غزلیں ۔۔ بیکل اتساہی

 

لئے کائنات کی وُسعتیں ہے دیارِ دل میں بَسی ہوئی

ہے عجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لِکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی

 

نہیں تم تو کوئی غزل ہو کیا، کوئی رنگ و بُو کا بدل ہو کیا

یہ حیات کیا ہو، اجل ہو کیا، نہ کھُلی ہوئی نہ چھپی ہوئی

 

ہے یہ سچ کہ منظرِ خواب ہے، میرے سامنے جو کتاب ہے

وہ جبیں کہ جس پہ گلاب کی کوئی پنکھڑی ہے پڑی ہوئی

 

وہی ربطِ عکسِ جمال بھی، وہی خبطِ حُسنِ جمال بھی

وہی ضبطِ حُزن و ملال بھی شبِ ہجررسمِ خوشی ہوئی

 

وہ محل کی چھت پہ جو چاند ہے، خُدا جانے کا ہے کو مانْد ہے

یہ طِلسْم ہے کسی حُسن کا، یا مِری نظر ہے تھکی ہوئی

٭٭٭

 

حُسن جلوَہ نہیں عشق کا حاصل تنہا

کتنے جلوؤں کو سمیٹے ہے مِرا دل تنہا

 

کارواں چھُوٹ گیا رات کے سنّاٹے میں

رہ گئی ساتھ مِرے حسرتِ منزل تنہا

 

عزم مُحکم ہو تو ہوتی ہیں بَلائیں پسپا

کتنے طُوفاں کو پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا

 

حُسن ہنگامۂ بازار میں مصروف رہا

عشق تو چُپ ہے سجائے ہُوئے محفل تنہا

 

سب کے ہونٹوں پہ تبسّم تھا مِرے قتل کے بعد

جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا

 

لوگ تو ہو گئے بیکل! غمِ دَوراں کا شکار

رہ گیا میں ہی زمانے کے مقابل تنہا

٭٭٭

 

اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے

ہر ایک پھول کے لب پہ میرا لہو رکھ دے

 

زبانِ گل سے چٹانیں تراشنے والے

سکوتِ نقش میں آرائشِ نمو رکھ دے

 

گراں لگے ہے جو احسان دستِ قاتل کا

اٹھ اور تیغ کے کے لب پہ لبِ گلو رکھ دے

 

چلا ہے جانبِ میخانہ آج پھر واعظ

کہیں نہ جام پہ لب اپنے بے وضو رکھ دے

 

خدا کرے میرا منصف سزا سنانے میں

مرا ہی سر میرے قاتل کے رو بہ رو رکھ دے

 

سمندروں نے بلایا ہے تجھ کو اے بیکل

تو اپنی پیاس کی صحرا میں آبرو رکھ دے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے