غزلیں ۔۔۔ علی یاسر

ہمیں خوشی کی تڑپ تھی، خوشی نے قتل کیا

جو زندگی تھی اسی زندگی نے قتل کیا

 

ضرور آدم و حوا کو رنج ہوتا ہے

جب آدمی کو کسی آدمی نے قتل کیا

 

ہزار خواہشِ اظہارِ عشق ادھوری رہی

گلِ سخن کو مرے اجنبی نے قتل کیا

 

تُو بات کر کہ یہ ماحول زندہ ہو جائے

فضا کا حسن تری خامشی نے قتل کیا

 

نہ جانے کتنے ہی ارمان دل میں دفن ہوۓ

کوئی خودی نے کوئی بے خودی نے قتل کیا

 

بنا کے آپ ہی شہکار، مر گیا فنکار

کلام کرتی ہوئی مُورتی نے قتل کیا

 

کمان دار ہی پھر ذمہ دار ہوتا ہے

جو بے قصور کوئی، لشکری نے قتل کیا

 

میں مسکراتا ہوا ان کو زندہ کرتا ہوں

سو دشمنوں کو مری شاعری نے قتل کیا

 

ہم اشک و گریہ میں مصروف ہیں علی یاسر

کبھی ہوا کہ کسی ماتمی نے قتل کیا

٭٭٭

 

 

 

ثبوتِ عشق، جمالِ یقیں محبت ہے

مری سرشت میں دھوکا نہیں، محبت ہے

 

گلِ خلوص مہکتا ہے میری صورت میں

مرا مزاج، مری سرزمیں محبت ہے

 

سب اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں یہاں

مرے خیال میں سب سے حسیں محبت ہے

 

میں اس کے دل میں اتر کر تلاش کر بھی چکا

میں جانتا تھا یہیں پر کہیں محبت ہے

 

میں ظالموں کا طرفدار ہو نہیں سکتا

میں دین دار ہوں اور مرا دیں محبت ہے

 

نفس نفس ہے نمائندۂ نصابِ نفیس

سو کار ہائے جہاں بہتریں محبت ہے

 

بکھیرتے ہیں گلاب اور مہک لب و گیسو

نظامِ عارض و چشم و جبیں محبت ہے

 

اسے غرور یوں ہی تو نہیں علی یاسر

وہ میرا خواب، مری اولیں محبت ہے

٭٭٭

مرسلہ: عقیل عباس جعفری، اس نوٹ کے ساتھ

’’تین دن پہلے میں نے محبت کی زمین میں اپنی غزل پوسٹ کی تو فوراً ہی علی یاسر کا فون آیا کہ عقیل بھائی ایسی ہی زمین میں، میں نے بھی ایک غزل لکھی ہے، ذرا دیکھ لیجیے۔ مجھے کیا خبر تھی صرف تین دن بعد مجھے یہ غزل اس کی موت کی اطلاع کے ساتھ شئیر کرنی ہوگی۔‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے