تین نظمیں ۔۔۔ عارفہ شہزاد

حس لامسہ کو ابد ہے!
____________________________

اکھڑے اکھڑے
لفظوں والے!
قہر نہیں ہے
چھتناروں میں
اگتی آنکھیں،
آگ ازل سے
بستی بستی
قریہ قریہ
دھوپ جلا ہے
ڈرتے ڈرتے
راہگیروں کو
جھانک رہے ہو

چھاؤں،
دل کی ہے
کھیلے گی
کھیل انوکھا!
الجھے الجھے
تانے بانے
روح، بدن کے
پوریں، پوروں سے
کہتی ہیں،
بات وہی پھر
ہونٹوں سے
لپٹے بوسوں کی
گھات وہی ہے!
٭٭٭

گم گشتہ جنتیں
____________________________

دروازے
نہیں روک سکتے آوازیں
مگر روک دیتے ہیں
دیکھے جانے کا خوف
چاردیواری کے باہر
دندناتے ہوئے فاصلے
چار دیواری کے اندر
نہیں جھانک سکتے
دریچے
سانس کے پیامبر ہیں
مگر
کبھی کبھی
اچھے لگتے ہیں
دریچوں کے بغیر کمرے
سانسوں میں
مدغم ہوتی سانسیں
زندگی کا سفر
رکنے نہیں دیتیں!
اور اس روز
ہم نے
اپنی گم گشتہ جنت
ڈھونڈ لی تھی!

اور اب ہم
بہار کے درختوں کی
شاخوں کے ساتھ پھیلتے
پرندوں کے ساتھ چہچہاتے
اور پھولوں کے
زردانوں میں
سانس لیتے ہیں
ہم ہوا کے لمس سے
لہکتے ہیں!

ستارے ہمیں دیکھتے ہیں
اور کہکشائیں
جھمک جھمک کر
مسکراتی ہیں
سورج دن چڑھے
زمین کو
اپنے بازوؤں میں
لپیٹ لیتا ہے
اور فضا زربفت ہو جاتی ہے
ہم نے ہست کا راز
جان لیا ہے!
٭٭٭

لمسیہ
____________________________

شکن در شکن کروٹیں لیتے
بستر میں
چٹکی ہوئی چاندنی
ریزہ ریزہ پڑی ہے
چھناکے سے ٹوٹا ہوا جسم
بستر کی شکنوں سے
ریزے اٹھائے ہوئے
لمسیہ ڈھونڈتا ہے
ہتھیلی پہ رکھے ہوئے ریزے
پیوست جاں ہیں
دلاسا بھرے ہونٹ سم ہیں
یہ میں اور تم ہیں؟
کہیں چار دیواری جسم سے دور
بہتی ہواؤں پہ پاؤں دھرا ہے
کہیں سوکھے پتوں کی
ہے عکس بندی
کہیں مور کی چیخ کا
ایک قصہ دھرا ہے
یہاں دل نہیں لگ رہا ہے!
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے