غزل ۔۔۔ بھارت بھوشن پنت

 

آج برسوں بعد توڑا کس نے موجوں کا سکوت

آنسوؤں کی جھیل میں کنکر کہاں سے آ گیا

 

دور تک صحرا میں اب دِکھتا نہیں اک بھی شجر

پھر کوئی پتہ یہاں اڑ کر کہاں سے آ گیا

 

میں قد و قامت پہ اپنے کس قدر مسرور تھا

آئینے میں یہ مرا ہمسر کہاں سے آ گیا

 

یاں سے تو باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا

اب فصیلِ ذات میں یہ در کہاں سے آ گیا

 

کیا کوئی رستہ بھی میرے ساتھ ہے محوِ سفر

دشت میں یہ میل کا پتھر کہاں سے آ گیا

 

یہ سلگتی سوچ یہ احساس کا دہکا الاؤ

پھر یہاں پر موم کا پیکر کہاں سے آ گیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے