ایک ہندی نظم اور اس کا تجزیہ ۔۔۔ ستیہ پال آنند/ کالکا پرساد ترپاٹھی

 

(یہ نظم ہندی کے سوَیا چھند میں، ماتراؤں کی کمی بیشی اور دوہوں کے امتزاج سے، پہلے ناگری رسم الخط میں لکھی گئی)

گونگے سفر سے واپسی۔۔۔ ستیہ پال آنند

________________________________________

 

کوکھ میں تھا جب

میِں سُنتا تھا

اپنے دل کی دھڑکن

ماں کے خون کی گردش کی موسیقی

جیسے بانس کی جنگل میں اُڑتی آوازیں

سُر سنگیت

ہوا کے سانسوں کی شہنائی

بانس کی میٹھی دھُن سے لپٹی پُروائی

راگ کے ٹھاٹ*

(* پہلے راگ کے بہتّر (۷۲) ٹھاٹ تھے۔ بھات کھنڈےؔ  نے انہیں دس بڑے ٹھاٹوں میں تقسیم کیا۔ )

جو اُترے ننھے دِل کے گھاٹ

۔ ۔ ۔ ۔ مدھُر گیتوں کو رچتے تھے

نہ بجنے پر بھی بجتے تھے !

کوکھ میں تھا جب

میَں سُنتا تھا

بھور سمے کا راگ للِت

مالکونس، سانجھ بیلا کا

آدھی رات کا مہماں، یعنی درباری

اور بھیروی، سدا سہاگن نار

مچلتی بوندوں کا ملہار

گل و گلزار

بسنتی چولا پہلے راگ بہار

تین تال، سولہ سنگھار

(*تین تال میں سولہہ beats ہوتی ہیں۔ ایک تال میں بارہ کا التزام ہے۔ )

ایک تال *کے بارہ روپ

راگ انوکھے، روپ انوپ

رات دن، موسم بہروپ   *

( راگ، سمے، موسم کے اعتبار سے گائے جاتے ہیں)

سُر سنگیت کی ہلکی دھوپ

اُترے تھے سب دیو لوک* سے

( *دیوتاؤں کی نگری۔ سورگ لوک)

ننھے دل کے گھاٹ

لیے ہاتھوں میں اپنے ٹھاٹ

سبھی "ڈگ ڈگ ” میں شامل تھے

(*۔ شِو جی کے ڈمرو (ڈگڈگی) کی آواز، جس سے مختلف صوتوں کی ترتیب ہوئی۔ )

مری تخلیق کا حاصل تھے !

 

(۲)

 

ننھا سا، اک گوشت کا پُتلا

بال سُنہرے، رنگ کھِلا سا

میَں دنیا میں آیا

تو چکرایا

اَنجانا، اَن دیکھا تھا سب

سُر سنگیت نہیں تھا

کوئی میِت نہیں تھا

لیکن جنم دِوَس سے پہلے

دیو لوک میں سیکھی وِدیا

ماں کے خون کی گردِش کا جانا پہچانا

سُر لہری کا گیان ابھی تازہ تھا

راگوں کا ور دان ابھی تازہ تھا!

رویا پہلی بار تو سُر میں

بولا پہلی بار تو بج اٹھّے سازوں کے تار

بڑا ہوا جب

بولنا سیکھا

چلنا سیکھا

کھیلنا سیکھا

لڑنا سیکھا

بڑا ہوا جب

بھول گیا سب!

کس دنیا سے آیا؟ کس دنیا کا باسی؟

دنیا والو، میں پردیسی، میں پرواسی ؟*

(* پرواسی بمعنی ملک بدر، مہاجر، غریب الوطن)

اِس دنیا کا

اُس دنیا سے رشتہ کیا ہے ؟

بھول گیا سب

بڑا ہوا جب

منطق کی بھاشا میں سیکھا

باتیں کرنا

کرِت کِریا*ٌکا حاصل ہو گا

(*کام کرنے کا عمل)

فعل سے پہلے فاعل ہو گا

سیدھے ہاتھ چلو گے، بھیا

تو سب رستہ سمتل * ہو گا۔

(*سیدھا، صاف )

 

سب کچھ سیکھا

سیدھا، تیِکھا

خون کی گردش، تین تال بِسرا *کر روئی

(*بسرا کر، یعنی بھول کر)

جو بھاشا لے کر جنما تھا، وہ بھی کھوئی

 

(اس بند میں دوہے کی صنف کے وزن کا التزام ہے۔ )

سُدھ بُدھ کھوئی راگ کی

سُرلہری ’’ متی ہِین‘‘ * ہوئی

(* متی ہیِن، بمعنی ’’عقل سے عاری‘‘(

ایک جیبھ تھی، وہ کلٹا * بھی

(* ’’جیبھ‘ بمعنی زبان، ’’ کُلٹا‘ ‘بمعنی بُری بدکار عورت)

جگ بھاشا میں لیِن* ہوئی۔

ٌ*لیِن، بمعنی مدغم ہو جانا، گھُل مِل جانا)

 

ناچ کی مُدرائیں، سنواد*

(*سنگیت ودیا کی اصطلاحیں)

راگ کے ماپ، تول، ڈنڈ ماپ*

(*پیمانے)

چکر، آلاپ*

(*سنگیت ودیا کی اصطلاحیں)

دھڑکتے ٹھاٹ

جو اُترے تھے کچھ پہلے

ننھے دل کے گھاٹ

کھو گئے سارے

سو گئے سارے

ترک *کی بھاشا میں وہ سب

(*’ترک‘ بمعنی منطق)

الجھ گئے جب

کیا ملتا تبَ؟

کیسا تھا یہ مانو جنم *میں آ جانا

(*آدمی کا جنم )

سب کچھ کھونا، کچھ بھی نہ پانا!!

 

(۳)

 

صدیاں بیتیں

عمریں گذریں

جب میَں سب کچھ بھول گیا تو

یاد آیا

دنیا کا باسی ہوں، مَیں پرواسی

اپنے دیس کو لوٹوں گا، تو کیا ہو گا؟

میں اپنی بھاشا، چِنہہ، چکر، آلاپ

(چِنہہ:۔ خد و خال۔ چکر آلاپ:راگ ودیا کی اصطلاحیں )

بھری سُر لہری کے دنڈ ماپ

بھاو، سنواد *

(*راگ ودیا کی اصطلاحیں)

سپیرے ’’نیل کنٹھ‘‘ *کا ڈمرو

(* شِو کا لقب جو نیلے گلے میں سانپوں کے ہار پہنتا ہے۔ )

’’اَن ہد ‘‘ ناد*

(*لمبی تان کے ایک راگ کا نام)

تو سب کچھ بھول چکا ہوں

لوٹوں گا تو کیا ہو گا؟

کیا بھولے بھٹکے گونگے سُر کو

مُکھرِت *ہو کر بجنے کا وردان ملے گا۔ ؟

(*زبان سے ادا ہونے کی کیفیت)

پھر سے گیان ملے گا؟

 

(۴)

 

تب میَں نے اپنائے

بچپن کی یادوں کے پردے کے پیچھے سے

سِرک رہے کچھ سائے

خون کی گردِش میں کھوئی آوارہ

سُر کی نہریں

پردے کی دھڑکن کے دھول اٹے سازوں میں

سوئی ہوئی سنگیت کی لہریں

تب ان سب کو چھُو کر دیکھا

جاگرت* تھیں سب

(*بیدار، جاگی ہوئی)

پھر سے اپنی رکت چاپ* میں شامل کر لیں

(* خون کی گردش)

دل میں بھر لیں

۔ ۔ ۔ مری کھوئی ہوئی دولت تھی

مرے ہونے کی علامت تھی۔

 

(۵)

 

اب میری رگ رگ میں، نس نس میں

جسم کے ریشوں، پٹھوں، رکت کے رس میں

پھر سے سُر سنگیت رواں ہے

اب اُونچے پربت سے گرتی یہ جل دھارا

کوئی کنارہ

کیا کھوجے گی؟

پاٹ گھاٹ پر نہیں رُکے گی

طوفانوں سے تیزی لے کر ہی اُمڈے گی

جسم میں بہتی

دل سے گُزرتی

خون کی گنگا کو اپنے سب گھاٹ اُتر کر

سمتل* میدانوں کے سارے پاٹ گزر کر

(*سیدھا، ہموار)

پھر اُس ساگر کے انتم* درشن کرنے ہیں۔

(* آخری)

اپنے پِتروں * کے جنموں کے پِنڈ* بھرنے ہیں۔

(*پِتر بمعنی پُرکھے۔ ہندو گنگا میں اسنان کے وقت اپنے پرکھوں کے پِنڈ  بھرتے ہیں، پوجا پاٹھ کے بعد ان کے نام سے دان پُن کرتے ہیں۔ )

جب ہی سارے

راگ ناگ اپنی پھنیوں سے لہرائیں گے

’’ان ہد ناد‘‘ کے بہتے تال

حال سے ماضی

ورتمان *سے بھوت کال*

(*ورتمان بمعنی حال، بھوت کال بمعنی ماضی)

پھر بھوت کال سے ورتمان

ماضی سے واپس پھر حال کی اور*

)* ’’اور‘‘ بمعنی سمت، طرف)

مستقبل کی طغیانی میں بہہ جائیں گے !

 

سب کچھ جو کھویا تھا، پھر سے پایا

میَں اس جنم کی کریڑا *کر کے اپنے گھر واپس آیا

(* کریِڑا بمعنی کھیل کود)

 

(۶)

 

میں اَن جنما میٹھا گیت تھا

سُر سنگیت تھا

اب تک تو سب کچھ کھو کر میَں

اک گونگا سُر بن پایا تھا

لیکن پھر سے

سُر ساگر میں مِل جاؤں گا، پُشپ کی بھانتی کھِل جاؤں گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1990ء

 

گونگا سفر، بولتا ہوا سفر ۔۔۔ ڈاکٹر کالکا پرساد ترِپاٹھی

________________________________________

 

(ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا)

 

بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی اردو شاعر نے ہندی چھندوں کا استعمال اس کامیابی سے کیا ہو۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردو چھند، جسے ’’عروض‘‘ کہتے ہیں، اور جو عربی فارسی بھاشاؤں کی دین ہے، اردو شاعر کا اٹوٹ انگ ہے۔ مجھ بہت خوشی ہوئی جب میَں نے ستیہ پال آنند جی کی یہ کویِتا پڑھی۔ یہ شاید ’’ساہتیہ درپن‘‘ میں 1990 ء کے لگ بھگ شائع ہوئی تھی۔ مجھ سے جب تعلق کیا گیا (میں واراناسی سے اب دہرہ دون میں شِفٹ ہو چکا ہوں ) کہ میں اس پر تنقیدی مضمون لکھوں تو میَں نے ہاں کر دی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کیسے ایک اُردو شاعر ایک مشکل چھند کو نبھا سکتا ہے۔ لیکن آنند جی نے برسوں تک ہندی میں لکھا ہے اور وہ ہندی چھندوں سے نا واقف نہیں ہیں۔ پھر یہ کوِیتا ایک ایسے دلچسپ موضوع پر ہے، جس پر آج تک پہلے ہندی میں کوئی کویتا نہیں لکھی گئی۔ (اردو کا مجھے کچھ زیادہ علم نہیں ہے ) اس کے علاوہ اس کا عنوان ’’گونگے سُر کی واپسی‘‘ سیدھے ہی دل میں اتر جاتا ہے۔

موضوع اور مضمون کو جس استعارے سے ابھارا گیا ہے، وہ سنگیت ہے۔ لیکن مضمون ہے کیا؟ اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے۔ انگریزی میں اُنیسویں صدی کے مشہور شاعر ورڈزورتھ Wordsworth نے بچپن کے بارے میں اپنی نظموں میں ایک تھیوری کا تعارف دیا تھا کہ جنم سے پہلے بچہ ماں کے پیٹ میں، یا اُس سے بھی بہت پہلے، ایک الگ دنیا کا باسی ہوتا ہے۔ وہاں کی بولی جانتا ہے۔ وہاں کا رہن سہن ہماری دنیا سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ ’’پر لوک‘‘، یعنی مرنے کے بعد کا نہیں، جنم سے پہلے کا ’’پُورو لوک‘‘ ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد بچے کو یاد رہتا ہے۔ وہ جتنی ’’غوں غاں ‘‘ کرتا ہے، اُس میں وہی پرانی بھاشا ملی جُلی ہوئی ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے اس پر یہاں کا نیا لوک اپنا رنگ چڑھاتا جاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ نئی زبان سیکھتا ہے، پرانی زبان غائب ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر نیا لفظ پُرانے لفظ کی جگہ غصب کر لیتا ہے۔ اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے، جو وہ پُرانی یادیں بالکل بھول کر، نئی زبان بولتا ہوا، اس نئی دنیا کا باسی ہو کر ہی رہ جاتا ہے۔

اس تھیوری پر آنند جی نے دو رنگ چڑھائے۔ ایک تو یہ کہ بچے کی پرانی زبان، جو وہ ساتھ لایا تھا، اس کا صاف و صریح نقشہ موسیقی اور رقص کی مُدراؤں کی زبان میں کھینچا۔ یعنی منہ سے بولی جانے والی زبان اور جسم کی بولی body language کو یکجا کر کے کلاسیکی موسیقی اور رقص کی مدراؤں، چہرے اور بھووں کے اُتار چڑھاؤ، وغیرہ (جو بچہ عموماً دکھلاتا رہتا ہے ) ان سب کو ایک باقاعدہ بھاشا (زبان) تسلیم کر لیا گیا۔ نظم کی طویل جسامت میں کہیں بھی آنند جی اس استعارے سے باز گام نہیں ہوتے ہیں، اور لگاتاراسے ساتھ لیے ہوئے چلتے ہیں۔ موسیقی اور رقص، راگ راگنیوں، ہاتھوں کے کنگنوں اور پاؤں کی پازیبوں اور گھنگھروؤں کی زبان میں نظم کو آگے بڑھاتے ہیں۔       دوسرا رنگ جو ورڈزورتھؔ کی تھیوری پر آنند جی نے چڑھایا وہ زیادہ اہم ہے۔ ورڈزورتھ نے تو یہاں تک پہنچ کر اپنی تھیوری ختم کر دی تھی کہ بچہ ’’پر لوک‘‘ سے لائی ہوئی اپنی پرانی زبان بھول جاتا ہے اور نئی بھاشا سیکھ لیتا ہے۔ آنند جی اُس سے ایک قدم آگے بڑھ گئے اور کہاں، ’’نہیں، میں تو شاعر ہوں، جونہی مجھے یہ احساس ہوا کہ اس نئی دنیا کے چکر میں پڑ کر مَیں اپنی پرانی زبان بھول گیا ہوں، میں نے پیچھے کو طرف ایک جست بھر لی، اور پھر سے اپنی پرانی بھاشا کو جا پکڑا۔

نظم کا پہلا حصہ جیسے کسی تمثیل کے پہلے سین سے پردہ اٹھاتا ہے۔

 

کوکھ میں تھا جب

میں سُنتا تھا

اپنے دل کی دھڑکن

ا       ماں کے خون کی گردش کی موسیقی

جیسے بانس کی جنگل میں اُڑتی آوازیں

سُر سنگیت

ہوا کے سانسوں کی شہنائی

بانس کی میٹھی دھُن سے لپٹی پُروائی

راگ کے ٹھاٹ

جو اُترے ننھے دِل کے گھاٹ

۔ ۔ ۔ ۔ مدھُر گیتوں کو رچتے تھے

نہ بجنے پر بھی بجتے تھے !

 

ان سطروں میں موسیقی کے فن کو صرف ’’بانسری‘‘ کی حدود میں رکھ کر اس پر ہی قناعت کر لی گئی۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ بانس سے کاٹی ہوئی، اندر سے کھوکھلی ’’پوری‘‘ (شاخ) میں جا بجا سوراخ کر کے اُسے بجانا دنیا کا سب سے قدیم ساز ہے۔ ہوا کے چلنے کے ساتھ ساتھ یہ ساز خود بخود بجتا رہتا ہے۔ کوکھ کا بچہ یقیناً ماں کی رگوں اور نسوں میں خون کی گردش سے کچھ ایسا ہی سنگیت سنتا ہے۔ اس طرح راگ کے ’’ٹھا ٹ‘‘ پہلی بار ہی اسے یاد ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد راگوں کی مختلف اقسام گنوائی گئی ہیں۔ ’’بھور سمے کا راگ للت، ‘‘ ’’سانجھ بیلا کا مالکونس‘‘، ’’آدھی رات کا راگ درباری‘‘، اور ’’سدا سہاگن نار، بھیروی‘‘۔

آنند جی کی راگوں کے لیے عقیدت اور راگوں کی واقفیت ان سطروں سے ابھرتے ہیں۔

 

بھور سمے کا راگ للِت

مالکونس، سانجھ بیلا کا

آدھی رات کا مہماں، یعنی درباری

اور بھیروی، سدا سہاگن نار

مچلتی بوندوں کا ملہار

گل و گلزار

بسنتی چولا پہلے راگ بہار

تین تال، سولہ سنگھار

 

ایک تال کے بارہ روپ

راگ انوکھے، روپ انوپ

رات دن، موسم بہروپ

 

سُر سنگیت کی ہلکی دھوپ

اُترے تھے سب دیو لوک سے

ننھے دل کے گھاٹ

لیے ہاتھوں میں اپنے ٹھاٹ

سبھی "ڈگ ڈگ ” میں شامل تھے

یہ سبھی راگ     ماں کی کوکھ کے اندر پل رہے بچے کے دِل کے گھاٹ پر ’’دیو لوک ‘‘ (فرشتوں کی دنیا) سے آ کر اُترتے تھے۔ اُس کے ننھے سے دل کی دھڑکن میں شِو جی کے ڈمرُو کی ڈگ ڈگ کی آواز تھی۔ یعنی جنم لینے سے پہلے وہ سنگیت کی زبان جانتا تھا۔

 

یہاں سے نظم کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ بچہ نئی دنیا میں آتا ہے تو سب کچھ اجنبی ہے، دیکھا ہوا نہیں ہے۔ سُر سنگیت غائب ہے۔ بچہ چکرا جاتا ہے، ہائے، یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ؟ لیکن ابھی پرانی یادیں تازہ ہیں، اس لیے جب بچہ ہنستا ہے تو بھی سُر میں، روتا ہے، تو بھی سُر میں، ’’بولا پہلی بار، تو بج اٹھے سازوں کے تار!‘‘

یہ حالت کب تک چل سکتی تھی؟ زیادہ دیر نہیں۔ آخر خارجی، طبیعی دنیا اندر کی دنیا پر غالب آ گئی۔ شاعر کہتا ہے۔ ’’بڑا ہوا جب ؍ بھول گیا سب!‘‘۔ ۔ ۔ ۔ تب وہ منطق کی زبان سیکھتا ہے۔ ’’کرِت کِریا کا حاصل ہو گا ؍ فعل سے پہلے فاعل ہو گا‘‘۔ ۔ ۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ

’’سُدھ بُدھ کھوئی راگ کی، سُر لہری متی ہِین ہوئی

ایک جیبھ تھی، وہ کلٹا بھی جگ بھاشا میں لین ہوئی (دوہڑا)

شاعر کہتا ہے کہ جیسے جیسے وہ بڑا ہوا، ناٹک کی مُدرائیں، مکالمے، اور ’’راگ کے باٹ، تول، دنڈ ماپ، چکر آلاپ، دھڑکتے ٹھاٹ۔ ۔ ۔ ‘‘ یعنی وہ سب کچھ جو وہ ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آیا تھا، اس دنیا میں آ کر آہستہ آہستہ بھولتا  گیا، پھر سب کچھ کھو دیا۔ اور کچھ بھی نہیں ملا اس کے عوض!

نظم کا تیسرا حصہ وہ ہے، جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ ورڈزورتھؔ کی تھیوری سے ایک قدم آگے جانے والی بات پیدا کی ہے آنند جی نے۔ !۔ ۔ ۔ سب کچھ بھول جانے کے بعد ایک دن بچے کو (جو شاعر کا ہی روپ ہے ) ایک دن یہ پچھتاوا ہوتا ہے کہ ہائے، میں تو سب کچھ بھول گیا۔ بڑھاپا آ گیا ہے، موت نزدیک آتی جا رہی ہے، مرنے کے بعد ’’اپنے دیس کو لوٹوں گا تو کیا ہو گا؟ ‘‘ کیا وہاں جا کر دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی دولت پا سکوں گا؟

 

جب میَں سب کچھ بھول گیا تو

یاد آیا

اَس دنیا کا باسی، مَیں پرواسی

ا       پنے دیس کو لوٹوں گا، تو کیا ہو گا؟

اپنی بھاشا، چِنہہ، چکر، آلاپ

بھاو، سنواد

سپیرے ’’نیل کنٹھ‘‘ کا ڈمرو

’’اَن ہد ‘‘ ناد

تو سب کچھ بھول چکا ہوں

لوٹوں گا تو کیا ہو گا؟

کیا بھولے بھٹکے گونگے سُر کو

مُکھرِت ہو کر بجنے کا وردان ملے گا۔ ؟

پھر سے گیان ملے گا؟

 

نظم کا چوتھا حصہ واپس جانے، پلٹنے، کھوئی ہوئی دولت کو ڈھونڈنے کی کہانی ہے۔ شاعر اُلٹے پاؤں چلتا ہے۔

دیکھتا ہے کہ اس کے بچپن کی یادوں کے پردے کے پیچھے کہیں سائے سرک رہے ہیں۔ یہ کھوئی ہوئی ’’سُر لہری‘‘ ہے۔ ساز دھول سے اٹے ہوئے ہیں۔ لیکن صاف کرنے پر بج بھی سکتے ہیں۔ سب بیدار ہیں، سب بول سکنے کے قابل ہیں۔ گویا آج کی زبان میں وہ یہ کہتا ہے۔ ’’تب میں نے پھر ایک بار ان کو اپنے خون کی رگوں کے سنگیت میں سمو لیا، اپنے دل میں بھر لیا۔

 

تب میَں نے اپنائے

بچپن کی یادوں کے پردے کے پیچھے سے

سِرک رہے کچھ سائے

خون کی گردِش میں کھوئی آوارہ

سُر کی نہریں

پردے کی دھڑکن کے دھول اٹے سازوں میں

سوئی ہوئی سنگیت کی لہریں

تب ان سب کو چھُو کر دیکھا

جاگرت تھیں سب

پھر سے اپنی رکت چاپ میں شامل کر لیں

دل میں بھر لیں !

 

اسی طرح پانچواں حصہ اس کہانی کو دہراتا ہے کہ کیسے اُس نے ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی دولت پا لی۔ موت سے پہلے وہ اپنی اصلی بولی پھر سیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں آنند جی اپنی تشبیہات اس طرح کام میں لاتے ہیں، کہ حیرت ہوتی ہے۔

 

اب میری رگ رگ میں، نس نس میں

جسم کے ریشوں، پٹھوں، رکت کے رس میں

پھر سے سُر سنگیت رواں ہے !

نیچے کی تشبیہات کی لڑی وار مالا دیکھ کر میرا دل خوشی سے بھر اُٹھا، اور میں نے کہا، ’’واہ آنند جی، اگر میرے سامنے ہوتے آپ، تو ہاتھ چوم لیتا!‘‘

 

جسم میں بہتی

دل سے گُزرتی

خون کی گنگا کو اپنے سب گھاٹ اُتر کر

سمتل میدانوں کے سارے پاٹ گزر کر

پھر اُس ساگر کے انتم درشن کرنے ہیں۔

اپنے پِتروں کے جنموں کے پِنڈ بھرنے ہیں۔

جب ہی سارے

راگ ناگ اپنی پھنیوں سے لہرائیں گے !

 

اور چھٹے باب کی آخری سطریں گونگے سُروں کی واپسی کا یقین دلاتی ہیں، یہ کہہ کر کہ جب میَں سُر ساگر میں ملوں گا تو ’’ان ہد ناد‘‘ سا کھِل اٹھوں گا، آنند جی نے معانی کی ایک اور پرت کھول دی ہے۔ ’’ان ہد ناد‘‘، کچھ دیگر سازوں کے

علاوہ، سپیروں کے منہ سے بجنے والی بین پر بخوبی بجایا جاتا ہے۔ جب دس بارہ سپیرے اکٹھے ہو کر اسے بجاتے ہیں تو ایک سمے بندھ جاتا ہے۔ آوازوں کا کھِلنا پھولوں کے کھِلنے کا استعارہ ہے، اور اسی پر یہ نظم ختم ہو جاتی ہے۔

ستیہ پال آنند اُردو سے ہندی میں آئے، دس بارہ برسوں میں بہت نام کمایا، اور پھر واپس بھی چلے گئے۔ یہ نظم ’سویا‘ چھند کی ماتراؤں کو کچھ تغیر و تبدل کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ اس میں دوہڑوں کے انضمام اور انسلاک سے آنند جی نے اس میں لوک سنگیت کا رس گھول دیا ہے۔ آج کل ہندی میں جو کویتا لکھی جا رہی ہے، ایسی کویتا کون لکھے گا؟ یہ  آنند جی ہی کر سکتے ہیں، جنہیں اردو عروض کی بھی اتنی ہی سمجھ ہے، جتنا کہ ہندی چھندوں کا گیان ہے۔ اس لیے وہ میری مبارکباد کے اہل ہیں۔

(1997ء)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے