’’انتقام‘‘ ایک تجزیاتی مطالعہ(کیول دھیر کی کہانی)۔۔۔ غلام نبی کمار

غیرمسلم ادیبوں نے اردو زبان کی نشو و نما اور اس کے فروغ میں اب تک ایک اہم اور نمایاں رول ادا کیا ہے۔ اردو کے ہر میدان میں غیر مسلم قلمکاروں نے بہت بڑا تعاون کیا ہے۔ اس زبان نے کئی نامور اور مشہور و مقبول غیر مسلم ادباء کو پیدا کیا۔  جو اگرچہ الگ الگ مشاغل اور پیشوں سے وابستگی رکھتے تھے لیکن ادب تخلیق اور تحریر کرنا ان کا سب سے بہترین مشغلہ تھا۔  بعض کا تعلق درس و  تدریس کے شعبے سے تھا اور بعض کا صحافت سے۔ کچھ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے تو کچھ تجارت کے پیشے سے، بعض کی وابستگی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے تھی اور بعض کی سیاست سے۔ کچھ انجینئرنگ کے پیشے سے جڑے تھے اور کچھ طب کے پیشے سے وابستہ رہے وغیرہ۔  غرض کہ مختلف النوع پیشوں سے وابستگی رکھنے کے باوجود غیر مسلم قلمکاروں نے اردو زبان و ادب کی اب تک جو سرپرستی اور ترجمانی کی ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ انھوں نے اردو کی ہر اصنافِ سخن میں اپنے دیرپا نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ چاہے شاعری ہو یا فکشن، تنقید ہو یا تحقیق، سفرنامہ ہو خودنوشت، خاکہ ہو یا طنز و مزاح، ترجمہ ہو تبصرہ، مکتوب نگاری ہو یا ڈرامہ نگاری وغیرہ ہر صنف میں ان کا اعلی پیمانے پر قلمی تعاون رہا ہے۔ اب کتنوں کے نام گنوائے جائے لیکن چند اہم نام لیے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔ ان میں جوش ملسیانی، فراق گورکھپوری، تلوک چند محروم، سرور جہاں آبادی، پنڈت برج نرائن چکبست، لچھمن نرائن شفیق، جگن ناتھ آزاد، آنند نرائن ملا، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، شباب للت، راج نرائن راز، عرش ملسیانی، گلزار دہلوی، گوپی چند نارنگ، رام لال، مالک رام، گیان چند جین، کندن لال کندن، رتن ناتھ سرشار، پریم چند، کشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، بلونت سنگھ، کرشن کمار طور، پی پی سریواستورند، کشمیری لال ذاکر، جوگیندر پال، بلراج مینرا وغیرہ شامل ہیں۔ اس فہرست میں سوائے گوپی نارنگ کے کوئی بھی ادیب حیات نہیں ہے لیکن آج بھی ہمارے درمیان ایسے بہت سارے غیر مسلم ادب نواز موجود ہیں جو خاموشی سے بالکل بے لوث ہو کر صرف اور صرف اردو کی خدمت میں مگن ہیں۔ جو اگر چاہتے تو اپنے قیمتی وقت کو دوسرے کاموں میں صرف کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن یہ صرف اردو کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور اردو سے ان کی محبت ان کی تحریروں سے خوب جھلکتی ہے۔  انھوں نے صرف اور صرف اردو کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ ڈاکٹر کیول دھیر بھی ایک ایسی ہی علم پرور شخصیت کا نام ہے جن کا شمار اردو کے ممتاز اور مایہ ناز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کیول دھیر نہ صرف غیر مسلم افسانہ نگاروں میں اعلی مقام پر فائض ہیں بلکہ ان کا شمار اردو کے بلند پایہ کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ یوں تو انھوں نے اردو کی بہت سی اصناف پر قلم آزمایا ہے اور سبھی میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن جہاں ان کے افسانوں کی بات ہوتی ہے تو اس میں انہیں ایک خاص قسم کا امتیاز اور اختصاص حاصل ہے۔ ان کا افسانوی فکر و فن برسوں پر محیط ہے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی افسانے تخلیق کرنے لگ گئے تھے اور کہا جا سکتا ہے کہ کم عمری میں ہی ان کے افسانوں نے اردو دنیا میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی تھی۔ محکمہ صحت عامہ میں بحیثیت ڈاکٹر کے فرائض انجام دہی کے ساتھ ساتھ ادب کی تخلیق کے لیے وقت نکال پانا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اردو کے ساتھ جنون کی حد تک ان کی دلچسپی اچنبھے میں ڈال دیتی ہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دھرتی رو پڑی‘‘ ۱۸۵۷ء میں شائع ہوا تھا اس سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہو گا کہ کیول دھیر کے افسانوی کائنات کس حد تک وسیع ہے اور ان کی تخلیقات کس حد تک وقیع نظر آتی ہے۔ کیول دھیر نے ملک کی تقسیم، ہجرت کا المیہ اور اس سے رونما ہونے والے المناک واقعات اور حادثات کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ کیا ہے۔ ان حالات سے دوچار ایک حساس انسان جو ایک قلمکار بھی ہو، تو وہ بھلا کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ ان کے افسانے تقسیم ہند اور اس وقت کے حالات کے عکاس ہیں۔ کیول دھیر کے افسانے ایک حساس فنکار کے جذبات و احساسات کے ترجمان ہیں۔ کیول دھیر سرزمین ہند کے اس تاریخی مقام سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کی زمین سے آج بھی بے گناہوں اور مظلوموں کا خون ابلتا ہو گا۔ لاچار اور مصیبت زدوں کی چیخوں کی صدائیں آج بھی وہاں کے درو دیواروں سے آتی ہوں گی۔ فسادات کی زد میں آئے مسکین اور نادار لوگوں کی داستانیں وہاں آج بھی سنائی جاتی ہوں گی۔  انگریزوں اور فسادیوں کے مظالم کے شکار ہوئے لاکھوں لوگوں کی آہ اور ان کے اجڑے گھروں کی تنہائی آج بھی ان فرقہ پرستوں کو کوستی ہو گی جن کے مظالم کا وہ نشانہ بنے۔ ہندوؤں، مسلمانوں اور سِکھوں کی آپسی منافقت اور منافرت اور اس سے برپا ہونے والے فسادات کے کیول دھیرچشم دید گواہ ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے افسانوں میں اس کا برملا اظہار بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ کیول دھیر ایک مفکر، حساس، بے باک، دردمند، ہوش مند، وسیع النظر اور ماہرانہ قوت اظہار کے مالک ہیں۔ ان کا مشاہدہ وسیع اور مطالعہ گہرا ہے۔ ان کے اب تک پانچ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’دھرتی رو پڑی‘ کے علاوہ مزید چار افسانوی مجموعوں کے نام بالترتیب ’بکھری ہوئی زندگی‘، ’اپنا دامن اپنی آگ‘، ’کہانیاں ‘اور ’بدچلن‘ قابل ذکر ہیں۔ کیول دھیر کے افسانے سماجی زندگی اور کائنات کی رنگارنگی سے ممیز ہیں جن کو پڑھ کر وسعت اور تنوع کا احساس ہوتا ہے ان کے موضوعات انسان کی سماجی زندگی سے لبریز ہیں۔ ان کی تخلیقی بصیرت، ذہنی وسعت اور ادراکی قوت کا اردو کا بہت بڑا حلقہ دلدادہ ہے۔ وہ کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں سے کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں اور سچائی اور حقیقت کے راز سے آشنا کرتے ہیں۔ کیول دھیر حقیقت پسند اور رومان پرورافسانہ نگار ہیں جن کی کہانیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں اور موصوف آج بھی مست ہو کر افسانے خلق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

اکیسویں صدی میں کیول دھیر کے افسانے مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔ افسانوی مجموعہ ’بدچلن‘ (۲۰۰۷ء) میں ہی شائع ہوا ہے۔ جس میں ان کی اکتیس کہانیاں شامل ہیں جن کو تین مختلف عنوانات ’ایک طرح کی کہانیاں ‘، ’دوسری طرح کی کہانیاں ‘ اور’تیسری طرح کی کہانیاں ‘ میں منقسم کیا گیا ہے۔ کچھ کہانیوں کے عنوانات اس طرح ہیں ’تم وہی ہو‘، ’بکھری ہوئی زندگی، ’اپنا دامن اپنی آگ‘، ’خلش‘، ’لہو کی لکیریں ‘، ’احساس‘، ’اتنی سی بات‘، ’پیاسی روحیں ‘، ’بد چلن‘، ’نمائش‘، ’کمپی ٹیشن‘، ’ہم دونوں ‘لہو کا رنگ‘ رشتوں کی پہچان‘ وغیرہ۔ اسی افسانوی مجموعے میں سے ایک کہانی ’انتقام‘ کا راقم نے تجزیے کے لئے انتخاب کیا ہے۔ یہ کہانی عصر حاضر کے حالات کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ ایک طرح اسے موجودہ سیاسی اورسماجی منظر نامے کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ’انتقام‘ بھی کیول دھیر کی بہترین کہانیوں میں شامل کی جا سکتی ہے۔

کیول دھیر نے کہانی ’انتقام‘ میں واحد متکلم کی تکنیک کو برتا ہے۔ اس کی پوری کہانی واحد متکلم کے ارد گرد ہی گردش کرتی ہے۔ کہانی میں پیش آئے تمام حالات، واقعات اور حادثات کا راوی چشم دید گواہ ہے۔ اس کہانی کا عنوان پوری کہانی کے متن سے میل کھاتا ہے کہانی کی ابتدا میں راوی کے اندر جو اضطراب اور بے چینی کی آگ سلگتی ہے وہ در اصل اس میں انتقام لینے کی صورت میں بھڑکتی ہے۔ انتقام لینے کی حالت میں راوی کے اندر اضطراب کی یہ کیفیت کہانی میں ابتدا سے آخر تک برقرار رہتی ہے اور جب کہانی کے آخر میں وہ اپنے مقصد کو تکمیل تک پہنچاتا ہے تو اضطراب، بے چینی اور بے تابی کی آگ جو اس کے سینے میں کہانی کے آخر تک سلگتی رہتی ہے لیکن انتقام لینے میں کامیاب ہونے کے فوراً بعد اس سے تسکین اور طمانیت حاصل ہوتی ہے۔ اب غور کرنے اور تجسس میں ڈال دینے والی بات یہ ہے کہ راوی کے اندر اضطراب کی نوعیت کیونکر پیدا ہوئی۔ آپ اور ہم سب راوی کی اس مضطرب و کربناکی کیفیت کو بہ آسانی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کے ذہن و دل، جسم و جان، روح اور اس کی نفسیات پر حاوی ہوئی ہے جس نے اس کی پوری زندگی اور حواسِ خمسہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جس نے اب بالکل ایک لاوے اور شعلے کی شکل اختیار کر لی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب یہ لاوا بہے گا تو ایک اپنے ساتھ ایک بہت بڑا طوفان برپا کرے گا پتہ نہیں کس کس کو اور کیا کیا خاکستر کرے گا گویا کہ ایک بہت بڑے خطرے کی پیشن گوئی دے رہا ہے۔ مزید اس کے اندر بھڑکنے والا شعلہ بھی کسی کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے۔  کہانی کے راوی کی اس مضطرب کیفیت کو درج ذیل اقتباس میں بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے:

’’میرا ماضی ایک کھلی کتاب کی طرح میرے ذہن کے دریچوں سے جھانک رہا ہے اور اس کے ہر ورق پر رقصاں ماضی تصویروں کے نقوش میری آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے گزر رہے ہیں، ابھر اور مٹ رہے ہیں۔  ہر تصویر، تصویر کا ہر نقش میرے حساس جذبوں میں اتر کر نشتر جیسی چبھن پیدا کر رہا ہے اور میرے کرب میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے، میرے ذہن میں طوفانوں کا شور برابر بڑھتا جا رہا ہے، میری مضطرب سوچ میں ہیجان بپا ہوتا جا رہا ہے !‘‘

درج بالا اقتباس کی ابتدا میں ہی ماضی کا ذکر آیا ہے کیونکہ اس کہانی میں راوی اپنے ماضی کی داستان سنا رہا ہے جو نہایت ہی تلخ آمیز تجربوں سے ممیز رہا ہے لیکن اس کے ماضی کی کوئی طویل داستان بھی نہیں ہے۔ اس کا ماضی بھی اسی ماحول میں جینے والے ان کروڑوں انسانوں جیسا ہے جو زندگی کی معاشی وسماجی جد و جہد میں رینگ رہے ہیں یا رینگتے جا رہے ہیں۔  جن میں کچھ شکست خوردہ حالت میں جی رہے ہیں اور کچھ نیم شکست خوردہ حالت میں۔ کچھ حالات سے سمجھوتہ کر رہے ہیں اور بعض حالات سے ٹکرانے کی سکت رکھتے ہیں۔ لیکن کہانی کا راوی حالات سے جد و جہد کی سعی میں ہے اور حالات کیسے بھی ہوں ان سے ٹکرانے کا حوصلہ اور عزم رکھتا ہے۔ حالانکہ حالات اچھے ہوں یا برے، خوشگوار ہوں یا ناخوشگوار خاص و عام پر اس کا اثر پڑنا واجب ہے اور معاشرے کا ہر ایک انسان اس سے متاثر تو ہوتا ہے لیکن اس چلینج کو قبول نہیں کر پاتا۔ بلکہ جو با شعور، حساس، ذی حِس، ذی روح اور بیدار ذہن رکھتا ہو، ایک تو وہ ان حالات سے اثر انداز ہوتا ہے دوسرا یہ کہ ہر قسم کی چلینج کا سامنا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ در اصل کہانی کا راوی بھی حساس شخصیت اور بیدار ذہنیت کا مالک ہے جو کوئی ادھیڑ عمر کا شخص نہیں ہے بلکہ تیس برس کا ہوشیار اور بیدار مغز نوجوان ہے۔ جو اپنی زندگی کے تیس میں سے ستائیس سال خوشحال، اچھے انسان اور معزز شہری کے طور پر گزار چکا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی زندگی کے آخری تین برسوں نے اسے بے انتہا کرب و انتظار میں مبتلا کر دیا ہوتا ہے۔ انہی تین سالوں کو وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا المیہ قرار دیتا ہے۔ آخر ان تین سالوں میں ایسا کیا ہوا ہوتا ہے جو اس کی زندگی کے رخ کو بدل دیتے ہیں اس کے وجود میں اضطراب اور بے چینی کا سبب بنتے ہیں اور جس کی وجہ سے اس کے اندر انتقام کی ہوس کا جنم ہوتا ہے۔

کیول دھیر نے اس کہانی کے ذریعے سے معاشرتی وسماجی اور سیاسی زندگی کی ایک کڑوی سچائی اور تلخ آمیز حقیقت سے پردہ اُٹھا یا ہے۔ اس میں انھوں نے ایسی زہریلی، کربناک، بھیانک، نفرت انگیز اور بدصورت واقعے کی بے حد خوبصورت تصویر کشی کی ہے جس کو ایک انسان کے لئے تسلیم کر پانا بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن ایک ذمہ دار شہری، حساس، ذی شعور اور با ہمت و با حوصلہ نوجوان پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ جو اس کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، انتقام کا ولولہ رکھتا ہے اور آخر کاراس میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ کیول دھیر نے ایک ایسے ہی شخص کو کہانی میں راوی کے طور پر مرکزی کردار بنا کر پیش کیا ہے جو اپنے اندر ایسے تمام صفات رکھتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جس کے ذہن، سوچ اور جذبے پر اس تلخ حقیقت کا حیرت انگیز اثر پڑا ہوتا ہے۔ کیول دھیر نے اس کہانی کے پلاٹ کو بڑی چابکدستی اور فنکاری سے ترتیب دیا ہے۔ کہانی اپنے بنیادی مقصد کو بیان کرنے سے کسی بھی جگہ مجروح نہیں ہوتی۔  بلکہ شروع سے آ کر ایک ہی تھیم پر اپنی پکڑ بنائی رکھی ہے جس سے قاری کی دلچسپی بھی کہانی میں برقرار رہتی ہے۔

کیول دھیر کہانی کی فنی و تکنیکی مہارت سے بھر پور واقفیت رکھتے ہیں ایک تو اس کہانی میں موصوف نے اختصار کے ساتھ کام لیا ہے اور دوسری صفت جو کہانی کی کامیابی کا موجب بنتی ہے وہ غیر ضروری لفاظی سے اجتناب کا ہے۔ کہانی کار کو یہ بات باور کراتے جائیں کہ فن یا کہانی میں الجھنا اور پھر قاری کو اس میں الجھانا اس کا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ وضاحت اور صفائی کے ساتھ اس کا مفہوم قاری پر واضح ہونا چاہیے جو ایک تخلیق کار کو اس کی کامیابی کی سند فراہم کرتا ہے چنانچہ کیول دھیر اس میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اس کہانی میں علامتوں کا بھی استعمال نہیں کیا ہے بلکہ موضوع کو بڑی سادگی، صفائی، ہنر مندی اور سلیقہ شعاری سے پیش کیا ہے۔ کہانی صاف اور سیدھی ہے کہ واحد متکلم جو اپنی تیس برس کی نہیں بلکہ ماضی کے آخری تین برسوں کی کرب وافسوس ناک کہانی سنا رہا ہے۔ جس میں وہ ایک وزیر کے پرسنل سٹاف میں بطور سرکاری ملازم شمولیت اختیار کرتا ہے اور بہت جلد اپنی محنت، لیاقت اور دیانت داری سے وزیر موصوف کا اعتماد حاصل کر کے اس کے پی اے کی پوسٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی دورائی نہیں ہے کہ کسی وزیر کا ’پی اے ‘ ہونا کس قدر اہمیت رکھتا ہے لیکن یہاں معاملہ کچھ الٹا ہے۔  وزیر کے قریب ہونے سے راوی پر وزیر موصوف کی نجی زندگی اور اس کے سیاسی کارناموں کے راز افشا ہو جاتے ہیں جو نہایت ہی بدصورت، بدنما اور نفرت انگیز ہیں۔ جبکہ یہی وزیر موصوف سیاسی زندگی میں لوگوں کی نظروں میں فرشتہ صفات اور فرشتہ سیرت انسان بنا بیٹھا ہے۔ لوگ بھی کتنے بھولی بھالے ہیں کہ آسانی سے ان کے پر فریب جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جو وزیر موصوف کے تلخ حقائق سے بالکل نا آشنا ہے۔ وزیر نے ان کے دلوں اور ان کی نظروں میں ایک درد مند، ملنسار، خوش اخلاق اور نیک رہنما کی حیثیت سے گھر کیا ہے جبکہ اصل زندگی میں وہ دھوکے باز اور فریبی ہے جو معصوم عوام کو وعدوں کا جھانسا دے کر ان کے لئے راحت کا سامان مہیا کرانے، سماج کی فلاح و بہبودی کے کام انجام دینے، سوشلزم اور شہری آزادی کے نعرے لگا کران کے دلوں کو جیت کر، ساتھ ہی ان کے ووٹ حاصل کر کے اپنے مفاد میں کامیاب ہوتا ہے۔  عہدے پر فائز ہونے کے بعد لوگوں کو لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا رہتا ہے۔ یہاں پر کہانی کار نے سیاسی رہنماؤں کے گھنونی کارناموں کی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ راوی ان حالات کا بغور مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ راوی کے ذہن کے دریچوں میں ایسی ہی کئی بھیانک تصویریں گھوم رہی ہیں ایک واقعہ کی تصویر ذہن سے ہٹ جاتی ہے تو فوراً دوسری حاوی ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک تصویر شانتی بھائی کی ہے جو وزیر کا ذاتی و سیاسی مشیر ہے لیکن اس کی حقیقی زندگی کی اصلیت کا پتہ کرتے ہیں تو وہ کسی زمانے میں پان کی دکان چلاتا تھا۔ آج اسے وزیر موصوف کے ہر کام میں دخل دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ وزیر موصوف کے چھوٹے کام سے لے کر ہر بڑے کام میں اس کی دخل اندازی اور من مانی چلتی ہے۔ راوی کی زبانی یہ سب داستان ہمیں سننے کو مل رہی ہے جس نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا ہے۔  یہ دیکھ کر وہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ نہ تو شانتی بھائی وزیر موصوف کا ہمدرد کہلا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا وفادار بلکہ وہ تو ایک دلال ہوتا ہے جو صرف سودا بازی کرنا جانتا ہے وہ چاہے غریب کے خون چوسنے کا سودا ہو یا عزت لوٹنے کا سودا۔ راوی وزیر اور شانتی بھائی کے گھنونے کارناموں کی داستان سنا رہا ہے جنھوں نے کئی معصوموں کو اپنی ہوس کا شکار بنایا ہوتا ہے جس میں ایک مجبور، لاچار اور بے بس عورت لتا بھی شامل ہے جو قانون کے پجاریوں سے انصاف مانگنے آئی تھی خود ہی قوم کے محافظوں کے ہتھے چڑھ گئی جو پھر بعد میں خودکشی کر کے زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔ لتا کی وہ سِسکتی آہیں اور درد بھی چیخیں آج بھی راوی کو ستا رہی ہے جو ہے تو ماضی کی منحوس یادیں، لیکن راوی کی ذہن پر بری طرح چھائی ہوئی ہیں۔ راوی کو لتا میں اپنی بہن نظر آتی ہے جو اس کے بدلے کی آگ میں انتقام لینا چاہتا ہے۔  راوی وزیر کی بیٹی کے منوج کے ساتھ تعلقات اور وششٹ کے ساتھ اس کے رومان سے چونکہ پوری طرح واقف ہے اس لئے لیناؔ کو مہرہ بنا کر پیش کرتا ہے اور آخر کار اس شطرنج کی بازی میں راوی کو کامیابی حاصل ہوتی ہے جس میں وہ پہلے لیناؔ کو شراب میں بدمست کر کے ہوٹل میں بے ترتیبی کے عالم میں چھوڑ دیتا ہے اور بعد میں اس کے باپ وزیر کو بھی خمار آلود حالت میں اسی کمرے میں داخل کر کے روشنی گل کرتا ہے۔ جیسے ہی راوی کمرے سے باہر آ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کا تناؤ ختم ہو جاتا ہے۔ یہی اس کہانی کا پورا خلاصہ ہے۔

کیول دھیر نے کہانی ’انتقام‘ کے پلاٹ کو بے حد سلیقے اور فنکاری کے ساتھ ایک منظم طریقے سے ترتیب دیا ہے جو بہت ہی مضبوط اور گھٹا ہوا ہے۔ کہانی میں واقعات اس قدر مربوط ہے کہ فن مجروح نہیں ہوتا۔ اس میں کرداروں کی بھی بھرمار نہیں ہے جس سے قاری الجھ جائے بلکہ واحد متکلم کے علاوہ شانتی بھائی، وزیر، لتا، لینا، منوج، وششٹ جیسے کردار اس کہانی کے پلاٹ کو بڑی خوبی سے آگے بڑھاتے ہیں جو سب ہندو کردار ہے۔ یہ کہانی قاری پر اپنا ایک گہرا تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوئی ہے کیونکہ ’انتقام‘ میں سماج کے بھولے بھالے، بے بس، مصیبت زدہ لوگوں کے علاوہ عیار، مکار، جھانسے باز، دھوکے باز، لالچی، ذلیل، وحشی، ہوس کے پجاری، کرَپٹ، سماج اور قوم کے نام پر دھبہ کہلائے جانے والے سیاسی رہنماؤں کی جو تصویریں دکھائی گئی ہیں وہ بہت ہی حیرت انگیز اور تعجب خیز ہیں۔ کہانی کار نے اس کہانی میں سماج کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ یہ سب کچھ آج ہمارے سماج میں ہو رہا ہے پھر بھی لوگ خاموشی سے اس ظلم و ستم کو سہہ رہے ہیں، ان معصوم اور بھلے انسانوں کا کوئی محافظ نہیں کیونکہ آج محافظ سمجھے جانے والے لوگ ہی قاتل اور ملک دشمن بنے بیٹھے ہیں تو بھلا اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے انصاف کی توقع کس سے کی جائے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ معاشرے میں انسان خواندہ ہو یا ناخواندہ جب سیاست میں پیر جما کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے تو اس کا ایمان ڈگمگانے لگتا ہے۔ اب بھولی بھالی عوام کو بھی انہیں آزمانے کا اچھا خاصا تجربہ حاصل ہو گیا ہے۔  جن کا حق چھینا جاتا ہے، جنہیں گناہوں کے دلدل میں دھکیلنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جن کے انصاف کا خون کیا جاتا ہے، جنہیں غریبی اور بے کسی کی زندگی جینے اور گھٹ گھٹ کے مرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کیول دھیر نے ’انتقام‘ میں سیاسی رہنماؤں اور ان کے برے کاموں میں ان کا ساتھ دینے والوں پر بہت ہی گہرا طنز کیا ہے۔ اس کہانی میں ایک وزیر کی سیاسی زندگی کے ایک بدترین کردار کو نمایاں کیا گیا ہے، کہانی کے آخر میں جو سین پیدا کیا گیا ہے وہ بہت شرمناک اور ہیبت ناک ہے۔ سچائی سے کبھی منہ نہیں موڑا جا سکتا ہے اور اقرار کرنا ہی پڑتا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی اورجیسا بوئیں گے ویسا کاٹیں گے جیسے محاورے یہاں پر کہنے مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ راوی جو انتقام کی آگ سلگ رہا ہوتا ہے ایک دن پوری پلاننگ کے ساتھ وزیر کی بیٹی کو مدہوش کر کے ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ دیتا ہے اس کے آگے کیا ہوتا ہے خود راوی کی زبانی سنئے:

’’ڈاک بنگلے میں بڑی گاڑی داخل ہوتے ہی میں وزیر موصوف کی طرف لپکتا ہوں اور نشے میں چور ان کے لڑکھڑاتے جسم کو سنبھالتا ہوں۔  گاڑی لوٹ جاتی ہے۔  میرا سہارا لیے ان کے بہکے قدم بیڈروم کی طرف بڑھتے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مدھم نیلگوں روشنی میں مہین آنچل سے ڈھکے خوبصورت چہرے اور نیم عریاں جوانی کی موجودگی ان کے لئے باعث مسرت ہوتی ہے، ایسا محسوس کرتا ہوں۔ وزیر موصوف کو بیڈ کے قریب چھوڑ کر کمرے کی روشنی گل کر کے میں باہر آ جاتا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے جسم کا تناؤ یک بیک ختم ہو گیا ہے۔

میرے جذبوں کے اضطراب نے ایک عجیب قسم سی راحت محسوس کی ہے۔

جذبوں کا جوار بھاٹا شانت ہو گیا ہے۔

طوفان کا شور تھم گیا ہے۔

اور

مجھے ایک ایسے سکون کا احساس ہوا ہے جس کی جستجو میں نے کی تھی۔‘‘

درج بالا اقتباس کہانی کا اختتامیہ ہے۔  وزیر چونکہ شرابی و کبابی قسم اور بد چلن کردار کا آدمی ہوتا ہے مدہوشی کے عالم میں اس سے ایک بار پھر ایک ایسا گناہ سرزد ہو جاتا ہے جو ناقابل تلافی ہے۔ کہانی کوایسا اختتام عطا کرنا صرف کیول دھیر کو ہی آ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کہانی میں راوی کے طور پر انھوں نے ایک ایسے لاجواب کردار کو تراشا ہے جو موجودہ سماج میں بہت کمیاب ہیں۔ جو ایماندار بھی ہو، درد مند بھی ہو، سچا بھی ہو، جانباز بھی ہو، جس میں انسانیت کا جذبہ بھی موجود ہو، جس میں جذبے کی صداقت ہو، جو ظلم کے خلاف لڑ بھی سکتا ہو اور ظالم کو اس کے ظلم کا انتقام بھی لے سکتا ہو۔  کیول دھیر نے راوی کی شکل میں ایک ایسا ہی ہیرا کردار کے طور پر پیش کیا ہے جو کہانی کو ایک خاص رخ دیتا ہے اور بڑی بہادری کے ساتھ اس کو انجام تک پہنچاتا ہے۔

کیول دھیر ایک منفرد قسم کے افسانہ نگار ہیں جو صرف ماضی میں نہیں جھانکتے بلکہ وہ ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں۔ وہ عہد حاضر کے حالات و واقعات سے اچھی طرح آشنا ہے، انہیں زندگی کا بہت گہرا تجربہ حاصل ہے جس کی مثال ان کا تخلیق کیا ہوا کردار شانتی بھائی ہے۔ ’شانتی بھائی‘ کا کردار آج کے سیاست دانوں سے اچھی طرح میل کھاتا ہے۔ جو سیاست میں صفر برابر کا تجربہ رکھتے ہیں چونکہ لوگوں کا حق مارنے اور کالا دھن کمانے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اسی واسطے یہ لوگ سیاست میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ جب گھستے ہیں تو نکلنے کا نام نہیں لیتے بلکہ ملک و قوم کو کھوکھلا کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔  اس عمدہ کہانی کی تخلیق پر کیول دھر کی داد دینی پڑتی ہے۔

کیول دھیر نے اس کہانی میں سادہ، سلیس، شستہ زبان و بیان کا استعمال کیا ہے۔ پختگی سے اور اختصار کے ساتھ پیش کی گئی یہ تخلیق بہت سے مختصر افسانوں پر بھاری پڑتی ہے۔  اسلوب کی چاشنی اور زبان کا صحیح استعمال اس کہانی کا حسن بڑھاتا ہے۔ اس میں جن حقیقتوں کا انکشاف ہوا ہے ان کو جسٹیفائی کرنے میں کہانی کار کا بہترین رول رہا ہے۔ مزید برآں وہ قاری کو اپنی جادو بیانی سے متاثر کرنے میں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس کہانی میں کیول دھیر نے نہ غیر ضروری بیانیہ سے کام لیا ہے اور نہ جزئیات نگاری میں قاری کو الجھایا ہے بلکہ اس میں صرف ان کی فنی اور تخلیقی خوبیوں کی جوہر تازہ کاری نظر آتی ہے۔ موصوف نے غیر ضروری لفظیات سے کہانی کو پیچیدہ بنانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کا اپنا ایک فطری تخلیقی انداز ہے جو ان کے فن کو پیچیدہ ہونے نہیں دیتا۔ کیول دھیر کا ایک خاص وصف یہ ہے جو انہیں عہد حاضر کے افسانہ نگاروں میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے وہ ہے کہانیوں میں ان کے حیرت انگیز کلائمکس کا ہونا۔  یہ کہانی بھی اسی وصف سے ممیز ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ کیول دھیر کی اس کہانی کی ادبی حلقے میں کافی پذیرائی ہو گی۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے