دھوپ کی شاخ ۔۔۔ اسد قریشی/ اعجاز عبید

۲۰۰۵ء میں مشہور ویب سائٹ اردو محفل کا اجراء ہوا اور اس کے ابتدائی زمانے سے سے ہی میں اس کے اصلاحِ سخن فورم میں فعال کردار نبھانے لگا۔ اسی سائٹ پر اب تک بھی اردو محفل کے بہت سے ارکان اپنی شاعری بغرض اصلاح پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ میں خود کو عروض دان تو نہیں کہہ سکتا، لیکن کچھ نہ کچھ مشورے ضرور دیتا آیا ہوں۔ شروع میں تو بہت سے ارکان کے نا موزوں کلام کو بھی موزوں کر کے دے دیتا تھا، لیکن جب اصلاح سخن کا کام بہت بڑھ گیا، تو میں اس سے اجتناب کرنے لگا ہوں، اور اکثر محض اغلاط کی نشان دہی کر کے چھوڑ دیتا ہوں اور نو آموز شعرا کو مشورہ دیتا ہوں کہ الفاظ بدل کر خود ہی کوشش کر کے دیکھیں کہ کون سا متبادل مصرع بہترین ہے۔

یادش بخیر، اب سے کوئی دس سال پہلے اسی ویب سائٹ پر ایک نو آموز شاعر سے رابطہ ہوا۔ جن کی کچھ غزلوں پر اصلاح دے دی گئی، پھر ان صاحب نے اپنا مکمل مجموعہ جو متعدد غزلوں، نظموں پر مشتمل تھا، مجھے بھیج دیا۔ اگرچہ ان حضرت  کی شاعری میں کہیں کہیں دل نشین چمک دکھائی دیتی تھی، لیکن اغلاط کی بھی اتنی بھرمار تھی کہ میں نے مشورہ دیا کہ ابھی مجموعہ نہ چھپوائیں۔

بہر حال، اسد قریشی، کہ یہ انہیں صاحب کا نام تھا، میرا مشورہ مانتے ہوئے خاموش ہو گئے۔ اور پھر اردو محفل میں بھی ان کا نظر آنا بند ہی ہو گیا۔ البتہ فیس بک پر انہوں نے دوستی کی درخواست بھیجی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔

فیس بک پر ان کا کلام جستہ جستہ نظر سے گزرتا رہا، کچھ اغلاط کی شاید میں نے نشان دہی بھی کی ہو گی۔ لیکن پچھلے دنوں مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب ایک دن مجھے ڈاک سے ان کا مجموعہ ’دھوپ کی شاخ‘ ملا۔ پانچ سو روپیے قیمت کی کتاب پر گیارہ سو روپیے کے ٹکٹ لگائے گئے تھے۔ اور یہ خرچ اسد نے محض اس لیے برداشت کیا تھا کہ میں ان کا نیا مجموعہ پڑھ سکوں اور اپنی رائے کا اظہار کر سکوں۔ ورنہ ہندوستان پاکستان کے درمیان کتابوں کی آمد و رفت اس مہنگے ڈاک خرچ کی وجہ سے نا ممکن ہی کہی جاتی ہے۔

بہر حال پہلے اسد کے کچھ میری پسند کے اشعار سنانے کو جی چاہ رہا ہے۔

ریت سا وقت کو مٹھی میں دبوچے ہوا میں

اور ہتھیلی کے کناروں سے سرکتے ہوئے تم

(اگرچہ شاید خود اسد کو اس غزل کا یہ شعر پسند ہے، جس سے نہ صرف کتاب کا عنوان اخذ کیا گیا ہے، یہ ابتدائی صفحات میں ایک مکمل صفحے پر دیا گیا ہے، بلکہ یہ پوری غزل بھی بیک کور کی زینت ہے:

دھوپ کی شاخ پہ اندر سے بھی جھلسا ہوا میں

چودھویں چاند سے پانی میں اترتے ہوئے تم)

 

اٹھا رکھا ہے دیکھو آئینہ ہاتھوں میں میں نے

قسم لے لو کہ اس میں کوئی حیرانی نہیں ہے

 

یہ جو اشعار کہتے ہیں، تمہارے واسطے ہیں

ہمیں اپنی تو کوئی بھی پریشانی نہیں ہے

 

حقیقتاً کھو چکا ہوں آنکھیں میں کب کا اپنی

کہیں سے کوئی قمیص لایا تو یاد آیا

 

اس نے کی تھی فرمائش اک انگوٹھی کی

اس چکر میں گلک سارے پھوڑ دئے ہیں

 

کیا درد کہیں سے آتے ہیں

یا روح میں سارے ہوتے ہیں

 

کیا عشق کے ہم ہی تاجر ہیں

ہم کو ہی خسارے ہوتے ہیں

 

دیکھوں گا اس کو چھو کر

پھر میں سپنا کہہ دوں گا

 

کل شب کیا تھا عہد کروں گا نہ تم کو یاد

پر کس کو بھولنا تھا، یہی بھولتا رہا

 

انتظارِ جرس میں ٹھہرے ہیں

میرے قدمو، تھکان کیسی ہے؟

 

تصویر کے رنگوں سے سنورنے کا نہیں میں

پُر خواب نگاہوں میں اترنے کا نہیں میں

 

گونجوں گا بہت دیر تلک گوشِ زماں میں

وہ طرزِ سخن ہوں کہ بسرنے کا نہیں میں

 

نیند کہہ کر یہ گئی تھی مجھ سے

خواب کوئی تو سرہانے رکھنا

 

میں نے اس ڈر سے لب بنائے نہیں

کینوس بھی وہیں سے جل جاتا

تو پری جان سے نہیں جاتی

یعنی میں خواب سے نکل جاتا

 

ترے خیال سے ایسا نکھر سا جاتا ہوں

نکل نکل کے کوئی دیکھتا ہے مجھ میں سے

 

و رہی ہے، وہ اٹھے گی تو مری ہی ہو گی

کھل ہی جاتی ہے مگر آنکھ پری سے پہلے

 

بہت خالی خالی سا لگنے لگا دل

کسی خواب سے پھر رہائی ہوئی ہے

 

لپٹ نہ جائے یہ دیوار مجھ سے اب کہ اسد

میں ڈر گیا ہوں اسے اپنا غم سناتے ہوئے

 

لیکن اتفاق سے یہ اچھے اشعار وہ نہیں ہیں جس میں اسد کی انفرادیت جھلکتی ہو۔ یہ انفرادیت مجھے تو کم از کم زیادہ مثبت محسوس نہیں ہوئی۔  انہوں نے خود کہا ہے

خیال چھوڑ کے لفظوں کے پیچھے دوڑ پڑے

ضروری ہے کہ ہر اک لفظ کے معانی کرو

الفاظ کے پیچھے دوڑ کر ایک نیا طرز بیان ایجاد کرنے کی کوشش ان سے بے معنی اور دو لخت اشعار کہلوا دیتی ہے۔  نئی نئی انجانی ردیفوں کا استعمال بھی ان کے اشعار کو عجیب و غریب بنا دیتا ہے، اور یہی اب کی ’سگنیچر ٹیون‘ یا انفرادی لہجہ ہے

آنا جانا ہو جائے گا

پیار بہانا ہو جائے گا

 

وہی باتیں پرانی، اور کیا

وہ اک جھوٹی کہانی، اور کیا

 

برا اتنا نہیں ہوں

میں بس اچھا نہیں ہوں

 

وہ محبت میں ادائیں ہائے

ساری ہم کو ہی دکھائیں، ہائے

 

لیکن الفاظ کے پیچھے دوڑنے نے ان سے ایسے بے معنی اشعار بھی کہلوائے ہیں

 

مجھ میں مجھ تک بھی ہے کوئی رستہ

یعنی محراب میں پڑا ہوا ہوں

 

سسکیوں ے نکل کے دیکھ تو لوں

درد کی داب میں پڑا ہوا ہوں

 

بدن کی القمہ ہو

ہوس کے داغ دھو لوں

 

تم بعید از  قیاس کر لینا

تشنگی کو لباس کر لیا

 

سرد جسموں سے عشق کی حدت

آخری التماس کر لینا

 

لفظ کاغذ قلم دوات الگ

اک قبیلہ محرکات الگ

 

عروضی اغلاط بھی بے شمار نظر آتی ہیں۔ جیسے

 

کب اختیار دیا ہے اسد کو رد کیجے

یہ اطلاع ہے مری جاں، سوال تھوڑی ہے (رد کے تلفظ سے قطع نظر کرتے ہوئے بھی، اطلاع کا تلفظ)

گیا ہے کون زخموں کے تخم

خون کلیوں سے ٹپکتا دیکھیے (تخم کا تلفظ)

 

کتر کتر کے بدن مجھ سے شع کہتی رہی

ہوا کے دوش پہ رکھ کر کے نگہبانی کرو (رکھ کر کے، نگہبانی کا تلفظ)

 

آسودگی تو حد سے زیادہ بھی نہیں ہے

بے چینیوں کا ایسا ارادہ بھی نہیں ہے (پوری غزل، بحر میں نہیں)

 

نہ منزلیں نہ رفاقت نہ حوصلے نہ چراغ

نہیں میں سہل پسند مشکلوں کا عادی ہوں (پسند کی دال تقطیع میں نہیں آتی)

اسی مجموعے سے معلوم ہوا کہ یہ اسد کا دوسرا مجموعہ ہے، ان کا پہلا مجموعہ ’کچھ رنگ ہے ملال کا‘ میں دیکھ نہیں سکا۔  مجھے امید ہے کہ آئندہ تیسرے مجموعے میں اسد ان اغلاط کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ کتاب جون ۲۰۱۸ء میں تہذیب پبلی کیشنز نے شائع کی ہے، ۱۶۰ صفحات کی اس کتاب کی قیمت ہے پانچ سو روپیے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے