پارچہ، اک شعر بے چارہ ۔۔۔ ستیہ پال آنند

…………….عابدہ وقار کی نذر……….

پارچہ الوان، ست رنگا، چمکتا
بھیگتے رنگوں کی ململ
دھوپ اور برسات کا جیسے ملن ہو
کھٹا میٹھا، آسمانی، سبز، نیلا، زرد، اُودا
پارچہ رنگین، بو قلمون، روشن

پارچہ
جذبات کے سب رنگ
اپنے دل کی دھڑکن میں سمیٹے، شاعرِ ادراک کے
جب ذہن میں ابھرا تو اک تصویر سا تھا
یوں لگا شاعر کو جیسے
سانس کی آشفتگی، شوریدگی، حساسیت
رنگوں کی بارش میں برہنہ تن کھڑی
سیراب ہوتی جا رہی ہو

پارچہ
اک جذبۂ خوش کن تھا، اور تصویر سا ابھرا
تو شاعر نے عجب اک تجربے کے عنکبوتی جال میں
الجھا کے اس کو
تولیے سا ہاتھ میں لے کر نچوڑا
رنگ سارے۔۔ ۔۔ اور ان کی
گنگا جمنی، شعلہ وش، زر بفت رنگینی
کہ جو وجدان کے اظہارکی معروضیت تھی
یوں نچوڑی اور بہا دی
جیسے یہ اشکال سب لاحق، اضافی، ثانوی ہوں
اور ان کا پارچے کی بیخ و بُن سے انخلا ہی شاعری کا ما حصل ہو

رنگ سارے دھُل گئے
قوسِ قزح مایع ہوئی اور بہہ گئی

رنگ جب غائب ہوئے، تو
لفظ و معنی کی ہنر مندی کے ماہر
شاعِرِ ادراک نے اس کو نفی، اثبات جیسے
ہیو لائی، غیر مادی فلسفے سے بھر دیا
رنگین، خوش کُن پھول کو کاغذکی میَلی کترنوں سے جَڑ دیا
پھر قافیہ بندی کے مکڑی جال میں الجھا کے گویا
شاعری کا فرض پورا کر دیا

پارچہ
خاکستری سا پارچہ
جذبے کی مائیت سے عاری، خشک، بے رس
رمز، تشبیہ و علامت سے مگر بوجھل
ہمارے سامنے اک شعر کی پژمردہ صورت میں کھڑا ہے
مالکِ مفہوم و معنی
غالبِ باریک بیں ٕ نے
کھردرا، شکنوں کا مارا چیتھڑا سا
جو ہمارے سامنے پھیلا دیا ہے

اس کی تفسیریں لکھے جائیں گے ہم
لیکن چمکتے پارچے کے رنگ تو اب دھُل چکے ہیں

پارچہ، اک شعر بے چارہ!!
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے