کانٹا ۔۔۔ قیوم منزو/ رضوان الحق

کانٹا

QUIM MONZO

ترجمہ:رضوان الحق

‎‎

[قیوم منزو (Quim Monzo)ہمیشہ سے کبھی بیانیہ فکشن اور کبھی مضامین لکھتا رہا ہے۔ وہ اکثر لا وسنگارمیا اخبار کے لیے لکھتا ہے۔ اس کا پہلا افسانوی مجموعہ” ارے! اس نے کہا” 1978 میں شائع ہوا تھا۔ اِس کے بعد اس کے مجموعے ہیں ، "یہ سب کیوں "(1993)”گڈلاجارا” (1996) اور” تین کرسمس” (2003)۔ 2004 میں اس نے مختصر تر بیانیہ فکشن "چھیاسی کہانیاں ” میں ایک ساتھ جمع کیا۔ اس کا ایک ناول 1983 میں "بینزین” کے نام سے شائع ہوا، یہ ناول مابعد جدید فن کے خالی پن اور بے معنویت پر مبنی ہے۔ اس کا ایک اور ناول المیہ کا گھٹیا پن 1989 میں شائع ہوا جو ایک ایسے کردار کے کلیشے سے کھیلتا ہے جس کی حیات کے بس گنے چنے دن باقی ہیں ۔ اس کے صحافتی مضامین کے تین مجموعے ہیں "ززز۔ ۔ ۔ ” (1987)، "سب جھوٹ ہے” (2000) اور” موضوع کا موضوع” (2003) شائع ہو چکے ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے پچھلی دو دہائیوں پر ایک وسیع نظر پڑتی ہے۔ منزو نے Capote, J.D. Salinger, Bradbury, Hardy, Hemingway, Barth, Miller وغیرہ مصنفین کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ اسے کئی انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ جن میں ادب کا قومی انعام Prudenci Bertrana انعام برائے ناول خاص ہیں ۔ The Crítica Serra d’Or انعام اسے ایک سے زیادہ بار مل چکا ہے۔ اس کی تقریباً تمام کتابیں Quaderns Crema ویب سائٹ پر موجود ہیں اور 20 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتابGasoline کا انگریزی ترجمہ جلد ہی شائع ہونے والا ہے۔ زیر نظر دونوں کہانیوں کا اردو ترجمہ، ہسپانیہ کی ایک مقامی زبان کٹلان سے لیزا ایم ڈلمان (Lisa M. Dillmanکے انگریزی ترجمہ پر مبنی ہے۔ ]

 

یہ واقعہ اپریل ماہ کے ایک خوشگوار اتوار کا ہے۔ قصبے کے ایک ہوٹل میں ، جو پہاڑ کی دہلیز پر واقع ہے، اس پہاڑ کی چوٹی پر ابھی بھی برف جمی ہوئی تھی۔ دوپہر کے کھانے کے وقت ابھی جب کہ بیشتر میزیں خالی تھیں ۔ دو جوڑے جن کی عمر ساٹھ کے قریب رہی ہو گی، ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک آدمی کھانے کے ہال میں داخل ہوا اور کھیل کا اخبار پڑھنے میں منہمک ہو گیا۔ اتنی بات تو واضح تھی کہ وہ اس ہوٹل میں اکثر آتے ہیں کیونکہ انھوں نے مالکن سے غیر رسمی طریقے سے سلام و پیام کیا، گالوں کو بوسہ دیا اور کہا بہت دنوں سے آپ نظر نہیں آئے۔ "نہیں ! صرف مقدس ہفتہ سے نہیں آئی ہوں ۔ ” ان میں سے ایک عورت نے اداکاری کے انداز میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے بچوں کے بارے میں بات کی، ان کی بات سے واضح تھا کہ وہ بہت اچھے ہیں ۔ اس کے بعد مالکن نے مسکراتے ہوئے اشارہ کیا کہ آپ کے لیے جگہ محفوظ رکھی گئی ہے۔ یہ ایک مستطیلی میز تھی۔ جو کمرے کی ایک سمت میں بند تھی۔ ایک عورت نے دیوار کے سامنے کی کرسی پسند کی، جب کہ دوسری عورت نے اس کے سامنے کی کرسی پسند کی۔ ان کے شوہر بھی آمنے سامنے بیٹھ گئے لیکن وہ ہال کی طرف تھے۔

اور پھر، ابھی جب کہ وہ کھڑے اپنی جیکٹ ہی اتار رہے تھے کہ ان میں سے ایک عورت نے حادثاتی طور پر اپنی باہوں سے اپنا کانٹا سرکایا جس سے وہ خاموشی سے زمین پر گر گیا، اگرچہ کھانے کے ہال میں کچھ لوگ موجود تھے لیکن پائپ کی موسیقی میں کانٹے کے گرنے کی آواز دب کر رہ گئی، ساتھ ہی باورچی خانے سے بھی آوازیں آ رہی تھیں ۔ اس لیے کانٹا گرنے کی آواز کو باقی تینوں نہ سن سکے۔ دوسرا جوڑا اب دیوار کی طرف مڑ چکا ہے اور فریم میں لگی تصویریں دیکھ رہا ہے، یہ تصویر ایک پیلی صبح کے پس منظر میں ایسی شاہ راہ کی تھی، جس کی دونوں طرف مخروطی پودے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ اس عورت کا شوہر جس نے کانٹا گرایا تھا ابھی بھی کھیل کا اخبار پڑھنے میں محو تھا۔

عورت تیزی سے بڑھی اور اس نے جھک کر کانٹا اٹھا لیا، لیکن اسے میز پر ایک کنارے رکھنے کے بجائے کہ جس سے ویٹر اسے واپس لے جائے اور ایک صاف کانٹا لے آئے۔ اس نے اپنے شوہر کی پلیٹ سے کانٹا اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیا اور زمین سے اٹھائے ہوئے کانٹے کو اپنے شوہر کی پلیٹ میں بائیں جانب رکھ دیا، ٹھیک اسی جگہ جہاں پر پہلے اس کا کانٹا رکھا ہوا تھا۔ پھر وہ بیٹھ گئی، اس کے بعد اس کا شوہر بھی بیٹھتا ہے، وہ اخبار پڑھنا ختم کرتا ہے اور اسے موڑ کر رکھ دیتا ہے۔

میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے ویٹر سے نیا کانٹا لانے کو کیوں نہیں کہا؟ کیا اسے کانٹا نیچے گرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ کیا اس کانٹے کو استعمال کرنے میں اسے کوئی برائی نظر نہیں آئی؟ چاہے وہ گندا ہی کیوں نہ ہو؟ اس نے اسے وہیں کیوں نہیں رہنے دیا جہاں وہ تھا، اپنی خود کی پلیٹ میں ؟ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو چاندی کے سامان کا ٹکڑا یا کھانا بھی زمین پر گر جائے تو بھی پرواہ نہیں کرتے۔ امریکہ میں نوجوان لوگ ایک خیالی پانچ سیکنڈ کا اصول مانتے ہیں جس کے مطابق اگر کوئی چیز (سینڈوچ کا ٹکڑا) زمین پر گر جائے اور اسے پانچ سیکنڈ گذرنے سے پہلے ہی اٹھا لیا جائے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ کسی چیز کو گندا ہونے میں یا اس میں جراثیم پیدا ہونے یا جو بھی اثر پڑنا ہو اس میں پانچ سیکنڈ سے زیادہ ہی وقت لگتا ہے۔ لیکن یہ عورت اس اصول میں بالکل یقین نہیں رکھتی ہے۔ کیونکہ اس نے کانٹا اٹھانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہ کانٹا اس کے لیے صاف نہیں ہے لیکن شوہر کے لیے ہے۔ کیا اس کا شوہر کم احتیاط پسند ہے؟ یا یہ برسوں کی صحبت کا نتیجہ ہے جس سے وہ جانتی ہے اسے سب کچھ ہضم ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پتھر بھی۔ یا یہ بدلا لینے کے اس کے بہت سے طریقوں میں سے محض ایک معمولی طریقہ ہے؟ جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تو کیا وہ روز صبح اس کی کافی میں تھوکتی بھی ہے؟

میں نے کھانے کی کچھ دوسری میزوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی، کسی بھی کھانے والے کی اس پر توجہ نہیں گئی اور نہ ہی مالکن یا ویٹر کی۔ اس وقت ایک لائق، بہت چھوٹا بچہ ان کے کے لیے بریڈ کی ایک ٹوکری، کچھ زیتون اور مینو لے کر آ رہا ہے۔ دوسرا جوڑا آخر کار مصوری دیکھنا بند کرتا ہے اور کھانے کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ مینو اٹھاتے ہیں ، اسے کھولتے ہیں اور پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے