مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

نیا سال ۲۰۱۴ء مبارک۔

ایک مدت کے بعد آپ سے مخاطب ہوں۔

’سمت‘ کے دور اول کا پہلا شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ء میں نکالا گیا تھا۔ ان دنوں تک اردو تحریر انٹر نیٹ پر خال خال ہی دکھائی دیتی تھی۔ اور ’سمت‘ کے اجراء کا مقصد یہی تھا کہ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو تحریری اردو  سے واقفیت ہو جائے۔ اسی لئے اس جریدے کی ٹیگ لائن ہی یہی تھی کہ ’اردو تحریر میں اردو کا پہلا آن لائن جریدہ‘۔ ہم نے کوشش کی تھی کہ عام اردو داں کو اس کے تکنیکی لفظ سے بھی دور رکھا جائے۔ اب بھی ’یونی کوڈ اردو‘ سے کتنے لوگ واقف ہیں؟

بیس شماروں کے بعد ’سمت‘ 2010ء میں  اس لئے بند کرنا پڑا کہ راقم الحروف  کو ادارتی تعاون حاصل نہیں ہوا تھا، اور اس کی توجہ اب برقی کتابوں کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی سمت ہو گئی تھی۔   اس کے علاوہ یہ بھی محسوس کیا گیا تھا  کہ اگرچہ تحریری اردو ہندوستان میں اتنی عام نہیں ہو سکی ہے، لیکن پاکستان اور ’اردو کی نئی بستیوں‘ میں کافی عام ہو گئی ہے۔  بے شمار ویب سائٹس اب اردو میں دستیاب ہیں، رومن اردو اور تصویری اردو کی اب وہ ہمہ گیری نہیں رہی ہے۔ اب جب کہ یہ تحریری اردو بھی دور دوم میں داخل ہو چکی ہے، یہ محسوس کیا گیا ہے کہ ’سمت‘ جیسے ہر دلعزیز جریدے کو بھی دور دوم میں قدم رکھنا چاہئے۔ اس لئے مجھے اس دور کا پہلا شمارہ پیش کرتے ہوئے بہت مسرت ہو رہی ہے۔

اس شمارے سے ’سمت‘ کا مستقل کالم ’اردو ہے جس کا نام۔۔‘ جس کے تحت یونی کوڈ اردو، کمپیوٹر پر اردو املا  کے اصول اور اردو زبان کے بارے میں  بارے میں گفتگو کی جاتی تھی، ختم کیا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی اس ذیل میں کوئی مضمون ضرور شامل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ پہلے دور کے فیچر ’گاہے گاہے باز خواں‘ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

امید ہے اس شمارے کو بھی شرف قبولیت اور مقبولیت  حاصل رہے گا۔

۲۰۱۳ء  بلکہ سمت۲۰۱۳ء  بلکہ سمت  کے غیاب کے تمام تر عرصے میں ہم کو بے شمار  احباب کی رخصت گوارا کرنی پڑی۔ کس کس کو یاد کیجئے کس کس کو روئیے؟ شہریار، مغنی تبسم، بلراج کومل، محمود ہاشمی، حسن فرخ، خواجہ جاوید اختر، علی ظہیر ¸اور ابھی حال ہی میں مظہر الحق علوی اور کمال احمد صدیقی وغیرہ ہندوستان میں اور سرحد پار  بھی احمد ہمیش،  جاوید انور اور کئی دوسرے۔ ہم اس شمارے میں دو ایسے لوگوں کو یاد کر رہے ہیں، جن کو کم یاد کیا گیا ہے۔ احمد ہمیش جو انوکھی شخصیت کے مالک بھی تھے، اور منفرد ادیب اور شاعر بھی۔ اور راجیندر یادو۔ جو ہندی کے مشہور ادیب تھے، اور اردو دوست بھی۔ ان سے اردو والے کم ہی واقف ہوں گے، اس لئے ان کا ایک طویل افسانہ بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ مظہر الحق علوی بھی مشہور ادیبوں وارث علوی اور محمد علوی کے بھائی ہی تھے۔ ان کو بھی ایک مضمون کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

تظار رہے گا۔ تخلیقی تعاون سے بھی اسی طرح نوازتے رہیں جس طرح  اس پہلے شمارے کو نوازا گیا ہے۔

ا۔ ع

3 thoughts on “مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے