اس کے دشمن ۔۔۔ وزیر آغا

سحر ہوئی تو کسی نے اٹھ کر

لہو میں تر ایک سرخ بوٹی

بڑی کراہت سے

آسماں کے فراخ آنگن میں پھینک دی اور

طویل متلی کی جان لیوا سی کیفیت سے نجات پائی

 

مگر فلک کے فراخ آنگن میں

بادلوں کے سفید سگ اس کے منتظر تھے

جھپٹ پڑے اس لہو میں تر دل کے لوتھڑے پر

جھپٹ پڑے ایک دوسرے پر

زمیں کے لوگوں نے دیر تک یہ لڑائی دیکھی

سفید کتوں کے سرخ جبڑے

لہو میں تر ایک لال ٹکڑا ۔۔۔۔۔ دریدہ سورج

حریص،  غراتے بادلوں کا طویل، گہرا، مہیب دکھڑا

 

مری زمیں بھی تو گوشت کا  لوتھڑا تھی جس کو

کسی نے اندھے خلا میں پھینکا

مگر نہ کوئی بھی اس پہ جھپٹا

تب اس کے اندر سے آئے باہر

اسی کے دشمن

اسی کی بو پر

ہزاروں خوں خوار، تند کتے

حریص جبڑے

اور اب دریدہ زمین ساری

ٹپکتے گرتے لہو کے قطروں میں رس رہی ہے

خود اپنے خوں خوار تند بچوں کے تیز جبڑوں میں پس رہی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے