لو جہاد ۔۔۔ شموئل احمد

نیلما خوب صورت نہیں تھی اور کاشف بھی کوئی یوسف نہیں تھا۔ کاشف کی آنکھیں گول اور چھوٹی تھیں۔ اس کی ہنسی مدھم تھی۔ وہ ہا ہا ہا کر کے ہنستا تھا۔ نیلما کی ہنسی مترنم تھی۔ اس کا جسم فربہ تھا اور کولہے ابھرے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹوں کے ٹھیک اوپر دائیں طرف تل تھا۔ شروع شروع میں کاشف نے کوئی توجہ نہیں دی تھی لیکن یہ تل اب کاشف کو اپنے وجود کا احساس دلا نے لگا تھا۔ نیلما جب مسکراتی تو تل بھی مسکراتا اور کاشف کو اشارے کرتا۔ کاشف کا جی چاہتا تل کو انگلیوں سے چھو کر دیکھے۔

ایک شمبھو ہے جو خشمگیں آنکھوں سے گھورتا ہے۔ یہ اجگری ہیرو ہے اور معافی نامہ لے کر پیدا ہوا ہے۔ یہ کسی بھی ملیچھ کو سڑک سے اٹھا سکتا ہے اور کچل سکتا ہے۔ یہ دیش بھکتی کا نیا نام ہے۔ پچھلے سال اجگری ہیرو کی زد میں اخلاق آیا تھا، پھر جنید، پہلو خاں، افرازل، اور اکبر اس کے شکار ہوئے تھے۔

اور نیلما بے خبر تھی کہ آسمان کا رنگ سرخ ہے ….

نیلما کو اسلام سے دلچسپی تھی۔ وہ ذاکر نائک کے ویڈی او دیکھتی تھی۔ اس کو اس بات کا قلق تھا کہ نائک ہندوستان سے باہر چلے گئے۔ یہاں ہوتے تو ان سے ملتی اور سوالات پوچھتی۔ مثلاً مساوات کیا ہے اور یہ کہ دادا کی زندگی میں باپ کے مرنے پر بیٹا محجوب کیوں ہو جاتا ہے۔؟ وہ اس طرح کے سوال کاشف سے بھی کرتی تھی۔ کاشف کی مذہبیات سے دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنی لاعلمی ظاہر کرتا تو نیلما کوفت محسوس کرتی اور ٹھنک کر کہتی ’’آخر کس سے پوچھوں؟‘‘ اور کاشف مسکراتا۔ اس کو نیلما کی یہ ادا پسند تھی۔ وہ جان بوجھ کر بھی اپنی لا علمی ظاہر کرتا۔ لیکن ایک بار اس نے پوچھا تھا کہ جہاد کیا ہے تو کاشف نے حضرت علی کا واقعہ سنایا کہ ایک بار جنگ میں انہوں نے حریف کو زمین پر پٹخ دیا اور خنجر کھینچا کہ سینے میں پیوست کر دوں۔ حریف سے کچھ بن نہیں پڑا تو اس نے منھ پر تھوک دیا۔ حضرت کو غصّہ تو بہت آیا لیکن برداشت کیا اور خنجر پھینک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ’’اب نہیں ماروں گا۔‘‘ حریف حیران تھا کہ اتنی بے عزّتی کے باوجود بھی معاف کر دیا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اسی لیے تو نہیں ماروں گا۔ ابھی مارا تو یہ جہاد نہیں ہو گا۔ یہ انتقام ہو گا۔ انا کی تسکین ہو گی۔ نیلما بول اٹھی کہ یہ تو حضرت عمر کا واقعہ ہے۔ کاشف نے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ ہے تو بتایا کہ رجنیش نے کہیں لکھا ہے۔ کاشف نے کہا وہ کنفیوژ ہو گیا ہے۔ اب صحیح معلومات حاصل کرنی ہو گی۔ نیلما نے لفظ کنفیوژ کو دہرایا اور زور سے ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی میں جھرنے کا ترنم تھا۔

یہ ہنسی اجگر نے سنی۔

’’پتہ کرو کہاں رہتی ہے؟‘‘

نیلما اس دن دفتر سے نکلی تو ایک شخص کو اپنے پیچھے آتے ہوئے دیکھا۔ وہ بائک پر سوار تھا۔ رفتار دھیمی تھی۔ اس نے نیلما سے ایک فاصلہ بنائے رکھا تھا۔ وہ ایک دکان میں داخل ہوئی تو اس شخص نے بھی رفتار روک دی۔ نیلما نے مڑ کر دیکھا۔ وہ بائک پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اس نے چہرہ اخبار سے ڈھک رکھا تھا۔ نیلما نے دکان سے نکل کر آٹو کیا اور ایک بار پھر مڑ کر دیکھا۔ وہ اب بائک اسٹارٹ کر رہا تھا۔ نیلما کو خوف محسوس ہوا۔ لیکن وہ دور تک پیچھا نہیں کر سکا۔ آٹو چوک کا سگنل کراس کر گیا لیکن بائک ٹریفک کی بھیڑ میں سگنل پر رکی رہ گئی .

نیلما نے دوسرے دن کاشف سے ذکر کیا۔

’’اجگری تمہارا پیچھا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ لڑکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ لڑکی کب گھر سے نکلتی ہے کہاں جاتی ہے، کس سے ملتی ہے کتنا وقت کہاں گذارتی ہے سب کی خبر رکھتے ہیں۔ لڑکی جہاں سے موبائل ری چارج کراتی ہے وہاں سے نمبر حاصل کرتے ہیں .ہر شہر میں ان کا نٹ ورک ہے۔ مختلف جگہوں پر سنگٹھن کا نام مختلف ہے لیکن مقصد ایک ہے۔

کاشف نے کتاب ’’لو جہاد لا پتہ عورتیں‘‘ کے متعلّق بھی بتایا جو کیرل میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں والدین کے لیے ہدایت ہے۔ لڑکیوں کے موبائل پر نظر رکھو۔ بیٹی کا ای میل پاس ورڈ پتہ ہونا چاہیے۔ اور کمپیوٹر ایسی جگہ ہو جو سب کو پتہ ہو۔ بیٹی کے سب دوستوں پر بھی نظر ہونی چاہیئے۔

’’بہت جلد تمہارے گھر میں یہ دھاوا بولیں گے۔‘‘

’’میرے بارے میں انہیں کسی نے بتایا ہو گا۔‘‘ نیلما فکر مند ہو گئی۔

’’خطرہ تم کو نہیں مجھے ہے۔ یہ لوگ لڑکیوں کو سختی سے سمجھاتے ہیں۔ والدین سے بھی باتیں کرتے ہیں کہ لڑکی کو قابو میں رکھو۔ لیکن لڑکی نہیں مانتی اور ملنا جلنا جاری رہتا ہے تو لڑکے کو لنچنگ کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘

’’دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم ایچ کو بڑھاوا دیتے ہیں‘‘۔ کاشف مسکرایا

’’ایم ایچ یعنی مسلم لڑکی اور ہندو لڑکا۔ ایسی شادی کے لیے انعام بھی مقرر کر رکھا ہے۔ ان کا آرگنائزیشن بہت مضبوط ہے۔ یہ ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی پشت پر اہل عمارت ہیں۔ اجگر منڈلی ان کی مدد کرتی ہے۔ اس لیے بے خوف لنچنگ کرتے ہیں اور ویڈی او وائرل کرتے ہیں‘‘

نیلما شام کو دفتر سے نکلی تو وہ آدمی پھر نظر آیا۔ ایک دکان کے قریب بائک روک کر کھڑا تھا۔ نیلما الٹے پاوں واپس ہوئی . کچھ دیر رکی رہی۔ پھر عقبی دروازے سے نکلی اور گلی میں گھس گئی۔ وہاں رکشہ پکڑا اور گھر پہنچی۔ اسی دن نیلما کو واٹس اپ پر کسی سنتوش کا میسج ملا کہ غلط راستے پر چل رہی ہو۔ انجام برا ہو گا۔ نیلما نے جوابی میسج کیا کہ اسے اسلام پسند ہے۔ سنتوش نے میسج کا اسکرین شارٹ لیا اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔

لو جہاد اجگر کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ ان کا رویّہ اب قبائلیوں جیسا ہے۔ کچلنے کا عمل ان کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے۔ اس کھیل میں مقابل کی پہچان مذہب ذات پات اور نسل کی بنا پر ہوتی ہے اور اس منظر نامے میں آدمی سرکار کی جگہ لے لیتا ہے۔ خود قانون بن جاتا ہے اور فیصلہ کر لیتا ہے کہ سامنے والے کو کب اور کہاں کچلنا ہے۔

اجگر گھر میں گھس آئے۔

’’کہاں ہے ری تیری بیٹی؟‘‘ بوڑھے باپ کی کمر پر ایک ڈنڈا جمایا۔

’’بھرشٹ ہو گئی ہے۔‘‘

’’میاں کے ساتھ آنکھ مٹکّا کرتی ہے۔‘‘

’’بیٹی کو سمجھا دو نہیں تو کاٹ کر رکھ دیں گے ….‘‘ کمر پر اور دوچار ڈنڈے ….

گھر کا قیمتی سامان بھی توڑا..

.. ’’سارا گھر پھونک دیں گے۔‘‘

نیلما نے تھانے میں سانحہ درج کرایا۔

نیلما یہ سوچ کر حیران تھی کہ ۱۹۵۴ کے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت دو مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں شادی کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ….؟

’’تم نہیں کر سکتیں‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’عمارت‘ نے اسے لو جہاد کا نام دیا ہے۔‘‘

’’میں تجدید اسلام کروں گی۔‘‘

کاشف نے اس کی پلکیں چومیں

نیلما نے اس کے سینے پر سر رکھ دیا…..

اور کاشف کی نگاہوں میں دھند چھانے لگی ….۔ دھند سے ابھرتا ہے شمبھو ناتھ ….اجگری ہیرو… . جینس اور گلابی قمیض میں ملبوس…. آنکھوں میں کالا چشمہ، پاوں میں سفید جوتے اور ہاتھ میں کلہاڑی …اور کاشف کو نظر آتی ہے . ایک پیٹھ جس پر مسلم حکمرانوں سے وابستہ بیمار ہسٹری کے اوراق چسپاں ہیں۔ یہ پیٹھ کسی مزدور کی نہیں ہے جو بنگال سے چل کر آیا ہے۔ …یہ مسلمان کی پیٹھ ہے جس نے بہت سے مندر توڑے ہیں ….سومنات کو لوٹا ہے ….. جو ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنساتا ہے۔ جو کشمیر کو ہندوستان سے الگ کرنا چاہتا ہے . …. اس پروار کرو…یہ ملیچھ ہے …. ملیچھ کو مارنے کی اتنی ہی سزا ہے جتنی کتّے یا بلّی کو مارنے کی ہو سکتی ہے۔ ہیرو کلہاڑی سے وار کرتا ہے ….مسلمان گر جاتا ہے ….ہیرو دوسرا وار کرتا ہے ….اور پے درپے وار کرتا ہے۔ پھر جھک کر اطمینان کرتا ہے کہ مرا یا نہیں ….. مرنے کے باوجود بھی کئی بار کلہاڑی چلاتا ہے۔ پھر کیمرے کی طرف مڑتا ہے اور لو جہاد پر تقریر کرتا ہے۔ لاش پر کراسن تیل چھڑکتا ہے اور آگ لگا دیتا ہے۔ کیمرے کے سامنے آتا ہے اور اپنی فتح کا اعلان کرتا ہے …..

یہ اعلان مغلوں پر ہندوؤں کی فتح کا اعلان ہے۔

یہ شمبھو ناتھ نہیں ہے۔ یہ اہل عمارت کا رانا پرتاپ ہے۔

ایسے ہزار رانا سڑک پر آ جاتے ہیں۔ اپنے ہیرو کی جے جے کار کرتے ہیں اور ہائی کورٹ کی چھت پر بھگوا جھنڈا لہراتے ہیں۔ …

مکھیا خاموش ہے۔ اور کاشف حیران ہے کہ شمبھو ناتھ کو کس نے یہاں تک پہنچایا ….؟ اس کے وجود کو اجگر منڈلی نے ممکن بنایا ہے۔۔ عمارتی سکّے کا دوسرا پہلو….. .تصویر کا دوسرا رخ ….. واٹس اپ گروپ سے شمبھو کو تعاون مل رہا ہے۔ شمبھو کے اعزاز میں نظمیں لکھی جا رہی ہیں۔ کھاتے میں پیسے جمع کیئے جا رہے ہیں۔ جب تک شمبھو ناتھوں کی اکثریت ہے اہل عمارت اقتدار میں رہیں گے۔ شمبھو اہل عمارت کی نفرت کا استعارہ ہے۔ یہ فاشسزم کی مہر ہے جو عمارت نے لگائی ہے۔

لیکن نیلما اور کاشف خوف زدہ نہیں تھے۔ وہ ایک دوسرے کی محبّت میں سرشار تھے۔ نیلما نے کاشف کو مشورہ دیا کہ کچھ دنوں کے لیے روپوش ہو جائے۔ کاشف کا جواب تھا کہ تب وہ اپنی لڑائی لڑ نہیں سکے گا۔ وہ لوگ اسے کہیں نہ کہیں ڈھونڈ لیں گے اور وہ کتّے کی موت مارا جائے گا۔ اقلیت پر ایک جنگ تھوپی جا رہی ہے۔ جنگ لڑی جائے گی۔

اس نے ایک بندوق خریدی اور نیلما کی آنکھوں میں دھنک کے تمام رنگ لہرا گئے۔

’’مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘

کاشف نے نیلما کی پلکوں پر ستارے ثبت کیئے۔

نیلما نے تجدید اسلام کیا۔ نیا نام پڑا ’زینب کاشف‘۔

امارت شرعیہ میں ہی دونوں کا نکاح ہوا۔ نکاح نامہ لے کر کورٹ میں اپنی شادی کا حلفیہ بیان درج کرایا اور گھر آ گئے۔

رات حسین تھی۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ درختوں کے پتّے ہواؤں میں جھوم رہے تھے۔ دونوں دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے کی باہوں میں ضم تھے۔ رات مقدّس لمحوں کو اپنے دامن میں جذب کر رہی تھی…..

اچانک شور سنائی دیا۔ فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ کاشف نے بندوق سمبھالی۔ دروازہ کھول کر باہر آیا۔ اژدہوں کا ہجوم بڑھتا آ رہا تھا۔

کاشف نے پوزیشن سمبھالی۔

جنگ شروع ہو چکی تھی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے