضا کبھی کبھی دھماکے کے ساتھ سینہ کوٹ رہی ہے۔

اُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ بم پھٹ رہے ہیں یا کہیں سے راکٹ داغے جا رہے ہیں ․․․․وہ کیسا نشہ کر کے سویا تھا کہ قیامت گزر گئی اور وہ نہیں جاگا․․․․ ابھی دُور دُور سے آنے والی لوگو کی گریہ وزاری اور خوف میں لپٹی ہوئی رونے اور چیخنے کی ملی جلی آوازوں کا سبب پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا کہ لاشیں آنی شروع ہو گئیں۔

دو چار جنازوں کو دفناتے سمے ہی اس کو محسوس ہونے لگا کہ کفن سے کافور کے بجائے بارود کی بو اٹھ رہی ہے۔ اس کے بعد تو اتنی قبریں کھودنا پڑیں کہ ہاتھ شل ہو گئے اور دن گزرجانے کا احساس بھی جاتا رہا۔

معلوم نہیں کتنے دن کے بعد جب رات کے ساتھ جانے پہچانے حالی موالی آنے شروع ہو گئے ․․یہ پھٹے حال لوگ درویش تھے ․․․․دن بھر نشے کی بھیک مانگتے تھے اور شام ڈھلے یہاں آکے ساری دنیا سے غافل ہو جاتے ․․․․اِن ہی میں ایک سیانا بھی تھا۔ اپنے آپ سے بے خبر اور ساری دنیا سے واقف۔۔۔ وہ یہاں اس لئے آتا تھا کہ پیسہ دے کے نشہ خرید لے ․․․․خاموشی سے الگ بیٹھ کے سُوٹے لگاتا․․․․․ کبھی کبھی اونگھ جاتا مگر جب بھی آنکھ کھل جاتی تو چپ چاپ اُٹھ کے چلا جاتا تھا․․․․ نجانے اُس دن گور کن کے جی میں کیا آیا کہ اُس سے پوچھ لیا کہ آج کل یہ کیا ہو رہا ہے جو شہر میں اتنے گولے داغے جا رہے ہیں ․․․دھماکے ہو رہے ہیں ․․․․ سیانے نشئی نے پہلے ایک گہرا کش لگا یا پھر اتنا کھانسا کہ دُہراہو گیا․․․․ جب ذرا دَم میں دَم آیا تو اُس نے اپنی اُبل پڑنے والی سرخ سرخ آنکھیں اٹھا کے دیکھا اور کہا، جب نا انصافی حد سے گذر جاتی ہے تو ضبط کا بند عذابِ الٰہیٰ اِسی طرح ٹوٹ پڑتا ہے ․․․․پھر کش لگایا اور کھانسنے لگا․․․․جب کھانسی تھمی تو پھر بولا۔ دوسروں کو مارنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایک دن اُن کو بھی مرنا ہے۔

ایک دن دو دن․․دس دن․․․ گور کن کو دس سے زیا دہ گنتی بھی نہیں آتی تھی۔۔ بارود کے کفن میں لپٹے مردے آتے رہے اور وہ اپنے بھتیجے کے ساتھ مل کر دفناتا رہا․․․․زمین شعلے بوتی رہی․․․․ آسمان دھوئیں کی فصل کاٹتا رہا․․․ایسی ہی ایک لاش کو دباتے وقت گور کن کو اُبکائی سی آئی، جی مالش کرنے لگا۔ وہ ادھورا کام چھوڑ کے اپنی کٹیا میں آتے ہی کھاٹ پہ ڈھے گیا․․․․ سونے اور جاگنے کے درمیان اُس وقت تک آنکھیں بند کئے پڑا رہا جب تک بھتیجا سارا کام نمٹا کے نہیں آ گیا۔

’’کیسی طبیعت ہے چاچا؟‘‘

’’ٹھیک ہوں‘‘

’’دوائی لادوں ․․․․؟‘‘

اُس نے کوئی جواب نہیں دیا․․․․․ دو ایک کروٹیں بدلیں پھر اٹھ کر بیٹھ گیا ․․․․․ اندھیرا پڑنے پر آنے والے آ گئے تھے اور باہر کی بُو بند کواڑ کی درزوں سے چھن چھن کر اندر آ رہی تھی․․․وہ اسی طرح بے تعلق بیٹھا رہا․․․․ پھر اپنے بھتیجے سے اتنے دھیمے لہجے میں بولا جانو اپنے آپ سے کہہ رہا ہو۔

میں نے جنازے دفناتے عمر بِتا دی ہے ․․․․․چھوٹی بڑی قبریں کھودی ہیں۔ طرح طرح کے مُردے گاڑے ہیں، کافور کی بو میرے تن بدن میں بس گئی ہے۔۔۔ اب اگر کی بتی اور صندل اور عطر پھلیل کی خوشبو کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ لیکن۔ اب․․․․ اب جس طرح کا بھپکا کفن سے اٹھتا ہے وہ مجھ سے سہا نہیں جاتا․․․․․․ تجھ سے چھوٹا تھا جب یہاں آیا تھا․․․ اب میرے بال پک گئے ․․ ہاتھ پیروں کی نسیں موٹی ہو گئیں ․․․ میں جی جان سے کام کرتا رہا․․ اِسی کام کی وجہ سے گھر نہیں بسایا․․․ تم ہی لوگوں کو پالتا پوستا رہا ․․․․ پر اب کام میں جی نہیں لگتا․․․ بھیجا کام نہیں کرتا کہ کیا کروں ․․․ اور بنا کام جی بھی نہیں لگتا․․․ بتا کیا کروں؟

’’چاچا تُو روزی کی فکر نہ کر․․․ ابھی تُو آرام کر․․․ کل ڈاکٹر سے دوائی لا دوں گا․․․․ابھی سو جا․․․‘‘ بھتیجے نے کندھا تھپتھپا کے دلاسہ دیا اور دل ہی دل میں سوچتا رہا، تپ کی تیزی میں آدمی کا بھیجا ایسی ہی الٹی سلٹی باتیں سوچتا ہے ․․․․․ کیسا بھپکا اُٹھتا ہے کفن سے ․․․؟ انھ․․جبی وبا پھوٹ پڑتی ہے ․․․ جب سیمنٹ کے بجائے ریت سے بنائی چھت گر جاتی ہے ․․ جب دوست دشمن بن جاتے ہیں ․․․ شہر میں مارا ماری ہوتی ہے ․․․․ جبی ایک ملک دوسرے پر چڑھ دوڑتا ہے ․․․․ جبی تو ہمارا دھندا اچھا چلتا ہے، چاچا بڈھا بھی تو بہت ہو گیا ہے ․․․ پر کام بھی کتنا کیا ہے ․․․زندگی بھر مُردے گاڑے ہیں ․․․ اِس وقت چاچا نہیں اُس کی عمر بھر کی تھکان بول رہی تھی․․․․آج تو چاچا اِن ہیرونچیوں کے پاس بھی جا کے نہیں بیٹھا․․․․ کل دوا لا کے دے ہی دوں گا۔‘‘

رات کے سناٹے میں جھینگروں کے بولنے کے ساتھ کوٹھڑی کے باہر پڑے نشئیوں کے سانس لینے کی گہری آوازوں کے ساتھ کوئی ایسی آواز بھی شامل تھی جس نے بھتیجے کو جگا دیا․․․ چاچا اپنی کھاٹ پر نہیں تھا․․․․ وہ باہر آیا․․․․ رات پورے قبرستان میں چاندنی کا کفن پھیلائے کھڑی تھی․․․ چند ساعت ٹھہر کر اُس سمت کا اندازہ لگا تا رہا جہاں سے زمین کھودنے کی آواز آ رہی تھی․․․

آدھی رات کو کس کا جنازہ آ گیا․․ چاچا نے مجھے جگایا کیوں نہیں

اتنا سوچنے کے بعد وہ آواز کے تعاقب میں تیز قدموں سے چلتا رہا۔

بوڑھے گور کن نے اندا زہ کر لیا کہ بھتیجا آ رہا ہے مگر وہ اپنے کام میں پوری تندہی سے لگا رہا․․․․

قریب پہنچ کر بھتیجے نے حیرت سے دیکھا اور سوچا․․․․ چاچا کو بخار تیز ہو گیا ہے یا نشہ زیادہ کر لیا ہے ․․․․ پھر ایک کنارے بیٹھ کر اُس نے پوچھا۔ ’’چاچا․․․․یہ․․․․ قبر کھود رہا ہے یا کنواں ․․․․․ اتنی گہری․․․․اتنی لمبی․․․․․‘‘

گورکن نے جواب دینے سے پہلے بیلچہ بھر کے مٹی گڑھے سے باہر پھینکی، پھر مٹی سے اٹے ہوئے بازو کو ماتھے پہ رگڑ کر اِس نیم سرد رات میں جو پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے۔ اُنہیں پونچھا۔ بیلچہ رکھ کے کدال اٹھائی اور گردن اُٹھا کے بھتیجے کی طرف ایسی اپنائیت بھری نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔

اِس میں وہ خوف گاڑنا ہے بٹوا جس کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے