غزلیں ۔۔۔ سلیمان جاذب

 

 

 

ترے رستے میں بیٹھے ہیں، تو اس میں کیا برائی ہے

تجھے ہم دیکھ لیتے ہیں، تو اس میں کیا برائی ہے

 

ہمارا جرم اتنا ہے، تمہیں اپنا سمجھتے ہیں

تمہیں اپنا سمجھتے ہیں، تو اس میں کیا برائی ہے

 

بچھڑ کر تم سے ہم جاناں تمہارے پاس ہوتے ہیں

تمہارے پاس ہوتے ہیں، تو اس میں کیا برائی ہے

 

تمہارے زلف کے سائے ہمیں تو راس آتے ہیں

ہمیں یہ راس آتے ہیں، تو اس میں کیا برائی ہے

 

ترے جیسے نہیں لیکن بہت اچھوں سے اچھے ہیں

بہت اچھوں سے اچھے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے

 

مرے اشعار میں جانی تری آنکھوں کے چرچے ہیں

تری آنکھوں کے چرچے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے

 

تری رسوائی کے ڈر سے تجھے چھپ چھپ کے ملتے ہیں

تجھے چھپ چھپ کے ملتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے

 

کسی نے یہ دیا طعنہ کہ جاذب ہم کسی کے ہیں

اگر جاذب کسی کے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے

٭٭٭

 

 

ہمارے ساتھ ماضی کے کئی قصے نکل آئے

بہت سے دوست دشمن مارنے مرنے نکل آئے

 

پلٹتا دیکھ کر منزل نے یوں آواز دی ہم کو

پرانے راستوں میں سے نئے رستے نکل آئے

 

کیا تھا صاف ہم نے راستہ اشجار کٹوا کر

کہاں سے روکنے کو راستہ پتّے نکل آئے

 

ہماری نیند سے جب واپسی ممکن ہوئی یارو

کھلا ہم پر کہ ہم تو صبح سے آگے نکل آئے

 

ہمارے ساتھ جاذب قافلہ نکلا تھا جو اُس میں

بہت سے اجنبی تھے اور کچھ اپنے نکل آئے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے