ڈولی۔۔۔ پیغام آفاقی

دو ڈھائی سال پہلے میں ایک سرکاری کام کے سلسلے میں چمپارن، بہار گیا تو مجھے خیال آیا کہ وہیں آس پاس میں کہیں میرے طالب علمی کے زمانے کا ایک دیرینہ دوست کا گھر تھا جو بہار پبلک سروس سے اب ریٹائر ہو کر اپنے گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ ان کا فون نمبر میرے موبائل میں موجود تھا۔ میں نے فون کیا اور بات ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ ان کا گھر وہاں سے کوئی ساٹھ کیلو میٹر پر تھا۔ دلی شہر میں تیس برس رہنے کے دوران ان کے علاقے میں جانے کی خواہش مجھے اکثر ہوئی تھی کیونکہ میرے اندازے کے مطابق وہ ایسی دور دراز کی جگہ تھی جہاں آج بھی پچھلے زمانوں کا ماحول موجود تھا  اور میں وہاں کی زندگی کو دیکھنا چاہتا تھا۔

دوسرے دن کام ختم ہونے کے بعد میں ایک ٹیکسی لے کر چل پڑا اور ہری بھری کھیتیوں کے بعد جنگلوں سے گزرتا ہوا ایک کھلی وادی میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا گاؤں وہیں کچھ دور آگے سڑک کے کنارے ہے۔ جب دور سے ایک مسجد نظر آئی تو ان کے بتانے کے مطابق میں سمجھ گیا کہ یہی ان کا گاؤں ہے۔ مسجد سے آگے جا کر ایک طرف کافی کھلی جگہ کے بعد ایک پرانے طرز کی کوٹھی سی نظر آئی جس کا صف کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا اور اس کے احاطے میں نئے طرز کے چند مکان بن گئے تھے۔ میں نے وہاں گاڑی رکوائی تو دیکھا کہ بشیر عالم وہیں دکانوں کے سامنے میرے ہی انتظار میں ہی کھڑے تھے۔ ان پر نظر پڑتے ہی جیسے پینتیس سال پرانی دوستی کے جذبے نے میری رگ رگ میں ایک عجیب سی شادمانی کی لہر دوڑا دی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر میں لے گئے۔ ان کے ہاتھوں کے لمس نے چند لمحوں میں وقت کی دیوار چین کو نیست و نابود کر دیا۔ ان کے اس سرگرم استقبال کے بعد جب ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے پرانی باتوں میں محو تھے مجھے دیوار پر ایک بڑی سی تصویر آویزاں نظر آئی۔

تصویر کے نیچے لکھا تھا ـ 1911 تا 2011

لیکن اس میں کسی آدمی کی تصویر نہیں تھی بلکہ تصویر میں ایک جنازہ تھا جسے لوگ اٹھائے ہوئے سڑک پر جا رہے تھے۔ میری نظر اس تصویر پر ٹک گئی تو بشیر عالم بولتے بولتے خاموش ہو گئے اور خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے اور ایک قلم کو بغل کی تپائی سے اٹھا کر یوں ہی اس کے ڈھکن کو کھولتے اور بند کرتے رہے۔

میں نے پوچھا ” یہ کیا ہے۔”

"یہ میری ماں کے جنازے کی تصویر ہے۔”

بات کچھ عجیب سی تھی۔

” اس تصویر کو دیکھ کر مجھے کچھ محسوس ہو رہا ہے لیکن کیا محسوس کر رہا ہوں یہ میں خود نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔ اسے لگانے کی تو ضرور ہی کوئی خاص وجہ ہو گی۔ کیونکہ کسی ڈرائنگ روم میں جنازے کے تصویر میں پہلی بار ہی دیکھ رہا ہوں۔”

"اس کی کچھ خاص وجہ تو ہے۔ تبھی تو لگی ہوئی ہے۔” انہوں نے قلم کا ڈھکن بند کر کے اسے واپس تپائی پر رکھ دیا۔ ” میری ماں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس کوٹھی کے سامنے برآمدے میں اکثر بیٹھا کرتی تھیں۔ بالکل آخری دنوں میں ایک دن جب گاؤں کی ایک خاتون کا جنازہ جانے والا تھا تو جنازہ لے جانے کا وقت معلوم کر کے بطور خاص باہر آ کر بیٹھ گئیں اور جہاں سے بائیں جانب سے جنازہ سڑک پر نمودار ہوا وہاں سے اسے سڑک پر گزرتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ دوسرے جو ان کے آس پاس بیٹھے تھے ان کو اس طرح جنازے کو دیکھتے ہوئے دیکھ کر سکتے میں آ گئے۔ سب کو یہی خیال آیا تھا کہ وہ اب عمر کی جس منزل کو پہنچ گئی تھیں اس کے بعد ان کے دماغ میں شاید اب یہی خیال بار بار آتا ہو گا۔

اسی دوران انہوں نے کہا۔ ” میں بھی اسی طرح جاؤں گی۔”

اس کے کچھ ہی دنوں بعد ان کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ہمیں وہ منظر ہمارے ذہن میں گھومنے لگا اور ہمیں محسوس ہوا کہ ان کے لئے یہ منظر بہت خاص تھا۔ میں نے ایک لڑکے کو ہدایت دی کہ وہ اس وقت جب ان کا جنازے مسجد کے سامنے سے اٹھنے کے بعد وہاں سامنے سڑک سے گزر رہا ہو تو وہ یہیں برآمدے میں کھڑے ہو کر اس کی تصویر لے لے۔ یہ وہی تصویر ہے۔ اب جو آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ تصویر کے نیچے سو برسوں کے وقفے کے سال لکھے ہوئے ہیں تو یہ ان کی پیدائش اور انتقال کے سال ہیں۔ عام  طور پر لوگ مرنے کے قریب آنے پر مذہبی باتوں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں یا پھر اپنے خاندان و جائداد کے متعلق وصیت وغیرہ کرتے ہیں لیکن وہ تو جیسے اپنے متعلق سارے انتظام اپنے ہاتھوں سے کئے جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی قبر پر لگانے کے لئے خود ایک کتبہ بنوا کر منگایا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبر پر وہ کتبہ لگا دیا جائے جس پر انہوں نے اور کچھ نہیں لکھوایا بلکہ سنگتراش سے اپنا نام لکھنے کو بھی منع کر دیا۔ اس پر انہوں نے صرف اپنی پیدائش کا سال کھدوا دیا تھا اور وفات کے سال کے دو ہندسے بھی کھدوا دئے تھے۔ وہ اس بارے میں اتنی سنجیدہ تھیں کہ سب دیکھنے والے چپ رہے۔ ان کی قبر پر یہی کتبہ لگا ہوا ہے۔”

بشیر عالم اتنا بتانے کے بعد اچانک گہرے خیالوں میں کھو گئے۔  میں نے ان کو بالکل نہیں چھیڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آگے کہنے لگے۔

زندگی میں تو کبھی ہم نے ان کی طرف اتنا دھیان نہیں دیا لیکن ان کی شخصیت نے ان کی وفات کے بعد ہم لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ کہ کر بشیر عالم خاموش ہو گئے اور سر نیچا کر کے کچھ سوچنے لگے۔ میں ان سے اس بارے میں مزید سننے کے لئے ان کو دیکھنے لگا۔

شاید یہ تصویر اس لئے لگائی گئی ہے کہ ہر وقت یہ یاد رہے کہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔

یہ تو ایک ایسی بات ہے جو عام طور سے لوگ کہتے ہی رہتے ہیں اور یاد بھی رہتی ہے لیکن اس تصویر سے ایک بہت بڑا ذہنی جھٹکا جڑا ہوا ہے  جس نے ہم لوگوں کی پوری زندگی بدل دی اور ہم آج بھی اس کے اثر سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ آسمان سے ایک بجلی گری تھی۔

میں بالکل دم سادھے خاموشی سے ان کو سننے لگا۔ اور انہوں نے پوری بات بتانی شروع کی جو 1911 تا 2011 کی ایک طویل تفسیر تھی۔

کتبے پر لکھا تھا ” نور النساء۔ 1911 تا 2011 ” یہ مرنے والی کی وصیت کے مطابق لکھا گیا۔ انگریزی کا سن بھی ان کی مرضی کی وجہ سے ہی لکھا گیا تھا۔ نہ جانے ان کے دل میں کیا تھا ورنہ اس گاؤں کے قبرستان میں کسی قبر پر اس طرح کا کچھ لکھنے کو رواج نہیں تھا۔ شاید وہ صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ سو سال زندہ رہیں۔ شاید یہ کہ انہوں نے دنیا کو سو سال تک دیکھا۔ شاید یہ کہ وہ وقت کا ایک ایسا ٹکڑا تھیں جس کی لمبائی سو سال کی تھی۔ شاید وہ اس سے اپنے عہد کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرنا چاہتی تھیں اور یہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ سن ان کی زندگی کی پوری تاریخ اور ان کی سوانح کو بغیر ایک لفظ کی مدد کے بیان کرنے کے لئے کافی تھا۔

کیا وہ اتنا سوچتی تھیں ؟ یہ اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا کہ وہ کتنا سوچتی تھیں۔ لیکن ان کی زندگی کے آخری برسوں میں سب کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ انہوں نے زندگی اور دنیا کو بہت غور سے دیکھا تھا۔ انہوں نے گاؤں کے ایک پرانے مکان کے آنگن اور گھر میں اپنی پوری زندگی گزاری تھی لیکن ان کے بچے اس دن چونکے تھے جب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ انگریزی ہزاروں الفاظ سمجھ سکتی تھیں۔ یہ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ وہ تو ایک دن اتفاق سے پوچھ لیا کہ کنڈیشن کا معنی سمجھتی ہیں تو جواب دینے کی بجائے بولیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو  تو بچوں  نے دس پندرہ اور الفاظ کے معنی پوچھے۔ پیٹیشن، انٹری، بیک گراؤنڈ، روٹیشن، ٹرمینیٹ، اور ان جیسے لگ بھگ بیس تیس الفاظ کے معنی جب وہ بتا گئیں پھر سبھی چونکے اور ہنسنے لگے۔ انہوں نے مسکرا کر بچوں جن میں ایک انگریزی کے پروفیسر تھے اور ایک کلکٹر رہ کر ریٹائر ہوئے تھے اور ایک ہائی کورٹ میں وکیل تھے ایسے دیکھا جیسے وہ اپنی حماقت کی وجہ سے ان کو بدھو سمجھ رہے  تھے—

تم لوگ میری گود میں پلے ہو۔ اور تب سے تم لوگوں کی آوازیں سن رہی ہوں۔

ان کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور سبھی اعلی تعلیم یافتہ اور ابتدائی تعلیم تو سب نے گھر سے ہی اسکول جا کر حاصل کیا ہی تھا، جب چھٹیوں میں گھر آتے تو پرانے برآمدے میں ہی دنیا بھر کی باتیں کرتے اور مسئلے مسائل پر بحثیں کرتے جس میں ان کے والد بھی اکثر شریک رہتے۔ انہیں آج اندازہ ہوا تھا کہ جو ہاتھ انہیں کھانا کھلاتے تھے وہ ان کی باتوں کو بھی سنتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

بچوں کی پرورش میں انہوں نے کافی پریشانیوں کا سامنا کیا تھا لیکن کسی بچے کو کبھی محسوس اس لئے نہیں ہوا تھا کہ ان کی پوری توجہ پڑھائی کی طرف مبذول کر دی گئی تھی اور گھر کے کسی بھی معاملے میں دلچسپی لینے پر سخت پابندی تھی۔ زمینداری ختم ہونے کے بعد کے دنوں میں اتنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کو نبھانا پہاڑ کاٹ کر نہر لانے جیسا تھا لیکن میرے والدین کا ذہن اس بارے میں بالکل واضح تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے اس لئے یہ سفر آسان ہو گیا۔ بچوں کو کہ دیا گیا تھا کہ جب تک وہ سب کے سب پڑھ نہیں لیں گے ان کے مکان میں کوئی مزید تعمیر نہیں ہو گی، کپڑے جوتے سب تعلیم کے بعد خود بخود ہو جائیں گے۔ بس مقوی غذائیں اور صحت اور پڑھائی ہی اس وقت ضروری ہیں جن کی بعد میں بھرپائی نہیں ہو سکتی لہذا دودھ والی گائے اور بھینس مسلسل گھر میں ہوتیں باقی ہمارے کپڑے جب تک پھٹ نہیں جاتے تب تک بدلے نہیں جاتے تھے۔ جب پڑھائی کا خرچ بڑھا اور خاندانی دشمنوں کی طرف سے ان کی پڑھائی کو روکنے کے لئے جھوٹے مقدموں کا یلغار ہوا تو زمینیں گروی ہوئیں اور آمدنی سکڑتی گئی لیکن اس کے بعد ایک بیٹے کے وکیل بنتے ہی مقدموں کی تعداد اچانک کم ہونے لگی۔

اس پورے دور میں میری ماں  نور النساء نے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا اور برسوں تک صرف ایک دو معمولی کپڑوں سے تن بدن ڈھکنے کو ہی اپنا دستور بنا لیا۔ انہوں نے اپنے سارے ارمان اپنے مستقبل کے خوابوں میں بسا لئے۔ بچے بڑے ہوں گے۔ دلہنیں آئیں گی۔ تب وہ گھر میں ملکہ ہوں گی۔ ایک تنکے کو بھی خود اٹھانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اپنی زندگی کے بیسیوں برس انہوں نے ان خوابوں کے ساتھ گزار دئے تھے۔

اس کے بعد وہ عہد آیا تھا جب پہلی بار گھر میں ایک بیٹے کی شادی ہوئی اور دلہن آئی۔ دلہن کو کیسے سنبھالا جاتا ہے اس کی تربیت انہیں خود اپنی ساس سے ملی تھی۔ لیکن تندہی سے زندگی کی مشقتوں میں لگے رہنے کی وجہ سے انہیں کبھی یہ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ ان بیس تیس برسوں میں زمانہ بدل رہا تھا۔ بڑے بیٹے کی شادی کے چند مہینوں کے اندر بہو اپنے شوہر کے ساتھ شہر میں رہنے چلی گئی اور بیٹے کی آمدنی سے ان کی توقعات ایسے بندھی تھیں جیسے برسات کے بادلوں سے بارش کی بندھی ہوتی ہے۔ لیکن بیٹا اپنے باپ کو کچھ بھی نہیں دے رہا تھا۔ البتہ اس کی وجہ سے مقدموں کے اخراجات کم ہو گئے۔

میرے والد بہت سخت جان تھے۔ وہ اپنے راستے پر چلتے رہے۔ دوسرے بیٹے کی شادی کے بعد بھی وہی ہوا۔ ایک ایک کر کے سب کی شادیاں ہو گئیں۔

ایک ایک کر کے لڑکے پہلے پڑھنے کے لئے باہر جاتے، اس کے بعد نوکری سے لگ جاتے اور اس کے بعد ان کی شادی ہوتی اور ایک دو ماہ گھر پر رہنے کے بعد وہ اپنی دلہنوں کو لے کر چلے جاتے۔ ہم سب نے یہی کیا۔ تو کہیں نا کہیں تو کوئی خواب تھا ساس بن کر جینے کا۔ وقت کی ہواؤں نے وہ خواب تباہ کر دئے۔ جب تیس تیس پینتیس پینتیس سال گزارنے کے بعد سبھی دھیرے دھیرے واپس لوٹے تب تک ان کے اپنے اپنے الگ الگ گھر بن چکے تھے اور وہ سیدھے اپنے گھروں میں اتر رہے تھے۔ وہ گھر ان کے تھے اور ان کی دلہنیں ان گھروں کے کیچن سے لیکر ڈرائنگ روم تک کی کرتا دھرتا تھیں۔ اب ماں کو وہاں رہنے کے لئے مہمان کی طرح بلایا جاتا اور کسی کے یہاں جانے کے بعد وہ محض ایک فرد بن کر رہ جاتی تھیں۔ ان کی عزت احترام، خدمت، کسی چیز میں کوئی کمی نہیں رکھی جاتی لیکن وہ واپس اپنے پرانے گھر میں جانے کا فیصلہ کر لیتیں۔

اس درمیان انہیں کچھ تلخ تجربے ہوئے تھے جن کا ہم لوگوں کو علم نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے کبھی ہمیں بتایا۔ بہوؤں نے عام طور پر یہ جتایا تھا کہ انہیں صرف اپنی خدمت کا حق ہے لیکن وہ ان کے تابع نہیں تھیں اور یہ ان کا گھر تھا۔ برسوں تک اپنے اپنے گھروں کی مالکن رہنے کے بعد ساس ان کے لئے ایک الگ ذات بن چکی تھیں۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ انہیں کیسا محسوس ہوا ہو گا تو دل رونے رونے جیسا ہو جاتا ہے۔

ماں نے بھی ٹھان لیا کہ وہ اکیلی رہیں گی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ وہ ساتھ رہیں گی تو کچھ نہ کچھ بولیں گی ہی اور کسی کو بھی کوئی ایسی پرچھائیں اچھی نہیں لگتی تھی جو خود بخود پرانی ساسوں کی موجود گی کا احساس دلا دیتی تھیں۔ میری ماں اتنے کھلے ذہن کی تھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے تو کچھ نہیں کہا لیکن اس بات کا سب کو یقین ہو چلا تھا کہ ان کو بہوؤں اور بیٹوں سے جس طرح الگ رہنا پڑ رہا تھا اس ماحول میں کوئی ان کو بہکا دے گا اور وہ مرنے سے پہلے وہ جائداد جو ان کے نام سے تھی کسی کو لکھ دیں گی لیکن بیٹے بھی اپنے باپ کی طرح ہی خود دار تھے اور وہ ماں کو یہی جتاتے رہے کہ وہ ماں کی عزت کرتے ہیں لیکن دولت کے لالچ میں کچھ بھی نہیں کرتے۔

یہ ایک زمیندار گھرانا تھا۔ اب تک یہ ہوتا آیا تھا کہ اولاد تا زندگی اپنے اجداد کے اختیار میں ہوتی تھی، پہلی بار ایک لڑکا وکالت کے پیشے میں گیا تھا تو اس کے اندر بغاوت دکھائی دینے لگی تھی اور وہ اپنی آمدنی کو اپنی سمجھنے لگا تھا اور اس بات پر والد کو اس سے کمائی کا پیسہ مانگتے ہوئے ‘مانگنے’ کا احساس ہونے لگتا تھا۔ ایک دن انہوں نے اپنا یہ درد اپنی ماں سے بیان کیا اور اس کے بعد وہ بار بار یہی کہتے کہ وہ کسی سے مانگیں گے نہیں۔ مرتے وقت ان کو صرف یہ فکر تھی کہ کہیں ان کی بیوی کو مانگنا نہ پڑ جائے۔ ایک دن ان کی بیوی نے ان سے کہ دیا کہ وہ اس معاشی آزادی اور کسی کا دست نگر نہ ہونے کے احساس کے ساتھ  ہی پوری زندگی گزار دیں گی۔

بشیر عالم اس پوری بات کا ذکر ایسے کر رہے تھے جیسے وہ اپنے ابا امی کا ذکر نہیں کر رہے ہوں بلکہ دو ایسے افراد کا ذکر کر رہے ہوں جن کو کبھی  اپنے حال پر بالکل تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔

جب والد بستر مرگ پر تھے اور ڈاکٹر نے اشارہ کر دیا کہ وہ اپنی وصیت وغیرہ کرنا چاہیں تو کر ڈالیں تو انہوں نے بیگم سے بہت سی باتیں کیں اور آخر میں بچوں کا دھیان رکھنے کی ہدایت کر کے چپ ہو گئے۔

بیگم نے پوچھا ” اور میرے لئے کیا کہہ رہے ہیں۔”

"میں جا رہا ہوں۔ لیکن میں نے آپ کے لئے اتنا انتظام کر دیا ہے کہ آپ کو بچوں کا منھ نہیں تکنا پڑے گا۔  بس آپ کو اپنا دھیان رکھنا پڑے گا کیونکہ وقت بہت بدل رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بچے آپ کا دھیان رکھیں گے۔ اس لئے آپ اس دھوکے میں مت پڑئے گا۔”

یہ سن کر ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہیں وہ دن یاد آ گئے جب ان کے شوہر سخت مالی مشکلات میں ہوتے تھے اور پیسوں کے انتظام میں پریشان پھرتے تھے لیکن بیٹوں نے کبھی ان کو اپنی کمائی کے پیسے لا کر نہیں دئے اور ان کو ہمیشہ یہ انتظام اپنی جائداد سے ہی کرنا پڑے۔

ان کے شوہر کے یہ جملے انہیں تلخ تجربوں کی پیداوار ہیں۔ انہوں نے سوچا۔

انہوں نے اپنے شوہر کے چہرے کو غور سے دیکھا، ان کو لگا کہ ان کے شوہر نے ان کو جو ہدایت کی ہے وہ ان کے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے اور اسی حکم میں ان کے مستقبل کا تحفظ پوشیدہ ہے۔ انہوں نے اپنے دل سے اپنی ممتا کے سارے ارمان مٹا دئے اور اسی لمحہ اپنے بچوں پر بھروسہ کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک ان کے شوہر کی روح اپنی زندگی کی تمام تلخیوں کے ساتھ ان کے اندر حلول کر گئی ہو اور وہ اس روح کی امین بن گئی ہوں۔  انہوں نے اپنے شوہر کے جانے سے پہلے ہی شوہر کے ساتھ بچوں کے ذریعے ہوئے سلوک کو اپنی آن کا مسئلہ بنا لیا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ وہ اپنے شوہر کے سر کو کبھی جھکنے نہیں دیں گی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ختم کر لیا اور اب وہ شوہر کے نقش قدم پر چلنا چاہتی تھیں۔

باپ نے سب کو اپنے مکان بنانے کے پلاٹ دے دئے۔ اور ایک ایک کر کے سب کے مکان بھی بننے لگے۔ اس کے ساتھ ہی سب اپنے اپنے مکان میں رہنے لگے۔ ان گھروں کا پورا اختیار ان کی دلہنوں کے ہاتھ میں تھا۔

شوہر کے مرنے کے بعد  وہ اپنے پرانے مکان میں ہی رہ گئیں۔ ایک دن آخری دلہن بھی باہر چلی گئی۔ وہ اپنے مکان میں ہی رہیں۔ بیٹوں نے ان کو اپنے اپنے یہاں آ کر رہنے کے لئے کہا لیکن وہ نہیں مانیں۔ لیکن سب کے یہاں آتی جاتی رہیں۔

اسی دوران ایک دن وہ کسی گھریلو معاملے میں مشورہ دے رہی تھیں اور کسی نکتے پر زور بھی دیا۔

"اماں ، آپ ان معاملات میں مت پڑئے۔ یہ لوگ اب خود دادا نانا ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنے طور پر سوچنے سمجھنے دیجئے۔” میری بیوی نے کہا۔” آپ کو اب کسی بات سے کیا لینا دینا۔ آپ کو اپنے لئے جو چاہئے بتا دیا کیجئے۔ ”

تقریباً سارے بیٹے موجود تھے۔ سب کو یہ بات اچھی لگی۔

لیکن ماں اچانک خاموش اور سنجیدہ ہو گئیں۔ انہیں ایسا لگا جیسے ان کے اور ان کے بچوں کے درمیان ایک گہری کھائی چلی آئی ہو اور وہ ون سے بہت دور ہو گئی ہوں۔ "ٹھیک ہے بیٹا۔ اب میں تم لوگوں کے ذاتی معاملات میں نہیں بولوں گی۔ ”  انہوں نے خشک لہجے میں کہا لیکن کسی نے اس خشکی کو محسوس نہیں کیا۔ اس کے بعد ان کے اندر ایک عجین سنجیدگی پیدا ہو گئی۔ وہ جیسے رفتہ رفتہ اپنے ارد گرد سے دور رہنے لگیں۔ وہ سب کی باتیں سنتیں لیکن خود بہت سنبھل کر کچھ بولتیں۔ انہوں نے اب پہلے سے زیادہ توجہ سے اپنا دھیان رکھنا شروع کر دیا۔ ان کی گفتگو اب گھر کی سب سے بڑی خاتون کی بجائے ایک بزرگ جہاندیدہ خاتون کی طرح ہونے لگی۔

بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ اپنے پرانے مکان میں ہی رہیں اور ان کا خرچ دیا جائے۔ بھائیوں نے یہ طے کر دیا کہ وہ سب مل کر ہر مہینے ایک خاص رقم انہیں دے دیں گے۔ جس سے ان کے اخراجات چلیں گے۔ نوکرانی ، مہمان، باورچی خانہ اور دیگر اخراجات جوڑ کر ماہانہ رقم طے ہو گئی۔ اس سے ان کو آزادی کا احساس تو ہوا لیکن علیحدگی کا بھی احساس ہوا۔ یہ احساس ان کے دل میں کہیں گہرائی میں اتر گیا۔ خاندان کی بیشتر زمینیں ان کے نام سے تھیں۔ دو تین زمینیں ایسی تھیں جن کو وہ بالکل اپنی نجی زمینیں مانتی تھیں کیونکہ یہ انہیں مہر کے عوض میں ملی تھیں۔

جب ان کا کوئی ایسا بیٹا گھر آتا جس نے ابھی مکان نہیں بنایا تھا تو وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ انہیں کے پاس ٹھہرتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ وہ گھر میں بالکل اکیلے ہوتیں۔ سبھی شام میں دیر تک وہاں بیٹھے، بستی کے اور ملنے والے بھی وہیں آتے۔ ان کے بھائی اور دوسرے رشتے دار بھی ان سے ملنے وہیں آتے۔ انہیں ان تمام لوگوں کی خاطر داری کرنے کی پوری آزادی چاہئے تھی۔ لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ وہ اس عمر میں اکیلے کیوں رہتی ہیں لیکن انہیں اپنی آزادی پیاری تھی۔

آٹھ دس برس اور گزر گئے۔ اس دوران انہوں نے کسی کے گھریلو معاملے میں کچھ نہیں کہا۔  سب لوگ اب ان کی پہلے سے زیادہ ادب بھی کرنے لگے۔ کوئی ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔  وہ اس بات کو محسوس بھی کرتیں اور محسوس بھی کروا دیتیں۔

ان کے اندر اپنے ملکہ ہونے کا احساس تھا۔ انہوں نے اپنی بیوگی کا کسی کو احساس نہیں ہونے دیا۔ اور ایسا کرتی بھی کیوں۔ ان کے شوہر نے ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا تھا کہ وہ نہ تو اپنی اولاد کا محتاج ہونا چاہتے ہیں اور نہ انہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے کبھی اپنی اولاد سے ان کی کمائی سے کچھ نہیں مانگا اور سخت سے سخت مالی مشکلات کے زمانے میں بھی خود ہی اپنی جائداد سے اپنی ضرورتیں پوری کیں۔ تنہائی میں والد بھی ان کو یہی ہدایت کر گئے تھے۔ شروع کے دنوں میں جب انہوں نے دیکھا کہ نور النسا کی اچھی باتیں بھی بہوؤں کو اچھی نہیں لگتیں اور ان کے جواب سے نور النسا کی خواہ مخواہ دلآزاری ہوتی ہے تو انہوں نے ایک دن انہیں دیر تک سمجھایا۔ اپنے شوہر کی بات ان کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن ان کے بیٹوں کو اس کا پتہ نہیں چلا۔ اب ہم ان تمام باتوں اور چہروں کے تاثرات کے معنی سمجھنے لگے ہیں جو ان دنوں سمجھ میں نہیں آئے تھے۔

زمانہ بدل چکا تھا۔ گھروں میں چونکہ بیویوں کا راج تھا۔ اس لئے لڑکوں سے کچھ کہنے کا کوئی معنی نہیں تھا۔ ان کی نظروں میں تو بہوئیں ہی تھیں۔ اور ان کے سامنے اپنا مقام چھوڑنا ان کو پسند نہیں تھا۔ وہ تو اپنے کو اس ساس اور ساس کی ساس کی جگہ رکھ کر دیکھ رہی تھیں جن کی وہ بہو رہ چکی تھیں۔ زمانے کی زمین نیچے اترتی رہی لیکن انہوں نے اپنا آسمان نہیں چھوڑا۔

"میں کسی پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔” ایک دن انہوں نے کہا تھا۔ سب نے اس بات کو بڑھاپے کی بڑ بڑ سمجھا۔ بیٹوں کا منہ تکتے تکتے وہ بیزار ہو گئی تھیں۔

ان کو دنیا اور زندگی سے مایوس ہوتے یا الجھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ بچوں کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئیں تو ان کی نظر زمانے پر چلی گئی۔ زندگی کے کتنے ہی واقعات تھے جن کا ذکر وہ اپنی گفتگو میں کیا کرتی تھیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ یہ مشاہدے اور بھی بڑھتے گئے تھے۔

اب وہ گاؤں کے بچوں اور جوانوں تک کے لئے ایک کتاب بن چکی تھیں۔

وہ دوسری جنگ عظیم کی کہانیاں سناتی تھیں۔ انگریز، جاپان، رنگون۔ کہ جب جاپانی برما تک پہنچ گئے تو انگریز ادھر سے ہو کر کس طرح بھاگ رہے تھے۔ انگریزوں کے اس طرح بھاگنے کا ذکر کتابوں میں تو کہیں تھا ہی نہیں۔

آزادی اور بٹوارے کی کہانیاں۔

وہ ہندوستان اور چین کی لڑائی کی کہانیاں سناتی تھیں۔ قحط سالی کے قصے  اور مختلف طرح کی سرکاری ریلیف میں ملنے والی اشیا اور اس میں خرد برد کی کہانیاں۔

بٹوارے کے بعد ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی کی کہانیاں۔ اس زمانے میں دور دور سے آئی ہوئی کہانیاں۔ جنگوں سے لوٹے ہوئے سپاہیوں کے ذریعے سنائے گئے محاذ جنگ کی کہانیاں۔

آدمی کے چاند پر جانے کا واقعہ۔

آسمان پر چھوڑے گئے راکٹوں کے تاروں کی طرح چلنے کا منظر اور امریکہ اور روس کے مقابلوں کی کہانیاں۔

کبھی کبھی گھر کی پرانی کہانیاں سناتیں۔

زمینداری کے زمانے کے زمینداروں کے دبدبے کی کہانیاں۔

گھر میں بھائیوں میں ہوئے بٹوارے میں مٹی کے برتنوں کو توڑ کر بانٹنے کی دلچسپ کہانیاں۔

بچوں کے سنگین طور پر بیمار ہو جانے اس کے نتیجے میں جھیلی ہوئی مشقتوں کی داستان۔

کبھی کبھی اپنے زمانے اور مستقبل کی پیشن گوئیوں کا ذکر کرتیں۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ جب چودھویں  صدی آئے گی تو گھر گھر میں ناچ گانا ہو گا۔ میں سوچتی تھی کہ یہ کیسے ہو گا۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

یہ بھی لکھا ہے کہ بچوں کے دل سے ماں باپ کی محبت ختم ہو جائے گی۔ وہی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔

اپنی ساس اور ساس کی ساس کی کہانیاں سناتے ہوئے وہ انتہائی روحانی سکون سے سرشار نظر آتیں۔ یہ ان کی وہ پسندیدہ کہانی تھی جو وہ بہت خاص موقعوں پر سناتیں۔ ” مرتے وقت تمہاری دادی نے کہا کہ بہو میں اپنی ساس کی ذمہ داری تمہارے ہاتھوں میں چھوڑے جا رہی ہوں۔ ان کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دینا۔ یہ میری ساس کی وہ ساس تھیں کہ جب اولاد نہیں ہو رہی تھی تو بیٹے کی دوسری شادی کرنے پر بضد ہو گئی تھیں۔ یہ ہدایت انہوں نے مجھے مرتے وقت اپنی اس ساس کے لئے دی تھی۔ وہ بیٹے کی دوسری شادی کرنے کے لئے بضد ہوئیں تو ان کے شوہر نے ان سے کہا تھا کہ اگر پوتا پوتی دیکھنے کی اتنی شدید خواہش ہے تو وہ کرنے کی ہمت کرو جو میں بتاتا ہوں۔ ان کے بتانے پر وہ چالیس دنوں تک مسجد میں جا کر بتائی ہوئی دعا کی ورد کرتی رہیں۔ ہدایت تھی کہ جب وہ کوئی خوفناک چیز دیکھیں تو گھبرا کر بھاگیں نہیں ورنہ پاگل ہو جائیں گی انہوں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ ایک رات انہوں نے اپنے چاروں طرف اژدہوں کو پھنکارتے ہوئے دیکھا۔ لیکن ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ ایک اور رات انہوں نے شیروں کو گرجتے ہوئے آتے دیکھا۔ اس کے بعد بالکل آخر کے دنوں میں ایک دن دیکھا کہ مسجد کی دیواریں ہٹ گئی ہیں اور دور تک چٹیل میدان ہے اور سفید پوش لوگوں کی قطاریں نماز پڑھ رہی ہیں۔ جب انہوں نے یہ منظر اپنے شوہر کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ اب چمئین کو بلا کر دلہن کو دکھائیں۔ دکھانے پر معلوم ہوا کہ وہ حاملہ تھیں۔

اسی حمل سے ان لوگوں کے والد کی پیدائش ہوئی تھی۔ یقیناً دادی کو دونوں باتوں کا علم اور احساس تھا  یعنی اولاد نہ ہونے پر دوسری شادی پر بضد ہونا اور ان کی گود ہری ہونے کے لئے ایسے خوفناک لمحات کا سامنا کرنا۔ ایک عورت کا حال عورت ہی بہتر سمجھتی ہو گی اور اس ساس کے لئے اس قدر خیال شاید اسی کا نتیجہ تھا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ تمہارا ا اس گھر کا بہو ہونا اسی بوڑھی عورت کی محنتوں کا ثمر ہے یہ مت بھولنا۔

زمانے کو یاد کرنا، اس کو بیان کرنا اور موجودہ زمانے کو دیکھنا ہی ان کی زندگی بن گئی تھی۔ ان کے پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں ان سے بے حد پیار کرتے تھے۔ ان کے لئے ان کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ وہ ان سے ہنستیں ، بولتیں ، ان کی ہونے والی دلہنوں اور دولہوں کے حوالے سے مذاق کرتیں۔ بچیاں کبھی ان سے روٹھ جاتیں ، پھر ان کے پاس جا کر ان سے پیار سے باتیں کرنے لگتیں۔ کبھی ان سے پرانے زمانے کی باتیں سنتیں ، کبھی موجودہ زندگی سے متعلق اپنی ذہنی الجھن کو ان سے شیئر کر کے انہیں سلجھاتیں۔ ان سے بہتر شاید ان بچوں کے لئے پورے گاؤں میں دوسرا کوئی دوست نہیں تھا۔

وہ گھر میں اکیلی رہ گئی تھیں لیکن خوش تھیں۔ پورے گاؤں محلے کے لوگ ان سے ملنے آتے تھے۔ سامنے کرسیاں لگی تھیں۔ ایک تخت تھا۔ سامنے ہی گیس کا چولہا تھا اور نوکرانی وہیں کھانا بناتی تھی۔ اپنے تمام بیٹوں بیٹیوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں اور ان کی اولادوں کی خبر لیتی رہتی تھیں۔ ان کو اسی سے فرصت نہیں تھی۔  نوکرانیاں ان کے پاس کام کرنے میں اس وجہ سے خاص دلچسپی لیتی تھیں کہ وہ یہاں طرح طرح کے کھانا بنانا سیکھ جاتی تھیں۔

ان کی 99 سالہ آنکھوں نے، جو دور سڑک پر آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ رہی تھیں ، اس سڑک کا اسی برسوں کا طویل منظر دیکھا تھا اور اس منظر میں ہوتی ہوئی تبدیلیاں دیکھی تھیں۔ ان کے اوپر جب کبھی فلسفیانہ طبیعت کی بہار آتی تھی تو دنیا کے اوپر بہت معرکے کے کمنٹ کرتی تھیں۔ اکثر اس زمانے اور پرانے وقتوں کا موازنہ کرتی تھیں لیکن یہ موازنہ کبھی بھی زمانے میں برائیوں کے بڑھنے جیسی باتوں کا نہیں ہوتا تھا بلکہ دونوں وقتوں کے حالات آئینہ کی طرح سامنے آنے لگتے تھے۔

ایک دن ایک شادی کے جشن میں  سامنے سے ٹریکٹر پر ایک لڑکی ڈسکو کرتی جا رہی تھی اور پیچھے پیچھے گاؤں محلے کے سیکڑوں لونڈے اور بچے چل رہے تھے۔ فلمی گانے کی بلند آواز آ رہی تھی۔ انہوں نے دیکھنے کے لئے دروازے کے پٹ کھلوائے اور دلچسپی سے دیکھتی رہیں۔ ان کے دیکھنے کے انداز سے یہ سیکھنے کو ملا کہ زمانے کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔

جب ٹریکٹر نظروں سے اوجھل ہو گیا تو انہوں نے کہا۔

ایک آج کا یہ وقت ہے اور ایک پہلے کا وقت تھا :

ایک مرتبہ تمہارے ابا ہم لوگوں کو باغات دکھانے لے گئے۔ تمہاری پردادی بھی تھیں۔  ٹمٹم پر دونوں طرف سے پوری طرح پردہ کسا گیا، پھر اس میں ہم لوگ بیٹھے تھے۔ اب میری  بیٹی مجھ سے لڑتی ہے کہ اسے اسکول کالج میں  پڑھایا کیوں نہیں گیا۔ بتاؤ۔ اس وقت بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔  یہ بات نہیں سوچتی۔ جب وہ یہ باتیں کہتیں تو ان کے لہجے میں اپنے اور اپنی بیٹیوں کے قیمتی لمحوں کی بربادی کی کسک اور اس بات کا افسوس صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ زمانہ آیا لیکن کتنی دیر سے آیا۔

وہ بچوں سے الگ طرح کی باتیں کرتیں ، لڑکیوں سے الگ طرح کی اور ہم لوگوں سے الگ طرح کی۔ ایک دن مجھے بتانے لگیں کہ اب ساری بہوئیں شہر میں جا کر رہ رہی ہیں۔ جن جن عورتوں کے شوہر عرب کمانے گئے ہیں ان میں کوئی بھی دیہات میں رہنا نہیں چاہتی۔ سب بچوں کو اسکولوں میں پڑھانے کے نام پر شہر میں کرائے کا مکان لے کر رہ رہی ہیں۔ انہوں نے کئے نام گنا دئے۔ ان کو سب معلوم تھا۔

ایک محلے کی لڑکی ہے۔ اس نے اپنی شادی سیل فون پر ہی دوستی کر کے طے کر لی۔ اس لڑکے سے گھنٹوں فون پر بات کرتی رہتی تھی۔ ان دنوں وہ ان کا کھانا پکانے بھی آتی تھی۔ ان کو اس افیئر کے بارے میں بتا بھی دیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ لڑکا عرب ممالک میں کام کرتا ہے تو وہ کچھ سوچنے لگیں اور پھر سختی سے تاکید کی کہ لڑکے کے گاؤں کسی کو بھیج کر معلوم کر لے اس کے بارے میں ٹھیک سے معلوم کر لے کہ وہ لڑکا کہیں شادی شدہ تو نہیں ہے  لیکن لڑکی نے اپنی مستی میں دھیان  نہیں دیا۔ پورے محلے کو اس افیئر کے بارے میں معلوم ہو گیا۔ اس کے بعد شادی کا دن بھی مقرر ہو گیا۔ آخر میں بھید کھلا کہ اس لڑکے کے پہلے سے ہی سات بچے تھے اور بیوی بھی تھی اور دوسری شادی کا خیال اسے عرب میں رہنے کی وجہ سے آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس لڑکی کے سیل فون عشق کا یہ پورا معاملہ ان کو معلوم تھا۔ ان کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ وہ فون پر کسی اجنبی لڑکے سے کیوں بات کرتی ہے۔ ان کو اعتراض اس بات پر ہوا کہ جس سے وہ بات کرتی تھی اور جس سے اپنی شادی طے کر چکی اس کے بارے میں آگے چل کر معلوم ہوا کہ وہ سات بچوں کا باپ تھا۔ شادی کی بات ٹوٹی اور لڑکی بہت روئی اور ان کی گود میں سر رکھ کر کہنے لگی کہ میں نے آپ کی بات پر دھیان نہیں دیا اسی لئے یہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ دوسری لڑکیاں بھی اس معاملے میں ‘دادی’ کے مشورے کی حمایت کرتی رہیں۔

ہم نے ان کی زندگی پر غور کر کر کے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔

ہم بچپن میں جوائنٹ فیملی کی بہت تعریف سنتے تھے اور تعجب ہوتا تھا کہ وہ لوگ کتنے خود غرض ہوتے ہوں گے جو اپنے خاندانوں کے بھرے بھرے ماحول سے الگ ہو کر اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے خاندان کو جو تمام پیار اور محبت کے ساتھ بکھرتے دیکھا تو ایسا لگا کہ جوائنٹ فیملی بھی میری ماں کی طرح بدلتے وقت کا شکار ہو گیا۔

ہم اپنے بچپن میں یہ بھی سوچا کرتے تھے کہ بوڑھے لوگوں کا ذہن تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتا ہے اور اس کی وجہ سے چڑچڑے ہو جاتے ہیں لیکن میری ماں کے لئے تو بدلتا وقت ایک خوبصورت تماشا بن گیا تھا۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ ایک لمبے زمانے کی تبدیلیوں نے انہیں وقت کی تبدیلیوں کے تئیں اتنا حساس بنا دیا تھا جتنا خود ہم بھی نہیں۔ وہ لوگوں کی سوچ میں ہوتی تبدیلیوں کو بہت دلچسپی سے سنتی تھیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتی تھیں کہ یہ تبدیلی کن وجوہات سے آتی تھی۔

نئے زمانے کے بارے میں تو گویا ان کا ذہن کئی دہوں سے بنا ہوا تھا۔ وہ بچپن میں ہم لوگوں سے کہا کرتی تھیں کہ جب چودہویں صدی آئے گی تو کیا کیا ہو گا اور ایسا لگتا تھا کہ ہرچند کہ چودہویں صدی کو ذکر لوگ زوال کے طور پر کرتے تھے لیکن وہ ہمیشہ ایسے ذکر کرتی تھیں جیسے یہ نئی حیرت انگیز چیزوں کے نمودار ہونے کا عہد ہو گا۔ اور بعد کے دنوں میں ان کی گہری دلچسپی کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ طویل زندگی پا کر اس عہد کو دیکھنا چاہتی تھیں اور قدرت نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی تھی۔ انہیں تو میں نے گذشتہ زمانے کے تئیں شاکی ہی پایا۔ وہ بار بار اس زمانے کے غریب لوگوں کی زندگی کی حالت اور زندگی کے قید و بند میں جانوروں کی طرح کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ اب حالت بہت اچھی ہے اور بہت پیار سے کہتیں کہ بابو وہ زمانہ اچھا نہیں تھا۔

آخری دنوں میں پوری فصل کی کٹائی پر ماں اپنی ضرورت کے لائق لے لیتیں اور باقی بیٹوں میں بٹ جاتی تھی۔ لڑکوں نے ان کے اخراجات کو ان کے ذاتی اخراجات تک محدود رکھنا طے کر دیا تھا۔  شروع شروع میں تو وہ کبھی کسی ضرورت کے سامنے آنے پر بیٹوں کو بلا کر کچھ کہ بھی دیا کرتیں لیکن جب انہوں نے دو تین بار دیکھا کہ انہوں نے آناکانی یا ان سنی کر دی تو انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی  اور یہی بات غلط ہو گئی تھی۔ والد اکثر یہ دھمکی دیا کرتے تھے کہ اگر بیٹے کما کر نہیں دیں گے تو وہ جائداد کو بیچنا شروع کریں گے حالانکہ انہوں نے آخری سانس تک ایسا کیا نہیں۔ اور اب یہی خیال ماں کے بارے میں آنے لگا تھا کیونکہ  زمین کسی کو بھی لکھ دینے کا حق و اختیار انہیں کے پاس تھا اور آدھی سے زیادہ موروثی جائداد انہیں کے نام تھی۔ اور ماں کی مکمل خاموشی سے سب خوفزدہ تھے کہ وہ جائداد کے بارے میں ضرور کچھ ایسا کر بیٹھیں گی جس سے ان سب کو اپنے حق سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اکڑ ایسی کہ کوئی ان سے بات کر لینا نہیں چاہتا تھا تاکہ کم از کم اندیشہ ہی دور ہو جائے۔ بیویوں کو تو اب بہت پریشانی ہونے لگی تھی یہ سوچ سوچ کر۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میرے ایک دو بھائیوں کو تو ان کے مرنے کا انتظار رہنے لگا تھا اور وہ اندازہ لگاتے رہتے کہ اب وہ کتنے دنوں اور زندہ رہیں گی اور ان کے اندازوں کے مسلسل غلط ثابت ہونے پر دوسرے ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ اتنی بات تو واضح تھی کہ وہ سب کے لئے مرنے سے پہلے مر چکی تھیں ، مرنے سے کئی برس پہلے ہی اور اس بات کو شاید ان کو بھی احساس ہو گیا تھا لیکن انہوں نے زندگی سے ناتا توڑنا بالکل ضروری نہیں سمجھا۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک زندگی کے تانے بانے کو اپنے طور پر ٹٹولنے میں دلچسپی لیتی رہیں۔

میں ان کا بیٹا ہوں اور مجھے اب یہ صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ وہ کیا سوچتی تھیں اور کیا محسوس کرتی تھیں۔ افسوس ان کی زندگی میں ہم لوگوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا، دھیان نہیں دیا۔ سچی بات تو یہ ہے جو ہمارے لئے اب بھی شرم کی بات ہے کہ انہوں نے تسلیم کر لیا تھا کہ ان کے پیٹ سے پیدا ہونے اور پھلنے پھولنے والا پورا خاندان ایک مختلف دنیا بن چکا ہے اور وہ اس دنیا سے بہت آگے بڑھ آئی ہیں۔ اور اب اس سے ان کا رشتہ ہے لیکن یہ رشتہ خانہ بندی کا شکار ہو چکا ہے۔ اور وہ ایک الگ خانے میں ہیں۔ اور اس خانے میں وہ تنہا ہیں۔ اور گویا کسی پر ان کی بات ماننا اب لازم نہیں اور ان کی اولاد انہیں بس ایک مقدس ذمہ داری سمجھ کر اس ذمہ داری سمجھ کر نبھا رہی ہے۔ ان کے بیٹوں کو اب اتنا بھی خیال نہیں آتا تھا کہ ہر روز کم از کم ان میں سے ایک ہی ان کے کمرے میں آ کر سو جائے تاکہ اگر انہیں رات میں کوئی ناگہانی تکلیف ہو جائے تو انہیں سنبھال ے۔ وہ یہ بات ان سے کہنا نہیں چاہ رہی تھیں لیکن اس بات کو شدت سے محسوس کر رہی تھیں۔ صرف میرا چھوٹا بھائی ان کے قریب زیادہ دن رہا۔ وہ کاروبار کر رہا تھا اور گاؤں میں ہی رہ رہا تھا۔ اس نے ماں کی بے حد خدمت کی۔ جب ان کی طبیعت نازک ہوتی تو وہ رات بھر اٹھ اٹھ کر ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ لیکن وہ اس کمی کو کیسے پورا کر سکتا تھا جو کمی وہ دوسرے بیٹوں سے وابستہ توقعات کے پورے نہ ہونے کے سبب محسوس کرتی تھیں۔

شاید وہ یہ سوچنے لگی تھیں کہ کیا اب ان کی حیثیت اتنی سی باقی رہ گئی تھی کہ کسی دن ان کی آنکھ بند ہو جائے اور وہ ان کی آخری رسوم کی ادائیگی کر کے زندگی کے سفر میں آگے بڑھ جائیں۔ یہ بات کوئی خاص مسئلہ بھی نہیں تھی لیکن ان کے لئے دلچسپ بات تو ایک ماں اور اس کی اولاد کے درمیان کے رشتے کا اس مقام پر پہنچ جانا تھا۔ ادھر پندرہ بیس برسوں سے تو ان کا زیادہ تر وقت دنیا کو سمجھنے میں ہی کٹتا تھا۔ وقت بھی کچھ ایسا آیا تھا کہ روز نئی نئی چیزیں سامنے آ رہی تھیں۔

لوگ ان کے اکیلے رہنے کے اسٹائل کو لے کر ان کی با رعب شخصیت کا ذکر کرنے لگے تھے۔ حالانکہ ان کے اندر رعب والی بات ذرہ برابر بھی نہیں تھی لیکن عزت نفس کا احساس کہیں گہرائی میں اتنا مضبوط تھا کہ اس کا عکس ان کی شخصیت میں صاف نظر آتا تھا۔ کسی بہو کی ہمت نہیں تھی کہ ان کے سامنے اونچی آواز میں بات کرے  اور جس میں تھی اس کے اوپر ان کے  گھر کا دروازہ بند تھا۔ اس سلسلے میں وہ کسی مصالحت کے لئے تیار نہیں تھیں۔ بیٹے کبھی کسی مسئلہ پر اونچی آواز میں بول بھی دیتے تو بہت پیار سے تھوڑی ہی دیر میں وہ انہیں زمین پر اتار لاتی تھیں۔ اس کے بعد وہ وہی چھوٹا بچہ بن جاتا۔

جنازے والا واقعہ ان کے انتقال سے دو تین ماہ پہلے کا ہے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ خاص طور سے برآمدے میں آ کر بیٹھی تھیں۔ اس دن  گاؤں میں ایک دوسری بزرگ خاتون کی وفات ہوئی تھی۔  انہوں نے پہلے سے ہی معلوم کر لیا تھا کہ جنازہ کب جائے گا۔

میں اندر سے نکلا تو مجھے دیکھ کر بولیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ میں ہی جا رہی ہوں۔

میں سناٹے میں آ گیا کہ یہ اپنی موت کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

وہ جنازے کو اتنے انہماک سے دیکھ رہی تھیں کہ جب وہ دروازے کی اوٹ میں جانے لگا تو بائیں طرف جھک کر دیکھنے لگیں  اور تب تک دیکھتی رہیں جب تک وہ اگلے محلے کے مکانوں سے آگے کی طرف نہ چلا گیا۔ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں تو ان کے چہرے پر ایک گہرا ٹھہراؤ تھا۔

میری پریشان نظروں کو دیکھ کر بولیں۔

اور کیا ؟ مجھے بھی تو لوگ اسی طرح لے جائیں گے۔

مجھے محسوس ہوا کہ یہ سفر بھی اب ان کے لئے صرف ان کے ادھر ادھر چلنے پھرنے کے دوسرے قدموں کی طرح ایک معمول کا قدم تھا۔

ایک دن وہ بستر سے اٹھیں اور زمین پر پاؤں اتارے اور چپل پہننے کی کوشش کی تو انہیں محسوس ہوا کہ ان کے پاؤں میں کچھ بے حسی پیدا ہو گئی ہے۔ پاؤں اوپر کھینچ کر قریب سے دیکھا تو اس پر سوجن آ گئی تھی۔ انہیں احساس ہو گیا کہ ان کی منزل قریب تر آ رہی ہے۔ اس کے بعد وہ کچھ بے چین رہنے لگیں جس کی وجہ خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے انہیں محسوس ہوا کہ ان کے دل و دماغ پر کچھ بوجھ سا ہے۔ غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ کچھ باتیں تھیں جو انہیں پریشان کر رہی تھیں۔ کچھ ایسی باتیں جنہیں وہ اپنے ساتھ لیکر مرنا نہیں چاہتی تھیں۔

بشیر عالم نے ایک گہری سانس لی اور آگے بولے۔

اپنی زندگی بھر انہوں نے کوئی جائداد نہیں بیچی۔ جو کچھ بیٹوں نے اپنی مرضی سے دیا اس پر صبر کیا۔ لیکن وہ اپنے غصے کو اپنے ساتھ لے کر مرنا نہیں چاہتی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ غصہ بد دعا میں تبدیل ہو جائے گی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ماں باپ کی بد دعا وہ نہیں ہوتی جو وہ اپنے منھ سے بول دیتے ہیں ، ماں باپ کی بد دعا وہ شکایت بن جاتی ہے جو ان کے دل میں رہ جاتی ہے۔ انہوں نے اس پر کافی سوچا اور اس کے بعد اپنے ایک پوتے کو بلا کر اپنی ایک وصیت لکھوائی جس کے ذریعے وہ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سزا دے کر اپنے شکوے کے اثرات کو ختم کر دینا چاہتی تھیں۔

رات میں انہوں نے اپنے ایک پوتے کو بلوا کر یہ وصیت لکھوانے کے بعد اسے ہدایت کر دی تھی کہ وہ اس کے بارے میں کسی کو نہ بتائے اور جس دن ان کا انتقال ہو،اسی دن یہ تحریر ان کے بیٹوں کو دے دے۔

اس تحریر میں انہوں نے اپنے اس بیٹے کو مخاطب کیا تھا جو پروفیسر تھے اور اب ریٹائر ہونے والے تھے۔ "بیٹے خورشید، تم نے مجھ سے ایک بار پوچھا تھا کہ انسان بڑا ہے یا وقت اور تم نے کہا تھا کہ تمہاری سمجھ یہ کہتی ہے کہ وقت برا ہے۔ میری زندگی پورے سو سال کی ہونے جا رہی ہے۔ میں نے تمہاری باتوں پر بہت غور کیا اور مین سمجھتی ہوں کہ انسان بڑا ہے ، وقت نہیں ، کیونکہ انسان اپنی مرضی سے بدل سکتا ہے لیکن وقت اپنی مرضی سے نہیں بدل سکتا۔ وہ متحرک ہوتے ہوئے بھی ایک پتھر کی طرح ہے۔ میں نے تاریخ کے سو سال صرف دیکھے نہیں بلکہ جئے ہیں۔ تاریخ پیڑ کی طرح بڑھتی رہی اور میں بیل کی طرح اس پر چڑھتی رہی۔ میں نے تاریخ کے حسن کے کئی رنگ دیکھے ہیں اور اسے دیکھتے دیکھتے اپنی پوری عمر کاٹ دی۔ جو لوگ تبدیلیوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ دکھی رہتے ہیں۔ تم لوگ ان کتابوں کو اور ان فلسفیوں کو دوبارہ پڑھنا جن پر دن رات بحثیں کرتے تھے  تو تم کو وہ کتابیں اور گہرائی سے سمجھ میں آئیں گی اور جب تم لوگ میری زندگی پر غور کرو گے تو تم لوگوں پر ان کتابوں کا کچا پن بھی کھلے گا کیونکہ میں نے ان مصنفوں سے زیادہ لمبی، پیچیدہ اور بدلتی ہوئی زندگی جی ہے اور یہ تحریر اس مقام سے لکھ رہی ہوں جہاں پہنچ کر ان میں سے کسی نے  زندگی کو نہیں لکھا۔ وقت چلتا رہے گا کیونکہ اسے اختتام میسر نہیں۔ میں یہیں رک جاؤں گی کیونکہ میری عمر پوری طرح خرچ ہو گئی۔ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ ذرے کی طرح چمک رہا ہے اور میرے سامنے وقت تہی دامن ہو چکا ہے۔ اب میرے لئے وقت ایک ایسا ہمسفر مداری ہے جو دنیا کو مصروف رکھنے کے لئے ڈگڈگی بجاتا رہے گا اور تماشا دکھاتا رہے گا۔ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

یہ دنیا کیسی ہے ؟ یہ دنیا ہر انسان کے لئے ویسی ہی ہے جیسی وہ اس کے مشاہدوں اور تجربوں میں نظر آئی ہے۔ اسی لئے آج تک کوئی دنیا کی تصویر نہیں بنا پایا۔ یہ دنیا ایک آئینہ ہے اور ہر شخص کو اس میں اپنا ہی باہری حصہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر شخص اس دنیا کا ہی ایک حصہ ہے۔ اور جس قدر ہر شخص پراسرار ہے اسی قدر یہ دنیا بھی پر اسرار ہے۔ رشتہ دار صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے وقت باقی سارے رشتے اسی کے تابع ہیں۔ تم وقت کی گود میں کھیلتے ہوئے ایک بچے ہو۔ ہر لمحے کو ماں کی گود سمجھو۔ یہی میری نصیحت ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ تمہاری پرورش کا لمحہ ہے اس سے انکار مت کرو۔ اور تمہیں میری خود اعتمادی کا راز مل جائے گا۔

میرے مرنے کے بعد تم سب بہت روؤ گے یہ بھی میں دیکھ چکی ہوں۔ میں نے مرنے والی ماؤں کے بچوں کو روتے دیکھا ہے۔ یہ دنیا ہے۔ اس میں یہ سب بار بار ہوتا ہے۔ تمہیں میرے اٹھ جانے سے کسی بوجھ کے ختم ہونے کا احساس نہیں ہو گا۔ میں کتنی بد قسمت ماں ہوں کہ تم لوگوں نے مجھ سے دنیا کا یہ سب سے میٹھا احساس چھین لیا کہ میں تم لوگوں کی ذمہ داری تھی۔ تم نے مجھے آزاد کر کے دراصل ایک ماں کو اس کی ممتا کے احساس سے آزاد کر دیا تھا۔ میں صرف بیوہ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بعد میں اپنے بچوں سے آزاد ہو کر کچھ اور بھی ہو گئی تھی۔ لیکن اس میں تمہارا کوئی رول نہیں۔ یہ بھی وقت کا ہی ایک روپ تھا۔ اب تم سب لوگ میرے لئے دنیا کے سامان اور دنیا کے لوگوں کی طرح ہو اور وہ بھی ایسے سامان کی طرح جن کی مجھے اس عمر میں کوئی ضرورت نہیں۔ میرے لئے تو وہ چند کھیت کافی ہیں جو تم لوگوں نے میرے لئے مخصوص کر رکھے ہیں۔

مجھے وقت نے ایسا کڑوا گھونٹ پلایا کہ میں کئی برس سے دراصل صرف ایک زندہ روح بن کر رہ گئی ہوں جو اس دنیا کو ایک مسافر کی طرح دیکھتا ہے۔ اسی لئے جب بھی جسمانی تکلیف  ہوتی ہے اور جی گھبراتا ہے تو کہتی ہوں کہ اللہ مجھے اٹھا کیوں نہیں لیتے۔ یہ بڑا حقیقی جملہ ہوتا تھا  لیکن تم لوگوں نے اسے کبھی دھیان سے نہیں سنا۔ تم لوگوں نے اسے ہمیشہ ایک رٹا رٹایا جملہ سمجھا۔ انسان اس عمر میں یہ جملہ کہ کر دنیا سے بدلہ لیتا ہے اور بتاتا ہے کہ دراصل اسے اب دنیا کی ضرورت نہیں ہے۔

کل سے یا دوچار دنوں کے بعد سے یہ برآمدہ اور یہ آنگن سونے ہو جائیں۔ پھر یہ نئے سرے سے آباد ہوں گے۔ یہی ہیں میرے جواب تمہارے ان چند سوالوں کے جو تم میری عمر کی ایک بوڑھی عورت سے جاننا چاہتے تھے۔ میرے دل پر یہ سوالات ایک مدت سے بوجھ بنے ہوئے تھے اس لئے آج انہیں لکھوا کر میں نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا۔ بیٹا ایک بات اور، میں نے کبھی کبھی محسوس کیا ہے کہ میں اپنی روٹی، کپڑے اور دیگر چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی اپنے ان بیٹوں   پر بوجھ محسوس ہوئی جن کے پاس کروڑوں کی جائداد اور آمدنی ہے۔ میں نے ان کو کچھ مانگنے پر سوچتے ہوئے دیکھا۔ مجھے ان کی یہ بزدلی پسند نہیں آئی۔ اپنے اخراجات سے اس قدر مت ڈرو۔ یہ میری آخری نصیحت ہے۔ اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ایسے ہی ہے جیسے غذا میں وٹامن کی کمی جو انسان کو بیمار کر دیتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر تکلیف نہیں ہوئی لیکن تم لوگوں کے لئے تشویش ضرور ہوئی۔ خیر میرا وقت میرے لئے اور تم لوگوں کا وقت تم لوگوں کے لئے۔ جیتے رہو۔ خوش رہو۔ تمہاری اولادیں خوش رہیں۔

اور میں نے اپنے حج کے موقع پر خرید کر لایا ہوا کفن خوشنودہ کی امی کے انتقال کے موقع پر بھجوا دیا تھا اس لئے کہ اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے اور میں اپنی اس خواہش کا بوجھ تم لوگوں پر ڈالنا نہیں چاہتی تھی کہ میں اس غریب کے لئے کفن کا کپڑا بھیج دینا چاہتی ہوں۔ اس لئے حج والے کفن کے کُڑے کی  میرے بکسے میں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنا۔ میں نے اپنے کفن کے لئے الگ سے پیسے رکھ دئے ہیں اسی بکس میں ایک سرخ کپڑے میں۔ میری قبر تیار کرنے کے اخراجات بھی اسی سے پورے ہو جائیں گے اس کے علاوہ  اس میں سے کچھ پیسے بچیں گے وہ فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے۔  اور میرے چالیسواں کے لئے اسی بکسے میں نیچے ایک تھیلے میں  پیسے رکھے ہوئے ہیں وہ سارے پیسے چالیسویں میں خرچ کر دینا اور اس سے ایک پیسہ بھی زیادہ خرچ نہیں کرنا یہ میری سخت وصیت ہے۔ یہ پیسے پوری بستی کو کھانا کھلانے کے لئے کافی ہوں گی لیکن باہر سے تم لوگوں کو اپنے ان خاص لوگوں اور دوستوں کو بلانے کی اس میں گنجائش نہیں ہو گی جن کو بڑی تعداد میں تم لوگوں نے اپنے والد کے انتقال کے وقت بلایا تھا۔ یاد رہے کہ میری یہ وصیت کسی حال میں نہ توڑی جائے۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں بس وجہ صرف یہ ہے کہ یہ تم لوگوں کی سزا ہے۔ میری جائداد میری اولاد برابر برابر بانٹ لے اور میرے مہر کے پیسے سے برگد والی (پرانے برگد کے پیڑ کے قریب والے) جو زمین خریدی گئی تھی اس کی آمدنی میں مسجد میں چراغ جلانے کے لئے بھیجتی تھی، وہ جاتی رہے گی۔ میں نے ایک ایک کر کے ان تمام لوگوں سے اپنے قصور معاف کروا لئے ہیں جن کو میری زندگی میں کبھی بھی کوئی تکلیف پہنچی تھی پھر بھی لوگوں کو بتا دیا جائے کہ اگر مجھ سے کوئی بھول چوک ہو گئی ہو تو اسے معاف کر دیں۔ میں نے اپنے تمام بچوں اور بچیوں کا دودھ بخش دیا ہے اور میرے کسی بچے کی کسی بات سے اگر کبھی کوئی تکلیف پہچی تو اسے بھی معاف کر دیا ہے۔ میرے اوپر کسی کا کوئی قرض باقی نہیں ہے لیکن اگر کوئی کسی قرض کا ذکر کرے تو میرے زیورات میں سے کچھ زیور فروخت کر کے ادا کر دیا جائے اور باقی میری بہوؤں میں بانٹ دیا جائے کیونکہ ان میں سب نے کبھی نہ کبھی میری خدمت کی ہے۔ اور  میرے کپڑے، فرنیچر اور برتن غریب غربا میں تقسیم کر دئے جائیں۔ نور النساء

میت رکھی ہوئی تھی۔ جنازے کی تیاری چل رہی تھی۔ کفن کے لئے سب نے پیسے نکالے تھے لیکن بڑے بیٹے نے سب کو روک کر خود پیسہ دے دیا تھا اور ان کا چچا زاد بھائی کفن اور تدفین کے سامان لانے کے لئے جا چکا تھا اس کے ساتھ تیسرا بیٹا بھی گیا تھا۔ اسی بیچ اس لڑکے نے وہ کاغذ بڑے بیٹے کو دیا جس پر اس کی دادی نے وصیت لکھوائی تھی۔ بڑے بیٹے نے وصیت کو پورا پڑھا۔ دوسرے دیکھ رہے تھے اور جاننا چاہ رہے تھے۔ وصیت پڑھ کر ان کی خالی آنکھیں دیوار پر جا ٹکیں۔ بدن میں حرکت نہیں جیسے لکڑی ہو گئے ہوں۔ سب ان کا منھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے وصیت اپنے سے چھوٹے بھائی کی طرف بڑھا دی۔ وصیت خاموشی کے ساتھ اور ہر ایک کو خاموش کرتی سارے بیٹوں کے ہاتھوں میں گردش کرتی ہوئی سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ اور وہیں جا کر ٹھہر گئی۔

مجھے ان کا یہ جملہ بے تحاشہ یاد آیا تھا کہ ” مجھے لگ رہا ہے کہ یہ میں خود جا رہی ہوں۔”

"جب اماں کا جنازہ مسجد کے سامنے سے اٹھ کر ادھر سے گزرے گا تو تم اس کی تصویر لینا۔” میں نے ایک لڑکے کو کیمرہ دے کر ہدایت کر رکھی تھی۔ جب ان کا جنازہ اٹھا یا گیا تو ان کا بدن اتنا ہلکا محسوس ہوا کہ کندھے پر کسی شئے کے ہونے کا احساس تک نہیں ہوا۔ وہ اسی راستے چلی گئیں جس راستے پر  اپنی عمر کے آخری حصوں میں جنازوں کو جاتے دیکھا کرتی تھیں۔

میں نے وہی تصویر یہاں لگا دی تھی۔ اور اس کے نیچے بھی وہی لکھ دیا  تھا جو ان کی قبر کے کتبے پر لکھا گیا تھا۔ 1911 تا 2011

قبرستان سے واپس آنے سے لے کر چالیسواں کے چند روز پہلے تک ہمیں کیا پریشانی ہوئی یہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میت کے دن تو جیسے تیسے وقت ٹل گیا کہ مہمانوں کو پڑوسی بلا لے گئے تھے لیکن اتنے بڑے خاندان کے چالیسواں میں ان لوگوں کو نہ بلایا جائے جو بلائے جانے کی توقع رکھتے تھے یہ شرط پہاڑ کی طرح کھڑی ہو گئی تھی۔ ہماری سانسیں جیسے رک سی گئی  تھیں۔

 

اس دن قبرستان سے واپس آنے اور میت میں شریک ہونے کے لئے آئے ہوئے عزیز و اقارب سے فارغ ہونے کے بعد میں انگن میں جا کر ایک کنارے پڑے تخت پر ایک تکیہ اور چادر ڈال کر لیٹ گیا۔ میرا دل بہت اداس تھا۔ میں نے آسمان پر نظر ڈالی۔ کہکشان آب و تاب سے ایک ابدی سڑک کی طرح دمک رہی تھی۔ اس کا وجود ایک لامتناہی کنارے سے ظاہر ہوا تھا اور ایک لامتناہی کنارے میں ختم ہو رہا تھا۔

بشیر عالم کی باتیں سنتے سنتے مجھے اس تصویر میں کفن کے اندر ایک ایسی بوڑھی خاتون دکھائی دینے لگی جو سو سال کی زندگی گزار چکی تھی لیکن اب بھی پورے آب و تاب کے ساتھ زندہ تھی اور اپنے بچوں پر ماں جیسی حکمرانی کر رہی تھی۔

میں نے بشیر عالم کو دیکھا جو اس داستان کو بیان کرتے کرتے خاتمہ کے قریب آ کر کسی قصور وار بچے کی طرح گھگیانے لگے تھے۔ انہوں نے بغیر کچھ بولے اٹھ کر ڈرائنگ روم کی ایک الماری کے پٹ کھولے اور سب سے اوپر کے خانے سے ایک پتلی سی کتاب جیسی چیز نکالی اور اسے لا کر سامنے بیٹھ گئے۔ اسے بوسہ دیا، کھولا اور اس کے اندر موجود دو تین صفحات پر ہتھیلی رکھتے ہوئے بولے۔ یہ میری ماں کی لکھوائی ہوئی وصیت ہے  اسے سن کر آپ پوری بات سمجھ جائیں گے۔ یہ کہ کر وہ اس تحریر کو پڑھنے لگے  اور پڑھنے سے پہلے بتایا:

اس کی اوریجنل کاپی میرے بڑے بھائی کے پاس ہے اور اس کی ایک ایک کاپی ہم سب بھائیوں کے پاس ہے۔ انہوں نے پوری تحریر پڑھ کر سنائی اور پڑھنے کے دوران ان پر کئی بار رقت طاری ہو گئی۔ پوری تحریر سنانے کے بعد بولے۔

ماں کی اس وصیت کو پڑھ کر ہم سب سناٹے میں آ گئے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے آنکھ تک نہیں ملا پا رہے تھے۔  لیکن ابھی چالیسواں کے چند دن باقی تھے اور ہم سب اکٹھا ہو کر اسی مسئلے پر سوچ میں ڈوبے تھے کہ میرے سب سے چھوٹے بھائی پر سوچتے سوچتے دورہ سا پڑ گیا۔ اور وہ کھڑا ہوا تو اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔

وہ اچانک چیخ پڑا۔ انہوں نے ایسی وصیت کر دی ہے تو کیا ہو گیا۔ وہ ہمیں بچپن میں تھپڑ نہیں مارا کرتی تھیں۔ تو اس کے بعد کیا کرتی تھیں۔ وہ سب کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ اور اچانک ہم سب روہانسے ہو گئے اور ایک ساتھ اتنا روئے کہ زندگی میں اتنی ہچکیوں کے ساتھ کبھی نہیں روئے تھے۔ جب سب رو لئے تومیں نے وصیت کا کاغذ لے کر چہرے پر رکھا اور وہ میرے آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ یہ انہیں آنسوؤں کے داغ ہیں۔

بشیر عالم نے وصیت کی کتابچہ گھما کر دکھائی۔ تحریر کی روشنائی بھیگ کر پھیل پھیل گئی تھی۔

ہم جیسے دوبارہ بچے بن گئے تھے اور ہم نے وصیت کی اس شرط کو زبردستی بھلا دیا۔ اور کاغذ کو سینت کر رکھ دیا لیکن وہ اب ایک ایسی دستاویز ہے جسے ہم اکثر نکال کر پڑھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ اس کو پڑھنے سے ہمارے ایمان پر گزرتے وقت سے پڑنے والا غبار صاف ہو جاتا ہے۔ اوپر سے یہ تصویر بھی ہمیں یاد دلاتی رہتی ہے کہ ہم کو اسی طرح ایک دن جانا ہے۔ اس تحریر اور اس تصویر کی وجہ سے ہمیں آج بھی لگتا ہے کہ ہماری تربیت دینے والی شفیق ماں اس گھر میں ہمہ وقت موجود ہیں اور ہمیں وقت تبدیل ہوتا ہوا تو دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے تسلسل کے ٹوٹنے پھوٹنے کا احساس نہیں ہوتا ۔ رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ یہ کہانی ہمارے بچوں کو بھی معلوم ہو چکی ہے اور وہ اکثر ہم سے اپنی دادی کے متعلق کچھ نہ کچھ پوچھتے رہتے ہیں۔ اتفاق سے چالیسویں کے دن لوگوں کو اس وصیت کے بارے میں معلوم ہوا تو کچھ بزرگ اس بات پر بہت بہت ہنسے تھے۔

مجھے سنتے سنتے تصویر کو ایک بار پھر دیکھنے کا خیال آیا۔ تصویر کو دیکھتے ہوئے مجھے کچھ ایسے نظر آ رہا تھا جیسے کوئی ڈولی مسلسل سڑک پر آگے بڑھ رہی تھی اور وقت دونوں طرف ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

٭٭٭

تشکر: فیس بک، اردو افسانہ گروپ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے