سوچ ۔۔ جلیل حیدر لاشاری

 آج سبزی منڈی پہنچتے مجھے دیر ہو گئی۔ راستے میں ٹریفک اتنی بری طرح پھنسی ہوئی تھی کہ پورا گھنٹہ ٹریفک کی نذر ہو گیا۔ اور اوپر سے سڑک پر اتنے بڑے اور گہرے گڑھے کہ آپ پہلے دوسرے گیئر سے آگے گاڑی چلا ہی نہیں سکتے۔ اور مزید ظلم یہ کہ ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سپیڈ بریکر !۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سپیڈ بریکر بنانے کی کیا تُک ہے۔ بہر حال جیسے تیسے منڈی پہنچا تو دیکھا پارکنگ پر گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔  دیر سے پہنچنے کا کچھ تو خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ بڑی دور جا کر گاڑی پارک کرنے کو جگہ ملی۔ دراصل آج اتوار کا دن ہے اور میری طرح ملازمت پیشہ لوگ چھٹی والے دن ہی بازار اور سبزی منڈی کا رُخ کرتے ہیں اور پورے ہفتے کی اشیا ء اور سبزی وغیرہ لے کے فرجوں میں ٹھونس کے پورے ہفتے کے لیے بے چنت ہو جاتے ہیں۔  اتوار والے دن سبزی خریدنے کے دو تین نقصانات ہیں مثلاً پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ، سبزی کا ریٹ عام دنوں سے زیادہ ہو گا کیونکہ دوکانداروں کو پتہ ہوتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے پاس ایک تو پیسے بہت ہوتے ہیں اور دوسرا ایک اتوار کا دن ہوتا ہے، سبزی جس ریٹ پہ ملے انہوں نے لینی ضرور ہے اور ایک اہم بات اتوار والے دن شہر کے سارے نہیں تو آدھے بھکاری سبزی منڈی ضرور پہنچے ہوتے ہیں۔  آپ ابھی اپنی سواری سے اُترے نہیں وہ فوراً آپ کے پاس پہنچ گئے۔ ان میں بعض اتنے بے حوصلہ ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنی سواری سے اترنے ہی نہیں دیتے اور پہلے دستِ سوال دراز کر دیتے ہیں۔  بعض تو گاڑی کے شیشے اتنے زور سے کھٹکھٹاتے ہیں کہ لگتا ہے شیشہ توڑ کے ہی دم لیں گے۔ بعضوں نے تو بھیک مانگنے کے جدید طریقے ایجاد کیے ہوتے ہیں۔  مثلاً کسی پرانے بوسیدہ کاغذ پر کسی ڈاکٹر کا نہ پڑھا جانے والا نسخہ، چھپے ہوئے جیبی سائز کے کارڈ جن پر ان کے رُلا دینے والے حالات لکھے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے میرے پریپ کلاس میں پڑھتے بیٹے نے بازار میں شوارما خریدتے ایک فقیرنی کو دیکھا اور مجھ سے میرا موبائل فون لے کر اُس کی فوٹو بنا لی۔ اب وہ فوٹو گھر میں سب کو دکھاتا پھرتا ہے۔

آج منڈی کافی مہنگی تھی۔ آلو، ٹماٹر، پیاز تو بہت مہنگے تھے۔ بیس تیس روپئے  کلو بکنے والا ٹماٹر ایک سو بیس روپے کلو بِک رہا تھا لیکن اس کے باوجود آج بھی منڈی میں بہت رش تھا۔ میں پھل لینے کے لیے ایک دکان پر رکا تو دیکھا کہ ایک دکان دار اور ایک برقع پوش ادھیڑ عمر خاتون کے درمیان تکرار جاری تھی۔ خاتون کا اصرار تھا کہ کچھ دیر پہلے خریدے گئے سیب وہ واپس لے لے کیونکہ اس کے پاس اب واپسی کا کرایہ ختم ہو گیا ہے۔ دکان دار نہ لینے پر بضد تھا۔ دکاندار کا موقف تھا کہ ایک تو وہ خریدی ہوئی چیز واپس نہیں کرتا دوسرا واپس کیے جانے والے سیبوں کا ایک پاؤ وزن کم ہے۔ خاتون وزن میں کمی ماننے کے لیے بالکل تیار نہ تھی لیکن دکان دار سب کے سامنے سیبوں کا وزن کر کے اپنے موقف میں وزن پیدا کر رہا تھا۔ خاتون کہہ رہی تھی کہ پہلے تم نے دوسرے باٹ سے وزن کیا تھا مگر اب دوسرے سے کر رہے ہو۔ جب دکاندار بالکل ہی نہیں مانا تو خاتون نے سیبوں کا تھیلا میری طرف بڑھاتے ہوئے انتہائی لجاجت آمیز لہجے میں کہا’’ صاب جی ! آپ یہ سیب لے لیں ، سبزی مہنگی تھی میں نے سیب لے لیے تھے لیکن اب حساب کیا تو واپسی کا کرایہ نہیں بچتا‘‘ میں نے دل میں سوچا یہ بھیک مانگنے کا جدید طریقہ ہے۔ پہلے وزن کم کر کے سیب واپس کرنے کی کوشش کی۔ جب اس طرح دال نہیں گلی تو کسی سفید پوش کو دیکھ کر اس سے رقم بٹورنے کی ٹھان لی۔ لیکن اس کے لہجے میں اتنا دُکھ اور بے بسی چھپی تھی کہ ایک پل کے لیے میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہیں یہ واقعی ضرورت مند نہ ہو۔ لیکن دوسرے ہی لمحے خیال آیا دُکھی لہجے میں بولنا تو ان لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میں اس سے توجہ ہٹا کر دکان دار سے پھلوں کے ریٹ پوچھنے لگا۔ وہ خاتون پھر مجھ سے اسی دُکھی لہجے میں درخواست کرنے لگ گئی۔ میں نے جان چھڑانے کے لیے ایسے ہی پوچھ لیا کتنے کے ہیں یہ تمہارے سیب؟ وہ بولی صاب جی چالیس روپے کے ہیں۔  پتہ نہیں مجھے کیا ہوا میں نے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا اور پچاس روپے کا نوٹ نکال کر خاتون کو دے دیا۔ خاتون نے کہا صاب جی میرے پاس دس روپے تو نہیں ہیں۔  میں نے کہا کوئی بات نہیں یہ سیب بھی رکھ لو اور دس روپے بھی۔ یہ کہہ کر میں دکان دار کی طرف متوجہ ہو گیا اور پھل لینے میں مصروف ہو گیا۔ پتہ نہیں وہ کب وہاں سے چلی گئی۔

’’ صاب جی اس طرح کی یہاں کئی پھرتی ہیں۔  لوگوں نے بھیک مانگنے کے نئے سے نئے طریقے ڈھونڈ رکھے ہیں۔  آپ بھی صاب بہت سخی لگتے ہو سیب بھی نہیں لیے اور پیسے بھی دے دیے‘‘۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ میں کیوں ایک بھکارن کے دھوکے میں آ گیا۔ پھر یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ یار کون سی بڑی رقم وہ مجھ سے ہتھیا کر لے گئی ہے، ہیں تو معمولی سے پچاس روپے ہی۔ دکان دار نے بھی شاید میری دل میں کی گئی خود کلامی سن لی تھی، کہنے لگا ـ’’ صاب جی پریشان نہ ہو، پچاس روپے کوئی بڑی رقم نہیں ہے، بس آئندہ احتیاط کرنا  اس طرح کی ٹھگی عورتوں سے‘‘ دوکان دار نے ترازو سے دو کلو کا پرانا باٹ نئے دو کلو کے باٹ سے یوں بدلا جیسے میں کچھ نہیں دیکھ رہا!!

میں منڈی اور کار تک عام طور پر دو تین چکر لگاتا ہوں۔  ہفتے بھر کی سبزی ایک چکر میں کہاں آتی ہے۔ جب میں آخری چکر کے بعد کار کے قریب پہنچا تو مجھے کار کی چھت پر ایک نیلے رنگ کا شاپر نظر آیا، پہلے تو میں ڈر گیا کہیں کسی نے کوئی دھماکہ خیز مواد تو نہیں رکھ دیا لیکن فوراً یہ خیال آتے ہی تسلی ہوئی کہ دھماکہ خیز مواد کار کے نیچے رکھا جاتا ہے، اوپر نہیں۔  میں نے کار میں سبزی کا آخری تھیلا رکھنے کے بعد شاپر اُٹھا کر کھولا تو اس میں دو کلو سیب اور دس روپے پڑے میری بھکاریوں کے متعلق سوچ کا مذاق اُڑا رہے تھے !!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے