رات کا رنگ ۔۔۔ شوکت حسین شورو/عامر صدیقی

وہ کروٹ بدل بدل کر پریشان ہو گیا، پھر بھی اس نے اٹھنا نہیں چاہا۔ گھڑی میں وقت دیکھا، جبکہ کچھ ہی دیر پہلے وقت دیکھ چکا تھا۔ ابھی تک دس بھی نہیں بجے تھے۔ ویسے اٹھنے کا وقت آٹھ بجے کا تھا۔ دس بجے آفس کی گاڑی لینے آتی تھی۔ لیکن آج فوتگی جیسا دن تھا۔ چھٹی کا دن تھا۔ دن بڑی مصیبت بن جاتا تھا، اتنا بڑا دن جو تمام ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے سورج بھی اس دن چھٹی کرتا تھا اور سستی سے سرکتا، سانس لیتا جاتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ آنکھ کھولنے سے وہی دیکھی ہوئی شکلیں نظر آئیں گی، روزمرہ کی وہی باتیں کرنی پڑیں گی۔ اس کے پارٹنرز وقت کاٹنے کے لئے بیٹھ کرتا ش کھیلتے رہیں گے اور خود انہیں کھیلتے ہوئے دیکھتا رہے گا۔ اسے کھیلنا نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی کتاب اٹھا کر پڑھے گا، لیکن اب تو کتابوں سے جی اوب چکا تھا۔ دھیان سے کتاب نہیں پڑھ پا رہا تھا۔ صفحات کے صفحات پلٹنے کے بعد اسے احساس ہوتا تھا کہ پتہ نہیں کیا پڑھا ہو گیا۔ پھر صفحے پلٹ کر دوبارہ پڑھتا تھا۔ پچھلے ایک سال سے لگاتار اس کی ایسی ہی حالت تھی۔ روٹین لائف، کوفت، مردنی زندگی کی، بدلاؤ، رنگینی کا احساس معدوم۔
’’ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ کئی سالوں سے فریزر میں بند پڑا ہوں اور منجمد ہو کر برف بن گیا ہوں۔ لیکن برف تو باہر نکلنے پر گھل جاتی ہے اور پانی بہنے لگتا ہے۔ بہتا پانی مجھے اچھا لگتا ہے۔ ٹھہرا ہوا پانی دیکھ کر دل پریشان ہو اٹھتا ہے۔ بہتے پانی کی مانند انسان بھی چلتا رہے۔ ایک ہی جگہ جم نہ جائے۔
اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اس کے سبھی پارٹنرز ابھی تک سو رہے تھے، بڑے مزے سے۔ وہ ماحول سے مطابقت نہ بٹھاتے ہوئے بھی ٹھیک ٹھاک تھے۔ انہیں کچہری لگانے، فالتو باتیں کرنے، ڈینگیں ہانکنے میں مزا آتا تھا۔ وہ سبھی نارمل طرح کے انسان تھے۔ ’’انسان ہو تو نارمل ہو، ورنہ ایبنارمل شخص کے لئے جو حساس بھی ہو، تو اس کے لئے زندگی سزا ہے۔ مجھ میں بیزاری پہلے سے ہی تھی۔ اپنے آپ سے بیزاری، حالات سے بیزاری۔ لیکن اب یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے، لہر کی طرح میرے اوپر چڑھتا جا رہا ہے۔ حالات و واقعات کا ختم نہ ہونے والا بہاؤ ہے۔ بس میں کچھ بھی نہیں۔ فقط بے بسی، مجبوری اور ان کے نتیجے میں غصہ اور نفرت اپنے آپ سے، کیونکہ لگ رہا ہے کہ قصور خود ہی کا ہے۔ دنیا سے، ماحول سے ’’ایڈجسٹ‘‘ نہیں کر پاتا۔ انسان اوروں کے لئے پریشانی تو ہے ہی، خود اپنے لئے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ جب کوئی شخص خود کے لئے ہی جہنم بن جائے تو اس کے لئے زندگی کاٹنا کتنا دشوار تر کام ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ایسا ہی ہو گیا ہوں۔ میں نے ایسا چاہا نہیں تھا، لیکن چاہنے نہ چاہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہوا ہے، وہ پتہ نہیں کیسے دھیرے دھیرے یا اچانک ہو گیا۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ میں بیمار بن گیا ہوں۔‘‘
پارٹنرز ایک کے بعد ایک اٹھنے لگے۔ اس نے پھر سے آنکھیں بند کر کے سونے کا ڈھونگ رچایا۔ اس کی پریشانی بڑھتی گئی۔ کچھ دیر بعد اس کے دل نے چاہا کہ اٹھ کر چیخے۔ غصے میں پیروں سے چادر ہٹا کر وہ اٹھ بیٹھا اور پھر رواج کے مطابق تیار ہونے لگا۔
’’پارٹنر آج کہاں کی تیاری ہے؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’دوست کو وقت دیا ہے۔‘‘ اس نے اختصار میں جواب دیا۔
’’یار، کبھی ہمیں بھی وقت دو، آخر ہمارا بھی تو حق ہے۔‘‘
’’آپ لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں، گپ شپ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہوں!‘‘
’’چھوڑ یار، رات کو پتہ نہیں کب آتے ہو اور صبح تم سوئے ہی پڑے رہتے ہو تو ہم چلے جائیں۔ کبھی آدمی سامنے بیٹھ کر گپ شپ کرے، تبھی مزا ہے۔‘‘
’’ہم تو ان کے ساتھ گپ شپ کرنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔‘‘ دوسرے پارٹنر نے کہا۔
’’یہ تو آپ لوگوں کا پیار ہے، کیا کریں نوکری ہی ایسی ہے۔ ویسے، آج میں جلدی لوٹ کر آؤں گا، اس کے بعد گپ شپ کریں گے۔‘‘
اور اس گپ شپ میں میں فقط سننے والا رہوں گا، اس نے دل میں کہا۔
زیادہ کھنچاؤ سے بچنے کے لئے وہ جلدی تیار ہو کر باہر نکل گیا۔
چھٹی ہونے کے سبب بس میں بھیڑ کم تھی۔ لوگ آرام سے کھڑے ہو رہے تھے۔ کسی اور دن تو بس میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہ ملتی۔ لوگ ایسے بھرے رہتے ہیں، جیسے ٹرک میں بھری ہوئیں بھیڑیں اور بکریاں۔ کوفت، پسینے کی بدبو، لاتیں، کنڈکٹر کی چہل پہل۔
صدر، ایلفی، جہاں لوگوں سے زیادہ موٹر کاریں ہوتی ہیں، وہاں آج ویرانی تھی۔ بس ہوٹلیں کھلے ہوئے تھے، لیکن ان میں وہ شور نہیں تھا۔ فٹ پاتھوں پر پرانی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ڈھیر میں سے کبھی کبھی اچھی کتاب نکل آتی ہے اور ویسے کتاب ڈھونڈے ہوئے، وقت بھی کٹ جاتا ہے۔ وہ کچھ دیر تک کتابیں دیکھتا اور ڈھونڈتا رہا۔ اس بار کوئی بھی اچھی کتاب نظر نہیں آئی۔ ’’انگریزی میں اتنا سارا ٹریش لٹریچر لکھا جاتا ہے! یہ کس طرح کے لوگ پڑھتے ہوں گے؟‘‘ آخر وہ تھک کر اٹھا۔
وہ بوری بازار کی سنسان گلیوں میں، ایلفی، وکٹوریہ روڈ اور ریگل کے آس پاس بھٹکتا رہا۔ ’’ایک وہ لوگ ہیں، جنہیں وقت نہیں ملتا اور میرے لئے وقت کاٹنا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فوتگی جیسا دن آخر کب ختم ہو گا؟ (جب تک مردار جیسی زندگی ہے ) اتنے بڑے، جگمگاتے شہر میں میرا وقت نہیں کٹ رہا، جہاں وقت کاٹنے کے لئے ہر چیز دستیاب ہے۔ لیکن یہ چیزیں رستوں پر گری ہوئی تو نہیں پڑی ہیں۔‘‘
چلتے چلتے اس کی ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ وہ پیراڈائز سنیما کے پاس ریلنگ پر بانہیں رکھ کر کھڑا رہا۔ اکا دکا کاریں گزرتی رہیں۔ ایک دو کاروں میں اسے جانی پہچانی صورتیں بھی نظر آئیں اور اس نے منہ پھیر لیا۔ اسے خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے کہ فالتو لوگوں کی طرح اور عجیب نظروں سے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے، لعنت ہے۔ جسے جو چاہے جا کر سوچے۔ میں اپنے آپ سے بھی ڈروں اور دوسروں سے بھی ڈروں۔۔ بڑا نیچ ہوں، معمولی ہوں۔ خود پسندی کا مریض ہوں۔ مجھے خود سے نفرت ہے۔ نفرت ہے۔‘‘ اس نے ریلنگ پر زور سے گھونسے مار دیئے، اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اسے آفس میں ہوئی کل کا واقعہ یاد آ گیا۔
’’جی؟‘‘ لڑکی نے اس سے تیسری بار پوچھا، ’’معاف کیجئے، مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی!‘‘
’’کہتا ہے کہ تمہارے کاغذ ابھی تک پڑھ نہ سکا ہوں۔ اب جلدی پڑھ کر، خط کے بارے میں بتاؤں گا۔‘‘ دوسری لڑکی نے سہیلی کو سمجھاتے کہا۔
وہ بلاوجہ کاغذوں کو الٹ پلٹ رہا تھا۔ نگاہیں کاغذوں پر تھیں، لیکن پوری توجہ لڑکیوں کی بڑبڑاہٹ کی جانب تھی۔
’’اتنا دھیرے بات کرتا ہے کہ مجھے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ پتہ نہیں تم کیسے سمجھ جاتی ہو؟‘‘
’’پہلی بار میں تو میں بھی نہیں سمجھ رہی۔‘‘ دونوں منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگیں۔ اس کے بدن سے پسینہ بہنے لگا۔ اسے خیال آیا کہ زیادہ دیر تک چپ رہا تو چوتیا لگوں گا۔
کوشش کر کے اس نے بڑے آواز میں کہا، ’’آپ پاس میں ہی رہتے ہیں یا دور؟‘‘ اسے اپنی آواز کچھ زیادہ ہی بلند لگی۔
’’نہیں، میرا گھر کافی دور ہے۔ کراچی میں سواری کی بڑا مسئلہ ہے۔ رکشا والے تو بالکل نواب ہیں۔ جس سمت وہ جانا چاہیں تو مسافر بھی اسی سمت جائیں۔‘‘
’’آپ کے کام میں تھوڑی دیر لگے گی۔‘‘ درمیان میں وہ دوسری بات کر بیٹھا۔ لیکن لڑکی نے اس کی بات نہیں سمجھی۔
’’ہاں، یہ روز کی مصیبت ہے۔ رکشا والوں کو بولنے والا کوئی نہیں ہے۔ پولیس سے تو ان کی ملی بھگت ہوتی ہے، اس لئے شکایت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘
’’حقیقت میں پورا نظام ہی ایسا ہے۔ ہمارے یہاں بھی آپ کو بلاوجہ دیر ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے مذاق پیدا کرنے کی کوشش کی۔
’’جی!‘‘
دوسری لڑکی ہنسنے لگی، ’’دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے۔‘‘
وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا۔
’’صاحب، آپ یہاں کھڑے ہیں؟‘‘ اس نے ہڑبڑا کر دیکھا، سامنے آفس کا کوئی شخص کھڑا تھا۔
’’اوہ! میں یہاں ٹیکسی کے لئے کھڑا تھا۔‘‘ اس نے جان چھڑانی چاہی۔
’’صاحب، یہاں تو ٹیکسی ملنا مشکل ہے۔ میں آپ کے لئے لے کر آؤں؟‘‘
’’نہیں نہیں، تم جاؤ، میں خود ہی لے کر آؤں گا۔‘‘
وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھتا چلا گیا۔
’’لوگ کہیں بھی نہیں چھوڑتے۔ میری مرضی، میں کہیں بھی کھڑا رہوں۔‘‘ وہ وہاں سے چلنے لگا۔ سامنے ہوٹل پر نظر گئی۔ اندر چلا گیا اور خالی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا۔ بیرا پانی کا گلاس لے کر آیا۔ چائے لانے کے لئے کہہ کر اس نے آس پاس دیکھا۔ پوری ہوٹل میں اس کے علاوہ اور کوئی بھی اکیلا نہیں تھا۔
’’تم اتنا دھیرے کیوں چل رہے ہو؟ ایسے سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتے ہو، جیسے ڈر رہے ہو کہ کہیں دھرتی کو تکلیف نہ ہو۔‘‘ ایک دوست نے کہا تھا۔ لیکن پھر بعد میں جب اس نے اس بات پر غور کیا تھا تو اسے دوست کی بات درست لگی تھی۔
’’زندگی جینے کے قابل نہیں یا مجھ میں جینے کا مادہ نہیں۔ جینا بھی ایک فن ہے، جو مجھے کبھی نہ آیا۔ ایسی نا مکمل، غلط اور بیکار زندگی جینے کا کیا فائدہ۔ موت تو کبھی بھی آ سکتی ہے، پھر آدمی بیٹھا انتظار کرے اور تکلیفیں برداشت کرے!‘‘
پہلے کئی بار سوچی ہوئی بات اس کے دماغ میں پھر آئی۔ پتہ نہیں کتنے وقت تک میں اس پر سوچتا آیا ہوں۔ لیکن اب، اس وقت مجھے پکا ارادہ کرنا چاہئے۔ میرے لئے یہی ایک عزت دار طریقہ ہے، نہیں تو میں اپنے آپ سے نفرت کے جہنم میں جلتا رہوں گا۔ مجھے آج ہی اپنا خاتمہ کرنا چاہئے، آج ہی۔‘‘ اس نے پکا ارادہ کیا۔ اس کے آگے ٹیبل پر پلیٹ میں بل رکھا تھا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ کب اس نے چائے پی لی۔ کپ خالی تھا اور اس کے پیندے میں تھوڑی بچی ہوئی چائے تھی۔
جیب سے پیسے نکالتے اس نے سوچا کہ کون سی جگہ ٹھیک رہے گی۔ اسے سمندر کا خیال آیا۔ ’’ہاں، سمندر زیادہ ٹھیک ہے۔ سمندر نے ہمیشہ سے میرے دل کو اپنی جانب کھینچا ہے۔ سمندر دیکھ کر مجھے کشش کے ساتھ ہیبت بھی محسوس ہوتی ہے۔ میں خود کو سمندر کے لا محدود خلا میں گم کر دوں گا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ لوگ میری موت پر باتیں کریں۔ جیتے جی تو مجھ پر باتیں کرتے رہتے ہیں، لیکن میں انہیں اپنی موت پر باتیں کرنے نہیں دوں گا۔ کسی کو میری خبر تک نہیں لگے گی۔‘‘
وہ اٹھ کھڑا ہوا اورک فٹن کی طرف جاتی ہوئی بسوں کے اڈے کی جانب چلنے لگا۔ ایک بس اڈے سے چلنے والی تھی۔ چھٹی ہونے کے سبب کلفٹن جاتی بسوں میں زیادہ بھیڑ تھی۔ اس نے دوسری بس کا انتظار کرنا نہیں چاہا۔ چلتی بس میں چڑھنے کے لئے دوڑا۔ اس کا ہاتھ ڈنڈے پر پڑ گیا اور پیر اوپر اٹھ گئے۔ اور بھی کئی لوگ باہر لٹک رہے تھے۔ فقط اس کے ایک پیر کو ہی فٹ بورڈ پر جگہ مل پائی اور دوسرا پیر لٹکتا رہا۔ ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔
’’اگر میں فقط یہ ہاتھ چھوڑ دوں تو دیر ہی نہیں لگے گی۔ وہیں کام پورا ہو جائے گا، لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ میں اپنی موت کو تماشا بنانا نہیں چاہتا۔ موت کی پبلسٹی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ صاف ہے کہ بس رکوائی جائے گی۔ لوگ اسے اتفاقی حادثہ کہیں گے، لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے بے پرواہ اور بس کے دروازے پر لٹکنے والا شو باز سمجھیں گے۔ رشتے داروں، دوستوں اور پہچان والوں کو میری بیوقوفی پر تعجب ہو گا۔ بس میں سفر کرنے والے سبھی لوگ مجھے گالیاں دیں گے کہ میرے سبب انہیں دیر ہو گئی۔ بس کا غریب ڈرائیور اور کنڈکٹر پھنسیں گے۔ یہ سب باتیں ہیں، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ میں مروں ہی نہیں، بس سے تو دور جا کر گروں گا، فقط ہاتھ پیر ٹوٹیں اور اپاہج بن جاؤں۔ اس وقت خود پر بوجھ ہوں، بعد میں اوروں پر بوجھ بن جاؤں گا۔‘‘ خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ آگے کھڑے شخص کا پورا وزن اس کے اوپر پڑ رہا تھا اور اس کے ہاتھ کی پکڑ ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ اس نے اس شخص کو اپنی چھاتی سے ڈھکیلتے غصے سے کہا، ’’بھائی صاحب، خود کو سنبھالو، گرا رہے ہو۔‘‘
شخص نے اس کی طرف غصے سے دیکھا، ’’مجھے بھی دوسرے لوگ دھکیل رہے ہیں۔‘‘ لیکن پھر بھی اس نے خود کو سنبھالا۔
کچھ دیر تک دماغ کو آرام مل گیا۔ وہ پورے راستے خود کو مضبوطی سے سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ بس کلفٹن پر آ کر کھڑی ہوئی تو اسے بس مٹھی کھولنی پڑی اور با آسانی اتر آیا۔ ہاتھ میں درد ہو گیا تھا اور ہتھیلی سرخ ہو گئی تھی۔ وہ چلتا ہوا سمندر کی طرف آیا۔ بچے، عورتیں اور مرد ادھر ادھر دوڑ رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے، سبھی خوش تھے یا خوش ہونے کا ڈھونگ کر رہے تھے۔ وہ خود بھی تو ایسا ہی کرتا آیا تھا، دوستوں اور پہچان والوں کے آگے، منہ پر پرسکون ہونے کا، خوش ہونے کا، جھوٹا نقاب چڑھا کر۔ جب اکیلے میں وہ یہ نقاب اتارتا تھا تو اس کا دل بھر آتا۔ چاہتا کہ اس وقت کوئی ہو، جو اس کے دل کو سمجھ سکے۔
تمہارا چہرہ اتنا Expressionless کیوں ہے؟
تم ہمیشہ Confuse اور دکھی کیوں رہتے ہو؟
تم چپ چاپ کن خیالوں میں کھوئے رہتے ہو؟
تمہارے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں، ہونٹوں میں کیا بڑبڑاتے رہتے ہو؟
تم میں پھرتی نہیں ہے! لگتا ہے جیسے خود سے ہی پریشان ہو۔ اور اس نے خود سے پوچھنا چاہا، ’’تم اتنے وقت تک زندہ کیوں ہو؟‘‘
اچانک وہ زور سے چیخا، فالتو۔ ایک دم ہڑبڑا کر آس پاس دیکھا۔ پاگلوں کی طرح چیخنے پر اسے شرم محسوس ہوئی۔ لیکن اسے تعجب ہوا کہ کسی کا بھی اس کی جانب دھیان نہیں تھا۔ لوگوں نے جان بوجھ کر اس کی جانب توجہ نہیں کی یا کوئی اور بات تھی۔ اس کی سانس گھٹنے لگی۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ یہ چیخ اس کے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اسے خود پر طیش آیا۔ ’’بزدل، ڈرپوک۔ جو کچھ چاہتا ہوں، وہ کر نہیں پاتا، ایک چیخ بھی نہیں!‘‘ اسے رونا آ گیا، وہ بھی اندر ہی اندر۔ باہر کچھ نہ تھا۔ ٹھہرا پانی، جمع ہوا، برف بنا ہوا، اندر گہرائی میں پانی ابل رہا تھا اور اذیت تھی جلنے کی۔
وہ کنارے پر بنی پتھر کی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور سمندر کی طرف دیکھنے لگا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد وہ خود کو ان لہروں کے حوالے کرنے والا تھا۔
وقت ریت کی مانند اس کی مٹھی کے سروں سے سرکتا جا رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ اتنے سارے لوگوں کے سامنے وہ نہیں مرے گا۔ وہ اٹھا اور کنارے کنارے چلتا رہا، کسی سنسان اور صحیح جگہ کی تلاش میں۔ وہ لوگوں، لوگوں کے قہقہوں اور بچوں کے شور سے بہت دور نکل آیا۔ وہاں بس سمندر کا شور تھا اور اس کے اوپر سفید پرندے اڑ کر چیخ رہے تھے۔ لہریں اس کے پیر بھگونے لگیں۔ اس نے پیچھے دیکھا، دائیں بائیں دیکھا اور پھر سمندر کی طرف۔ اس کے آگے تا حد نگاہ، لا محدود سمندر تھا، سمندر کی چھوٹی بڑی لہریں تھیں اور سمندر کا پہاڑ تھا۔ اس نے خود کو بے حد اکیلا، بیچارہ اور بے بس پایا۔ اس نے پوری زندگی ایسا ہی محسوس کیا تھا۔ ’’آخری لمحوں میں جب میں اپنی مرضی سے کچھ کر رہا ہوں، پھر بھی خود کو بیچارہ محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
بائیں جانب پہاڑیاں تھیں۔ اسے خیال آیا کہ ان پہاڑوں پر چڑھ کر آس پاس آخری نگاہ ڈالے۔ وہ جب ایک پہاڑ پر چڑھ رہا تھا تو دو لوگوں کی باتیں کرنے کی آوازیں سنیں، عورت اور مرد۔ وہ ٹھٹک کر ٹھہر گیا۔
’’میں ایک معمولی حیثیت والا آدمی ہوں۔ میں تمہیں اتنا سکھ نہ دے پاؤں گا، جتنا تمہیں اپنے رشتے داروں سے ملا ہے۔ میں نے تجھ سے کچھ نہیں چھپایا ہے، وینا! فیصلہ تمہارے اوپر ہے۔ ایسا نہ ہو، کہ خوشی اور آرام کی زندگی چھوڑ کر، پوری عمر پچھتاتی رہو!‘‘
پھر اس نے عورت کی آواز سنی، ’’ہم دونوں پڑھے لکھے ہیں۔ رسمی پیار پر ہمارا یقین نہیں۔ ہم ایک دوسرے کے اندر شعور کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں، سہہ سکتے ہیں۔ ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔ ہم بھوکوں نہیں مریں گے۔ باقی عیش آرام نہ ہوا تو کیا، ہم ایک دوسرے کے لئے عیش آرام ہیں۔‘‘
’’او وینا۔ وینا۔ میری وینا۔ تم نے مجھے تباہ ہونے سے بچا لیا۔ تم نے میری بے رنگ زندگی میں رنگ بھر دیئے ہیں۔ سمندر کا رنگ، دھرتی کا رنگ، پہاڑیوں کا رنگ، آسمان کا رنگ اور شام کا رنگ۔! پتہ نہیں کتنے رنگ بھر گئے ہیں میری بے رنگ زندگی میں!‘‘
’’عشق نے تمہیں شاعری سکھا دی ہے۔‘‘ قہقہہ لہروں کے سنگیت میں گھل کر، ’’لیکن اچھا شاعر بننے کے لئے عشق میں ناکامی ضروری ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں، میں ناکام شاعر بننا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ سمندر کی لہروں پر تیرتا قہقہہ۔
اسکا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ زیادہ وقت تک ٹھہر نہیں پایا اور چلنے لگا۔ وہ کانپتے قدموں سے واپس جانے لگا، لیکن اسے اس بات کا ہوش ہی نہ تھا۔
’’کیا کوئی شخص اس امید پر خود کو جینے کے لئے مجبور کر سکتا ہے کہ کبھی اس کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھر جائیں گے۔ سمندر کا رنگ، زمین کا رنگ، آسمان کا رنگ، شام کا رنگ۔ شاید کبھی کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے زندگی میں۔‘‘ اسے یاد آیا کہ وہ خودکشی کرنے کے لئے آیا تھا، وہ نجات اور چھٹکارا جسے میں خود محسوس کر سکوں، مزہ لے سکوں، وہ تو موت میں بھی نہیں ملے گا۔ وہ تو الٹا انجان ہے، زندگی میں دکھ درد ہیں، نس نس پر درد ہے، لیکن یہ سبھی احساس ہیں تو سہی، موت کے بعد تو یہ احساس بھی نہیں رہیں گے۔ میں چاہتا ہوں نجات، جس میں نجات کا کوئی احساس نہ ہو گا۔‘‘ اس نے خود کو ہلکا ہلکا بے وزن محسوس کیا۔ اس کی طبیعت کا بھاری پن اتر گیا، ڈپریشن کی لہر ابھر کر اتر گئی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے ایک بھاری ہنگامے کے بعد سناٹا چھا گیا ہو۔
‘کہیں میں نے ڈر کر خود کشی کا خیال دل سے اتار تو نہیں دیا۔ نہیں، میں نے یہ اتار نہیں دیا ہے۔ فقط کچھ وقت کے لئے ٹال دیا ہے۔ میں انتظار کرنا چاہتا ہوں، دیکھنا چاہتا ہوں۔ شاید کبھی حالات میں بدلاؤ آئے گا۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔ دیکھتے ہیں۔‘‘ وہ پھر سے لوگوں کے ہجوم میں آ پہنچا۔ اس نے خود کو عام آدمی کی طرح سمجھا۔ اس کے دل نے چاہا کہ کسی سے بات کرے، قہقہے لگائے۔
بہت سے لوگ واپس جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اس نے سوچا کہ اسے بھی واپس جانا چاہئے۔ دو بسیں بدلنی تھیں اور گھر کراچی کے آخری کنارے پر تھا۔ وہ بس اسٹاپ کی سمت جانے لگا۔
لوگ بھیڑ کر کے بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیٹ ملنے کی امید کم تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ کیسے بھی کر کے بس میں پہلے چڑھنے کی کوشش کرے گا اور سیٹ پر ضرور بیٹھے گا۔ اسے بس میں کھڑے لوگوں کی بھیڑ میں پسنا نہیں چاہا۔ وہ ابھی کچھ فاصلے پر تھا تو بس آ کر کھڑی ہو گئی۔ لوگوں نے بس کو گھیر لیا اور اترنے والے بڑی مشکل سے اترنے لگے۔ وہ دوڑ کر بس کی طرف بڑھا۔ روڈ پار کرتے وقت اس کی نظریں بس کے دروازے پر تھیں۔ سڑک سے تیزی سے آتی ہوئی کار کے ٹائروں کی زوردار آواز ہوئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے الگ الگ رنگ ناچنے لگے۔ دھرتی کا رنگ، آسمان کا رنگ، شفق کا رنگ اور نہ ختم ہونے والی اندھیری رات کا رنگ۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے