نوکِ قلم سے حدِ نگاہ تک ۔۔۔ پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی

 

 

ایک صاحب وقفے وقفے سے ہم نشیں کو پان پیش کر رہے تھے اور بے تکان باتیں کیے جا رہے تھے۔ محفل کے اختتام پر کسی نے دریافت کیا۔ آپ غوری صاحب کو اس قدر اِصرار کے ساتھ بار بار پان کیوں کھلا رہے تھے ؟

’’بات یہ ہے کہ سامع کے منہ میں پان ہو تو قطعِ کلام کا خطرہ نہیں رہتا۔ ‘‘— میز بان نے مسکرا کر جواب دیا۔

منہ بند کرنے کی یہ خوب صورت کوشش ایک ادبی محفل میں ہم نے بھی دیکھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے زیر اہتمام کسی سمینار میں اردو افسانے کی صورتِ حال زیرِ بحث تھی۔ پروفیسر قاضی افضال حسین نئے افسانے نگاروں کے یہاں زبان کی خامیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ غضنفر صاحب سامنے موجود تھے۔ ضروری تھا کہ وہ تحمل سے سنیں اور سننے کے بعد بھی خاموش رہیں۔ اس کے لیے افضال صاحب نے نہایت دل فریب تمہید باندھی۔ فرمایا: میرے دوستوں اور ہم عصر افسانہ نگاروں میں غضنفر واحد شخص ہیں جو اپنی تنقیدسن سکتے ہیں اور یہ ان کا بڑا وصف ہے کہ وہ اسے برداشت بھی کر لیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ معطر پان بڑے سلیقے سے پیش کیا گیا تھا لیکن غضنفر اتنے بھولے بھی نہیں کہ ایک گلوری کی خاطر آزادیِ اظہار کے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ تقریر کے اختتام پر اٹھے اور پوری شدت کے ساتھ اپنا دفاع کرتے ہوئے، پیش رو مقرر کی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ غضنفر کو بہلا پھسلا کر خاموش کیا جا سکتا ہے۔

قارئین اس واقعے سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ غضنفر منفی رائے برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ادھوری سچائی ہے۔ نجی محفلوں میں اکثر غضنفر کی تحریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ وہ جب کوئی افسانہ، ناول یا خاکہ لکھتے ہیں تو خود اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ دوستوں کو سنائیں۔ ان کے پورے پورے ناول ہم لوگوں نے قسطوں میں سنے ہیں اور پھر اس کے بعد اُن پر گفتگو بھی ہوئی ہے جسے انھوں نے ہمیشہ غور سے سنا اور خوش دِلی سے تعریفی کلمات قبول کیے۔ ایسے موقعوں پر وہ اپنے جذبات کو چھپانے کی کوشش ہر گز نہیں کرتے۔ ایک میٹھی سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر مسلسل رقص کرتی رہتی ہے۔ ہلکی پھلکی تنقید کا بھی وہ برا نہیں مانتے بلکہ مشورہ ان کے نقطۂ نظر سے مناسب ہو تو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہو تو جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں۔

غضنفر کے خاکوں کے حوالے سے اکثر یہ بات کہی گئی ہے کہ اپنے ممدوح کے یہاں انھیں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اس اعتراض کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ میں تاریک پہلوؤں کو روشن کرنے کے لیے خاکے نہیں لکھتا۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مرقّع نگاری نہیں کرتے، صفحۂ قرطاس پر فصلِ گُل اگاتے ہیں۔ جی چاہے تو اسے اپنوں سے ان کا اظہارِ الفت کہہ لیجیے۔

واضح ہو کہ اظہارِ محبت میں غضنفر جرأت آزما ہی نہیں خوش نصیب بھی ہیں کہ انھیں محبت کا جواب محبت سے ملا ہے۔ یہ بات ان کے خطوط، گواہوں کے بیانات، قاضیِ شہر کے خطبے اور اُن کی رفیقۂ حیات کے خاکے کی روشنی میں بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے۔

حال ہی میں غضنفر کا شعری مجموعہ ’’آنکھ میں لکنت‘‘ شائع ہوا ہے۔ جس کا انتساب انھوں نے شریکِ حیات بشریٰ کے نام کیا ہے۔ حمزہ کا لونی علی گڑھ میں واقع اُن کے گھر کے باہر لگی نیم پلیٹ پر اور خود غضنفر کی کتابِ زندگی کے سرورق پر یہی نام درج ہے۔

بیگم سے ڈرنا کوئی ایسی بات نہیں جس کا خاص طورسے ذکر کیا جائے، تھوڑا بہت سبھی ڈرتے ہیں لیکن غضنفر کا حال یہ ہے کہ بیگم نے کہا۔ چلیے اور وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ محترمہ نے اشارہ کیا، ابھی نہیں، ذرا دیر بعد اور غضنفر صاحب اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئے۔ یہ پُر لطف تماشا ہم نے کئی بار دیکھا اور سمجھا کہ وہ پوری طرح بیگم کی مٹھی میں ہیں لیکن افسوس کہ ہمارا یہ تاثر بالآخر غلط ثابت ہوا۔ انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تو یہ کھلا کہ بھابی ہدایت نہیں دیتیں، یاد دلاتی ہیں: کب دوا کھانی ہے، کب چیک اَپ کرانا ہے، کب سونا ہے اور کب جاگنا ہے۔ چوں کہ یہ سب غضنفر ہی کے ایما پر ہوتا ہے اس لیے وہ ذہن پر زور دیے بغیر قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔

ایک مثالی محبت کرنے والے جوڑے سے ان کی شادی کی پچیسویں سال گرہ پر کسی نے پوچھا۔ آپ کی خوش گوار اِزدواجی زندگی کا راز کیا ہے ؟

شوہر نے جواب دیا۔ ہم دونوں نے آپس میں اپنے اپنے کام بانٹ رکھے ہیں۔

’’مثلاً۔ ..؟‘‘ سوال کرنے والے نے وضاحت چاہی۔

مثلاً یہ کہ عالمی ورلڈ کپ کے نتائج کیا ہوں گے، کرکٹ کا کون سا کھلاڑی کب کیسی کار کردگی کا مظاہرہ کرے گا، عالمی معیشت پر یورپ کی نئی اقتصادی پالیسی کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے ؟وغیرہ وغیرہ مسائل پر غور و فکر کی ذمّے داری میں نے لے رکھی ہے اور گھر کو کس طرح چلنا چاہیے، بچوں کو کیا کرنا چاہیے اور مجھے کس طرح رہنا چاہیے، اس نوع کے چھوٹے موٹے معاملات بیگم کے سپرد کر رکھے ہیں۔ جو وہ کہتی ہیں، ہم کرتے ہیں اور ہم جو سوچتے ہیں، وہ سنتی ہیں۔ آرام سے گزرتی ہے۔

معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ غضنفر بھی اسی اصول پر کاربند ہیں۔ افسانہ لکھنا ہے، ناول تحریر کرنا ہے، خاکہ کھینچنا ہے، سیمنار کے لیے مقالہ لکھنا ہے، این سی ای آر ٹی کے لیے مواد فراہم کرنا ہے، یوجی سی اکیڈمک اسٹاف کالج میں لیکچر دینا ہے، یہ سب ان کا دردِ سر ؛ اور سولن میں گھر بنانا ہے، علی گڑھ میں مکان تعمیر کرانا ہے، دلی میں فلیٹ خرید نا ہے اور دعوتوں کا اہتمام کرنا ہے — یہ سارے کام بشریٰ غضنفر کے ذمّے۔ تقسیمِ کار کا یہ وہ نسخہ ہے جس پر عمل کر کے ہم بھی اپنے گھروں کو جنت نشاں بناسکتے ہیں !

مذاق کی اِن باتوں کو کہیں کوئی سچ نہ سمجھ لے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے ہو گئے تو ’’میں اور تو‘‘ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ کوئی با اختیار ہے، نہ بے اختیار۔ بس ایک احساسِ ہمدمی ہے کہ جس نے حیات کے لمبے سفر کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور زندگی ہے کہ دھوپ چھاؤں سے بے نیاز، محبت کے خُنک سائے تلے گزری چلی جا رہی ہے۔ دیکھنے والے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں، مثالی جوڑے ایسے ہوتے ہیں۔

کہنے کو ان کا گھر دہلی اور علی گڑھ دونوں جگہ ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ دہلی کا فلیٹ ملازمت کی مجبوریوں کی وجہ سے خرید نا پڑا۔ ورنہ جسے گھر کہتے ہیں وہ تو علی گڑھ ہی میں ہے۔

وہ اکثر دہلی سے علی گڑھ آتے جاتے رہتے ہیں، کبھی کار سے کبھی، ٹرین سے۔ عینی شاہد ین کا بیان ہے کہ ایک چھوٹا سا سفری بیگ کاندھے سے لٹکا کر وہ ہائر کی ہوئی کار یا اے سی سکنڈ کلاس کے ڈبّے میں یوں سوار ہوتے ہیں جیسے شاہین باغ کے فلیٹ سے نکل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے نوم چومسکی کمپلکس میں واقع اپنے دفتر کے لیے آٹو رکشہ میں بیٹھے ہوں اور پندرہ بیس منٹ بعد منزل پر پہنچنے والے ہوں۔

ایک روز کسی عزیز نے ہانپتے کاپنتے ہوئے یہ اطِّلاع فراہم کی کہ انھوں نے غضنفر کو پرسوں دہلی اسٹیشن پر کھڑی ای ایم یو میں سوار ہوتے دیکھا تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر حیران ہو رہے تھے کہ دلّی اور علی گڑھ کے درمیان چلنے والی اس لوکل ٹرین میں دودھ کا کاروبار کرنے والوں کے شور، تمباکو کے دھوئیں، دودھ کے کنستروں سے اٹھنے والی بو اور طرح طرح کی آوازوں کے درمیان اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ کے پروفسیر ڈائریکٹر، نامور فکشن رائٹر، شاعر اور خاکہ نگار غضنفر نے کس طرح سفر کیا ہو گا!

ان کی حیرت کو دور کرنے کے لیے ’’مقدمۂ شعرو شاعری‘‘ سے مطالعۂ کائنات کی بحث نکال کر انھیں دکھانی پڑی۔ تب کہیں جا کر اُن کی کچھ تسلّی ہوئی۔ غنیمت ہے، انھوں نے یہ نہیں پوچھا کہ غضنفر کب اور کس نظم میں دودھیا ٹرین کے ماحول کی عکاسی کریں گے ؟

تفنّن بر طرف، واقعہ یہ ہے کہ بے جا احساسِ تفاخر سے غضنفر کا کوئی واسطہ نہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کی طرزِ رہایش اختیار کرنے والوں کی طرح زندگی کی تمام آسایشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن انھوں نے آرام دہ زندگی کی آلائشوں سے اپنے آپ کو بچا رکھا ہے۔

نام و نمود کی خواہش اور آسمان کو چھونے کی آرزو بعض اوقات اپنوں سے ہی نہیں، اپنے آپ سے بھی ہمیں اس قدر دور کر دیتی ہے کہ جب لوٹنے کا خیال آتا ہے تو زندگی کی شام سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ یہ بات ہم میں سے بیش تر افراد جانتے ہیں مگر موقع ملتا ہے تو بھول جاتے ہیں۔

غضنفر بھولنا نہیں جانتے، دوستوں کو یاد رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انھیں بھی یاد رکھا جائے۔ جن دِنوں وہ سی آئی ایل کے لکھنؤ سینٹر میں پرنسپل تھے، کسی نہ کسی پروجیکٹ کے تحت دہلی، علی گڑھ، الٰہ آباد، پٹنہ، گیا اور لکھنؤ کے احباب کو اکٹھا کر لیا کرتے تھے۔ دن میں کام ہوتا اور رات میں ادبی محفلیں منعقد ہوتیں۔ دعوت اور اِصرار کے باوجود بیرونِ علی گڑھ اُن کی ایسی کسی بزم میں شریک نہیں ہو سکا۔ البتہ اُن محفلوں میں سنائے گئے افسانوں اور پڑھے گئے مضامین کی روداد گوش گزار ہوتی رہی۔

اب بھی، جب وہ اپنی کوئی تحریر لے کر علی گڑھ آتے ہیں تو کبھی ان کے دولت کدے پر، کبھی طارق چھتاری کے آسمان منزل میں، کبھی صغیر افراہیم کے ایوانِ زرّیں میں، کبھی شافع قدوائی کے کاشانۂ علم و الفت میں اور کبھی علی رفاد فتیحی کی اِقلیمِ محبت میں محفل سجتی ہے اور کبھی خورشید صاحب دوستوں کو لے کر کسی اچھے سے ہوٹل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور کسی بڑی سی طَعام گاہ کا چاق و چوبند عملہ حیرت سے دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کھانے سے قبل، ایک گوشے میں بیٹھ کر یہ کیا پڑھتے اور سنتے ہیں اور کس بات پر اس قدر سردھُنتے ہیں !

ایسی کوئی محفل غضنفر کے گھر پر ہو رہی ہو تو اکثر دو ننھے سامعین سے بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ یہ مائشا اور انشا ہیں مگر ان کا تعارف کرانے سے قبل دو ایسے بچوں کا ذکر ضروری ہے جو اَب بچے نہیں رہے، بڑے ہو چکے ہیں۔ مراد شہنا اور کامران سے ہے۔ غضنفر صاحب کی بیٹی اور بیٹے ؛ دونوں ڈاکٹر ہیں۔ ان کے توسّط سے اس گھر میں دو اور ڈاکٹروں کا اضافہ ہوا ہے ؛ بہو، آمنہ اور داماد فرحان۔

کبھی کسی گھریلو تقریب میں یہ سب ایک ساتھ نظر آ جاتے ہیں، اور مائشا اور انشا غضنفر کو نانو کہہ کر پکارتی ہیں تو خیال آتا ہے، پھول چمن در چمن ہی نہیں، پیرہن بدل کر گھر آنگن میں بھی کھِلتے ہیں۔ غضنفر خوش نصیب ہیں کہ نوکِ قلم سے حدِ نگاہ تک پھول ہی پھول کھلے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے