نظمیں ۔۔۔ رفیق سندیلوی

نظمیں

 

                   رفیق سندیلوی

 

بڑا چکر لگائیں

____________________________________________

 

کسی دن آ

پرانی کھائیوں کو پار کر کے

دلدلوں میں پاؤں رکھیں

نرسلوں کو کاٹ ڈالیں

پیش منظر کے لیے رستہ بنائیں

آ کسی دن

دھند میں جکڑی ہوئی

کانٹوں بھری یہ باڑ

جس میں وقت کی بجلی رواں ہے

 

جو زمیں وآسماں کو

کاٹتی ہے

بیچ سے

 

اس کو ہٹائیں

آ کسی دن

جھولتے پُل سے اتر کر

نقشۂ تقویم میں

پُر پیچ کہساروں کے اندر

جھاگ اُڑاتی

شور کرتی

بَل پہ بَل کھاتی ندی میں

غوطہ زن ہوں

تیرتے جائیں

 

کسی دِن آ

بڑا چکّر لگائیں !

٭٭٭

 

 

 

جاؤ اب روتے رہو

______________________________________________

 

تم نہیں جانتے

اس دھند کا قصہ کیا ہے

دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں

ایک زنجیر

کسی پھول، کسی شبد

کسی طائر کی

ایک زنجیر کسی رنگ، کسی برق

کسی پانی کی

زلف ورخسار

لب و چشم کی، پیشانی کی

تم نہیں جانتے

اس دھند کا زنجیروں سے رشتہ کیا ہے

یہ فسوں کار تماشا کیا ہے!

 

تم نے بس دھند کے اس پار سے

تیروں کے نشانے باندھے

اور ادھر میں نے تمھارے لیے

جھنکار میں دل رکھ دیا

کڑیوں میں زمانے باندھے

جاؤ اب روتے رہو

وقت کے محبس میں

خود اپنے ہی گلے سے لگ کر

تم مرے سینۂ صد رنگ کے

حق دار نہیں

اب تمھارے مرے مابین

کسی دید کا

نا دید کا اسرار نہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

خواب مزدور ہے

______________________________________________

 

خواب مزدور ہے

رات دن سر پہ بھاری تغاری لیے

سانس کی

بانس کی

ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر

اترتا ہے

چڑھتا ہے

روپوش معمار کے حکم پر

ایک لا شکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی

اوپر اٹھتی ہوئی

گول دیوار کے

خشت در خشت چکر میں محصور ہے

خواب مزدور ہے!

 

اک مشقت زدہ آدمی کی طرح

میں حقیقت کی دنیا میں

 

روپوش معمار کے حکم پر

ایک لا شکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی

اوپر اٹھتی ہوئی

گول دیوار کے

خشت در خشت چکر میں محصور ہے

خواب مزدور ہے!

 

اک مشقت زدہ آدمی کی طرح

میں حقیقت کی دنیا میں

یا خواب میں

روز معمول کے کام کرتا ہوں

 

یا خواب میں

روز معمول کے کام کرتا ہوں

 

یا خواب میں

روز معمول کے کام کرتا ہوں

کچھ دیر آرام کرتا ہوں

کانٹوں بھری کھاٹ میں

پیاس کے جام پیتا ہوں

اور سوزن ہجر سے

اپنی ادھڑی ہوئی تن کی پوشاک سیتا ہوں

جیتا ہوں

کیسی انوکھی حقیقت ہے

کیسا عجب خواب ہے

اک مشقت زدہ آدمی کی طرح

اپنے حصے کی بجری اٹھانے پہ مامور ہے

خواب مزدور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جیسے کوزہ نہیں جانتا

___________________________________________

 

 

جیسے کوزے پہ جھک کر

کبھی روشنی کی مرصع صراحی نے

دو گھونٹ امرت انڈیلا نہیں

جیسے کوزہ نہیں جانتا

اک جھری

نوک سوزن سی پتلی لکیر

اس کے پیندے پہ ہے

کیسے محفوظ رکھے گا پانی

جو اندھے کنووں سے

ہوا کھانستی ٹونٹیوں

بے نمو گھاٹیو ں سے

چٹانوں کی باریک درزوں

تڑختی زمیں کی دراڑوں سے

قطرہ بہ قطرہ

اکٹھا ہوا

 

جیسے کوزہ نہیں جانتا

ّآب زر

منبع نور سے

اک تسلسل کے عالَم میں

بوندوں کی صورت

ٹپکتا ہے

تر کرتا رہتا ہے

 

پیاسوں کے لب

پر بُجھاتا نہیں ایک دم تشنگی

ایک میقات ہوتی ہے

کوزے کی

بھرنے کے رسنے کے مابین

اک را ت ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیک کا ایک ٹکڑا

__________________________________________

 

 

کہنہ تر زین بدلی گئی

پھر نئی نعل بندی ہوئی

اورفرس ہنہنایا

سوار اب سواری پر مجبور تھا

میں اکیلا عزا دار

کتنے یگوں سے

اٹھائے ہوئے

جسم کا تعزیہ

خود ہی اپنے جنم دن پہ مسرور تھا

کپکپاتی چھری

کیک کو وسط تک

چیر کر رک گئی

دل لرزنے لگا

ضعف کی ماری پھونکوں نے

ایک ایک کر کے

بھڑکتی لووں کو بجھایا

عزیزوں نے

بچوں نے

تالی بجائی

مبارک مبارک ہوئی

کیک کا ایک ٹکڑا

مرے منھ میں ٹھو نسا گیا

نعل کی شکل کا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ سجیلی مورتی

_____________________________________________

اے ہَوا

پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا

صحن میں کس نے قدم رکھا تھا

چپکے سے

یہاں سے کون مٹّی لے گیا تھا

وقت کی تھالی میں

کس نے لا کے رکھ دی

جھلملاتی لَو کے آگے

رقص کرتی

یہ سجیلی مورتی

جس کے نقوشِ جسم

روشن ہو رہے ہیں

ویشیا کے ہونٹ

فربہ پاؤں جیسے اِک گرھستن کے

خمیری پیٹ میں

مخمل کی لہریں

نو ری و ناری

سُبک اندام لہروں میں

بھنور اِک گول سا

پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا

اے ہَوا

تُو جانتی ہے

راز سارا

دو الگ طرزوں کی مٹّی

ایک برتن میں ملا کر

گوندھنے کا!

٭٭٭

 

 

 

غار میں بیٹھا شخص

_______________________________________________

چاند، ستارے

پھول، بنفشی پتے

ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر

اُڑنے والی برف

لکڑی کے شفّاف ورَق پر

مور کے پَر کی نوک سے لکھّے

کالے کالے حرف

اُجلی دھوپ میں

ریت کے روشن ذرّے

اَور پہاڑی درّے

اَبر سوار سُہانی شام

اور سبز قبا میں ایک پَری کا جسم

سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے

پھولوں جیسے اِسم

رنگ برنگ طلسم

جھیل کی تَہ میں ڈُوبتے چاند کا عکس

ڈھول کے وَحشی تَال پہ ہوتا

نیم بَرہنہ رقص!

 

کیسے کیسے منظر دیکھے

ایک کروڑ برس پہلے کے

غار میں بیٹھا شخص !!

٭٭٭

 

 

 

 

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

_________________________________________

 

اَے چراغوں کی لوکی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن

خواب سے جوڑ

لہروں میں ڈھال

اِک تسلسُل میں لا

نقش  مربوط کر

نرم، ابریشمیں کیف سے

میری درزوں کی بھر

میری مٹّی کے ذرّے اُٹھا

میری وَحشت کے بکھرے ہوئے

سنگ ریزوں کو  چُن

 

اَے چراغوں کی لو کی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن

کوئی لوری دے

جھو لا جھلا

پوٹلی کھول ، رمزوں کی

مجھ پر کہانی کی اَبرک چھڑک

میرا کاندھا تھپک

آ مجھے تاجِ رُوئیدگی سے سجا

اِک تسلسُل میں لا

لو کے اِکتارے پر

چھیڑ دے کوئی دھُن

اَے چراغوں کی لوکی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن!

٭٭٭

 

 

حدِّ بیابانی میں

__________________________________________

 

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور مرے سائے کو دیکھ

دیکھ اب میرے خد و خال میں تبدیلی ہے

دل کی روندی ہوئی مٹّی

جو بہت ماند تھی

اب عکسِ تصور ہی سے چمکیلی ہے

اب مرے جسم کا ہر زاویہ تمثیلی ہے

آخر اس گہرے اندھیرے کے

فلک بوس پہاڑوں میں بنا کر رستہ

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا

چاند کے گرد جو ہالہ تھا

اسے ٹوٹنا تھا

ابر کو کچھ کہنا تھا

سُر میں سُر ہوتا تھا آمیز

بہم تال میں تال

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور میرے سائے کو دیکھ

دیکھ کس طرح میرے ہاتھ سے

پھوٹا ہے بنفشی پودا

کاسۂ سر سے نکل آئی ہے اودی کونپل

اور اگ آئے ہیں

سینے سے چناری پتے

جسم اک مہکا ہوا باغ نظر آتا ہے

آخر اک تارا

گھنی رات کے دروازے سے

در آتا ہے

آخر اِس حدِّ بیابانی میں

ایک گُل پوش نے دھرنا تھا قدم

آ کے یہاں رہنا تھا

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا!

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے