غزلیں ۔۔۔ محمد حفیظ الرحمٰن

 

چمن میں نعرۂ یا ہو ہے کیسا

اور اس پر یہ خمِ ابرو ہے کیسا

غزالِ دشت کی وحشت ہے کیسی

یہ صحرا میں رمِ آہو ہے کیسا

جھکی ہیں ساری محفل کی نگاہیں

شریکِ بزم یہ مہ رو ہے کیسا

چمن سارا منور ہو رہا ہے

تمھارے باغ میں جگنو ہے کیسا

نہ خود سمجھے نہ اوروں ہی کی مانے

مِرا دل آج بے قابو ہے کیسا

سنائی داستانِ دِل تو بولے

تمھاری آنکھ میں آنسو ہے کیسا

٭٭٭

 

 

چل رہی ہے ہر طرف یہ کیسی انجانی ہوا

بستیوں میں کر رہی ہے اپنی من مانی ہوا

یاد کی پھولوں بھری سوغات مجھ کو دے گئی

وہ ٹھٹھرتی کانپتی ہنستی زمستانی ہوا

کل اچانک اس گلی سے پھر ہوا میرا گزر

اجنبی تھے لوگ لیکن جانی پہچانی ہوا

توڑ کر یوں سارے بندھن چل دیا اے دل کہاں

ساتھ تجھ کو لے چلی کیا آج مستانی ہوا

وقت کی آندھی نے کیسے خواب کجلائے حفیظ

لٹ گئیں سب بستیاں تھی ایسی شیطانی ہوا

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے