غزل ۔۔۔ مدحت الاختر

 

 

رنگ کیا چیز ہے, خوشبو کیا ہے

پاس آئے تو کھلے تو کیا ہے

 

اپنی آواز کا زندانی ہوں

میرے معبود یہ جادو کیا ہے

 

بھول بیٹھا ہوں پرانے قصے

شاخ کیا چیز ہے، آہو کیا ہے

 

روح اور جسم وہی ہیں دونوں

کس کو بتلاؤں کہ آنسو کیا ہے

 

جھنجھناتے ہیں یہاں سناٹے

میرے احساس کا گھنگرو کیا ہے

 

آسمانوں پہ گذر ہے میرا

میرا ٹوٹا ہوا بازو کیا ہے

 

چار سو عکس ہیں تیرے لیکن

پاس آئے تو کھلے تو کیا ہے

 

اپنے کردار پہ پاسنگ نہ رکھ

دیکھ ایمائے ترازو کیا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے