اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے۔ ۔ راجندر یادو۔۔ مظفر حسین سید

        ایک شمع اور گل ہو گئی، ایک اور آواز خاموش ہو گئی۔ ہندی کے موقّر ادیب اور اردو کے خاموش حامی راجیندر یادو بھی راہیِ جہانِ دگر ہوئے۔ ’سارا آکاش‘ کا خالق اپنے آکاش سے جا ملا۔ ’سارا آکاش‘ ان کی وہ تصنیف تھی، جس کی منزلت ہندی ادب کی حدود سے کہیں پرے ہندستانی ادب کی توقیر بن گئی، اور اس کی شہرت ملک کی سرحدوں سے باہر بھی پہنچی۔ اس کتاب کے لاکھوں نسخے ہاتھوں ہاتھ بِکے، نیز جب اس پر فلم بنی تو اس نے ہندستان میں متوازی سنیما کا باب وا کیا۔ ان کی کئی تخلیقات نے مرتبتِ بے مثل حاصل کی، صفحۂ قرطاس پر بھی، پردۂ سیمیں پر بھی اور پردۂ خورد پر بھی۔

        راجیندر یادو، ہندی ہی نہیں بلکہ ہندستانی ادب کے عظیم قلم کار تھے، ان کی موت ایک فرد، ایک فن کار اور ایک ادیب کی موت نہیں بلکہ ادب کے ایک عہد، جہادِ قلمی کے ایک دور کا اختتام ہے، ایک باب بند ہو گیا ہے، اگرچہ کئی نئے باب کھلیں گے، مگر اس نقصان کی تلافی نہیں ہو گی، یوں بھی کہ ہر ذرّہ اپنی جگہ آفتاب اور ہر صدف اپنی جگہ ماہتاب ہوتا ہے، علم و ادب کی دنیا میں کوئی کسی کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔

        ایک غیر معمولی امر یہ ہے کہ راجیندر یادو کی رخصت عدم محض ہندی دنیا کا ہی نقصان نہیں بلکہ جہانِ اردو کے لیے ایک خسارۂ عظیم کا پیش خیمہ ہے، کیوں کہ وہ اردو کے پُرسکوت مگر فعال حامی اور کسی نہ کسی نہج پر اس زبان کے وکیل تھے، راقمِ مضمون کا یہ دعویٰ بے دلیل اور بے ثبوت نہیں۔ راجیندر یادو کی رحلت کو ابھی بہ مشکل بیس بائیس دن ہوئے ہیں، اس مختصر عرصے میں ان پر اردو میں تو کم لیکن ہندی میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ زیادہ تر تحریریں عقیدت میں چور اور یک طرفہ، توصیفی نوعیت کی ہیں۔ اس ماتمی ماحول میں یہ امر غیر فطری بھی نہیں، اس لیے کہ کسی معروضی نگارش اور ممکنہ حد تک عینیت اختیار کرنے کے لیے زمانی فصل لازم ہے۔ ابھی یہ واردات تازہ ہے، زخم ہرا ہے، اور کسی منصفانہ، تنقیدی مضمون کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ تاہم ان کی تہ دار شخصیت کا ایک پہلو عام قارئین سے عموماً اور اردو داں و اردو خواں حضرات سے خصوصاً، ہنوز پوشیدہ ہے۔ راقم الحروف کا بنیادی مقصد اِسی زاویے سے اظہارِ خیال کرنا ہے اور حتی الوسع و حسبِ توفیق غیر جانب داری کے ساتھ۔

        راجیندر یادو ہندی کے بڑے ادیب تھے، چوٹی کے مصنّف تھے، پریم چند کے بعد ادبی اُفق پر نمودار ہونے والی افسانہ نگاروں و ناول نگاروں کی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ تھے۔ وہ عہدِ حاضر کے تین بڑے ہندی ادبا— موہن راکیش، کملیشور اور راجیندر یادو— کے مثلث کا ایک روشن نقطہ تھے، ان کے وداع ہوتے ہی آخری ستون بھی گر گیا، ایک دور کا خاتمہ ہو گیا، ہندی نثر کا ایک قد آور قلم کار ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔ تاہم ہندی کا ایک عظیم ادیب ہونے کے با وصف وہ اردو داں تھے، اردو فہم تھے، اردو کے ہمدرد تھے، دوست تھے اور ایک خاموش مگر با عمل حامی تھے۔ اردو کی طرف داری اور اس کے دفاع کی ان کی بے تشہیر مہم عشروں سے جاری تھی اور ان کی آخری سانس تک جاری رہی۔ راقم السطور کی، ان کی ذاتِ ممتاز میں دل چسپی کا محرّک ان کی شخصیت کا یہی رخ ہے۔

        راجیندر یادو ہندی کے اہم ادیب ہونے کے ناتے اس کے شائق و عاشق تھے، مگر اس کے پہلو بہ پہلو انھیں اردو کے فروغ، اس کی بقا اور تحفظ سے یک گونہ دل چسپی تھی، اور یہ رویّہ کمالِ سنجیدگی کے ساتھ تھا۔ انھوں نے کبھی اپنی اردو دوستی کا نقارہ نہیں بجایا، نقارہ تو کیا نفیری بھی نہیں بجائی، بس خاموشی سے کام کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے ادبی ہندی جریدے ’ہنس‘ میں اردو ادیبوں، شاعروں و دیگر قلم کاروں کی جتنی نگارشات کو شاملِ اشاعت کیا اور جس قدر ادب و احترام کے ساتھ یہ عمل انجام دیا، اس کی دوسری مثال ہندی ادب و صحافت تو کیا کسی علاقائی زبان میں بھی نظر نہیں آتی۔ انھوں نے ایک جہادی کوشش کے تحت اردو کے ادیبوں کو تلاش کر کر کے اپنے حلقے میں شامل کیا، ہندستان ہی نہیں پاکستان کے کلاسکی، عصری اور جدید ادب کے بحرِ ذخار میں غوّاصی کی اور چُن چُن کر موتی برآمد کیے، پھر انھیں اپنے معیاری ماہنامے کے صفحات پر آویزاں کیا۔ ان کی ادارت میں اشاعت پذیر ’ہنس‘ کی کئی عشروں کی تاریخ میں ایسی مثالیں اتنی کثیر ہیں کہ کم از کم بر انگشت ان کا شمار ممکن نہیں۔

        راجیندر یادو کے ساتھ خاکسار کی شناسائی، ملاقات، دل چسپی اور کسی حد تک قربت کا سبب بھی اردو اور اردو والوں کے ساتھ ان کا رفیقانہ، ہمدردانہ و ہمت افزا سلوک ہی تھا۔ ان سے اوّلین ادبی تعارف ان کی کہانی ’خوشبو‘ کے توسط سے ہوا، کوئی چالیس پینتالیس برس قبل، پھر اشتیاق بڑھا تو ان کی دیگر تخلیقات کی تلاش ہوئی اور تعارف وسیع ہو کر ذاتی ملاقات کی شکل اختیار کر گیا۔ راقم کے دورِ طالب علمی میں اس کی گزارش کو شرفِ قبولیت بخش کر انھوں نے کئی ادبی محافل کو رونق بخشی اور نوجوانوں کے ایک پورے قافلے کو اپنی دل چسپیوں کی حدود کو   علی گڑھ سے دہلی تک وسیع کرنے کی دعوت دی اور ان کی خواہشات کو مہمیز کیا، اس تحریکِ مسلسل کے طفیل ان سے اَن گنت ملاقاتیں دہلی یونیورسٹی اور جواہر لعل یونیورسٹی کے ادبی جلسوں میں ہوتی رہیں۔ قابلِ ذکر ہے کہ تمام تر تو نہیں، مگر بیشتر جلسے اردو سے متعلق ہوتے تھے اور ان میں سے اکثر کی صدارت وہی کرتے تھے، نیز، انتہائی شستہ و شائستہ اردو میں خطبۂ صدارت ارشاد فرماتے تھے۔ ان کے زیرِ صدارت کئی مرتبہ اس ناچیز کو اپنی تخلیقات پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا تو انھوں نے جذبۂ شفقت و محبت کے تحت بے جا تعریف کر کے شرمندہ کردیا۔ ان کا وصف یہ تھا کہ جب وہ اردو میں تقریر کرتے تو خالصتاً اردو کے ادیب معلوم ہوتے تھے، اس لیے کہ ان کی اردو میں ہندی الفاظ کی آمیزش نہیں ہوتی تھی، اس کے برعکس جب وہ ہندی میں تقریر کرتے تو ان کی ہندی میں اردو کے خوب صورت الفاظ و اشعار جا بجا در آتے، جس سے ان کی زبان دل نشیں ہو جاتی تھی، ان کا قول تھا کہ اردو کے امتزاج سے ہندی کی تقریر و تحریر دونوں میں روانی و شیرینی آتی ہے، اپنی اس رائے پر انھوں نے کبھی کوئی ملمّع نہیں چڑھایا نہ ہی نمائشی طور پر شرمندہ ہوئے، یہ امر ان کے اخلاصِ نیت پر دال تھا۔

        اردو کے ساتھ ان کی وقیع دل چسپی کو دیکھ کر راقم الحروف نے ایک دن ان سے براہِ راست سوال کر ڈالا کہ آپ اردو خوب پڑھتے ہیں، اتنی اچھی اردو بولتے ہیں، پھر آپ اردو کو اپنا تخلیقی ذریعۂ اظہار کیوں نہیں بناتے۔ بہ ظاہر اس بے محل سوال کا جواب انھوں نے کمالِ سادگی سے دیا اور کہا کہ ’’بس اتفاق ہے کہ ادبی سفر کی ابتدا ہندی سے ہو گئی، ویسے میرے مطالعے کا آغاز اردو زبان و ادب سے ہی ہوا تھا، دراصل اعلا تعلیم ہندی میں ہوئی اور بس ہم فطری طور پر ہندی کے سانچے میں ڈھلتے گئے، لیکن اردو سے دور نہیں ہوئے، آج بھی نہیں ہیں۔ اردو سے نہ کوئی پرہیز ہے نہ گریز اور انغباض تو خارج از بحث ہے‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے مصرعے پر مصرعہ لگایا کہ ’’میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کہ جب میری کوئی کہانی اردو میں جلوہ گر ہوتی ہے تو مجھے قلبی مسرت ہوتی ہے۔ جب نیشنل بک ٹرسٹ نے ہندی کہانیوں کا انتخاب اردو میں شائع کیا تو اس میں موہن راکیش اور کملیشور کے ساتھ میری کہانی بھی شامل تھی، آپ یقین کریں کہ اس کتاب کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر مجھے بڑے فخر کا احساس ہوا تھا‘‘۔

        مقامِ افسوس ہے کہ راجیندر یادو کی بہت زیادہ تخلیقات ابھی تک اردو کا لباس زیبِ تن نہیں کرسکی ہیں، انھوں نے خود یہ فرض انجام کیوں نہیں دیا، اس ضمن میں کچھ کہنا مشکل ہے، شاید تکلّف اور کم آمیزی حائل رہی۔ دوسری طرف انھوں نے اردو کی بے شمار تخلیقات کو ہندی میں منتقل کرایا اور شائع کر کے محفوظ بھی کر دیا، اس لحاظ سے ان کا یہ قرض اردو کے قلم کاروں کے ذمّے واجب الادا ہے، جسے بہ ہر حال بے باق ہونا چاہیے، جلد یا بہ دیر۔

        اردو کے نامور ادیبوں میں راجیندر یادو کے ساتھ سب سے زیادہ احبابی اور قربت قاضی عبدالستار صاحب کو تھی، اور انھیں سب سے زیادہ تعاون غالباً مشرف عالم ذوقی کی جانب سے حاصل ہوا۔ اس کے بعد باوجود تمام تر انکسار، یہ ناچیز خود کو اس فہرست میں شامل خیال کرتا ہے، علاوہ ازیں اردو کے مقبول افسانہ نگار طارق چھتاری بھی ان کے زبردست قائل اور مدّاح ہیں، ویسے وقتاً فوقتاً، ضرورتاً اور مصلحتاً ان کے ساتھ وابستہ ہونے والے اور پھر تکمیلِ طلب کے بعد تعلق قطع کر لینے والے اردو کے دعویدار تو بہت ہوں گے، اب ان میں سے کتنے لوگ ان کی یادگار ’ہنس‘ کی بقا و ترویج مسلسل کے لیے عملاً کوئی کاوش کریں گے، یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔

        حق پرستی و حق گوئی راجیندر یادو کی شخصیت کے روشن پہلو تھے، اس کی زندہ مثالیں دو ہیں: اوّل اردو کی طرف داری اور حمایت، دوئم فرقہ پرستی کی شدید مخالفت— دامے، درمے، قدمے، سخنے۔ دراصل وہ اردو-ہندی تنازعے کو سرے سے نا موجود خیال کرتے تھے، ان کا نظریہ تھا کہ یہ صرف ایک مفروضہ ہے کہ اگر اردو کا فروغ ہو گا تو ہندی کو کسی بھی سطح یا نہج پر نقصان پہنچے گا، اس لیے کہ ہندی ملک کی سرکاری زبان ہے، اس کا یہ مقام طے شدہ ہے، اردو اب اس منصب کی دعویدار ہے ہی نہیں۔ اردو تو صرف اپنے وجود، اپنی بقا اور فروغ کا حق طلب کرتی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں، نہ ہی کسی قسم کی مخاصمت کی گنجائش۔ اردو کے مسئلے پر راجیندر جی سے راقم کی اکثر طول طویل گفتگو ہوتی تھی، وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ اس شہر کے پروردہ ہیں جسے مرزا غالبؔ اور نظیرؔ اکبرآبادی کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔

        اس ناچیز کو اردو کے تعلق سے ان کے ایک نظریے سے شدید اختلاف تھا، وہ اردو کے رسم الخط کی تبدیلی کے حامی تھے، اوّلاً دیوناگری اور دوئم رومن کی شکل میں۔ راقم نے اس سلسلے میں ہمیشہ ان سے بحث کی، منطقی و مدلّل گفتگو کی کہ رسم الخط کسی بھی زبان کی روح کی حیثیت رکھتا ہے، اور اُسے بدل دینا زبان کو قتل کر دینے کے مترادف ہے، نیز دیوناگری اور رومن دونوں ہی رسوم الخط اردو کے مخصوص مزاج اور اس کی طبیعت سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہ ان تمام لسانی و صوتی تقاضوں کی تکمیل کرسکتے ہیں، جن سے اردو کی زندگی عبارت ہے۔ وہ ان دلائل کو تسلیم نہیں کرتے تھے، اگرچہ ان کے پاس اس کا کوئی بدیہی جواز نہیں تھا، البتہ یہ صراحت ضرور کرتے تھے کہ ایران میں اسلام کی آمد کے بعد قدیم فارسی یعنی ازویستا کا رسم الخط تبدیل کیا گیا تھا، پھر زمانۂ جدید میں ترکی زبان کا عربی رسم الخط بدل کر رومن کیا گیا تو کون سی آفت آ گئی، مزید یہ کہ پنجابی زبان فارسی و گُرمکھی ہر دو رسوم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سرحد کے دونوں جانب فروغ پذیر ہے۔ اس پر یہ خاکسار ترکی بہ ترکی یہ عرض کرتا کہ آپ سندھی کو کیوں فراموش کرتے ہیں، اس کے بولنے والے تو اس ضمن میں بڑے شدید اور جذباتی ہیں! اڈوانی جی جیسے رجعت پسند نے بھی کبھی سندھی کا رسم الخط بدلنے کی تحریک نہیں چلائی۔ ظاہر ہے کہ اس دلیل کا جواب ان کے پاس نہیں ہوسکتا تھا، یوں بحث جاری رہتی تھی، نہ اِس ناچیز نے کبھی ان کی بات مانی اور نہ انھوں نے اپنا موقف تبدیل کیا۔

        ایک آدھ مرتبہ شرارتاً خاکسار نے یہ بھی کہا کہ غلطی کا ماخذ کہیں اور ہے۔ حضرت امیرخسرو سے لے کر عبدالرحیم خان خاناں تک کسی مسلمان ہندی شاعر نے کبھی یہ تصور پیش نہیں کیا کہ ہندی (ان ادوار کی ہندوی، برج اور اودھی) کا رسم الخط تبدیل کر کے اسے فارسی کے رنگ میں رنگ دیا جائے اور نہ ہی مغلوں نے کبھی اس طرف توجہ کی۔ انھوں نے تمام تر نئے نظام رائج کیے، یہ نظم بھی کر دیتے تو آج کم از کم یہ مسئلہ نہ ہوتا۔ راجیندر جی کہاں چوکنے والے تھے، کہتے کہ کچھ نہ ہوتا، ہندی واپس اپنی جگہ چلی جاتی۔ آخر پنجابی اور بنگالی پر بھی فارسی رسم الخط مسلط کر دیا گیا تھا، مگر دونوں واپس ہو گئیں۔ پنجابی جزوی طور پر اور بنگالی کلّی طور پر۔ ایک دن اس ناچیز نے ایک زبردست دلیل پیش کی کہ آپ ہندی والوں نے تو مہاتما گاندھی کی پیش کردہ ایک بہترین عملی تجویز کو بھی یکسر مسترد کر دیا تھا، وہ ایک مشترک ہندستانی زبان کے حامی اور وکیل تھے، جسے فارسی اور دیوناگری ہر دو رسوم الخط میں لکھا جاتا اور وہی ہماری سرکاری و قومی زبان ہوتی، نیز اردو اور ہندی اپنی اپنی جگہ زندہ اور برقرار رہتیں، علمی و ادبی سطح پر۔ اس طرح آزاد ہندستان میں زبان کا مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔ اس دلیل پر انھیں خاموش ہونا پڑتا تھا، لیکن مصلحت آڑے تھی، اس لیے اپنا موقف تبدیل نہیں کرسکتے تھے۔ عنانیت ان کے مزاج کا حصہ تھی، اور یہ ہر فن کار کا پیدائشی وصف ہے، اس لیے، انھی کو الزام کیوں دیا جائے۔ اس ذیل میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام نازک مباحث کے باوجود نہ کبھی کوئی تلخی ہوئی، نہ تصادم، تعلق خاطر بہ دستور استوار رہا، اور گفتگو ہمیشہ ایک زبردست قہقہے پر اختتام پذیر ہوتی تھی، جو ایک طرح سے ان کی شناخت بن گیا تھا۔ ہنسی کے فوارے مدھم ہوتے تو وہ کہتے، اچھا بھائی، عیسیٰ اپنی راہ، موسیٰ اپنی راہ۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف لازم ہے کہ رسم الخط کے سلسلے میں ان کے اس درست یا نادرست موقف کے علاوہ ان کی زبان سے اردو کے خلاف کوئی ہلکا سا جملہ بھی کبھی نہ سنا گیا، نہ ان کی تحریر میں نظر آیا۔

        راجیندر جی کے ساتھ راقمِ مضمون کے تقریباً تین عشروں پر محیط روابط و مراسم میں اردو کے ضمن میں صرف ایک مرحلہ شکایت اور کبیدگیِ خاطر کا آیا کہ ایک مرتبہ ماہنامہ ’ہنس‘ کی اوائلِ عمری میں انھوں نے پتا نہیں کس غفلت یا مصلحت کے تحت ہندی کے نامور دانش ور نامور سنگھ کا ایک مضمون بہ عنوان ’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘ شائع کر دیا۔ مضمون  کا عنوان تو شر انگیز تھا ہی، اس کا تمام تر متن انتہائی شدید طور پر ایک فسطائی اور فسادی ذہنیت کا غمّاز تھا، نیز اردو کی   بے جا، بے بنیاد مخالفت پر مبنی اور سراسر عصبیت کا ثبوت۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس مضمون کے مشمولات خود اس کے مصنف کے معلوم و تشہیری نظریات سے قطعی مماثل نہیں تھے۔ دراصل اُن دنوں دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تفویض کرانے کی تحریک شباب پر تھی۔ اس سلسلے میں کئی موثّر مذاکرے و مباحثے بھی انعقاد پذیر ہو چکے تھے، اور اس ضمن میں حکومتِ وقت کی نیت بھی بہ خیر نظر آ رہی تھی، لہٰذا اس سمت میں مثبت اشارے موصول ہو رہے تھے۔ اس صورتِ حال میں ردِّ عمل کہیے یا سراسر بغضِ اردو کہ ہندی پرستوں کو اردو کو حاصل ہو جانے والی اس ثانوی حیثیت کی ممکنہ مراعات بھی قابلِ قبول محسوس نہ ہوئیں اور اردو کے خلاف ایک محاذ قائم ہو گیا، جس کا ایک ثبوت نامور سنگھ کا مضمون ’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘ تھا جسے ’ہنس‘ نے اپریل ۱۹۸۷ کے شمارے میں شائع کیا، یہ انتہائی زہریلا مضمون تھا۔ اگرچہ بعد میں اردو کو دہلی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ بہ ہر حال مل گیا، قانونی طور پر۔ البتّہ اس کی عملی حیثیت کیا ہے، یہ بحث دگر ہے۔

        سچ یہ ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے علاوہ راجیندر یادو اردو کے خلاف نہ کسی محاذ آرائی میں شریک ہوئے، نہ کوئی اور عملی کارروائی ان کے ذریعے سرزد ہوئی، اس مضمون پر بھی بعد ازاں وہ پشیمان تھے، جس کا اعتراف انھوں نے اپنے نزدیکی حلقۂ احباب میں کیا۱؎، نیز اس کی پاداش میں بہ طورِ تردید چند تحریریں شائع کیں اور بحث کو بہ عجلتِ تمام بند کر دیا۔۲؎ اردو کے خلاف یہ ان کی واحد سرگرمی تھی، جو منظرِ عام پر آئی، اس لیے احباب نے اسے درگزر کر دیا۔ البتہ شر میں خیر کا پہلو پوشیدہ ہونے کے مصداق اس مضمون کی مخالفت کے بہانے اردو کے تمام دانش ور، مصنف اور ادیب ایک آواز ہو کر سامنے آئے تھے، حبِّ علی میں نہ سہی، بغضِ معاویہ میں سہی، یہ اس حادثے کا ایک مثبت پہلو تھا، جس کا سہرا اگر (یہ اگر زبردست ہے) باندھا جا سکتا تھا تو راجیندر یادو کے سر پر۔

        فرقہ پرستی کے خلاف متشدد قلمی و قولی جہاد، نیز فسطائیت اور بالخصوص سنگھی سیاست کی عملی مخالفت اور ہر سطح پر اس سے نبرد آزمائی راجیندر یادو کا نصب العین تھی اور ہمیشہ رہی۔ اب اسے ان کی جرأتِ فکر، جسارتِ اظہار اور شجاعتِ قلمی کا مظہر قرار دیا جائے گا کہ انھوں نے اپنی ایک تحریر میں ہنومان جی کو اوّلین دہشت گرد کا خطاب عطا کر دیا اور یہی نہیں، بابری مسجد کے انہدام کے بعد کے پُرآشوب دور میں بھاجپائی سیاست کی اس وقت کی سرخیل اوما بھارتی کے خلاف ایک انتہائی بے لاگ، بے باک اور شدید تنقید کا حامل مضمون اپنے رسالے ’ہنس‘ میں شائع کیا، جس کا عنوان تھا ’تمھارے گلے میں کس کی آواز ہے، اوما بھارتی‘۔ اس مضمون میں انھوں نے اوما بھارتی کی قلعی اتار دی تھی اور یہ باور کرا دیا تھا کہ تم صرف کرائے کی لڑاکا اور بھاجپائی قیادت کا محض بھونپو ہو، اس سے زیادہ ہرگز کچھ نہیں۔ ایسی بے مثال جرأت کا مظاہرہ کسی اور ادبی صحافی نے کیا ہو، یہ کم از کم ہمارے محدود علم میں تو نہیں۔ درحقیقت وہ ہر قسم کی عصبیت سے بلند و بالا اور منافرت کے زہر سے پاک و صاف تھے، ان کا یہ شفّاف رویّہ دمِ آخر تک رہا۔

        جیساکہ عرض کیا گیا، راجیندر یادو فسطائی اور فرقہ پرست قوّتوں کے شدید اور فعال مخالف تھے، اس سلسلے میں وہ نہ تو کبھی زیرِ غلاف ہوئے نہ پسِ نقاب اور نہ ہی انھوں نے اپنی زبان کو مصلحت کا پابند ہونے دیا۔ فسطائی قوتوں نے ان کے خلاف قانون سے لے کر پولیس اور ڈنڈے تک کا استعمال کیا، مگر وہ سینہ سپر رہے، نہ خوف زدہ ہوئے نہ میدان سے ہٹے۔ سیاہ چشمے کے سبب ان کی آنکھیں عموماً نظر نہیں آتی تھیں، مگر کبھی زیرِ لب تبسم، کبھی ہلکی سی ہنسی ہر حملہ آور جملے اور معاندانہ رویّے کا خاموش جواب ہوتی تھی، اگر ظلم و زیادتی حد سے تجاوز کرتی تو ان کا جواب ایک جسارتی قہقہہ ہوتا تھا۔

        انھیں مسلم مسائل اور مسلمانوں کے حالات سے یک گونہ دل چسپی ہمیشہ رہی، اس کا عملی ثبوت ان کے ذریعے شائع شدہ جریدۂ ’ہنس‘ کا ایک خصوصی شمارہ تھا، جس کے مہمان مدیر ہندی کے مشہور ادیب اصغر وجاہت تھے اور معاونِ خاص اردو قلم کار مشرف عالم ذوقی۔ وہ شمارہ ’مسلم امور و مسائل‘ کے لیے مختص تھا۔ اگرچہ ’ہنس‘ کا وہ خصوصی شمارہ صورتِ حال میں کسی انقلابی تبدیلی کا نقیب تو نہ بن سکا، تاہم اس کے ذریعے ہندی داں طبقہ بڑے پیمانے پر، غالباً پہلی مرتبہ مسلمانوں کے داخلی حالات، ان کو درپیش امور، ان کے تحفظات، نیز ان کی شناخت کے مسائل سے واقف ہوا، یوں ادراک نہ سہی آگہی کا فرض تو ادا ہو ہی گیا۔ اگر ان کے اس معمولی مگر درحقیقت غیر معمولی اقدام کو مسلم معاشرے کے تئیں ان کی توجہ اور خلوص کا مظہر مان لیا جائے تو ان کی چند دیگر کوتاہیوں کو نظرانداز کر دینا سہل ہو گا۔۳؎

        ایک حیرت ناک امر جس کا اظہار لازم ہے کہ راجیندر یادو نے گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی تخلیقی شاہکار ہندی ادب کو نہیں بخشا تھا، صرف ادبی صحافت کرتے رہے، اگرچہ یہ فرض انھوں نے بہ کمالِ اتم انجام دیا۔ ان کا قلم بھی جامد نہیں متحرک تھا، خصوصاً اداریہ نگاری کی شکل میں، اور چند غیر تخلیقی تصنیفات کے با وصف۔ تاہم تخلیقی خدمت کی غیر موجودگی میں بھی انھیں کوئی ادبی ٹھیکیدار ادبی تذکروں و محفلوں سے مجلس بدر نہیں کرسکا، وہ نہ کسی دانش گاہ میں پروفیسر تھے، نہ دکتورِ ادب تھے، پھر بھی دنیائے ادب ان کی عظمت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتی رہی، اور ہر شخص ان کے جریدے میں جگہ پانے کا متمنی رہا۔ کیا یہ کوئی ادنیٰ کمال تھا؟ انھوں نے بہ طورِ وراثت خاصا متمول ترکہ ہندی اور ہندستانی ادب کو عطا کیا، یہ سب زبان و ادب کی تاریخ کا حصہ ہے، لہٰذا اس کی تفصیل غیر ضروری ہے۔ یوں بھی زیرِ نظر نگارش تنقیدی نوعیت کی نہیں، بلکہ تاثراتی ہے، پس، اقلیمِ ادب کے اس تاجدار کی شخصی عظمت کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔

        اس ہیچ مداں کو متعدد اکابرینِ علم و ادب کی ارادت مندی کا شرف حاصل رہا ہے، اور اس میں زبان کی شرط کبھی مانع نہیں رہی، اسی جذبۂ اخلاص کے طفیل راجیندر یادو کے ساتھ تعلقِ خاطر برسوں بلکہ عشروں قائم رہا۔

ع: خوش قسمتی کہ آپ سے قربت بنی رہی

        اَن گنت ملاقاتوں میں چند صحبتیں یادگار ہیں، جن میں سے ایک ملاقات چند ماہ قبل استادِ محترم قاضی عبدالستار صاحب کی سیادت میں وقوع پذیر ہوئی، راجیندر جی کی رہائش گاہ پر۔ ہمارے وفد میں ایک نوجوان قلم کار بھی شامل تھے، اس رعایت سے خاکسار نے ان سے عرض کیا کہ دیکھیے آپ کے شوقِ ملاقات میں اردو ادب کی تین نسلیں ایک ساتھ حاضر ہیں۔ اس جملے سے وہ خوب لطف اندوز ہوئے اور اس کے عوض انھوں نے کئی لطیفے سنائے۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ اس خاصی طویل ملاقات میں گفتگو کا محور تقریباً تمام تر اردو ادب تھا، اور ہندی ادب کا ذکر ذیلی طور پر خال خال ہی آیا، اردو میں بھی زیادہ تر مجروحؔ سلطان پوری کی شخصیت اور شاعری پر ہی بات ہوتی رہی۔ دراصل راجیندر جی برسوں پہلے کسی غیرملکی ادبی دورے میں مجروحؔ صاحب کے ہم سفر و ہم قیام رہے تھے اور ان کی ہم بزمی کی رنگارنگ یادیں ان کے ذہن و دل میں تازہ تھیں۔

        ملاقات کے اختتام پر انھوں نے ’ہنس‘ کا تازہ شمارہ اس عندیہ کے ساتھ عنایت کیا کہ اس کی قیمت بہ صورتِ خدمتِ قلمی ادا کرنا لازم ہے۔ اُسی وقت ہم نے ان کے بوقلمونی خزینے میں سے ایک حسین و بیش قیمت قلم کو تاکا تو انھوں نے ہماری بدنیتی کو بھانپ کر کہا کہ ’’آپ چاہیں تو یہ قلم لے لیں، ویسے سنسکرت کا ایک مقولہ ہے کہ ’کتاب، قلم اور بیوی کسی کو عاریتاً دینے کی چیز نہیں، کہ گئی تو گئی‘‘۔ ہم نے ان کے اس بلیغ اشارے کو وصول کیا اور اس کے معنی کا ادراک کرتے ہوئے اپنی درپردہ حریص نگاہیں اپنے مطلوب قلم سے ہٹا لیں، تبھی ہماری چور نگاہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ’صاحبِ قلم‘ نے ’مالِ عرب پیشِ عرب‘ کے مصداق اپنے اس محبوب قلم کو بڑی چابک دستی سے ہماری دسترسِ بے جا سے دور اور خود سے قریب کر لیا۔ دراصل راجیندر جی کے پاس قلموں کا بے نظیر ذخیرہ تھا، اسی طرح ان کے پاس تمباکو نوشی کے پائپوں کا بھی انبار تھا اور انھیں اپنے ہر قلم اور ہر پائپ کی قیمت و جائے خرید ازبر تھی، بہ ہر حال یہ داستانِ دگر ہے اور یہاں اس کا محل نہیں۔

        راجیندر جی سے آخری ملاقات بڑی نمناک و تکلیف دہ تھی، وہ مکمل طور پر صاحبِ فراش تھے، مگر خیال خاطرِ احباب میں کوئی کوتاہی نہ تھی۔ اسی ملاقات میں کچھ عرصہ قبل شائع شدہ ان کی ایک جذباتی و تاثراتی تصنیف کا ذکر آیا، وہ اسے اردو میں شائع کرانے کے متمنی تھے، اس عاجز قلم نے بہ طورِ نمونہ اس کے عنوان کا اردو ترجمہ ان الفاظ میں پیش کر دیا: ’’ایک مریض کے صحت مند خیالات‘‘۔ یہ فی البدیہہ ترجمہ پسند خاطر ہوا اور انھوں نے برملا کہا ’’یار تم تو کام کے آدمی ہو، اس کا ترجمہ فوراً سے پیش تر کر گزرو‘‘۔ ہم نے بہ خوشی حامی بھر لی، بلکہ وعدہ کر لیا، حیف کہ یہ کام ان کی حیات میں شروع بھی نہ ہوسکا۔ ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ روح فرسا خبر آ گئی، جس کا اندیشہ ان کے تمام احباب و رُفقا کو تھا، مگر اسے انگیز کرنے پر کوئی آمادہ نہ تھا۔ بہ ہر کیف اِس جہان سے اُس جہان کا سفر سب کا مقدر ہے، سو اُن کی حاضری کی ساعت بھی آ گئی اور وہ حاضر جناب کہتے ہوئے مائل بہ پرواز ہو گئے۔ اس عاجز کو فخر ہے، اور رہے گا کہ اسے ان کے ساتھ ہم نشینی کے مواقع میسر رہے۔ یہاں فراقؔ کا شعر تحریف کے ساتھ:

آنے والی نسلیں ہم پر فخر کریں گی، ہم عصرو

جب ان کو دھیان آئے گا، راجیندر کو دیکھا تھا

حواشی:

  ۱؎     یہ نہایت شاطرانہ چال تھی کہ مضمون آپ رسالے میں شائع کریں اور اس پر شرمندہ ذاتی محفلوں میں ہوں، اغلب ہے وہ محفلیں اردو والوں ہی کی ہوتی ہوں گی۔

۲؎      یہ خلافِ واقعہ ہے جب اردو والوں کی طرف سے دو مضمون شائع ہوئے تو جواباً نامور سنگھ نے ایک اور مضمون لکھا جسے بعد کے کسی شمارے میں شائع کر کے آخری قہقہہ لگانے کا شرف یادو صاحب نے نامور سنگھ ہی کو دیا۔

۳؎      اس شمارے میں اکثر مضامین ہندی سے ترجمہ کیے گئے تھے اور اکثر مترجم ناڑی کے زمرے میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اصغر وجاہت کی علمی حیثیت سے قطع نظر پیچیدہ مسلم سماجیات پر ان کی نظر شاعرانہ نوعیت کی ہے، اس لیے، اس شمارے کی اشاعت میں انھوں نے عملاً کوئی دل چسپی نہیں لی۔ یہ شمارہ انقلابی تبدیلی تو کیا، مسلمانوں سے متعلق کسی زاویے پر بحث کا آغاز تک نہیں کرسکا۔ (مدیر ’ہماری زبان‘ دہلی)

٭٭٭

بشکریہ معاصر ’’ہماری زبان‘‘ دہلی

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے