اشعارِ غالبؔ میں سائنس کے تابندہ ذرّات ۔۔۔ افتخار راغبؔ

زبان و بیان کی نعمت قدرت کے بہترین عطیات میں سے ایک ہے۔ جس کی بدولت نہ صرف انسانوں کے درمیان رابطہ قائم ہوتا ہے بلکہ یہ ما فی الضمیر کے اظہار کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اپنی بات دوسروں تک پہچانے میں عام طور سے ہر مخاطِب کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی زبان کا سہارا لے جس کے ذریعہ مخاطَب تک آسانی سے بات کی ترسیل ہو سکے بلکہ کامیابی اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ مخاطَب ٹھیک وہی بات سمجھے جو کہنے والا کہہ رہا ہے۔ لیکن ایک انشا پرداز یا شاعر کا انداز قدرے مختلف ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ابلاغ و ترسیل کا خواہاں تو وہ بھی ہوتا ہے لیکن اپنے کلام کو پرکشش و دل پذیر بنانے کے لیے وہ اشاروں کنایوں کا سہارا لیتا ہے اور مختلف تشبیہات و استعارات اور محاسنِ کلام سے آراستہ کر کے پیش کرتا ہے۔ اِس طرح اُس کا اندازِ بیاں دوسروں سے منفرد، موثّر اور ممتاز ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کلام میں معنی آفرینی و تہہ داری کے امکانات کے جواہرات پوشیدہ ہو جاتے ہیں۔ جن کو اپنی اپنی بساط کے مطابق قاری حاصل کرتا ہے۔ جس کے سبب بعض اوقات ہر مفہوم تک ہر کسی کی رسائی نہیں ہو پاتی اور بعض تشریحات پر سب کا متفق ہونا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ ریموٹ کنٹرول سے ٹیلیویژن چلاتے اور اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ اس عمل کو ایک عام آدمی جب دوسروں سے بیان کرے گا تو بے ساختہ کہے گا کہ میں ریموٹ کنٹرول کا بٹن دباتا ہوں اور ٹیلیویژن چلنے لگتا ہے۔ لیکن اسی بات کو جب ایک ادیب و شاعر کہے گا تو کچھ اس طرح کے خیالات اُس کے ذہن میں ابھریں گے کہ میں اپنی انگلیوں کو جنبش دیتا ہوں یا ایک اشارہ کرتا ہوں اور میرا آئنہ قفلِ خاموشی کو توڑ کر خوشبوئے گفتار بکھیرنے اور آنکھوں میں عکس اتارنے لگتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں مرزا غالبؔ جیسا عظیم شاعر ٹیلیوژن کی ایجاد سے تقریباً ستّر اسّی سال قبل اپنے تخیّلات و تعقّلات کا سہارا لے کر اسے کس طرح کا شعری لبادہ عطا کرتا ہے:

اس چشمِ فسوٗں گر کا اگر پائے اشارہ

طوطی کی طرح آئنہ گفتار میں آوے

یہاں فسوں گر ریموٹ کنٹرول ہے جو اپنی نادیدہ آنکھوں سے فسوٗں کارانہ اشارہ کرتا ہے اور آئینہ جو اشارہ پاتے ہی طوطی کی طرح گفتار میں آ رہا ہے ٹیلیویژن ہے۔ فسوٗں گر سے مراد الیکٹران بھی ہو سکتا ہے جو ریموٹ کنٹرول میں یہ جادو گری دکھاتا ہے۔

سائنسی موضوعات کی عکاسی کرنے والے غالب ؔکے اشعار کی جب بات آتی ہے تو لوگ نہ صرف حیران ہوتے ہیں بلکہ بعض اپنی قفل بند سوچ کے سبب تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہت سارے شارحینِ غالب ؔنے اس کا ذکر کیا ہے۔ بعض نے ایسے شعروں کو فلسفیانہ و حکیمانہ وغیرہ کہا ہے تو بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے بہت واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ غالبؔ نے اس شعر میں سائنسی اصول کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ چنانچہ شمس الرحمان فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ غالبؔ کے غیر معمولی وجدانی علم نے جہاں ان سے ”بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا” اور ”ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب” جیسے شعر کہلائے وہاں یہ شعر بھی کہلوایا جس کی بنیاد ایک سائنسی حقیقت پر ہے جس کی خبر اُس زمانے میں اہلِ مشرق کو نہ تھی‘‘۔

عبدالرحمان بجنوری نے کہا ہے کہ ’’جب میں غالبؔ کی طبیعیات البیت پر غور کرتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ یہ فلکیات کی جدید ترین تحقیقات خیال کی جاتی ہے جو مشاہدے سے زیادہ ریاضی کے تخمینوں پر مبنی ہے‘‘۔

خلیفہ عبد الحکیم نے ”لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی” والے شعر پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ ماہرِ طبیعیات اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائناتِ مادی کی اساسی حقیقت ماس اور انرجی ہے یا مادّے کی کثیف صورت اور اس کی طاقت۔ ماس کثیف ہے اور انرجی لطیف۔ مادّہ کثیف انرجی میں تبدیل ہو سکتا ہے لیکن اگر خالی انرجی ہوتی تو کائنات کا وجود نہ ہوتا۔ وجود کے لیے ضروری ہے کہ انرجی کی لطافت کی آمیزش مادّے کی کثیف صورت کے ساتھ ہو جسے ماس کہتے ہیں‘‘۔

اسلوب احمد انصاری ایک شعر پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ غالبؔ نے اس شعر میں سائنس کے ایک مسلمہ اصول سے فائدہ اٹھایا ہے‘‘۔

احمد الدین مارہری ایک شعر کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’اس میں سائنس کے اہم ترین مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے‘‘۔

ایک شعر پر حامدی کاشمیری نے فرمایا ’’مادّے کو برقی لہروں سے مرادف سمجھنے کا رجحان اس شعر میں دیکھئے‘‘۔

اس کا اعتراف دیگر ماہرین نے بھی اپنے اپنے انداز میں کیا ہے لیکن بات بہت کھل کر نہیں ہو سکی ہے یا اس پہلو پرخاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ شاید اس کا سبب اہلِ ادب اور اہلِ سائنس کے اندازِ فکر و نظریات میں فرق ہے۔ اہلِ ادب جن کی شعر و سخن پر اجارہ داری ہے عام طور سے سائنسی رموز و علائم سے نا آشنا ہوتے ہیں تو سائنس سے متعلق افراد کو شعر و ادب میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ پھر بھی اس موضوع پر اب کھل کر گفتگو ہونے لگی ہے۔ چنانچہ گزشتہ دو دہائیوں میں اس تعلق سے کچھ کتابیں بھی منظرِ عام پر آئیں ہیں جن میں بہار سے تعلق رکھنے والے محمد مستقیم کی دو کتابیں ”غالبؔ ایک سائنس دان” اور ”غالبؔ کی نئی دنیا” اور حیدر آباد دکن سے وہاب قیصر کی کتاب ”سائنس اور غالبؔ” بہت اہم ہیں اور اس بت کو توڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جو دونوں فریق کے دل و دماغ میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہاب قیصر نے اپنی کتاب میں غالبؔ کے متعدد اشعار اور اس سے متعلق سائنسی حقائق کو بیان کیا ہے آخر میں ان اشعار پر معروف شارحین کی آرا بھی شامل کی ہے۔ آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ غالبؔ کو سائنسی علوم سے کس حد تک لگاؤ تھا اور کیسے سائنسی علوم حاصل کی جس میں دہلی کالج میں سائنس کی تعلیم اور اہلِ دہلی پر اس کے اثرات کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’جب ہم غالب ؔکے کلام کو سائنسی نقطۂ نظر سے پڑھتے ہیں تو عقل حیران اور ششدر رہ جاتی ہے۔ ان کے کئی ایک اشعار میں ہمیں مختلف سائنسی اصول اور ان کے معنی خیز نتائج و حقائق کی پردہ دری نظر آتی ہے‘‘۔

محمد مستقیم نے فارسی اشعار پر بھی گفتگو فرمائی ہے ساتھ ہی سائنس دانوں کا مختصر تعارف اور ان کے کارناموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ دہلی کالج کے ایک استاد رام چندر سے غالبؔ کی دوستی جو اردو میں سائنسی مضامین پڑھاتے تھے، کے ذکر کے علاوہ ابتدائی زمانے میں غالب کے ایرانی آتش پرست استاد عبد الصمد ہرمزد کے ذریعہ قدیم نظریۂ اضافیات وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کا بھی ذکر کیا ہے جو آتش پرستوں کی میراث تھی۔ آئیے بعض اشعارِ غالبؔ میں سائنسی مضامین کے ذرّات کی تابانی پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔

ایٹم کو اردو میں ذرّہ کہتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری میں جگہ جگہ ذرّہ کا ذکر ملتا ہے۔ ایٹم بم کے وجود میں آنے کے بعد خواہ ایٹم کے مثبت استعمال سے واقفیت صفر ہی کیوں نہ ہو آج ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ ایٹم میں کیسا حشر برپا کرنے کی صلاحیت ہے۔ دیکھیے غالب کیا کہتا ہے:

اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالبؔ

دنیا کے ہر اک ذرّے میں اک حشر بپا ہے

یعنی اب غالبؔ قیامت کے شوق کا منتظر نہیں ہے کیوں کہ دنیا کے ہر ذرّہ یعنی ایٹم میں ایک حشر برپا ہے یا برپا کرنے کی طاقت موجود ہے۔ ایک شعر میں غالبؔ یوں گویا ہے:

کچھ نہ کی، اپنے جنونِ نارسا نے ورنہ یاں

ذرّہ ذرّہ رُو کشِ خورشیدِ عالم تاب تھا

یعنی اپنے بے اثر جنون نے کوئی کارنامہ نہیں کیا ورنہ یہاں ہر ایک ایٹم میں اتنی توانائی تھی کہ وہ دنیا کو جگمگانے والے سورج کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس میں اہلِ مشرق کی سائنس سے دوری کا ماتم کیا گیا ہے۔

رفتار ایک تقابلی شے ہے۔ ہمیں ایک چیز کی رفتار معلوم کرنے کے لیے دوسری چیز کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جہاز میں بیٹھے مسافر ایک دوسرے کے مقابلے میں رکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اگر وہ کھڑکی سے باہر نہ جھانکیں تو انھیں پتا بھی نہ چلے کہ جہاز محوِ سفر ہے۔ جہاز کی رفتار کا اندازہ اس کے باہر کی دنیا ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ دو گاڑیاں اگر ایک رفتار اور ایک ہی سمت میں رواں ہوں تو دونوں ایک دوسرے کے لیے رکی ہوئی معلوم ہوں گی۔ غالبؔ نے اس بات کو کس طرح بیان کیا ہے غور فرمائیے:

متقابل ہے مقابل میرا

رُک گئی دیکھ روانی میری

یعنی میرا مقابل یا حریف میرے متقابل یعنی آمنے سامنے یا برابر ہو گیا ہے لہٰذا دیکھ لو کہ میری روانی رک گئی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں رک گیا ہوں۔ ایک اور شعر میں کہتے ہیں:

ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے

میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

یعنی ہر قدم پر منزل کی دوری مجھ سے نمایاں یا واضح ہے کیوں کہ جس رفتار سے میں چل رہا ہوں اسی رفتار سے بیاباں یعنی میری منزل بھی بھاگ رہی ہے گویا دونوں ہمیشہ برابر فاصلے پر ہیں۔

آپ نے ویو اینرجی (Wave Energy) یعنی پانی کی لہروں سے پیدا ہونے والی بجلی کا نام سنا ہو گا۔ سمندر کی لہروں پر ایک آلہ نصب کر کے لہروں سے بجلی پیدا کی جاتی ہے گویا آب سے طاقتِ سیلاں سلب کی جاتی ہے۔ طاقتِ سیلاں یعنی پانی کی طاقت سے پن بجلی بھی بنائی جاتی ہے اور کوئلہ وغیرہ جلا کر آگ سے تھرمل اینرجی (Thermal Power)حاصل ہوتی ہے جسے ہم بجلی کہتے ہیں۔ غالب کے چار مصرع ملاحظہ کیجیے:

توٗ آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں

توٗ آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت

ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی

باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت

غالب کہتا ہے کہ توٗ آب سے طاقتِ سیلاں یعنی ویو اینرجی یا پن بجلی یا برقاب سلب یعنی جذب کرنے یا چھیننے لگے تو ڈھونڈے سے بھی دریا کی موجوں میں روانی نہیں ملے گی۔ اور آگ سے توٗ اگر شرارت کی تاب دور کرنے لگے تو آتشِ سوزاں یعنی جلانے والی آگ میں کوئی حرارت یعنی گرمی باقی نہ رہے۔ آگ سے شرارت کی تاب دور کرنے سے مراد تھرمل اینرجی یا بجلی پیدا کرنا ہے۔

پانی پر جمنے والی کائی بھی نباتات کی ایک قسم ہے۔ دیکھیے غالبؔ نے اپنے شعر میں کس طرح کائی کا سبزہ اگایا ہے:

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

بن گیا روئے آب پر کائی

ہم جو کچھ غذا کے طور پر کھاتے ہیں وہ دو مرحلوں کیلوس (Chyme) اور کیموس (Chyle) سے گزر کر مکمل طور پر ہضم ہو کر خون بنتا ہے۔ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو کھانا کم کر دیتا ہے ایسی صورت میں جسم کی چربی غذا کا نعم البدل ہو کر خون میں تبدیل ہوتی ہے گویا خون ہی خوراک ہو گیا ایسی صورت میں کیلوس اور کیموس کو کسی زحمت کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی۔ غالبؔ نے کہا ہے:

کیا کہوں بیماریِ غم کی فراغت کا بیان

جو کہ کھایا خونِ دل بے منتِ کیموس تھا

یعنی غم کی بیماری کی فراغت کا کیا ماجرا کہوں۔ میں نے جو کھایا وہ دل کا خون تھا جو کیموس کا احسان اٹھانے سے بے پروا تھا۔

سائنس کے مطابق یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے یعنی آرائش میں محو ہے اور نئے نئے ستارے وجود میں آ رہے ہیں۔ غالبؔ کہتا ہے:

زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

کائنات کی وسعت بیان کرتے ہوئے غالب ؔ یوں گویا ہے:

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالبؔ

جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز

یہاں مے خانۂ جنوں سے مراد کائنات ہے۔ غالبؔ نے جا بجا جنون، شوق اور عشق سے مراد سائنس اور عاشق، مجنوں وغیرہ سے مراد سائنسدان لیا ہے۔ اس شعر میں غالبؔ نے کہا ہے کہ اے غالبؔ جنون کے مے خانہ یعنی سائنس کی پیاس بجھانے کی جگہ یعنی کائنات کی وسعت کے متعلق مت پوچھ کہ کتنی زیادہ ہے۔ جہاں پر گردوں کا کاسہ یعنی آسمان کا پیالہ ایک کوڑے دان کے برابر ہے۔

غالبؔ نے وسیع و عریض کائنات میں جھانکنے کے ساتھ ساتھ کائناتِ ذرّہ یعنی ایٹم کی دینا کے اندر بھی بہت باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ غالبؔ کی پیدائش کے سات آٹھ سال بعد 1805 میں ایٹم انگلینڈ میں دریافت ہوا۔ تقریباً 1935 کے بعد سے الیکٹران کی دریافت شروع ہو گئی تھی جس میں کامیابی غالبؔ کے انتقال کے اٹھائیس سال بعد 1897 میں ہوئی۔ غالبؔ نے ایٹم کے لیے کثرت سے ذرّہ اور نیوکلئیس کے لیے دل یا خانۂ لیلیٰ کا لفظ استعمال کیا ہے جب کہ الیکٹران کے لیے مجنوں یا قیس، اور پروٹون کے لیے لیلیٰ کے استعاروں سے اشعار کو آراستہ کیا ہے۔ ایٹم کے متعلق بنیادی باتوں کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ پروٹون جو مثبت برقی چارج کا حامل ہوتا ہے نیوٹران کے ساتھ نیوکیئس یعنی دل میں مقیم ہوتا ہے۔ الیکٹران جس پر منفی برقی چارج ہوتا ہے وہ مختلف مداروں میں نیوکلیئسک اچکر لگاتا رہتا ہے۔ نیوکلیئس کے قریب ترین مدار میں اس کی رفتار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان مداروں کے علاقے کو غالب ؔنے اکثر دشت یا صحرا سے تعبیر کیا ہے۔ الیکٹران کو نیوکلیئس میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ الیکٹران جب نچلے مدار میں لڑھکتا ہے تو وہ روشنی کا ایک ذرّہ خارج کرتا ہے جسے نورہ کہا جاتا ہے۔ الیکٹران زیادہ توانائی حاصل کرنے کے بعد ایٹم کے احاطے سے کبھی کبھی نکل بھاگتا ہے اور جب سست رفتار ہوتا ہے تو کوئی نیوکلیئس اسے پکڑ کر اپنا حلقہ بگوش بنا لیتا ہے۔ اس سلسلے کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے

گردشِ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا

یعنی ہر ایک ذرّہ یا ایٹم ساغرِ مے خانۂ نیرنگ یعنی جادوئی یا طلسی مے خانے کا ساغر یا پیالہ ہے۔ یہاں مجنون الیکٹران ہے اور لیلیٰ نیوکلیئس یا نیوکلیئس میں موجود پروٹان۔ نیوکلیئس نوروں کو جذب کر کے مشتعل یا چشمک زن ہوتی ہے۔ اس کی چشمک سے الیکٹران توانائی حاصل کر کے گردش کرتا یا دور بھاگتا ہے۔

نفَسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا

گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلیٰ نہ سہی

سیہ خانۂ لیلیٰ سے مراد نیوکلیئس ہے جہاں اندھیرا ہوتا ہے۔ قیس الیکٹران ہے اور صحرا نیوکلیئس کے باہر کا علاقہ ہے جن کے مداروں میں الیکٹران چکر لگاتا اور روشنی بکھیرتا رہتا ہے۔ غالبؔ کہتا ہے کہ الیکٹران اگر لیلیٰ کے تاریک گھر یعنی نیوکلیئس کی شمع نہیں بن سکا تو کیا ہوا وہ صحرا یعنی ایٹم کے بڑے حصّے کا چشم و چراغ تو ہے۔

کس کی برقِ شوخیِ رفتار کا دلدادہ ہے

ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے

الیکٹران جب نچلے مدار میں جاتا ہے تو روشنی خارج کرتا ہے یعنی اس کی رفتار کی شوخی سے برق پیدا ہوتی ہے۔ غالبؔ کہتا ہے ہر ذرّہ کس کی رفتار کی شوخی سے پیدا ہونے والی برق کا عاشق ہے۔ اور وہ کون ہے جس کی وجہ سے اس جہان کا ذرّہ ذرّہ اضطراب آمادہ یعنی بے چین ہے۔ جس کا جواب الیکٹران ہے۔

شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں

غالبؔ کہتا ہے کہ شوق مجھے ایسے دشت میں دوڑا رہا ہے جہاں راستہ تصویر کی آنکھ کی نگہ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ تصویر کی آنکھ کی کوئی نگہ نہیں ہوتی۔ یہاں الیکٹران اپنا رونا رو رہا ہے کہ نیوکلیئس کی محبت مجھے ایسے مداروں میں دوڑا رہی ہے جہاں کوئی راستہ نہیں ہے۔

غالبؔ کے استعارات و تشبیہات اور اشاروں کنایوں کو جب ہم انیسویں صدی کے دشتِ امکاں کے علاوہ تمنا کے دوسرے قدم کی جانب جھانکتے ہیں جس کی بے شمار تمنائیں اب دشتِ امکاں کا حصّہ بن چکی ہیں تو ہمیں اشعارِ غالبؔ میں سائنس کے لاتعداد تابندہ ذرّات نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ سائنس دانوں ہی کو ایسی بصیرت و جرأت حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت وہ ہمیشہ دشتِ امکاں سے باہر جھانک کر تمنا کے دوسرے قدم کے نشانات تلاش کرتے اور دشتِ امکاں کے دائرے کو وسیع کرتے ہیں۔ جس کے لیے غالبؔ نے کہا تھا:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

اگر اہلِ ادب نے بعض بندشوں کو توڑ کر وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے غالبؔ کے اشعار کو سائنسی نقطۂ نظر سے پرکھنے کی روش کو عام کیا تو مجھے یقین ہے کہ نہ صرف بے شمار تابندہ ذرّات ہاتھ لگیں گے بلکہ غالب ؔکے وہ اشعار جنھیں شارحین نے مہمل و مبہم یا غیر واضح یا مشکل قرار دیا ہے ان کی گتھّیاں بھی بہت آسانی سے سلجھتی ہوئی محسوس ہوں گی اور کائناتِ اشعارِ غالبؔ میں نئے نئے تابندہ ذرّات ہی نہیں بلکہ خیال و فکر کی نئی کہکشانیں اپنی تابانی بکھیرتی ہوئی نظر آئیں گی اور کلامِ غالبؔ کی شرح نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اہلِ اردو اس عظیم الشان شاعر کی بدولت اپنی زبان پر مزید فخر کرتے ہوئے نظر آئیں گے کیوں کہ دنیا میں کسی بھی زبان کا شاید ہی کوئی دوسرا شاعر نظر آئے جس کو غالبؔ سے بڑا یا اُس کا ہم سر قرار دیا جا سکے۔ اس طرح غالبؔ انیسویں اور بیسویں صدی کے بعد اکیسویں صدی پر بھی نئے آب و تاب کے ساتھ غالب نظر آئے گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے