غزل سرور عالم راز

غزل
سرور عالم راز

کوئی تم سا ہو کج ادا نہ کبھو
ایک وعدہ کیا وفا نہ کبھو!

زخمِ دل، زخمِ جان ، زخم جگر
لوہو ایسا کہیں بہا نہ کبھو

ایک دریائے دردِ بے پایاں
“عشق کی پائی انتہا نہ کبھو“

کوچہ کوچہ ، گلی گلی دیکھا
آہ! اپنا پتا ملا نہ کبھو!

سوچتا کون انتہا کی جب
راس ہی آئی ابتدا نہ کبھو

تجھ کو دیکھا تو یوں ہوا محسوس
تجھ سا کوئی کہیں ملا نہ کبھو

ایسے خود آشنا ہوئے ہیں ہم
یاد آیا ہمیں خدا نہ کبھو!

ہو نہ ہو اُس گلی سے آئی ہے
ایسی گُل پاش تھی صبا نہ کبھو

زندگی کی ہزار راہوں میں
کیوں ملا کوئی راستا نہ کبھو؟

جیسا عاجز ہے آپ کا “سرور“
ایسا کوئی ہو بے نوا نہ کبھو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے