غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

نہاں کے پردۂ پیچاک کو نہیں مانے

فریب دیدۂ ادراک کو نہیں مانے

 

یہ بد گمان جہنم میں ڈال دوں گا میں

لعین صاحبِ املاک کو نہیں مانے

 

کسی بھی آنکھ نے دیکھا ہوا نہیں سمجھا

یہ لوگ بر سرِ افلاک کو نہیں مانے

 

وجود غیب کو آدم کبھی نہیں مانا

سو نار و نور بھی اس خاک کو نہیں مانے

 

عجیب یہ ہے کہ ہر بات مان لیتے ہیں

مگر یہ چکمۂ چالاک کو نہیں مانے

 

لباس پھاڑ کے پرکھا وجود پنہاں کا

یہ بد گماں مری پوشاک کو نہیں مانے

٭٭٭

 

 

 

 

خدا کی ذات کو حیرت کے زاویے سے دیکھ

نظر بھی آئے گا منظر کو حوصلے سے دیکھ

 

یقیں کے خوف نے کتنوں کو روک رکھا ہے

میاں یہ دین ضرورت کے فلسفے سے دیکھ

 

ترے خلاف مروت میں کچھ نہیں بولا

تو آئینہ کو ذرا اور وسوسے سے دیکھ

 

گھما پھرا کے بھی سیدھی سی بات کیا کرنی

میں سامنے کی حقیقت ہوں سامنے سے دیکھ

 

زمین گھومتی ہے سو کہیں نہیں جاتی

یہ دائرے کے مسائل ہیں دائرے سے دیکھ

 

میں انہماک سے گجروں کے بند باندھتا ہوں

تو مسکرا کے محبت سے آئینے سے دیکھ

٭٭٭

 

 

 

سکون پڑ گیا ہے خاک میں اڑا دی نا!

تمہاری ضد نے مری جھونپڑی جلا دی نا!

 

مزا اٹھا لیا رانجھے سے چھیڑ خانی کا

کمان کھینچ لی ہے بانسری گرا دی نا!

 

نکلنا رک گئے ہیں پر کسی کے بازو پر

نگاہ ڈال کے پھر سے نظر لگا دی نا!

 

کہا بھی تھا کہ بہاروں سے دور رکھنی ہے

کلی پہ ظلم کیا مبتلا بنا دی نا!

 

رواں دواں ہو مسافر یہی غنیمت ہے

گلے میں ڈال دی رسی کہیں گھما دی نا!

 

قبول کر لیا جو بھی کہا لکھا تم نے

ہمارے طفل نے سن کے زباں چلا دی نا!

 

مجھے تو یاد ہے دیوار میں لگا تھا میں

یہی کہیں مری تصویر تھی ہٹا دی نا!

 

بڑا ہی شوق تھا تم کو بھی بے حجابی کا

اسی کا ڈر تھا مجھے آنکھ ورغلا دی نا!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے