بابا کالے شاہ ! تم کہاں ہو؟۔۔۔ خورشید حیات

 

غیاث احمد گدی اردو افسانے کی تاریخ میں ایک مستند نام ہے، جس نے نہ صرف یہ کہ اپنے افسانوں کے ذریعے زندگی کے حقیقت پسندانہ تصور کی رو کشائی کی ہے، بلکہ ایک فن کار کی طرح زندگی کو فن کے پیمانے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ میری مراد اس جملے سے قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ غیاث احمد گدی ایک ایسے افسانہ نگار تھے جنہوں نے زندگی کے سلسلے میں کسی آئیڈیلزم کی تبلیغ و اشاعت کی ہے۔ میرا مفہوم یہ ہے کہ غیاث احمد گدی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ زندگی کو اس کے حسن و قبح کے پس منظر میں من و عن طریقے سے جھلکانے کی کوشش کی ہے۔  گویا یہ ایک ایسے فن کار تھے جن کے سامنے زندگی کی حقیقتیں عریاں انداز میں بکھری ہوئی تھیں۔ غیاث نے ان بکھری ہوئی حقیقتوں کو جوڑ سمیٹ کر ایک توازن اور تناسب کے ساتھ کہانی بنا کر پیش کیا۔ اس سلسلے میں بہت سارے ناقدین غیاث پر یہ حرف لاتے ہیں کہ غیاث کا تخیل اتنا کافی نہ تھا کہ وہ اپنی تخلیقی قوت کے بل بوتے پر کسی نئے اسلوب یا طریقہ کار کی بنیاد ڈال سکتے تھے۔ حالانکہ یہ نظریہ قطعی غلط طور پر غیاث کی افسانہ نگاری کے سلسلے میں قائم ہوا ہے۔ اگر غیاث کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو جو نتیجہ برآمد ہو گا وہ یہ کہ غیاث نے یقیناً کرشن چندر، منٹو، بیدی اور عصمت کے افسانوں کے زیر اثر افسانہ نگاری شروع کی ہے۔ حتیٰ کہ پریم چند تک ان کا سلسلہ کہیں پر منسلک نظر آئے گا۔  لیکن غیاث کی انفرادیت اس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں سے تاثرات قبول کرنے کے باوجود فن کو نقطہ عروج تک لے جانے کی کوشش میں ہمیشہ اپنی ہی راہ اختیار کی ہے۔ وہ کسی ڈگر پر آنکھ بند کر کے نہیں چلے ہیں۔  انہوں نے ہمیشہ اظہار اور اسلوب کے سلسلے میں اختراعی کاوش کو مد نگاہ رکھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ’’بابا لوگ‘‘ کا افسانہ نگار ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ سے ’’ڈوب جانے والا سورج‘‘ تک نہیں پہنچ پاتا اور ان تین مجموعوں کے درمیان جو بیّن فرق ہے اسے اردو افسانے کا قاری جانتا سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیاث احمد گدی پر وارث علوی اپنی اس کڑی نکتہ چینی کے باوجود کہ:

’’انہوں نے جب لکھنا شروع کیا اس وقت کرشن چندر، منٹو، بیدی اور عصمت کی افسانہ نگاری اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ان کے اثرات سے بچنا مشکل تھا۔ خصوصاً اس وقت جب کہ غیاث کے سروکار بھی زندگی کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کے تھے۔ افسانہ نگاری کا کوئی نیا رجحان سامنے نہیں آیا تھا، جسے اپنا کر وہ نئی ڈگر بناسکتے، نہ ہی تخیل اتنا اجتماء پسند اور ایجاد پسند تھا کہ اپنے تخیل کے بل بوتے پر وہ کسی نئے اسلوب یا طریقہ کار کی بنیاد ڈال سکتے۔‘‘ آگے چل کر وارث علوی یہ کہنے پر مجبور ہیں:

’’لیکن ان کا ذہنی ارتقا بتاتا ہے کہ وہ اپنے پیش روؤں کے نقش قدم پر چلنے کے باوجود ان کی پیروی پر قانع نہیں تھے۔  ان کا ہر قدم مظہر تھا، اس کشمکش کا جو نیا قدم اٹھنے اور نقش قدم پر چلنے کے درمیان میں جاری تھی۔ لیکن یہ کش مکش کبھی شدید شکل اختیار نہ کر پائی۔‘‘

اتنا ہی نہیں ’’بابا لوگ‘‘ کا پیش لفظ لکھتے ہوئے کلام حیدری جو غیاث احمد گدی کے ہم عصر بھی رہے اور دوست بھی بڑی فراخ دلی سے غیاث کے افسانوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غیاث احمد گدی کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگاری کس قدر گہری بصیرت، کتنے عمیق مشاہدے اور پرواز خیال پر کتنی قدرت حاصل کرنے کے بعد غیاث احمد گدی میں ڈھل جاتی ہے۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ فن کار اپنے ماحول سے ابھرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کسی فن کار کے فن کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس کے ماحول اور اس کے زمانے کی TOPOGRAPHYکو پیش نگاہ رکھتے ہیں، اور اکثر حالتوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فن کار کے فن میں کسی نہ کسی پہلو سے یا تو اس کا نج جھلکتا ہے یا اس کے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم غیاث احمد گدی جیسے افسانہ نگار کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کلیہ عام رویہ سے یہاں ہٹ گیا ہے۔ اس لئے کہ غیاث وہ افسانہ نگار تھا جس کو افسانہ نگاری وہبی طور پر حاصل ہوئی تھی۔ جس نے نہ تو اونچی تعلیم حاصل کی تھی نہ ہی اسکول اور کالج میں اسے درس حیات لینے کا موقع ملا تھا۔ غیاث نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے گھر میں چچا، چچی، بھائی، بہنوں، بھتیجوں کے مشترکہ خاندان میں پرورش پائی اور آبائی پیشے کے اعتبار سے دودھوں نہایا۔ چھوٹا ناگپور جو آج تک اپنے پچھڑے پن کے لئے مشہور ہے اور جو آج الگ جھارکھنڈ بن چکا ہے، اسی سرزمین سے ان کا تعلق تھا۔ گوبر اور بھینس کے درمیان زندگی جینے والے گدی خاندان کا یہ نوجوان محض اپنے جودت طبع کے باعث افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہو گیا اور جب ذوق نے تحریک پیدا کی تو شوق میں اضطراب پیدا ہوا اور اپنی انتھک کوششوں سے اردو افسانوں کا قاری بن کر یہ شخص افسانہ نگار بن گیا۔ اردو کے افسانوی گاؤں کا ایک بڑا افسانہ نگار۔

آخر وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے غیاث احمد گدی کو بڑا افسانہ نگار بنا یا، جبکہ تعلیمی اعتبار سے محض ساتویں کلاس تک پڑھا ہوا یہ انسان بڑے بڑے علمائے وقت کو اپنے فن کے ذریعہ محو حیرت کئے ہوا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس کو کوئی بہت بڑا ادبی ماحول بھی گھر میں نہیں ملا تھا۔ مگر غیاث نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ فن کاری صرف وہبی ہوتی ہے۔ اس کے لئے اونچی ڈگریوں کی ضرورت نہیں ہے۔ زر خیز تخیل کی ضرورت ہے، حساس دل کی ضرورت ہے، بیدار شعور کی ضرورت ہے۔  پھر زندگی میں ہونے والے نت نئے تجربات اور سانحات کو گرفت میں لینے کی ضرورت ہے۔  جذبات کو تخیل کی پرواز کے ذریعہ ایک نئے رخ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ نادیدہ حقیقتوں سے دیدہ حقیقتوں کے لئے ایک اشاریہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی کی کڑی سچائیوں کو زبان عطا کرنے کی ضرورت ہے۔ غیاث احمد گدی نے یہی سب کچھ کیا کہ غیاث کو لفظوں کو زبان عطا کرنے کا ہنر آتا تھا۔

’’کیا کروں بابو، بڑا سناٹا معلوم پڑتا ہے، بڑی بھیانک چپ……یہ بھری پُری دنیا، ایسی خاموش، ایسی سنسان جان پڑتی ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔  سوچتا ہوں، بولوں نہیں، ہنسوں نہیں تو……کہیں یہ سناٹا مجھے نگل نہ لے۔‘‘ (بابے، نیا دور، کراچی۱۹۶۲ء)

تم نے ٹھیک کہا تھا بابا، اس سناٹے نے بالآخر تمہیں نگل ہی لیا۔

۲۵؍جنوری ۱۹۸۶ء

ہر سال نئے کلنڈر آباد ہوتے ہیں۔  تاریخیں بدلتی رہتی ہیں۔ مگر ہم ۲۵؍ جنوری کو غیاث کو یاد نہیں کرتے۔ ہم یہ کر رہے ہیں ہم وہ کر رہے ہیں ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے۔  جلسوں قرار دادوں کے ساتھ اپنے نام کو بہ حرف جلی شائع کروانے کا سلسلہ تو شروع ہوا تھا۔ چند جذباتی کلمات تو ادا ہوئے تھے۔  مگر اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی چاروں طرف ایک پُر ہول سناٹا ہی نظر آتا ہے۔ کہیں کچھ نہیں، کوئی عمل نہیں، بس جذبات ہی جذبات، الفاظ ہی الفاظ۔ مکالمے اداکاری مکھوٹے  ملمعے !

پردہ گر گیا۔  تماشائی سب اپنے گھر واپس۔ باقی بچ گیا حساب کتاب

بٹوارہ آمدنی کا شہرت کا نام آوری کا کس کو کیا ملا۔ اس کی فکر ہے۔  مگر تمہیں کیا ملا بابے؟

ایک ’’چھری‘‘ جس کی غیاث کو برسوں سے تلاش تھی وہ بھی نہیں ملی۔

’’بابے‘‘ کئی برسوں سے پہلے کا وہ دن مجھے یاد آ رہا ہے۔  میں تمہارے کمرے میں بیٹھا تھا۔  گھنٹوں باتیں ہو رہی تھیں۔  کچھ ادب کی اور کچھ ادھر ادھر کی۔ بابے، تم نے مجھے اپنی کتابیں دیں۔  میری ادبی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا۔ پھر چائے آئی……اور آخر میں تم نے کہا میرا ایک افسانہ ’’چھری‘‘ آہنگ: ۲ میں شائع ہوا تھا۔  وہ شمارہ میرے پاس نہیں ہے۔ کہیں سے مل سکے تو بھیجنا کہ ایک صاحب اس کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنا چاہتے ہیں۔  میرے سرمایہ حیات(ذاتی لائبریری) میں بھی آہنگ کا وہ شمارہ موجود نہ تھا۔  کلام حیدری سے تذکرہ کیا تو جواب ملا تھا۔  ’’چھری‘‘ کسی الماری میں بند ہے۔

’’میں اس گاؤں بھی گیا تھا جہاں کی لہو سے نہائی ہوئی دھرتی پر ایک سچائی تڑپتی تڑپتی مر گئی تھی۔ مگر سچ پوچھئے تو سچائی کبھی نہیں مرتی وہ ایک جگہ قتل ہوتی ہے تو کئی جگہ نمو پاتی ہے۔‘‘ (جوہی کا پودا اور چاند)

آج وہی چھری غیاث کے نام پر چل رہی ہے۔ جمنا ندی کے کنارے ایک شہر میں بیٹھا ایک افسانہ نگار تحریری طور پر یہ اعلان کرتا ہے۔  ’’یہ غیاث کس پرندے کا نام ہے؟‘‘ اردو کے ایک بزرگ نقاد سے میں نے کہا…آپ نے غیاث پر کچھ نہیں لکھا، افسانوی سمینار میں غیاث پر کچھ نہیں کہا…کہنے لگے، ’’میرے کچھ کہنے اور لکھنے سے ادبی سماج ناراض ہو جاتا ہے۔  اس لئے میں خاموش رہتا ہوں۔‘‘

’’خاموشی مصلحت ہے خاموشی کو راہ دو۔‘‘ میرے اندر کوئی بولا۔

’’خاموش رہ کر سیاسی نروان حاصل کرو۔

کیا خاموش رہنا ادبی دیانت داری ہے؟‘‘

میں تو غیاث کو ان کی کہانیوں میں تلاش کر رہا تھا۔  میں بہک کیسے گیا؟ میرے اندر یہ رہ رہ کر کون ابھر رہا ہے، ڈوب رہا ہے کہ شاید سوچ و فکر کی لہریں ابھرتی ڈوبتی رہتی ہیں۔ کہانیاں تو بہت سارے لوگ لکھتے ہیں۔  مگر اسے ایک نئی دشا دینے والے غیاث جیسے ہوتے ہیں۔ غیاث کو جاننے کے لئے  ڈھونڈنے کے لئے کہانیوں میں غوطہ لگانا ہو گا۔  مگر غوطہ لگائے کون؟

ہر شخص اپنی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے، الگ الگ خیمے میں بیٹھ کر!

’’بابا لوگ‘‘ تم کہاں ہو؟……

غیاث اس فن کار کی طرح تھے جو نام آوری سے پرے ہوتا ہے۔ شہرت کا خواہاں نہیں ہوتا۔ محض اشتہار پر ایمان نہیں لاتا۔  بلکہ دنیا کی حقیقتوں کو، اس کی نیرنگ سامانیوں کو، زندگی کی کڑوی سچائیوں کو جھیلتا ہے۔  ان کا سامنا کرتا ہے۔  ان سے نگارخانہ تخیل کو سجاتا ہے اور انہیں اپنے میڈیم کے ذریعہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے کہ اس کے ذہن و تخیل میں بنی ہوئی تصویر سے دنیا حظ اٹھائے۔ غیاث نے اپنی کہانیوں میں ہی سب کچھ کیا ہے۔  ذیل میں غیاث کی کچھ کہانیوں کا جائزہ لیتا ہوں تا کہ ان کی روشنی میں، اردو کہانیوں کی دنیا میں ان کا مقام متعین کیا جا سکے۔

غیاث نے کرشن چندر کی آئیڈیلزم اور مثالیت پسندی سے الگ ہٹ کر حقیقت کی راہ نکالی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ’’پہیہ‘‘ جیسی کوئی کہانی وجود میں نہیں آتی۔  ’’بد صورت، سیاہ صلیب، پیاسی چڑیا‘‘ وغیرہ ایسی کہانیاں ہیں جن میں نفسیاتی حقیقت کا پرتو باضابطہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نفسیاتی حقیقت کو فن کی گرفت میں لینا اسی فن کار کے بس کی بات ہے جو احوال و کوائف اور محسوسات پر غور و فکر بھی کرتا ہے اور جب کبھی غور و فکر کی منزل آتی ہے فن کار حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ غیاث احمد گدی نے جنسی مراحل میں بھی اپنے فکر کو متحرک رکھا ہے۔ ورنہ جہاں جہاں جنس کا موضوع انہوں نے اپنایا ہے، علامت کے ذریعہ ان کی نمائندگی کی ہے۔ اس لئے جنس غیاث کے یہاں الفاظ کے پیکر میں ڈھل گیا ہے اور استعارات کے تہہ در تہہ جہت میں چھپا ہوا نظر آتا ہے۔  ’’بابا لوگ‘‘ کو ہی لیجئے،ا س میں موضوع کا جذباتی اظہار ضرور ہے، لیکن یہ جذباتی اظہار بھی فن کے پردے میں حقیقت کا عکاس ہی نظر آتا ہے۔

ایک بوڑھا ملازم اپنی مرحوم مالکن کی نوجوان لڑکی سے پدرانہ محبت رکھتا ہے۔ یہ محبت در اصل اسی محبت کی توسیع ہے جو بوڑھے کو لڑکی کی ماں سے رہی تھی۔ اس محبت میں سادگی ہے۔  لیکن یہ سب کچھ ایسے سامنے آتا ہے کہ قاری کو شروع سے آخر تک اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ لڑکی اسی ملازم کی ہے۔ ایک باپ جس طرح اپنی بیٹی کے لئے اور اس کی عصمت کی حفاظت کے لئے بیتاب رہ سکتا ہے، اسی بیتابی کا اظہار غیاث احمد گدی نے بے حد نفسیاتی حقیقت کے ساتھ اس بوڑھے ملازم سے کرایا ہے۔ جس کش مکش سے بوڑھا گزر رہا ہوتا ہے، اس کش مکش کا اظہار وہ کسی کے سامنے کر نہیں سکتا۔ مالک اس حقیقت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ یہی ذہن کا Conflictہے، جو کہانی کے پلاٹ میں پیچیدگی پیدا کرتا ہے اور قاری کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی ہے۔ یقیناً یہاں کرب کی جو تصویر ابھاری گئی ہے وہ ناجائز باپ کے کرب کی تصویر ہے جو ایسے مراحل میں رونما ہوتی ہے جس مرحلے سے بے بی مارگریٹ گزر رہی ہوتی ہے۔

’’پہیہ‘‘ اس لچھو کی کہانی ہے جو کسی گھر میں زیادہ دنوں تک رکنا نہیں چاہتی ہے۔ اس کے حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔ آخر کار وہ ایک پٹھان کی ہو کر رہ جاتی ہے۔

’’میرا خاوند مرد ہے، بزدل نہیں، ڈرپوک نہیں، اتّی بڑی چھاتی ہے اس کی گدی جی، بھیگڑو نہیں۔‘‘

یہاں غیاث احمد گدی، منٹو کے قریب نظر آتے ہیں۔ لیکن جس کسی نے بھی منٹو کی ایسی کہانیوں کو پڑھا ہے، جس میں جنسی لپک تیز ہے، اور غیاث کا ’پہیہ‘ پڑھا ہے، وہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ جنس کو کتنے پردوں میں غیاث نے پیش کیا ہے۔ جن پردوں کے ساتھ جنس کی پیش کش میں منٹو کہیں کہیں ناکام نظر آتے ہیں۔

’’پہیہ‘‘ کے متعلق وارث علوی نے لکھا ہے:

’’زندگی کی گاڑی دو پہیوں سے چلتی ہے اور افسانہ گاڑی کے ایک پہیہ یعنی عورت کی کہانی سناتا ہے۔ ایک ایسی عورت جو مرد مار ہے اور بڑی آسانی سے شوہر بدلتی ہے۔‘‘

اس کہانی سے متعلق عام خیال ہے کہ غیاث نے منٹو کی پیروی کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ غیاث نے منٹو کی روایت کو آگے بڑھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’بابے‘‘ میں بھی کہانی کار نے بڑی رمزیت کے ساتھ جنسی جبلت کے ایک مخصوص پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ گرچہ بابے کے کردار میں کوئی گہرائی نہیں ہے۔ مگر بابے کا غم در اصل اس لڑکی سکینہ سے نہ مل پانے کا غم تھا جس لڑکی کا وہ خود باپ تھا اور جس کی ماں سے اس کے ناجائز تعلقات تھے۔ یہی المیہ بابے کو مجنوں بنا دیتا ہے۔

’’ڈور تھی جون سین‘‘ میں جنسی کرب ناک کی صورت ابھر کر آئی ہے۔ اس میں ڈور تھی اپنے باپ کا علاج کرنے کے لئے زیورات بیچ دیتی ہے۔ جو شخص اس کے زیورات کا خریدار ہے وہ اس کے جسم کا خواہاں ہے اور پھر زیور بیچنے کے بعد اس کے پاس جسم ہی رہ جاتا ہے

المختصر غیاث احمد گدی کی کہانیوں کا جب ہم ’’بابا لوگ‘‘ مجموعہ تک مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ غیاث کے پاس موضوعات کا تنوع نہیں ہے۔ ان کے پاس گہرائی ضرور ہے مگر موضوع بہت محدود ہے۔ اس لئے یہاں ان کے سلسلے میں وہی بات صادق آتی ہے جو کسی ناقد نے JANE AUSTINE کے بارے میں کہی ہے:

Jane Austin knew neither height nor their depth. She kept firmly to the middle path.

یہ بات درست ہے۔  لیکن غیاث احمد گدی کے حق میں پھر بھی کسی صورت خلاف فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔  ایک ایسا افسانہ نگار جو مڈل پاس بھی نہیں تھا اگر اس نے اپنے موضوعات کو جنس کی نفسیاتی حقیقت تک بھی محدود رکھا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

مگر ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ اور ’’ڈوب جانے والا سورج‘‘ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فن کے جو حدود ’’بابا لوگ‘‘ کے اندر ہیں وہ ’’ڈوب جانے والا سورج‘‘ میں وسیع ہو گئے ہیں۔ ان مجموعوں کو جس قاری نے بھی دیکھا ہے، پڑھا ہے اس نے جانا ہے کہ غیاث احمد گدی نے ہندوستانی اساطیر سے بھی کام لیا ہے اور اپنے موضوعات کو عالمی پیمانے پر ابھرنے والے مسائل سے بھی منسلک کر دیا ہے۔

غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری کو اردو افسانہ نگاری کے پس منظر میں ہم دیکھیں گے تو کرشن چندر، بیدی، عصمت اور منٹو سے اگر ہم انہیں آگے نہیں رکھ سکتے تو ان کی صف میں ضرور کھڑا کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہم ذرا محدود کینوس میں دیکھیں تو احمد یوسف، کلام حیدری، اختر اورینوی، شکیلہ اختر سے لے کر شوکت حیات اور عبد الصمد وغیرہ کے درمیان غیاث کی شخصیت قد آور نظر آتی ہے اور کہیں کہیں حقیقت نگاری کی حد تک ہم انہیں اردو افسانے کے امام کی حیثیت سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

غیاث کو قدرت نے ذہانت کے ساتھ ساتھ تخیل کی بیش بہا دولت سے نوازا تھا۔ جس تخلیقی زبان میں انہوں نے اپنے موضوعات کو ڈھالا ہے، وہ زبان ان کی افسانہ نگاری کو شاعری سے قریب لے جاتی ہے۔ اس شاعری کی جس کی موسیقیت کا رمز ان کے فن کو Great Art بنا دیتا ہے۔ کیونکہ کسی ناقد کا خیال ہے "Every great art aspires to be music”۔  ذیل میں کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں، جس سے غیاث کے استعاراتی زبان و بیان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

’’دوبرسوں کا بھوکا بیل ماضی کے چٹیل میدان میں حسب دستور منہ مارنے لگا۔ شاید کوئی پودا مل جائے۔ شاید کوئی ہریالی نظر آ جائے۔ اپنا تو سب کچھ لٹ گیا۔ ایک چھوٹا ساپودا تھا۔  اس کے آس پاس کتنا بڑا بڑا کانٹا والا تار لگا دیا ہے۔‘‘ (بابا لوگ)

’’ابڑ کھابڑ سڑک پر چلتے چلتے الفت میاں کے یکّے کا انجر پنجر ڈھیلا ہو گیا ہے۔ اب تو خدشہ ہے کہ کسی دن سواریوں کو لیے دیے دھڑام سے کسی کھڈ میں نہ جا گرے۔‘‘ (پہیہ)

’’اس نے دیکھا وکٹوریہ میں جتی ہوئی گھوڑی منہ کے بل زمین پر پڑی ہوئی ہے اور چمڑوں کی پٹیوں کی قید سے چھوٹنے کے لئے زور لگا رہی ہے۔  مگر چمڑے کے بیلٹ بہت مضبوط ہیں۔  شاید ذرا دیر بعد وہ تھک کر پسر گئی۔‘‘ (خانے اور تہہ خانے )

’’یہ جو آج کل ہر روز دو پہر میں پرندہ پکڑنے والی گاڑی آتی ہے اس کو دیکھتی ہو؟

ہاں دیکھتی ہوں کبھی کبھی

تو تمہیں کیسا لگتا ہے؟

اچھا جی اچھا لگتا ہے۔  پیلے پیلے لال لال خوبصورت شیشوں میں سے پرندے چہکتے ہوئے بہت بھلے لگتے ہیں۔

……منی بائی کسی دن نیچے جا کر قریب سے دیکھو۔‘‘ (پرندہ پکڑنے والی گاڑی)

’’نیچے دھول اڑاتے کچے فرش پر آنکھیں موندیں گردن کے زخم کی ٹیس سہتا بیل ! وہ بیل جو کل تک کولہو میں جتا، سارا سارا دن سرسوں کی رگوں سے منوں تیل نچوڑ کر رکھ دیتا تھا،  تھوتھنا زمین میں گاڑے موت کے انتظار میں گرم بے مروت ہوا کے بے رحم جھونکوں کو سہتا لمبی لمبی سانسیں  لے رہا تھا۔‘‘ (دھوپ)

لفظوں کو زبان عطا کرنے کا ہنر غیاث کو آتا تھا۔  ’’جوار بھاٹا‘‘ سے لے کر ’’دھوپ‘‘ تک پڑھ جائیے۔  غوطہ لگائیے ’’سمندر‘‘ میں کہ زندگی کی کڑوی سچائیوںس ان کے گہرے ’’رشتے‘‘ سے تو ہم واقف ہیں۔ غیاث کی کہانیوں میں سب کچھ ہے۔  زندگی کے مسائل ہیں۔  اینگلو انڈین ماحول ہے۔ سماج کے جانے پہچانے چہرے ہیں۔ تڑپتی اچھلتی مچھلیاں ہیں۔  کراہتی ہوئی تہذیب ہے۔

قلم سے نکلنے والے کالے کالے لفظوں کو غیاث احمد گدی کے ہم عصر کلام حیدری کی کچھ باتیں یاد آ رہی ہیں کہ اب کلام بھی نہیں رہے، مورچہ کا سپہ سالار بھی نہیں رہا۔

’’غیاث بشارتیں دیتا ہے۔  جد و جہد کرتا ہے۔ زبان اس کی غلام ہے۔ وہ زبان کا غلام نہیں۔ غیاث احمد گدی کا کسی افسانہ نگار سے موازنہ کرنا ذہنی ورزش ہے۔ حاصل جس کا کچھ نہیں۔

کلام حیدری ۱۹۸۶ء میں پاکستان گئے تھے۔ وہاں ایک شخص ان سے انٹرویو لینے آئے۔ انٹرویو تقریباً ایک گھنٹے کا ہوا۔ بہت سارے سوالات پوچھے گئے۔ ایک سوال یہ بھی تھا ’’ہندوستان میں انتظار حسین کے مرتبے کا افسانہ نگار کون ہے؟ کلام حیدری نے کہا "غیاث احمد گدی‘‘

’’میں نے کہا غیاث احمد گدی۔ حیران ہوئے پریشان بھی ہوئے اور مجھے لگا وہ پشیمان بھی ہوئے۔  کیونکہ انتظار حسین شاید ان کے لئے افسانہ نگاری کا خدا تھا۔ انٹرویو ختم ہو گیا۔  وہ انٹرویو آج تک شائع نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے۔  اردو ادب میں بزدلی، گروہ بندی، گروہ بندی سے آگے مجھ جیسے چند ہی سرپھرے ہیں، تو بھی تھا، مگر اب نہیں۔‘‘ (غیاث تو خواب تھا……کلام حیدری)

ہم غیاث احمد گدی کو اردو کہانی میں کتھا نگر میں کہیں امام کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مگر دیکھے کون؟ اردو کتھا نگر میں ہر شخص امام بنا بیٹھا ہے۔ الگ الگ چورا ہے پر کھڑا فتوے جاری کر رہا ہے۔ ڈفلی بجا رہا ہے۔ اپنی آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا کر دنیا کو دیکھ رہا ہے۔

علی بن متقی ادب کی راجدھانی سے ختم ہوتی ہوئی تہذیب پہچان رسم الخط زبان کا زندہ رسالہ میں سوبرسوں کا جائزہ لیتے ہیں چند صفحات میں۔ سرخیاں تھیں:

’’بیسویں صدی کے سو برسوں ۱۹۰۰ء تا۲۰۰۰ء میں لکھے گئے اردو ادب کا پہلا معتبر ادب پیما، اردو کے چالیس ادیبوں کی آراء پر مبنی۔

بیسویں صدی کے دس اہم افسانوں میں کرشن چندر سے لے کر سید محمد اشرف تک کا ذکر ہوتا ہے مگر بابا، کالے شاہ غیاث کا نہیں۔  البتہ اقبال اور وہاب اشرفی کو غیاث یاد رہے۔  اردو کہانی کے بابا کالے شاہ تم کہاں ہو؟ ادب کے اسٹیج پر مداری اپنا کرتب دکھا رہے ہیں۔ لوگوں کی بھیڑ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے …بے حس، بے جان سی!

آج نئی صدی میں بھی منظر کچھ بدلا نہیں ہے۔  میری لچھو رانی!

ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری جماعت آگے بڑھ رہی ہے۔  ہماری اتّی بڑی چھاتی ہے لچھو رانی۔

بابا کالے شاہ یہ سب دیکھ کر تمہاری لچھو رانی نے جانتے ہو کیا کیا……؟

تھوک دیا……اور چلی آئی اس شہر میں جہاں ابڑ کھابڑ سڑک پر چلتے چلتے الفت میاں کے یکّے کا انجر پنجر ڈھیلا ہو گیا ہے اور اب تو خدشہ ہے کہ کسی دن سواریوں کو لیے دیے دھڑام سے کھڈ میں نہ جا گرے !

٭٭٭

تشکر: سردار علی، مدیر شعر و سخن ڈاٹ نیٹ

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے