الیاس بابر اعوان

عجب نہیں کہ ندی بات چیت کرنے لگے

پرندہ خود سے تری بات چیت کرنے لگے

میں پتھروں سے اکیلا ہی بات کرتا رہا

میں چل پڑا تو وہی بات چیت کرنے لگے

مجھے تو روز ہی جنگل میں دیر ہوتی ہے

میں کیا کروں جو کوئی بات چیت کرنے لگے

میں اِس لیے بھی تجھے سوچنے سے ڈرتا ہوں

جو آنکھوں آنکھوں نمی بات چیت کرنے لگے

میں اِن کے پاس مدد کے لیے نہ آیا تھا

مگر یہ دوست یہی بات چیت کرنے لگے

کوئی خیال گرا آنکھ سے خموشی میں

پھر اس کے بعد سبھی بات چیت کرنے لگے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے