مشتاق احمد یوسفی کی ’’شام شعر یاراں‘‘ ۔۔۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

شام شعر یاراں، مشتاق احمد یوسفی کی آخری کتاب ہے جس میں ماضیِ قریب و بعید بلکہ بعید ہی بعید میں لکھے گئے ۲۱ مضامین کو مرتب و مدون کر کے آرٹس کونسل کراچی نے تبرکات جانتے ہوئے مصنف کی خواہش کے بغیر ساتویں علمی اردو کانفرنس منعقدہ ۱۶. اکتوبر ۲۰۱۴ء کے موقع پر مرتبین و مدونین کے دیباچے یا پیش لفظ یا عرض مرتب کے بغیر جہانگیر بکس، کراچی سے شائع کر دیا ہے ، حتیٰ کہ کہیں اپنا نام (سید احمد شاہ۔ فاطمہ حسن) بھی سامنے آنے نہ دیا۔ یہ شذرہ ہائے فکر مختلف شخصیات، کتابوں کی تقریب رونمائی یا اداروں کے سالانہ یوم تاسیس پر دیے گئے خطبات پر مشتمل ہیں۔ عنوان فیض کی اس نظم سے اخذ کیا گیا ہے۔

اے مہ شب نگاراں … اے رفیقِ دل فگاراں … اے شام ہم زباں ہو… اے شام مہرباں ہو… اے شام مہرباں ہو… اے شام شہر یاراں … ہم پہ مہرباں ہو (فیض احمد فیض)

ان خطبات میں یوسفی صاحب کی لفظ شناسی، لفظ بافی و لفظ گری کا فن عروج پر ہے۔ لفظوں سے کھیلنے کا فن، انھیں برتنے کا سلیقہ، پھر مترادفات کی موجودگی میں جملے میں اسی لفظ کا استعمال جو مفہوم کو زیادہ واضح زیادہ با معنی بنا دے ، مناسب موقع پر مناسب لفظ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ مصنف کا ذخیرۂ الفاظ لا محدود ہے ، اس کا سبب ان کا وہ مشغلہ ہے کہ جس سے شعوری کنارہ کشی ہمارے عوام ہی نہیں عالم، دانشور اور بڑے بڑے لکھاری کیے ہوئے ہیں۔ کتنے لکھاری ہیں جو لفظ کی اہمیت سے آگاہ ہیں، ہر نئے اور قدیم بلکہ متروک لفظ سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی اپنی تحریر میں برتے گئے عمومی الفاظ سے …

نظیر، انیس، جوش لفظوں کے برتاوے اور وسیع لغت کے استعمال کے سبب اپنی واضح شناخت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں احسان دانش کا نام بھی شامل کر لیجیے۔ احسان دانش کی جہانِ دانش پڑھتے ہوئے اس بات کا خیال بار بار آتا ہے کہ ہم غیر ملکی زبان کے الفاظ اتنی تیزی اور روانی سے اردو میں سموتے چلے جاتے ہیں کہ بسا اوقات دورانِ گفتگو کئی جملوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بات اردو زبان میں ہو رہی ہے۔ ہم اپنی مقامی، علاقائی یا مادری زبان کے الفاظ بے کم و کاست استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، شرمندہ ہوتے ہیں یا انھیں قابلِ اعتنا نہیں جانتے۔ جہانِ دانش میں دسیوں، بیسیوں نہیں سیکڑوں الفاظ ایسے مل جاتے ہیں جو دورانِ تحریر مصنف کی ذہنی کیفیت اور ماحول کی عکاسی یوں کرتے ہیں کہ ان کی جگہ کوئی اور لفظ برتا ہی نہ جا سکتا تھا، اتنی خوبصورتی سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہی نہ جا سکتا تھا۔ پھر احسان دانش کا قارئین اور اردو زبان پر یہ احسان کہ پا ورقی میں ان اجنبی الفاظ کے معنی بھی رقم کر دیتے ہیں کہ جانتے ہیں سہل پسند قاری لغت میں ان کے معنی کبھی تلاش نہ کرے گا اور خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لے گا کہ اس دیہاتی لفظ کے معنی کہاں ہوں گے لغت میں۔

مشتاق احمد یوسفی کی مذکورہ کتاب ’’شام شعر یاراں‘‘ میں بار بار لغت سے استفادے کا ذکر ملتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانی میں آدمی سرہانے تلے ، شعری مجموعے ، افسانے یا ابن صفی کے ناول دھر کر یہ مشکل، صبر آزما وقت کاٹتا ہے یا بیکار وقت کو کارآمد بناتا ہے ، یوسفی صاحب عالم طفلی سے ہی لغت گزیدہ رہے۔ اس کتاب میں بار بار مصنف کا لغت کی طرف جھکاؤ، لغت سے استفادے کا ذکر قاری کو غیر محسوس طریقے سے لغت کی طرف مائل کرتا ہے۔ وہ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ہمارا ذخیرہ الفاظ ذخائر آب و برق کی مانند بہت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نئے الفاظ استعمال کرنے یا انھیں لغت میں سے تلاشنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ابھی احسان دانش کا ذکر ہوا۔ انھوں نے ’’مترادفاتِ اردو‘‘ نامی لغت میں جس محنت و جاں کاہی کا ثبوت دیا ہے ، ہمارے آج کے محققین اور مصنفین اتنا وقت کہاں سے لائیں۔

یوسفی صاحب قدیم اور متروک الفاظ کے استعمال میں جہاں زبان سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں اور انھیں از سر نو زندہ کرنے کی کوشش اور خواہش رکھتے ہیں، ’’سیتا پھل‘‘ کا تذکرہ قدیم ہندی ادب اور مذہب میں موجود ہے۔ قاری سوچتا ہے یہ سیتا پھل نہ جانے کن زمانوں کا، کن علاقوں کا کس موسم اور کس آب و ہوا کا پھل ہے۔ راجکماریوں کا پسندیدہ ہے یا راجکمار بھی اس سے شغف رکھتے ہیں لیکن جب یوسفی صاحب اس پھل کا تعارف اور تعریف کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذاتِ شریف ’’شریفہ‘‘ کی ہے جو اپنی مٹھاس کے لیے مرغوب اور بیجوں کی کثرت کے لیے معتوب ہے۔ یہ وہی شریفہ ہے جس کے متعلق یوسفی صاحب ’’زرگذشت‘‘ میں فرما چکے ہیں۔ ’’آم، سپاگٹی، شریفے اور خستہ پییٹز کھانے کا مہذب طریقہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔‘‘

بہت سے الفاظ و تراکیب خود بھی وضع کرتے ہیں۔

غنا بالجبر، زنبوری بھنچاؤ، الاسٹک دورانیے …ایسے الفاظ کی بھی کمی نہیں جو صرف یوسفی صاحب سے ہی مخصوص ہیں، سموچا، طلاقت، طربوش، ازدیاد، بے ہمگی، مشموش، ہیاؤ کھلنا، مچیٹا، بکراہند، محک، حذافت… پھر وہ الفاظ جو غلط العام اور غلط العوام ہونے کی بنا پر عوام اور علماء میں رائج ہیں۔ خاص طور پر جن کا غلط تلفظ زبان زدِ عام ہے ، یوسفی صاحب انھیں اعراب سے سجا سنوار کر قاری کی خاموشی سے تصحیح کرتے ہیں۔ یوسفی صاحب بات سے بات نکالنے کے تو ماہر ہیں ہی لیکن لفظ سے لفظ نکالنا بھی انھیں خوب آتا ہے۔ یوسفی صاحب تکرارِ لفظی و تکرار حرفی سے اپنی بات میں شدت، اصرار اور تیقن پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔

’’قائد اعظم فوجداری عدالت میں‘‘میں یوسفی صاحب خان بہادر اختر عادل، قائد اعظم کے مخالف وکیل کی تصویر یوں کھینچتے ہیں۔ ’’…بہت خوش خو، خوش خلق، خوش لباس، خوش خوراک، شریف النفس اور بہت موٹے تھے اور خود سے بھی زیادہ موٹے تین بیٹوں کے باپ تھے۔‘‘

فارسی سے لاتعلقی کا غلغلہ اپنی جگہ، اس زبان سے ناواقفیت کی بنا پر ندامت کا اظہار بار بار لیکن یوسفی صاحب کی تحریر اس امر کی نفی کرتی ہے۔ کہ تحریر میں فارسی الفاظ و تراکیب و اشعار کے تڑکے کی چھنچھناہٹ اور مہک قاری کو اس زبان سے نا واقفیت کے باوجود مزا دے جا تی ہے۔ پھر ہندی الفاظ کا خوبصورت استعمال، ان خطابیہ مضامین میں جا بجا ہوا ہے۔

’’یہ وہ محنت ہے جس میں خالی پتا مارنے کی بجائے اپنی پت (عزت نفس) اور پندار ارپن (بھینٹ چڑھانا) کرنا پڑتا ہے۔‘‘

’’ہنسی کی دو سے زیادہ قسمیں ہیں سات سے زیادہ سر، ان گنت استھائی اور بے انت انترے ہوتے ہیں۔ موقع، محل، روزِ ابر و شب ماہتاب کی قید نہیں۔ ہنسنے والا بات بے بات ہنسے جاتا ہے ، پھر جب دنیا کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہے تو نہ ہنسی آتی ہے نہ رونا، بس چپ سی لگ جاتی ہے پھر بھوگی، سوگی اور گن گائیک آپی آپ جوگی اور دھیانی گیانی کا برن لے کے پتھر سمان اور شانت ہو جاتے ہیں، شانتی شانتی شانتی…‘‘

پیروڈی، تحریف نگاری ہمارے طنز و مزاح نگاروں کا ایک اہم ہتھیار ہے کہ مزاح تو پھر بھی برداشت کر لیا جاتا ہے طنز کے تیر سہنے کی تاب ہرکسی میں نہیں، مرزا صاحب سے کہلا دیتے ہیں۔ یوسفی صاحب ’’خاکم بدہن‘‘ کے دیباچے میں کہہ چکے ہیں ’’طنز ایک مقدس جھنجھلاہٹ کا اظہار بن چکا ہے۔‘‘ یوسفی صاحب مضحک نقالی سے طنز نگاری یوں کرتے ہیں کہ قاری سبھی کچھ اپنی نگاہوں کے سامنے ہوتا دیکھتا ہے۔

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت فرار

نلی تم نے کہا تھا، ہم تو دنیا چھوڑے جاتے ہیں

ان میں لاغر بھی ہیں، بچے بھی ہیں ہشیار بھی ہیں

اور کچھ ہیں کہ ہر اک کام سے بیزار بھی ہیں

پیروڈی یا مضحک نقالی یا ہجویہ تقلید یا، تقلیدِ معکوس یا لفظی تبدیلی سے مضحکہ خیز صورتِ احوال پیدا کرنے کے لیے تحریف نگار کا اپنا مطالعہ وسیع ہونا چاہیے وہیں قاری بھی اپنی کلاسیکی و جدید شاعری سے شدھ بدھ رکھتا ہو تبھی وہ لطف و مسرت اٹھا سکتا ہے۔ اگر وہ سنجیدہ اصل سے واقف نہیں تو وہ مزاحیہ نقل سے کیسے لطف اٹھا سکے گا۔ یوسفی صاحب زبان زد عام مصرعوں اور اشعار کی تحریف سے موضوع کی وضاحت کرتے اور مسکراہٹیں بکھرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان کی تحریف نگاری منفی انداز و اثرات نہیں رکھتی۔

تجھ سے پچھڑ کر زندہ ہیں خان بہت شرمندہ ہیں

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی ہے حکم رانی تک

یہ عالم سوگ کا دیکھا نہ جائے

مزاح مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقریریں

وہ اپنی ذات کو بھی نہیں بخشتے۔ جتنا خوبصورت اپنا کیری کیچر بناتے ہیں اتنا شاید کسی اور کا نہیں۔ تفنن طبع کا مرکز اپنی ذات ہو تو زیادہ کھل کھیلتے ہیں۔ اپنی بیماری کا تذکرہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ خود انھیں تو اپنی بیماری سے پیار ہے ہی، قاری بھی اس سے الفت کے تقاضے نبھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ خیر و عافیت کی جگہ قبر و عاقبت پیش نظر ہے۔ طبیب و مطب سامنے ہے۔

بدل کر مریضوں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل مطب دیکھتے ہیں

جدید و کلاسیکی شعرا سے محبت اس امر سے ہویدا ہے کہ ان کے اشعار نوک قلم سے اپنے موضوع کی بہتر تفہیم کے لیے رقم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اشعار کا انبار نہیں لگاتے لیکن برمحل استعمال سے اپنے خیال کی ترسیل میں مدد لیتے ہیں۔ قوتِ متخیلہ حساس ہے ، بیان کی صلاحیت خدا داد ہے ، عمدہ اور برجستہ و چست فقرے قدم قدم پر دامن تھامتے ہیں۔

شام شعر یاراں میں ادبی نشستوں کی روداد اور ان یارانِ باصفا کا احوال کہ جن کے دم سے زندگی اورجن کی یادوں سے دل شاد و آباد ہیں۔ ماضی پرستی، ناسٹلجیا، گم نگر کا جادو، بیتے زمانوں کی گلیاں، درخت، بندر، مور کی اداس جھنکار، پپیہے کی برہا میں ڈوبی پی کہاں کی آواز، ٹیٹری کی پکار، کوئلوں کی کوک، کالی بھونرا جامنیں، پھول والوں کی سیر، مندروں کے جھمکڑے ، لال بنات کے انگرکھے ، نیگڈمبر کے ہاتھی، مغلئی دسترخوان کی نیرنگیاں، نوروزی پوشاک، دنیا سے نرالے بانکے ، جہاں آباد کے تابوت کی آخری کیل… غرض یادیں ہی یادیں باتیں ہی باتیں، انتظار حسین کو کہیں سے پڑھ لو، گئے زمانوں کی اداسی ان کی تحریر کو ایسی اثر انگیزی عطا کرتی ہے کہ قاری خود کو اسی اجڑتے بستے دیار کا باسی سمجھنے لگتا ہے۔ یاد نگاری معلوم ہوتا ہے ، انتظار حسین پر ختم ہو گئی لیکن شام شعر یاراں کا مطالعہ کیا جائے تو انتظار حسین کی دلی، اے حمید و ناصر کاظمی کا امرت سر و انبالہ حتیٰ کہ غالب کا کلکتہ، اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے …… یوسفی صاحب کے کوچۂ ماضی گیراں پشاور کو بھی ان میں شامل کر لیجیے۔ یہاں تک کہ پی آئی بی کالونی کراچی کا بے آب و برق دو کمروں کا مکان بھی ان کی یادوں کی دنیا کو یوں جگمگاتا اور مہکاتا رہتا ہے کہ وہاں ادریس فاطمہ کے ذہن و دل سے پھوٹنے والی کرنیں اور خوشبو آج بھی ان کے مشام جاں کو منور اور معطر رکھتی ہیں اور پھر ساحل کنارے وہ پر آسائش، بھرا پرُا گھر جہاں زندگی کے بہت سے سال آسودہ حالی میں، ادریس فاطمہ اور بچوں کی محبتوں میں سر شار گذرے اور پھر یکایک شام ڈھلے گھر آنگن سونا ہو جائے۔

شام شہر یاراں کی قدر و قیمت بے حد و حساب، اس کا گزرتا ایک ایک پل سا عت نایاب ہے۔ وقت جب ریت کی مانند مٹھی سے برق رفتاری سے پھسلتا جائے ، شام پر رات کے سائے تیزی سے لپکنے لگیں، عناصر میں اعتدال کی خواہش بے معنی معلوم ہونے لگے۔ ایسے میں شام شہر یاراں یا شعر یاراں یا ان کی یادیں اور باتیں ہی زیست کرنے کا بہانہ بن جاتی ہیں۔ شام شعر یاراں، عمرِ گذشتہ کی وہ کتاب جس کے لوٹانے کی حسرت، ان کے دل میں ہے ، یہ یاروں، پیاروں کو یاد کرنے کی ان سے اپنے تعلق کی، زندگی میں ان کی اہمیت کی، ان کی جانب سے ملنے والی محبت کی بارش میں بھیگنے کی داستان ہے ، کتاب کا بیت الغزل، یوسفی صاحب کی زندگی کا ایک اہم باب، وہ آخری پانچ سات صفحات ہیں، جن میں ادریس فاطمہ کے بچھڑنے کا دکھ، تجھ سے بچھڑ کر زندہ ہیں۔ جان بہت شرمندہ ہیں، تو اس شرمندگی میں اداسی، تنہائی اکلاپا، بے بسی، بے چارگی و بیماری اور سب سے بڑھ کر زندگی کی شامِ غریباں کا نوحہ شامل ہیں۔

شام شعر یاراں میں اداروں اور شخصیات پر ۲۱ مضامین یا تقاریر یا خطبات ہیں۔ جب فرد تقریر کر رہا ہو یا مضمون یا مقالہ پڑھ رہا ہو یا خطبہ دے رہا ہو، تو بہت سی باتیں فی البدیہہ بھی درمیان آ جاتی ہیں۔ وہی مضمون جب اشاعت پذیر ہوتا ہے تو تحریر میں منتشر خیالی کا احساس ہوتا ہے ، اس صورت میں جبکہ مصنف کی منشا کے بغیر ان مضامین کو یکجا کر کے شائع کر دیا گیا ہو۔ مختلف موقعوں، یا تقریبات میں پڑھے گئے مضامین میں کئی باتوں یا واقعات یا اشعار کی تکرار بھی دکھائی دے جاتی ہے ، پھر قاری کی نظر سے بہت سی وہ باتیں بھی گزرتی ہیں جو وہ گذشتہ کتابوں میں پڑ ھ چکا ہے۔ جملہ ہائے معترضہ کا وافر استعمال، شام شعر یاراں کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ کسی بھی تحریر کا مطالعہ کیجیے ، ٹھٹھک کر سوچنا پڑتا ہے پلٹ کر دیکھنا پڑتا ہے کہ اصل موضوع کیا ہے اور کون ہے۔ یہ جملہ ہائے معترضہ بسا اوقات ایک سے زائد پیراگرافوں پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔

شام شعر یاراں کے مختلف النوع موضوعات کے عنوانات دیکھیے

قائد اعظم فوجداری عدالت میں، کیس ہسٹری، ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ ساکہیں جسے ، انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر

کلاہ ممریزی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، نیرنگِ فرنگ، مہر دو نیم، چادر، چاند بی بی اور کالم بھر چاندنی، یاد یارِ طرحدار، آم، رہو اور بچھو، سد سمندری، ضمیرِ واحد متبسم، مسند صدارت پر اولتی کی ٹپا ٹپ، شاہ جی کی کہانی دوسرے شاہ جی کی زبانی، الطاف گوہر اور گڑ کی ڈلی،

یہاں کچھ پھول رکھے ہیں، میں اختتام ہوں اک عہد کے فسانے کا، پلکوں سے پینٹ کرنے والا مصور اورقصہ خوانی بازار سے کوچۂ ماضی گیراں تک

شام شعر یاراں میں اقوالِ زریں خود یوسفی صاحب کے ہوں یا ان کے ہمزاد مرزا صاحب کے ، کہ جو بات اپنے خلاف یا سماج کے یا اپنے ممدوح کے سامنے کہنے کی جرأت نہ رکھتے ہوں، مرزا صاحب سے کہلا دیتے ہیں، پھر ان اقوال سے بھی اپنا مافی الضمیر واضح کرتے ہیں جو مشرقی و مغربی مفکرین نے غالباًیوسفی صاحب کے لیے ہی سنہرے حروف میں لکھے تھے۔

’’سمجھدار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔‘‘

’’جس مریض کو اپنے ذکر میں مزہ آنے لگے اسے HYPOCHONDRIAC کہتے ہیں۔ افراد ہی نہیں کبھی کبھی قومیں بھی HYPOCHONDRIAC ہو جاتی ہیں انھیں علاج سے زیادہ اپنی بیماریوں کے مبالغہ آمیز بیان میں مزہ آنے لگتا ہے۔‘‘

یوسفی صاحب مثبت اندازِ فکر و نظر رکھتے ہیں اور یہی خوبی وہ اپنی قوم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چینی کہاوت نقل کرتے ہیں

’’زندگی میں اداسیاں تمھارے سروں پر منڈلاتی رہیں گی، ان کو اپنے بالوں میں گھونسلا نہ بنانے دو۔‘‘

اسی مثبت اندازِ زیست نے انھیں زیست کرنے کے سب آداب ازبر کرا دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی آمد سے ، ان کی تحریر کے مطالعے سے تمام فضا نکھر جاتی ہے ، ورنہ اس معاشرے میں ان لوگوں کی کمی نہیں جن کے کمرے میں قدم دھرتے ہی، ایک لفظ کہے سنے بغیر ہی، ان کے جسم سے ایسی منفی شعاعیں منعکس ہوتی ہیں کہ آپ خود کو مروت و برداشت کی آخری حد پر کھڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

ایک بینکار، فن تعمیرات، فنِ مصوری، فن رقص و گائیکی اور تہذیب و ثقافت کے اتنے اسرار و رموز اور باریکیاں کیسے جانتا ہے۔ زبان و شعر و ادب کے بدلتے رجحانات، تہذیب و ثقافت کی بدلتی روایات، اقدار و اخلاق کے زوال کی داستان ایک فرد واحد کے ذہن کی دسترس میں کیسے ہو سکتی ہیں، اس کا جواب صرف ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے۔ ’’ذہنِ رسا‘‘۔ سرسری تم جہان سے گزرے … ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا، یوسفی صاحب کی زندگی کا ایک لمحہ بھی رائگاں نہیں، عصر موجود کی بو العجبیوں اور نیرنگیوں کو، سیاسی سماجی اخلاقی، معاشرتی تہذیبی، تعلیمی پستی و گراوٹ سے پیدا شدہ بد حالی، انتشار، بے یقینی، رشوت ستانی، بے روز گاری، اقربا پروری، افرا تفری، تشکیک و تذبذب کو گہری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان نا گفتہ بہ حالات، زندگی کی کج رویوں اور خامیوں سے گریز ان کے عقیدے میں شامل نہیں، یہی زندگی ہے اور تلخ ترش، شیریں لہجے میں ان کا بیان انھیں اردو ادب کی تاریخ میں یادگار بناتا ہے۔

حرف آخر یہ کہ شام شعر یاراں کا موازنہ و مقابلہ یوسفی صاحب کی گذشتہ کتابوں سے نہ کیا جائے کہ وہ کتب یوسفی صاحب نے اپنی مرضی سے اپنے تحریری و تخلیقی اصولوں پر سختی سے کار بند رہتے ہوئے لکھی تھیں، ایک ایک لفظ اور فقرے کو کئی کئی مرتبہ آنکا اور جانچا تھا۔ لکھنے کے بعد مہینوں تک اسے کاغذوں کے انبار میں دفنا دیا تھا، پھر نظر ثانی میں بہت کچھ کتر بیونت کی نذر ہوا۔ بے داغ تکمیلیت کی عادت نے کٹوتی زیادہ کی، بڑھایا کم کم۔ اور پھر جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی …اور اسی سبب یوسفی یوسفی قرار پائے بلکہ ایک دور، ان سے منسوب ہوا۔

مباش منکر غالب کہ در زمانہ تست…

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے