اردوافسانے کی دیہی روایت ۔۔۔۔ انجینیر فرقان سنبھلی

اردوافسانے کی دیہی روایت

 

                   انجینیر فرقان سنبھلی

 

ہندوستان کی ۸۰فیصدی آبادی گاؤں میں رہتی ہے شایداسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا دل گاؤں میں بستا ہے۔ گاؤں کے ماحول اور معاشرے کی تصویر ہی بنیادی طورپرہندوستان کی اصل تصویرتسلیم کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی دیہی زندگی، یہاں کے مسائل اور تہذیب شہرسے یکسرمختلف ہے۔ دراصل گاؤں کا تصور کھیت کھلیان کے بغیر ادھورا ہے۔ مٹی کو فصلوں کے لیے تیار کرنا، آب پاشی کے لیے بارش کا انتظار کرنا، فصلوں کے پکنے کا انتظار۔ ۔ یہ گاؤں کی زندگی کا اہم حصہ ہیں ۔ اگر وقت پر بارش ہو گئی تو فصل پکنے پر خوشیوں کے گیت سننے کو ملیں اور اگر بارش وقت پرنہ ہوئی تو بھوک اور افلاس کی آہیں گاؤں کوسوناکردیں ۔ گاؤں کے سادہ دل لوگوں کی جذباتی زندگی میں خوشی بلاشبہ اہمیت رکھتی ہے اور غم کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔

قدیم گاؤں کے معاشرے میں جاگیردارانہ نظام نافذتھاجس نے گاؤں کی فضا میں ایسے کردار پیدا کیے جن کی وجہ سے سماجی اورنفسیاتی مطالعے کا منفرد مواد فراہم ہوتا ہے۔ ادب چونکہ سماج اور ماحول کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لیے ہر دور میں ادب اپنے ماحول اور معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ تمام شعری اور نثری ادب میں شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں کی زندگی، یہاں کی فضا اور ماحول کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اردوافسانہ اپنے آغازسے اب تک ہندوستان کے ماحول اور معاشرے کابڑاسچاعکاس رہا ہے اردوافسانے میں گاؤں کی فضا، عوامی جذبات ومسائل کے انتہائی واضح اور روشن نقوش بہت ہی نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔

اردوافسانے کاآغازبیسویں صدی کی ابتدا میں ہوا۔ اس وقت سجادحیدریلدرم رومانی رجحان کے قافلہ سالار بن کرا بھرے ان کے ساتھ ساتھ نیاز فتحپوری، سلطان حیدر جوش، مجنوں گورکھپوری وغیرہ افسانہ نگاروں نے رومان کی وادی میں سیرکی لیکن باوجوداس کے اپنے ملک کی فضاؤں اور گاؤں کی زندگی کی عکاسی ان کے یہاں بھی کسی نہ کسی طور موجود ہے۔ سلطان حیدر جوش رومانی تحریک سے وابستہ افسانہ نگار ہیں جنھوں نے بدایوں اور روہیل کھنڈ کے علاقوں خصوصاً دیہات کی پیش کش اپنے افسانوں میں عمدہ پیرائے میں کی ہے۔ ان کے دو مجموعے ’’فسانۂ جوش‘‘ اور ’’فکر جوش‘‘ کے زیادہ افسانے دیہی زندگی کے عکاس ہیں ۔ پریم چند نے دیہی تہذیب اور دیہی مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ ان کے افسانوں میں گاؤں کی زندگی اپنی تمام تر جزئیات اور اپنے سارے رنگوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ پریم چند کی روش کو اختیار کرنے والوں میں اعظم کریوی، پنڈت سدرشن اور علی عباس حسینی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔ انھوں نے بھی پریم چند کی طرح گاؤں کی زندگی اور مسائل کوسچائی اور دیانت داری کے ساتھ اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ افسانوی مجموعے ’’انگارے‘‘ کی اشاعت اور اس کی ضبطی نے اردو ادب کو ترقی پسندی کی راہ پر ڈال دیا تھا۔

پریم چند کے عہد کے بعد۱۹۶۰ء تک اردوافسانہ نگاری ترقی پسندتحریک کے زیر اثر ہی رہی۔ اردوافسانہ نگاری پراس ادبی تحریک کے زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ اردوافسانہ نگاری کا یہ زریں دورتھاجس دور میں کرشن چندر، منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، خواجہ احمدعباس، حیات اللہ انصاری وغیرہ افسانہ نگاروں نے ترقی پسندادبی تحریک کے زیر اثر اعلی ترین ادب کے نمونے پیش کیے۔ ان میں بہت سے افسانے ہندوستانی گاؤں کی زندگی اورمسائل کے عکاس ہیں ۔

۱۹۶۰ء کے بعد جدیدیت کا رجحان پیدا ہوا۔ جس کے زیراثراردوافسانے نے نئی کروٹ لی۔ صنعتی عہد میں انسانی اقدار کی شکست و ریخت اوراس سے پیدا ہونے والی فرد کی داخلی الجھنوں کو علامتی انداز میں پیش کرنا اس عہد کے افسانہ نگاروں کا خاص کارنامہ تھا۔ سریندرپرکاش، بلراج مین را، سلام بن رزاق وغیرہ اس دور کے اہم افسانہ نگار ہیں ۔ یہ افسانہ نگار بھی اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجود ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز نہیں رہ سکے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں بھی گاؤں کا ماحول در آیا ہے۔ حالانکہ گاؤں کاعکس ان کے یہاں بہت کم ہے۔

انیسویں صدی میں انگریزوں نے ملک پر اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے تھے۔ انگریزاس حقیقت سے بھی کماحقہ واقف ہو چکے تھے کہ ملک کے نظم و ضبط کواستحکام دینے کے لیے چند مخصوص شہروں کو مرکزی حیثیت دینی ہوگی۔ اس لیے کچھ شہروں کو صنعتی ترقی کے مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس طرح ۸۰فیصدی گاؤں کی آبادی والے ہندوستان کا نظم و ضبط شہرسے ہونے لگا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ملک متعدد معاشی اور ذہنی تبدیلیوں ، سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی تحریکوں سے دو چار ہوا۔ سماجی، سیاسی اور معاشی بیداری، جدید تعلیم کے عام ہونے اور جدید صنعتوں کے قیام کے باعث مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملاجس سے ان میں ملک کے علاوہ دور دراز ممالک کے مسائل اور وہاں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنے سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ اس طرح زندگی کے نئے مسائل سامنے آنے لگے۔ نئی تحریکیں وجود میں آئیں اور عوام میں بیداری پیدا ہوئی نیز ان کی قوت مشاہدہ میں بھی اضافہ ہوا۔

اردوافسانہ کے اولین دور میں گاؤں کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔ اردو کے اہم ترین افسانہ نگار پریم چند نے اپنے فن کا اولین نقش گاؤں کے افسانے کی اساس پرہی مرتب کیا۔ ایک طرح سے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اردوافسانے میں گاؤں کو پیش کرنے کی صحت مند روایت کا آغاز پریم چندسے ہی ہوا۔ پریم چند نے اردگردسے مواد حاصل کر کے  افسانے لکھے۔ انھوں نے گاؤں کی طرف نگاہ کی اور دیکھا کہ گاؤں تہذیبی ترقی سے کوسوں دور ہیں لیکن ان کا داخلی نظام بے حد مضبوط ہے۔ پریم چند نے عوام اور عوامی زندگی کے مسائل کو خواص کے مسائل پر ترجیح دی۔ محنت کش طبقہ، غریب مزدور کسان اورایسے ہی دبے کچلے کردار ان کے افسانوں میں اپنی تمام تر محرومیوں کے ساتھ موجود ہیں پریم چند نے جاگیرداروں ، صنعتی نظام کی کمزوریوں اوراستحصالی حربوں کو بے نقاب کیا۔

پریم چند نے گاؤں میں آنکھ کھولی اور ان کی تربیت بھی گاؤں کے ماحول میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کاآغازمدرس کے طور پر کیا۔ لیکن وہ جلد ہی اس سے اوب گئے۔ والد کی ملازمت، اپنی نوکری اور پچپن کی زندگی کے دوران انھیں گاؤں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پریم چند کی تخلیقی زندگی کاآغازایسے دور میں ہوا تھا جب کہ پورا بر صغیر ہنگامہ خیز، متحرک اورسیاسی بیداری کے معاملات میں الجھا ہوا تھا۔ سماج جمود توڑ کر نئی کروٹ لے رہا تھا اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ۔

پریم چند کے افسانے ’’راہِ نجات ‘‘کا بُدھو اور جھینگر بر صغیر کے گاؤں کے نمائندہ کردار ہیں ۔ بُدھو چرواہا ہے جو کہ اپنی بھیڑوں پر فخر کرتا ہے اورجھینگرکسان ہے جو کہ اپنے کھیت پر مغرور ہے۔ دونوں کے درمیان ان کے اہم ہونے کی وجہ سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔ جس میں جھینگر کا کھیت اور بُدھو کے بھیڑ دونوں برباد ہو جاتے ہیں ۔ انتقام کی آگ ان کی پرسکون زندگیوں کو انتشار اور بربادی کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ جھینگر کو بیلداری کرنی پڑتی ہے اور بدھو کو مزدوری۔ حالات ان کے درمیان کی انتقامی آگ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیتے ہیں کیونکہ اب دونوں پچھتاوے کے عمل سے گزر رہے ہیں :

’’تمہاری ایکھ میں آگ میں نے لگائی تھی‘‘

جھینگر مذاق آمیز لہجے میں کہتا ہے ’’میں جانتا ہوں ‘‘ ذرا دیر بعد جھینگر کا ضمیر بھی جاگ اٹھتا ہے وہ داخلی ملامت برداشت نہیں کر پاتا اور گو ہتیا کا الزام اپنے سرلینے کے لیے کہتا ہے۔

’’بچھیا میں نے ہی باندھی تھی اور ہری ہرنے اسے کچھ کھلا دیا تھا‘‘

بدھواسی لہجے میں کہتا ہے ’’جانتا ہوں ‘‘

(افسانوی مجموعہ فردوس خیال ص۷۲)

اور پھر دونوں سکون کی نیند سوجاتے ہیں کہ دونوں نے اپنے سرکابوجھ اتار دیا تھا۔ ان کا اعتراف گناہ انھیں ’’راہِ نجات ‘‘دلا دیتا ہے۔

پریم چند نے پہلی جنگ آزادی کے اثرات پرافسانے لکھے ان کا افسانہ ’’قربانی‘‘ میں ’’ہرکھو‘‘ کی کایا پلٹ میں جنگ اور معاشی پالیسی کے اثرات نمایاں ہیں ۔ ہرکھو اپنی زراعت اور شکر کی دیہی صنعت کی بنیاد پر اہم شخصیت تھا اس کی صنعت سے گاؤں کے کئی کسان وابستہ تھے جو کہ شکر کی صنعت کی وجہ سے ہی زندہ تھے۔ لیکن اس کی تباہی سے گاؤں کے بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں ۔ دراصل بدیسی شکر کی آمد نے ’’ہرکھو‘‘ کی صنعت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا تھا۔ کئی گھروں میں روٹی کے لالے پڑ گئے تھے خود ہرکھو کی تباہی، اس کی موت اوراس کے لڑکے گردھاری کی انتہائی مفلسی کی زندگی دیہی علاقے کے اس خاندان کا مرثیہ ہے جس پر نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں بچا ہے حالت یہ ہے کہ زمیندار بھی حالات کا فائدہ اٹھا کرہرکھو کی جائداد کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔

پریم چند کے افسانے ’’مشعلِ ہدایت‘‘، ’’بانکاز میندار‘‘، ’’پوس کی رات ‘‘، ’’بڑے گھرکی بیٹی‘‘، ’’دودھ کی قیمت‘‘، ’’کفن‘‘ اور ’’بیٹی کا دھن‘‘ گاؤں پر لکھے ان کے اہم افسانے ہیں ۔ پریم چند نے گاؤں کی عکاسی میں بڑے کارنامے انجام دیے۔ انھوں نے گاؤں کومستقل موضوع کی حیثیت دی اور گاؤں کو اخلاقی برتری کی علامت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں خیر و شر کی آمیزش بے حد نمایاں ہے۔ یہ پریم چند ہی ہیں جن کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے تمام ترمسائل اور رویّوں کے ساتھ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

علی عباس حسینی، سدرشن اور اعظم کریوی نے پریم چند کی روش اختیار کی۔ علی عباس حسینی نے شروع میں رومانیت کے اثر کو قبول کیا تھا اور ’’جذب کامل ‘‘، ’’رفیق تنہائی‘‘ میں رومانیت کا اثر غالب بھی ہے لیکن اس کے بعد انھوں نے ’’آئی سی ایس، باسی پھول‘‘ وغیرہ میں بالکل نیا  انداز اپنایا۔ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہوئے مزدوروں اورکسانوں کے بنیادی مسائل اپنے افسانوں میں پیش کرنے لگے تھے۔ کہیں کہیں اوسط طبقے کی ذہنی الجھنوں کا بیان بھی افسانوں میں دکھائی دیتا ہے۔

پنڈت سدرشن کے افسانوں میں گاؤں کی سماجی بیداری کے نقوش واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس اعظم کریوی کا گاؤں لاچاری اور مجبوری کامجسمہ نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں محبت اور ملائمیت کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں ۔ انھوں نے گاؤں کی معصومیت کو مثالی انداز عطا کیا تو غربت اور بے چارگی پربھی آنسوبہائے ہیں ۔ اعظم کے یہاں گاؤں ایک خود کفیل کائنات ہے۔ یہاں کا کردار حالات سے گھبرا کر شہر کا رخ نہیں کرتا بلکہ گاؤں میں ہی رہ کرقسمت آزمائی کرتا ہے۔ افسانہ ’’مایا‘‘ ایک ایسی بیوہ کی کہانی ہے جو کہ ۲۲سال کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہے اور اپنے داخلی احساسات کی بھٹی میں تپ کروہ اپنی بہن کے شوہر کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اعظم کریوی نے انسانی مجبوری اور بے بضاعتی کو فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

علی عباس حسینی، سدرشن اور اعظم کریوی وغیرہ کے مقابلے زیادہ طبع ذہن اور جدت پسندتھے اس لیے انھوں نے پریم چند کی راہ کو قبول تو کیا لیکن ساتھ ساتھ اپنے فن کے ذریعے نئی راہ بھی نکالی۔ پریم چند نے نچلے طبقے کو نیکی کا  مظہر جانا تھا لیکن علی عباس حسینی نے گاؤں کے اونچے طبقے کے کرداروں میں خیر کے نقوش تلاش کیے۔ پریم چند کے افسانوں میں جنسی جذبہ کے ابھار پروہ شادی کو بطور ٹول(Tool) کواستعمال کر لیتے ہیں لیکن حسینی کے یہاں جنس زندگی کی حقیقت ہے وہ جنس کی پیشکش بلا روک ٹوک کر جاتے ہیں ۔ ’’میلہ گھومنی‘‘افسانہ میں بنجارن شادی کے بعد بھی جوانی کے بند کو باندھنے میں ناکام رہتی ہے۔ میرؔ صاحب جو کہ گاؤں میں اونچی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ گاؤں کے معاشرتی اخلاق کے محافظ ہیں اور معاشرہ کی ہر کروٹ کو بھی پہچانتے ہیں لیکن وہ بنجارن کے مزاج کو نہیں بدل پاتے اور بنجارن دو خاوندوں کی موت کے بعد ایک نوجوان کے ساتھ میلہ گھومنے چلی جاتی ہے:

’’اب میرے بعد تم کو کون خوش رکھے گا‘‘۔

اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ چنّو کی فاتحہ کے تیسرے دن اس کی خوش نہ ہونے والی بیوہ گاؤں کے ایک نوجوان کے ساتھ کنبھ کا میلہ گھومنے الٰہ آباد چلی گئی ‘‘۔

(اردوکلاسک، جلد نمبر۱، ممبئی ص۳۳)

پریم چند کی طرح سدرشن قوم پرست تھے اور ان پر گاندھی جی کے اثرات صاف دکھائی دیتے تھے انھوں نے ہندوؤں کے سماجی مسائل کو زیادہ ہمدردانہ رویے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔ غربت، افلاس اور تنگ دستی ان کے گاؤں کے افسانوں کے اساسی موضوعات ہیں ۔ انھوں نے بیواؤں کی شادی، اچھوتوں سے ہمدردی، دیہات سدھار، چھوٹی عمر کی شادیوں وغیرہ موضوعات پر عمدہ افسانے لکھے ہیں ۔

ابوالفضل صدیقی نے گاؤں کے مختلف مسائل کے ساتھ دیہی زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا اور وقیع مشاہدہ کی بناپرافسانے تخلیق کیے۔ ہرچند کہ ان کے افسانے طویل ہوتے ہیں لیکن ان میں گاؤں کی فضا، منظر کشی اور ماحول کے ساتھ تہذیب بھی ابھرکرسامنے آ جاتی ہے۔ ابوالفضل صدیقی فصل کی کاشت، شکار، باغبانی سے لے کر دیہی زندگی کے اندر پنپنے والے جنسی معاملات اور گاؤں کے جاگیردارانہ نظام کے خلاف افسانے لکھتے رہے۔ ان کے یہاں پیٹ کی بھوک کے ساتھ جنسی اور مذہبی بھوک کو بھی اجاگر کیا  گیا ہے۔ باپ، جوالا مکھ، ستاروں کی چال، گلاب خاص، گر رہا ہو جائے، مامتا کا ٹکراؤ، چھلانگ وغیرہ ان کے دیہی پس منظر میں لکھے گئے اہم افسانے ہیں ۔ ابوالفضل صدیقی نے زیادہ تر روہیل کھنڈ کے گاؤں کی زندگی اور یہاں کے مسائل کو موضوع بنایا ہے لیکن ان کی فن کارانہ پیش کش کا کمال یہ ہے کہ یہ اکثرکسی مخصوص علاقہ کی جگہ ملک کے ہر گاؤں کی تصویر پیش کر دیتے ہیں ۔

ترقی پسندافسانہ نگاروں میں اختر اورینوی اچھے مشاہدہ کے ذریعے خارجی اور داخلی قسم کی مصوری کے ماہر تو تھے ہی ساتھ ہی کردارنویسی بھی ان کے فن کا خاصہ ہے۔ اختر اورینوی کے ان افسانوں کو کامیابی ملی جس میں بہار کی دیہی زندگی کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔ بہار کے سردوگرم اور طوفانی موسم، قحط، زلزلے اورسیلاب کی تباہ کاریوں سے جوجھتے۔ انسان کی قدرت کے سامنے بے دست و پا، بے بس زندگی اوراس کے جذبات واحساسات کو اختر اورینوی نے فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بہار کے کسانوں کے بنیادی مسائل کو اختر اورینوی نے بڑے ہی حقیقی روپ میں پیش کیا ہے۔

سہیل عظیم آبادی کا بھی صوبہ بہارسے تعلق ہے۔ وہ ترقی پسندتحریک سے پہلی کانفرنس کے بعدوابستہ ہوئے وہ  میں بھی بہار کی دیہی زندگی کی عکاسی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں کی مہک ان کے افسانوں میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ سہیل عظیم آبادی کا افسانہ ’’الاؤ‘‘ گاؤں کی سیاسی بیداری کے اردگرد بنا گیا ہے۔ افسانہ میں گاؤں کی استحصالی طاقتوں کے نرغے میں پھنس کر الاؤ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ اس افسانے میں پٹواری استحصال کا نمائندہ اور منفی قوت کی علامت بن جاتا ہے۔ گاؤں کے محنت کش کسانوں میں جرأت پیدا ہو رہی تھی وہ اپنی بدحالی کو خوش حالی میں تبدیل کرنے کا خوب دیکھنے لگے تھے۔ پریم چند کے دور میں کاشت کاروں میں جو اتحاد  پیدا نہیں ہوسکا تھا وہ اب سہیل عظیم آبادی کے یہاں پیدا ہو چکا تھا۔ ’’الاؤ‘‘ میں سہیل عظیم آبادی نے کسانوں کی فطری کوتاہیوں کی کھل کر نشان دہی کی ہے۔ روٹی کا ٹکڑا، سرلاکابیاہ، مصنف کی زندگی اور جہیز وغیرہ افسانوں میں بھی سہیل عظیم آبادی غریبوں کے ہمدرد اور بہی خواہ نظر آتے ہیں ۔

کرشن چندر ترقی پسندتحریک کے بڑے افسانہ نگارتسلیم کیے گئے ہیں ۔ وہ پریم چنداسکول کی حقیقت نگاری سے قدر مختلف رجحان کی طرف مائل ہوئے۔ ’’طلسم خیال‘‘سے ’’دسواں پل‘‘ تک مختلف مجموعوں میں کرشن چندر نے کشمیر کے دیہات کی زندگی، یہاں کی بھوک اور غربت کو موضوع بناکرافسانے لکھے۔ کرشن چندر نے مربوط پلاٹ کے افسانے لکھنے پر زور نہیں دیا۔ کرشن چندر نے محبت کے جنسی زاویے کو ابھارا اوراسے بالواسطہ طور پر پیٹ کی بھوک سے جوڑ دیا۔ ان کے افسانوں میں فطرت ایک زبردست اورپراسرارقوت کے روپ میں ابھرتی ہے۔ کرشن چندر نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاؤں کی بعض اقدار کے خلاف آواز بلند کی۔ کرشن چندر کے کردار عموماً سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آہنگی، زندگی کے موڑ پر، پورے چاند کی رات، گرجن کی ایک شام وغیرہ کرشن چندر کے اہم افسانے ہیں ۔

احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کے دیہات کوافسانوں کا موضوع بنایا ہے انھوں نے ان دیہی علاقوں کی زندگی، اس کے مسائل کے ساتھ تقسیم کے بعد کے مسائل اور قیام پاکستان کے بعد کے دیہات کی پیش کش سے افسانوی کینوس پر رنگ اُکیرے ہیں ۔ پنجاب کی خوبصورت سرزمین وہاں کی چھوٹی چھوٹی ندیاں اور چراگاہیں اور وہاں پیدا ہونے والے مخصوص قسم کے پیڑ پودے اور جھاڑیوں کا ذکر ان کے افسانوں میں خوب ملتا ہے۔ اس پس منظر میں پنجابی دوشیزہ کاحسن ان کے افسانوں کو دل کشی بخشتا ہے۔ ندیم نے کسانوں کی زندگی کو بھی افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’بگولے‘‘کسانوں کی دنیا کا نئی جہت سے مطالعہ کرتا ہے۔

حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں زندگی کی سفاک حقیقت کو غیر جانب داری کے ساتھ سادگی سے پیش کیا ہے۔ حیات اللہ انصاری کا شاہ کارافسانہ ’’آخری کوشش‘‘ گاؤں کے پس منظر میں پروان چڑھتا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اس افسانے میں گاؤں کاحسّی مطالعہ بڑی باریک بینی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے گھسیٹے اور فقیرے کے کرداروں کے ذریعے محروم انسانوں کی جذبات نگاری حقیقی انداز میں کی ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں سماج کے کچلے ہوئے طبقے کواس کے واجب سیاق و سباق میں حقیقی خدوخال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ پریم چند کے ’’کفن‘‘ کی طرح حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ بھی زندگی کے سفاک اور بے رحم مراحل سے گزرتا ہے۔ افسانہ میں گاؤں کی روح جس فنی چابک دستی سے پیش کی گئی ہے اس نے حیات اللہ انصاری کو گاؤں کی عکاسی میں اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا ہے۔

راجندرسنگھ بیدی کے افسانوں میں بھی گاؤں کی عکاسی فن کارانہ انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ بیدی کے فن میں ’’بھولا‘‘سے لے کر ’’ایک باپ بکاؤ ہے ‘‘تک فنی ارتقاء نظر آتا ہے انھوں نے ان افسانوں میں موضوعاتی طور پر گاؤں سے قصبے اور قصبے سے شہر کی طرف سفرکیا ہے۔ بیدی کے افسانوں میں کسانوں اور محروم انسانوں کا درد صاف طور پر نظر آتا ہے بیدی سماجی نا برابری کو پیش کرتے وقت بھی رومانی پہلو متوازن انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ بیدی  گاؤں اوراس کی معاشرت زندگی کے دو متضاد رویوں کو گرفت میں لیتے محسوس ہوتے ہیں ۔ پہلے کی مثال ’’بھولا‘‘ ہے جو کہ ایک دیہاتی بچے کی کہانی ہے۔ جو کہ دن میں کہانی سننے پر ماموں کے راستہ بھول جانے جیسے مفروضے کوسچ کر دکھاتا ہے۔ بیدی کا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ زندگی کی ظاہر حقیقتوں کے ساتھ ساتھ اس کی پرت در پرت زیریں صداقتوں کو بھی پیش کرتے ہیں ۔ بیدی بچوں کی نفسیات کے علاوہ عورت کے سماجی، جنسی اور رومانی رویوں کو بھی مہارت کے ساتھ پیش کرنے کے ہنرسے واقف ہیں ۔ بیدی کے دیہاتی افسانوں میں دیہی افراد معصومیت کے غلاف میں لپٹے ہوتے ہیں افسانہ ’’من کی من میں ‘‘دیہاتی معاشرہ کے روشن اور تاریک پہلو جڑواں نظر آتے ہیں ۔ بیدی کے دیہی افسانوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن ان کے افسانوں کی پر خلوص سادگی دیہاتی معاشرہ کی عطا کردہ معلوم ہوتی ہے۔

بلونت سنگھ نے اپنے دیہی افسانوں میں پنجاب کے دیہاتوں کے بدحال کسانوں ، جابر زمین داروں کو پیش کیا ہے۔ زراعت کے صدیوں پرانے طریقے جاگیردارانہ معیشت، جہالت، مفلسی اور ان سے پیدا ہونے والا دباؤ جو کہ انسان کو جرائم کی طرف لے جاتا ہے بلونت سنگھ کے افسانوں میں موجود ہے۔ تین چور، پکا  اور گرنتھی جیسے افسانے انہی موضوعات پر لکھے گئے ہیں ۔

بلونت سنگھ نے پنجاب کے گاؤں کواس کے اصل رنگ میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ دیہات کی عکاسی اس انداز میں کرتے ہیں :

’’دھوپ ہلکی پڑ چکی تھی لیکن گرمی اب بھی کافی تھی۔ سڑک بڑے کھیتوں سے ہو کر جاتی تھی۔ راستے میں سڑک سے ذرا پرے ہٹ کر جا بجا رہٹ چلتے دکھائی دے رہے تھے۔ کنووں کا  صاف و شفاف پانی۔ جھالوں میں گرتا ہوا کس قدر بھلا معلوم ہوتا تھا۔ ان کنوؤں کے گرد قینچی سے کترے ہوئے داڑھیوں والے کسان موٹے سوتی کپڑے کے تہہ بند باندھے بڑے سرورکے عالم میں حقے گڑگڑاتے نظر آئے۔ ‘‘

(افسانہ البیلا)

بلونت سنگھ دیہاتی زندگی کی ان حقیقتوں کے ترجمان ہی جن کی تہذیب ابھی تک پامال نہیں ہوئی۔ ان کے افسانوں کے کردار اپنی قوت بازوپربھروسہ رکھنے والے انسان ہیں ۔

۱۹۶۰ء کے بعد کی افسانہ نگاری کے دیہات کی عکاسی کرنے والوں میں ہرچرن چاولہ کا نام قابل ذکر ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں میاں والی کے وہ دیہات آباد کیے ہیں جہاں سوال کی زبان چاقو اور جواب کی زبان پستول ہے۔ اس گاؤں کے نوجوان کا میکہ گاؤں ہے لیکن سسرال جیل ہے۔ یہاں لڑکا جوان ہوتا ہے تو جب تک قتل اور اغوا کی دو چار وارداتیں نہ کر لیں گاؤں والے اس کی جوانی کوتسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہرچرن چاولہ نے شہر اور دیہات کی خارجی آمیزش کو نمایاں کرنے کے علاوہ دیہات کی داخلی کش مکش کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے اور طبقاتی تضاد کو ابھارنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ انھوں نے جنسی برتری کو دیہاتی قوت کا نمائشی پہلو قرار دیا ہے۔ ’’دوسہ اور آخری قدم سے پہلے ‘‘افسانہ اس کی عمدہ مثال ہے۔

جدیدافسانے کے دور میں بھی دیہات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ سریندرپرکاش کا افسانہ ’’بجوکا‘‘ دیہی ماحول کا بہترین عکاس ہے افسانہ میں چوکیدار کی علامت نہایت معنی خیز ہے۔ یہ کردار ایک تلخ حقیقت کو صداقت کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ یہ افسانہ علامتی انداز میں دیہاتی زندگی کے متعدد زاویے اور بے شمار معنی سمیٹے ہوئے ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردوافسانے میں گاؤں کی عکاسی میں بالخصوص علامت کا اتنا عمدہ استعمال پہلے نہیں ہوا تھا۔

جوگیندر پال کے افسانوں میں گاؤں کی عکاسی کی بہترین مثال ’’بازدید‘‘ ہے جس میں جوگیندر پال اپنی گم شدہ جنت کی بازیافت کرتے ہیں ۔ یہ گم شدہ جنت ان کا گاؤں ہے ’’بازدید‘‘ گاؤں کی عکاسی کا ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے جو کہ جدیدیت کی طرف جوگیندر پال کے قدم بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

غیاث احمد گدی کا افسانہ ’’رونے کی آواز‘‘ دیہات کی پاک مٹی کے خمیرسے اٹھا ہوا افسانہ ہے۔ انھوں نے گاؤں کی جو فضا قائم کی ہے اس میں تذبذب بھی ہے اور بے یقینی بھی۔ غیاث احمد گدی اپنے افسانے کو خوبصورتی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں اور قاری پر ایک نیا جہانِ معنی کھلتا جاتا ہے۔

رتن سنگھ کا افسانہ ’’پچھتاوا‘‘ گاؤں کی عکاسی کا بہترین نمونہ ہے رتن سنگھ چھوٹے چھوٹے جملوں ، محدودکینوس میں لا محدود باتیں کہہ دینے کے ہنرسے بخوبی واقف ہیں ۔ ان کے یہاں بڑی تخلیقی صلاحیت ہے اور وہ تجربات کا بھی پورا اعادہ کرتے ہیں ۔

انجم عثمانی نے پریم چند کی روش کو نئے لہجے کے ساتھ اختیار کیا ہے دیہاتی زندگی کی عریاں تصاویر کے منظر ان کے افسانوی مجموعہ ’’شب آشنا‘‘ میں موجود ہیں ۔ گناہ کی واپسی، آخری نوٹ، مکتی اورناسور وغیرہ اسی حقیقت پر مبنی عمدہ افسانے ہیں ۔

مشرقی یوپی کے افسانہ نگار اشتیاق سعیدنے متعددافسانے لکھے ہیں جن میں دیہی زندگی کی سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ اشتیاق سعیدکے افسانوی مجموعے ’’ہل جوتا‘‘ اور ’’حاضر غائب‘‘ شائع ہو کر بڑے مقبول ہوئے ہیں ان مجموعوں میں شامل افسانوں میں انھوں نے مشرقی یوپی کے دیہات کے مسائل کی بخوبی عکاسی کی ہے۔ بھوجپوری الفاظ ان کے افسانوں کی زبان کی خاصیت ہیں ۔ سوکھا، سیلاب، کسانوں کی مصروفیات، باہمی رشتوں میں انسیت، اخوت اور کش مکش ان کے افسانوں میں جا بجا دکھائی دیتی ہے۔

اشرف جہاں کا تذکرہ کیے بغیر یہ مضمون تشنہ رہے گا۔ اشرف جہاں نے ’’نرملا‘‘افسانے کو آج کے پس منظر میں نہایت فن کارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ ’’آج کی نرملا‘‘ حال ہی میں اردو رسالہ ’’شاعر‘‘ میں شائع ہوا ہے اور بین المتونیت کی روایت کا یہ بہترین افسانہ ہے۔ اشرف جہاں نے بھی دیہی روایت سے خود کو مضبوطی کے ساتھ منسلک رکھا ہے ان کے یہاں دیہاتی رشتوں کی تپش خاص موضوعات میں شامل ہے۔

اس سب کے باوجود  اردو کے بہت سے نامورافسانہ نگارایسے ہیں جن کے یہاں دیہات کے مسائل اور دیہی زندگی کے متعلق موضوعات پرمستقل افسانے نہیں ملتے۔ تاہم بعض نے اس کی اہمیت کو پہچانا اوراس موضوع پر کچھ افسانے تخلیق کیے۔ گربچن سنگھ کا افسانہ ’’کنیا دان‘‘، سلام بن رزاق کا افسانہ ’’کام دھنیو‘‘، عشرت ظہیر  کا ’’تیسرالمحہ‘‘وغیرہ افسانے قابل ذکر ہیں ۔ عجب اتفاق کہیے یا  اردو زبان کی کم نصیبی کہ اس کا رشتہ دور جدید میں گاؤں کے ساتھ بڑی حدتک استوارنہیں رہاہے اردوافسانہ ۱۹۶۰ء تک گاؤں کاجس طرح عکاس تھاویسابعدمیں نہیں رہا۔ جب کہ آج بھی ہندوستان کی زندگی گاؤں سے ہی عبارت سمجھی جاتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے